کسی کی اطاعت و فرمانبرداری پر ابھارنے والی چیز اس شخصیت سے الفت و محبت ہوتی ہے، اور یہی چیز (الفت و محبت) صحابہ کرام میں کامل طور پر پائی جاتی تھی جس کی وجہ سے وہ اللّٰہ کے آخری نبی (صلی اللّٰہ علیہ وسلم) کی ہر ہر سنت پر دیوانہ وار عمل کرتے، اور اتباع سنت کے جذبے سے اس قدر سرشار رہتے تھے کہ جس کی کوئی مثال نہیں ملتی۔

آئیں! درج ذیل روایات و واقعات میں صحابہ کرام کے اسی سنت پر عمل کے جذبے کو ملاحظہ کرتے ہیں۔

حضرتِ عمر کا اتباع ِسنت کا جذبہ: مروی ہے حضرتِ عمر نے ذو الحلیفہ (مقام) میں دو رکعتیں پڑھیں تب فرمایا کہ میں نے ویسا ہی کیا کہ جیسا میں نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمکو کرتے دیکھا۔ (صحیح مسلم، 2 /981)۔

حضرت عثمان کا اتباع سنت کا جذبہ:

حضرت عثمان نے ایک مقام پر پہنچ کر پانی منگوایا اور وضو فرمایاپھر یکا یک مسکرانے اور رُفقاء سے فرمانے لگے، جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ پھر اس سوال کا خود ہی جواب دیتے ہوئے فرمایا: ایک بار حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّمنے اسی جگہ پر وضو فرمایا تھا اور مسکرائے تھے اور صحابہ سے فرمایا تھا، جانتے ہو میں کیوں مسکرایا؟ (لہذا میں نے بھی حضور کی ادا کو ادا کیا)۔

(ملخّصاً مسند امام احمد، ج1، ص130)

وضو کر کے خنداں ہوئے شاہِ عثماں

کہاکیوں تبسُّم بھلا کر رہا ہوں

جوابِ سوالِ مخالف دیا پھر

کسی کی ادا کو ادا کر رہا ہوں

حضرتِ علی کا اتباع سنت کا جذبہ:

مروی ہے کہ جب حضرتِ علی نے (حج کے موقع پر) قِران کیا تو آپ سے حضرتِ عثمان نے فرمایا: آپ جانتے ہیں کہ میں لوگوں کو اس سے منع کرتا ہوں اور آپ اس کو کر رہے ہیں، تو حضرتِ علی نے جواب میں فرمایا کہ میں یہ کس طرح کر سکتا ہوں کہ کسی کے کہنے سے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت چھوڑ دوں۔ (صحیح بخاری، 3 /920)۔

حضرتِ عبداللہ بن عمر کا اتباع سنت کا جذبہ:

ایک شخص نے حضرتِ عبداللہ بن عمر سے دریافت کیا کہ ہم قرآن میں صلوٰۃِ خوف و حضر تو پاتے ہیں مگر صلوٰۃِ سفر نہیں پاتے، تو حضرتِ عبداللہ بن عمر نے فرمایا: (اس سے زیادہ) ہم کچھ نہیں جانتے کہ ہم وہی کرتے ہیں جیسا ہم نے حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو کرتے دیکھا۔

(سنن ابن ماجہ 1/ 339)

اللّٰہ پاک ان مقدس ہستیوں (جن کو اللّٰہ نے اپنے محبوب کی صحبت کیلئے منتخب فرمایا) کے صدقے ہمیں بھی اتباع سنت کا جذبہ عطا فرمائے۔