طالبِ علم نہ اس وقت علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی کسی کام میں کامیابی حاصل کرسکتا ہے جب تک اس کے دل میں اپنے استاد کی عزت و احترام نہ آجائے۔ہمارے بزرگانِ دین اور اولیائے عظام نے بہت بلند مراتب حاصل کئے اور کامیابی کی سیڑیاں پار کیں وہ صرف اس لئے کہ وہ اپنے اساتذہ کا ادب و احترام کرتے،ان کی عزت کرتے،جس کام کا انہیں ان کے استاد حکم دیتے اس کام میں ذرا سی تاخیر سے بھی بچتے اور فوراً سے وہ کام کرکے برکتیں حاصل کرنے کا کوئی موقع بھی ہاتھ سے نہ جانے دیتے۔جس سے انہوں نے ایک حرف بھی پڑھا یا ہوتا اس کی بھی اتنی ہی تعظیم کرتے تھے جتنی اس استاد کی کرتے جس نے انہیں بے شمار علم سے نوازا ہوتا جیسا کہ حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جس نے مجھے ایک حرف سکھایا میں اس کا غلام ہوں چاہے مجھے فروخت کردے،چاہے تو آزاد کردے اور چاہے تو غلام بنا کر رکھے۔ (راہِ علم، ص 28) اس فرمان سے معلوم ہوا!جیسے ہمارے بزرگ اور علمائے دین اساتذہ کا ادب و احترام کرتے تھے ویسے ہم بھی اپنے استاد کا ادب کریں،ان کی تعظیم کریں اور ان کے ہر حکم پر لبیک کہتے ہوئے برکتیں حاصل کریں اور سب سے بڑی بات یہ ہے کہ انہی کی رضا میں اللہ پاک اور رسول ﷺ اور پیر و مرشد کی رضا میں ہے بشرطیکہ وہ کوئی خلافِ شرع حکم نہ دیں اور اگر کوئی ایسا کوئی حکم دیں جو خلافِ شریعت ہو تو اس پر عمل نہیں کیا جائے گا کیونکہ اللہ پاک کی نافرمانی میں مخلوق کی فرمانبرداری جائز نہیں۔اس کے علاوہ ہر وہ حکم جس میں خدا و رسول ﷺ کی نافرمانی ہو اس کو ماننا لازم ہے اور نہ ماننے کی صورت میں دنیا و آخرت برباد ہونے کا خطرہ ہے۔ہمیں اپنے اساتذہ کے تمام حقوق پورے کرنے کی کوشش کرنی چاہئے۔ان تمام حقوق میں سے پانچ حقوق درج ذیل ہیں:

1)اگرچہ کسی استاد سے ایک ہی حرف پڑھا ہو اس کی بھی تعظیم بجالائیے کہ حدیثِ پاک میں ہے:سیدِ عالم ﷺ نے ارشاد فرمایا:جس نے کسی کو قرآنِ کریم کی ایک آیت پڑھائی وہ اس کا آقا ہے۔ (معجم کبیر،8/112،حدیث:7828)

2) استاد کی ناشکری سے بچتے رہئے کیونکہ یہ ایک کوفناک بلااور تباہ کن مرض ہے اور علم کی برکتوں کو ختم کر دیتی ہے،چنانچہ حضور پاک ﷺ کا فرمانِ عالیشان ہے:جس نے لوگوں کو شکریہ ادا نہیں کیا اس نے اللہ پاک کا شکر ادا نہیں کیا۔(ترمذی،3/384،حدیث:1962)

3)استاد کی سختی کو اپنے لئے باعثِ رحمت اور کامیابی کی علامت جانتے ہوئے صبر سے کام لے۔کبھی بھی استاد کی کسی بھی بات کا غصہ نہ کرے۔کیونکہ قول مشہور ہے:جو استاد کی سختیاں نہیں جھیل سکتا اسے زمانے کی سختیاں جھیلنے پڑتی ہیں۔

4)جب بھی استاد کلام کر رہے ہوں درمیان میں اپنی بات شروع نہ کرے بلکہ ان کی بات دھیان سے سنے اور نہ ہی ان کے کلام سے پہلے بلا ضرورت خود کلام شروع کرے۔استاد کے سامنے زیادہ بولنے سے گریز کرے۔ایک قول ہے:مرشد کے سامنے اور استاد کے سامنے زبان قابو میں رکھو۔

5)استاد کے سامنے جھوٹ بولنے سے علم کی برکتیں ختم ہونے کا اندیشہ ہوتا ہے۔لہٰذا جب بھی استاد کوئی بات پوچھے تو فوراً سچ بات بتادیجئے،ہمیشہ ان سے سچ بولئے۔اللہ پاک ہمیں ہمیشہ اپنے استاد کی تعظیم کرنے،ان کی ناشکری سے بچنے،ان کی سختیوں کو اپنی کامیابیوں کا ذریعہ جاننے اور ہمیشہ ان سے سچ بولنے کی توفیق عطا فرمائے۔

استاد کی کرتی رہوں ہر دم میں اطاعت ماں باپ کی عزت کی بھی توفیق خدا دے

میں جھوٹ نہ بولوں کبھی گالی نہ نکالوں اللہ مرض سے تو گناہوں سے شفا دے

اٰمین بجاہ النبی الامین ﷺ