صلح کروانا ہمارے پیارے آقا، مکی مدنی  مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت مبارکہ ہے، نیکیاں حاصل کرنے کا ایک ذریعہ صلح کروانا بھی ہے، صلح کروانا ایک اعلی درجے کی عبادت بھی ہے، صلح کے لغوی معنی سلامتی، درستگی کے ہیں۔"(منجد(اردو) صفحہ:478)

قرآن کریم میں بکثرت مقامات پر مسلمانوں کو آپس میں صلح صفائی رکھنے اور ان کے درمیان صلح کروانے کا حکم دیا گیا ہے کہ قرآن کریم میں اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:"اور اگر مسلمانوں کے دو گروہ آپس میں لڑ پڑیں تو ان میں صلح کراؤ۔"(پارہ 26، سورہ حجرات، آیت نمبر 9)

ایک اور مقام پرصلح کی ترغیب دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:

ترجمہ کنزالایمان:"اور صلح خوب ہے۔"(پارہ 5، سورہ نساء، آیت نمبر 128)

حدیث مبارکہ میں بھی ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے صلح کروانے کا درس ارشاد فرمایا اور بکثرت فضائل بیان فرمائے ہیں، چنانچہ فرامینِ مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم:

1۔حضرت ابو درداء رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:"کیا میں تمہیں ایسا کام نہ بتاؤں، جو درجے میں روزے، نماز اور زکوة سے بھی افضل ہے؟ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کیوں نہیں، فرمایا:آپس میں صلح کروا دینا۔"(ابو داؤد، کتاب الادب، باب فی اصلاح ذات البین ،ح 4919)

2۔حضرت ام کلثوم، بنتِ عقبہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے، سید المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"وہ شخص جھوٹا نہیں، جو لوگوں کے درمیان صلح کروائے کہ اچھی بات پہنچاتا یا اچھی بات کہتا ہے۔"(بخاری، کتاب الصلح، باب لیس الکاذب الذی یصلح بین الناس، حدیث نمبر 2692)

3۔حضرت انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے روایت ھے کہ حضور اقدس صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جو تم سے قطع تعلق کرے، تم اس سے رشتہ جوڑو اور جو تم پر ظلم کرے، تم اس سے درگزر کرو۔"(شعب الایمان، السادس والخمسون من شعب الایمان، ح 7957)

4۔حضرت نعمان بن بشیر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"سارے مسلمان ایک شخص کی طرح ہے، جب اس کی آنکھ میں تکلیف ہوگی اور اگر اس کے سر میں درد ہو تو سارے جسم میں درد ہوگا۔"(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث نمبر67(2586)

5۔حضرت موسی اشعری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، سیّد المرسلین صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"ایک مسلمان دوسرے مسلمان کے لئے عمارت کی طرح ہے، جس کی اینٹ دوسری اینٹ کو مضبوط کرتی ہے۔"(صحیح مسلم، کتاب البر والصلۃ والآداب، حدیث نمبر 65(2585)

ان آیات و احادیث مبارکہ سے صلح کروانے کی اہمیت اور اس کے فضائل اور برکات معلوم ہوئے، لہذا جب کبھی مسلمانوں میں ناراضگی ہو جائے تو ان کے درمیان صلح کروا کر یہ فضائل و برکات حاصل کرنے چاہئیں۔

بعض اوقات شیطان یہ وسوسہ ڈالتا ہے کہ انہوں نے صلح پر آمادہ ہونا ہی نہیں ہے، لہذا انہیں سمجھانا بے کار ہے، یاد رکھئے! کہ مسلمانوں کو سمجھانا بیکار نہیں، بلکہ مفید ہے، جیسا کہ خدائے رحمن عزوجل کا فرمانِ عالیشان ہے:

ترجمہ کنزالایمان:"اور سمجھاؤ کہ سمجھانا مسلمانوں کو فائدہ دیتا ہے۔"(پارہ27، سورۃ الذاریات، آیت نمبر 55)

اللہ عزوجل سے دعا ہے کہ ہم مسلمانوں کو باہمی تعلقات سمجھنے اور اس کے تقاضوں کے مطابق عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین