اللہ عزوجل کی راہ میں شہید ہونا جنت میں لے جانے والے اعمال میں سے ایک بہت اعلیٰ اور اطمینان بخش عمل صالح ہے۔ قرآن مجید میں اللہ تعالیٰ نے شہیدوں کے لیے حیات جاودانی کی بشارت اور جنۃ الفردوس کی خوشخبری دی ہے۔ چنانچہ ارشاد ہوتا ہے :اور جوخدا کی راہ میں مارے جائیں انہیں مردہ نہ کہو بلکہ وہ زندہ ہیں ہاں تمہیں خبر نہیں ۔ (پ2، البقرۃ: 154)

شہید وہ مسلمان ،مُکَلَّف ،طاہر ہے جو تیز ہتھیار سے ظلماً مارا گیا ہو اور اس کے قتل سے مال بھی واجب نہ ہوا ہو یا معرکہ جنگ میں مردہ یا زخمی پایا گیا اور اس نے کچھ آسائش نہ پائی۔ اس پر دنیا میں یہ احکام ہیں کہ نہ اس کو غسل دیا جائے نہ کفن، اسے اس کے کپڑوں میں ہی رکھا جائے، اسی طرح اس پر نماز پڑھی جائے اور اسی حالت میں دفن کیا جائے۔(بہار شریعت، شہید کا بیان،۱/۸۶۰)

شہادت صرف اسی کا نام نہیں کہ جہاد میں قتل کیا جائے بلکہ بعض شہداء وہ ہیں کہ ان پر دنیا کے یہ احکام تو جاری نہیں ہوتے لیکن آخرت میں ان کے لیے شہادت کا درجہ ہے جیسے ڈوب کر یا جل کر یا دیوار کے نیچے دب کر مرنے والا،طلب ِعلم اورسفرِحج غرض راہ خدا میں مرنے والا یہ سب شہید ہیں۔ حدیثوں میں ایسے شہداء کی تعداد چالیس سے زائد ہے۔

شہید کی فضیلت میں سے یہ بھی ہے کہ :

۱راہِ خدا میں شہید ہونے والاقیامت کے دن اس طرح آئے گا کہ ا س کے خون سے مشک کی خوشبو آ رہی ہو گی۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب من یجرح فی سبیل اللہ عزّ وجلّ، ۲/۲۵۴، الحدیث: ۲۸۰۳۔)

۲شہید ہونے والا شہادت کی فضیلت دیکھ لینے کی وجہ سے یہ تمنا کرے گا کہ اسے دنیا میں لوٹادیا جائے تاکہ اسے دوبارہ اللہ تعالیٰ کی راہ میں شہید کیا جائے۔(بخاری، کتاب الجہاد والسیر، باب الحور العین وصفتہنّ۔۔۔ الخ، ۲/۲۵۲، الحدیث: ۲۷۹۵۔)

۳راہِ خدا میں شہید ہونے سے (مخصوص گناہوں کے علاوہ) تمام گناہ بخش دئیے جاتے ہیں۔

(ترمذی، کتاب فضائل الجہاد، باب ما جاء فی ثواب الشہید، ۳/۲۴۰، الحدیث: ۱۶۴۸۔)

۴راہِ خدا میں شہید ہونے والے کو غسل نہیں دیا جاتا جبکہ راہِ خدا میں طبعی موت مرنے والے کو غسل دیا جاتا ہے۔(روح البیان، الحج، تحت الآیۃ: ۵۹، ۶/۵۲-۵۳، ملخصاً۔)

رسول اللہ عزوجل وﷺ نے فرمایا ہے کہ شہید کے لیے چھ فضیلتیں حاصل ہیں۔(۱) خون کا پہلا قطرہ گرتے ہی اس کی مغفرت ہوجاتی ہے۔(۲)بوقتِ شہادت وہ جنت میں اپنی جگہ دیکھ لیتاہے۔ (۳)عذابِ قبرسے محفوظ رہتاہے۔(۴)قیامت کے دن کی پریشانیوں اور گھبراہٹوں سے بے خوف ہوجاتاہے۔(۵)اس کے سرپرعزت کاتاج رکھاجاتاہے۔جس کا ایک یا قوت دنیا اور اس کی تمام کائنات سے زیادہ بہتر اور قیمتی ہوگا اور بہتّربیبیاں اُس کو حوروں میں سے ملیں گی۔(۶) سترّرشتہ داروں کے حق میں اس کی شفاعت قبول کی جائے گی۔(مشکاۃ المصابیح،کتاب الجھاد،الفصل الثانی، الحدیث:۳۸۳۶،ج۲،ص۳۱)

ہم اللہ کریم سےسوال کرتی ہیں کہ ہمیں مدینے میں شہادت کی موت عطا فرمائے۔