قرآنِ کریم میں جہاں الله پاک کے آخری نبی ﷺ کی سیرت طیبہ کا بیان ہے وہیں آپ ﷺکی اطاعت واتباع کا حکم بھی ہے۔ اسی طرح سرکار دو عالمﷺ کے سامنے ادب واحترام کے تقاضے بجالانے کی تعلیم بھی ملتی ہے۔ آیات مبارکہ اس پر شاہد ہیں کہ اہل ایمان پر نبی آخر الزمان ﷺ کا ادب کرنا اور آپ ﷺ کی تعظیم کو ہر حال میں ملحوظ خاطر رکھنا ضروری ہے۔

حضور اکرم ﷺ کی بارگاہ میں بلند آواز کرنے کو حرام قرار دیا گیا۔ قرآنِ پاک میں ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہوجیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بر باد نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔(پ 26، الحجرات: 2)اس آیت مبارکہ کے نزول کے بعد حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ بارگاہ رسالت میں عرض گزار ہوئے: اللہ کی قسم! آئندہ میں آپ ﷺ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا!

کسی عمل میں پیش قدمی نہ کریں:ا للہ پاک نے قرآنِ پاک میں ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) ترجمہ: اے ایمان والو! الله اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بے شک الله سنتا اور جانتا ہے۔( الحجرات)

شان نزول: ابن المنذر نے حسن کا بیان نقل کیا ہے کہ قربانی کے دن کچھ لوگوں نے حضور اکرم ﷺ سے پہلے قربانی کر دی تو آپ ﷺنے دوبارہ ان کو قربانی کرنے کا حکم ارشاد فرمایا اس پر یہ آیت نازل ہوئی۔

راعنا کہنے کی ممانعت: حضور اکرم ﷺ کی تعظیم و توقیر کرنا اور آپ کی بارگاہ میں کلمات ادب عرض کرنا فرض ہے۔ ایسے الفاظ جن سے ترک ادب کا شائبہ بھی ہو وہ الفاظ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ قرآنِ پاک میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ: 104)ترجمہ: اے ایمان والو! راعنا نہ کہواور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

آپﷺکے بلانے پر حاضری کا حکم: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- (پ 9، الانفال: 24 )ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کے بلانےپر حاضر ہو۔ جب رسول تمہیں اس چیز کے لیے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی۔اس آیت کریمہ سے ثابت ہوا کہ رسول اللہ ﷺکا بلانا الله پاک کا بلانا ہی ہے۔

تعظیمِ مصطفٰے ایمان کا لازمی جز ہے:پاره26 سورہ فتح کی آیت نمبر 8 اور 9 میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ- ترجمہ کنز الایمان: بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اوراس کے رسول کی تعظیم و توقیر کرو۔ان دونوں آیات میں اللہ پاک نے رسول اکرم ﷺ کی رسالت ان کے حاضر و ناظر ہونے اور ان پر ایمان لانےکے بیان کے ساتھ ساتھ اپنے پیارے حبیب، احمد مجتبیٰ ﷺ کی تعظیم و تکریم کا حکم دیا ہے جس سے صاف ظاہر ہے کہ ایمان کے ساتھ الله پاک کے آخری نبی، مکی مدنیﷺکی تعظیم فرض ہے۔