ہمارا ایمان اور قرآن کا فرمان ہے کہ ا للہ پاک نے ہمیں سب سے عظیم رسول عطا فرما کر ہم پر بڑا احسان فرمایا ہے۔ ارشاد باری ہے: لَقَدْ مَنَّ اللّٰهُ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ اِذْ بَعَثَ فِیْهِمْ رَسُوْلًا مِّنْ اَنْفُسِهِمْ (پ 4، اٰل عمران: 164) ترجمہ کنز الایمان: بے شک اللہ کا بڑا احسان ہوا مسلمانوں پر کہ ان میں انہیں میں سے ایک رسول بھیجا۔

ہمارا تو وجود بھی سیددو عالمﷺ کے صدقے سے ہے۔ اگر آپ ﷺ نہ ہوتے تو کائنات ہی نہ ہوتی۔آپ اپنی امت پر مسلسل رحمت و شفقت کے دریا بہاتے رہے اور بہار ہے ہیں۔ پیدائش کے وقت، معراج کی رات اور وصال شریف کے بعد قبر انور میں اتارتے ہوئے بھی حضور پرنور ﷺکے لبہائے مبارکہ پر امت کی یاد تھی۔ آپ میدانِ محشر میں کہیں نیکیوں کے پلڑے بھاری کروائیں گے،کہیں پل صراط سے آسانی سے گزاریں گے، کہیں حوض ِکوثر سے سیراب کریں گے اور کسی کے درجات بلند کروائیں گے۔

قرآن، ایمان،خدا کا عرفان اور بے شمار نعمتیں ہمیں آپ ﷺکے صدقے ہی نصیب ہوئیں۔ یقیناً آپﷺ کے احسانات اس قدر کثیر ہیں کہ انہیں شمار کرنا ممکن ہی نہیں۔ انہی بیش بہا احسانات کے کچھ تقاضے ہیں جنہیں امت پر حقوقِ مصطفٰےکے نام سے ذکر کیا جاتا ہے جن کی ادائیگی تقاضائے ایمان اور مطالبہ احسان ہے۔چند حقوق ملاحظہ ہوں:

1۔ رسول اللہ پر ایمان:پہلاحق یہ ہے کہ آپ ﷺ کی نبوت ورسالت پر ایمان رکھا جائے اور جو کچھ آپ الله کی طرف سے لائے ہیں اسے صدقِ دل سے تسلیم کیا جائے۔ یہ حق صرف مسلمانوں پر نہیں بلکہ تمام انسانوں پر لازم ہے کیونکہ آپ کی رحمت تمام جہانوں کے لیے ہے۔ آپ ﷺ پر ایمان لانا فرض ہے۔ جو ایمان نہ رکھے وہ مسلمان نہیں۔ارشاد باری ہے: وَ مَنْ لَّمْ یُؤْمِنْۢ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ فَاِنَّاۤ اَعْتَدْنَا لِلْكٰفِرِیْنَ سَعِیْرًا(۱۳) (پ 26، الفتح: 13) ترجمہ کنز الایمان: اور جو ایمان نہ لائے اللہ اور اس کے رسول پر تو بےشک ہم نے کافروں کے لیے بھڑکتی آ گ تیار کر رکھی ہے۔

2۔ رسول الله کی پیروی: نبی کر یم ﷺکی سیرت مبارکہ اور سنتوں کی پیروی کرنا ہر مسلمان کے دین و ایمان کا تقاضہ ہے۔حضور پر نور ﷺ نے ارشاد فرمایا: تم میں سے کوئی اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ اس کی خواہش میرے لائے ہوئے دین کے تابع نہ ہو جائے۔

3۔ رسول اللہ کی اطاعت: رسول الله کا یہ حق ہے کہ آپ کا ہر حکم مان کر اس کے مطابق عمل کیا جائے۔جس بات کا حکم ہوا سے بجالائیں اور جس چیز سے روکیں اس سے رکا جائے۔ارشاد باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ (پ 5، النساء: 59) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا۔

4۔ رسول اللہ کی محبت: امتی پر حق ہے کہ وہ دنیا کی ہر چیز سے بڑھ کر اپنے آقا ومولا ﷺ سے سچی محبت کرے کہ آپ ﷺکی محبت روح ایمان، جان ایمان اور اصل ایمان ہے۔ نبی کر یم ﷺنے ارشاد فرمایا: تم میں سے کسی کا ایمان اس وقت تک مکمل نہیں ہو سکتا جب تک میں اُسے اُس کے باپ، اُس کی اولاد اور عام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں۔

5۔ رسول اللہ کی تعظیم: ایک انتہائی اہم حق یہ بھی ہے کہ دل و جان، روح و بدن اور ظاہر و باطن ہر اعتبار سے نبی مکرم ﷺ کی تعظیم و توقیر کی جائے بلکہ آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کا ادب و احترام کیا جائے۔ ارشاد باری ہے: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- (پ 26، الفتح: 9) ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

اگر کسی کو بارگاہِ نبوی میں ادنی سی گستاخی کا مرتکب دیکھے تو اگرچہ وہ باپ یایا استاد یا پیر یا عالم ہو یا دنیاوی وجاہت والا کوئی شخص، اُسے اپنے دل و دماغ سے ایسے نکال باہر پھینکے جیسے مکھن سے بال اور دودھ سے مکھی کو باہر پھینکا جاتا ہے۔

رسول اللہ کاذکرِ مبارک اور نعت:ہم پر حق ہے کہ فخر موجودات، باعثِ تخلیقِ کائنات ﷺ کی مدح و ثنا، تعریف و توصیف، نعت و منقبت، نیز فضائل و کمالات،ذکرِ سیرت و سنن و شمائلِ مصطفٰے اور بیانِ حسن و جمال کو دل و جان سے پسند کریں اور ان اذکار مبار کہ سے اپنی مجلسوں کو آراستہ کرتے ہوئے اپنی زندگی کا معمول بھی بنالیں۔ اعلیٰ حضرت کیا خوب فرماتے ہیں:

تیرے تو وصف عیبِ تناہی سے ہیں بری حیراں ہوں میرے شاہ میں کیا کیا کہوں تجھے

رسول اللہ پر درود ِپاک پڑھنا:حضور پر نورﷺ پر درود پاک پڑھنابھی مقتضائے ایمان ہے۔ اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اور اس کے فرشتے درود بھیجتے ہیں اس غیب بتانے والے (نبی) پر اے ایمان والو ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

رسول اللہ کی قبر ِانور کی زیارت کرنا: حضور اقدس ﷺ کی قبر ِانور کی زیارت کرنا امتی کی محبت کی دلیل ہے اور خصوصاً حج پر جانے والے کے لیے بارگاہِ مصطفٰےکی حاضری ایک اہم حق ہے۔ یہ حاضری سنتِ مؤکَّدہ اور قریب بواجب ہے اور اس کا ترک شقاو جفا ہے۔ اللہ کریم ہمیں پیارے آقاﷺکے حقوق ادا کرتے رہنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ ( عشقِ رسول مع امتی پر حقوق ِمصطفٰے)