حضرت محمد ﷺ کی ذات انتہائی احترام کی متقاضی ہے۔ آپ الله پاک کے بندے اور رسول ہیں۔تاہم اس کا مطلب ہر گز یہ نہیں کہ جس طرح مسلمان ایک دوسرے کے ساتھ پیش آتے ہیں۔حضور اکرم ﷺ کے ساتھ بھی وہی انداز اختیار کریں۔

ارشاد ہوا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) ( الحجرات: 42 ) ترجمہ: اے لوگو! جو ایمان لائے ہو، الله اور اس کے رسول کے آگے پیش قدمی نہ کرو اور الله سے ڈرو، اللہ سب کچھ سننے اور جاننے والا ہے۔

نبی محترم ﷺ کے سامنے آواز بلند کرنے کی ممانعت کا مطلب یہ ہے کہ حضور اکرم ﷺ کا احترام ملحوظ رہے کیوں کہ رُوگردانی کی صورت میں زندگی بھر کی کمائی ضائع ہونے کا اندیشہ ہے اور یہ بھی ہو سکتا ہے کہ جو حضور کا احترام نہیں کرتا وہ اللہ پاک کا احترام نہیں کرتا۔سورۃ الحجرات کی ابتدائی آیات میں نبیﷺ سے آگے بڑھنے، بلند آواز سے گفتگو کرنے اور آرام میں مخل ہونے کو زندگی بھر کے اعمال ضائع ہونے سے تعبیر کیا گیا ہے۔ بلا شبہ حضور کا احترام اور مقام،مال و دولت،والدین، اولاد گویا ہر شے سے بڑھ کر ہے۔ ادب و آداب کے اہتمام کے حوالے سے ارشاد ربانی ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ2،البقرۃ:104) ترجمہ: اے لوگو!جو ایمان لائے ہوئے ہوراعنا نہ کہا کرو بلکہ انظرنا کہو اور توجہ سے بات سنو، یہ کافر تو عذاب الیم کے مستحق ہیں۔

حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جب یہ آیت یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ نازل ہوئی تو میں نے عرض کی: یارسول اللہﷺ! اللہ پاک کی قسم! آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا۔ (کنز العمال،1/214)

حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: یہ آیت نازل ہونے کے بعد حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ کا حال یہ تھا کہ آپ رسول کریم ﷺکی بارگاہ میں بہت آہستہ آواز سے بات کرتے حتی کہ بعض اوقات خود حضور اکرم ﷺکوسمجھنے کے لئے دوبارہ پوچھنا پڑتا کہ کیا کہتے ہو؟ (ترمذی، 5/177)

ان آداب کو بجالانے کا درس:توحید کا نور صرف انہی دلوں میں اتارا جاتا ہے جن میں ادب مصطفٰےﷺ ہوتا ہے یعنی ادبِ مصطفٰے کا صلہ نور توحیدسے ملتا ہے۔ بے ادبی کفر ہے اور ادب مصطفٰے عین توحیدہے۔ گویا یہ بات واقع ہوگئی کہ جس نے اللہ کی توحیدکو سمجھنا ہو وہ حضور ﷺکے آداب کو اپنا لے۔جو دل اللہ کی توحید کے لیے منتخب کر لیے جاتے ہیں وہی انوارالٰہی کی منزل ہوتے ہیں۔لہٰذا کوئی توحید کے بارے میں پوچھے تو جواب ہے ” ادب مصطفی “اور سب سے بڑا کفر بے ادبی مصطفٰے ہے۔یہ درس وہ ہے جو ادب والے عمر بھر دیتے رہے۔ اسی درس کو اپنائیے، اس سے سارے اعمال صالحہ مقبول اور نور بن جائیں گے۔ اللہ پاک ہمیں ایمان کے اس اصلی جوہر کو پانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین بجاہ سید المرسلین ﷺ

آدابِ نیوی کے حوالے سے واقعہ: صحابہ کرام کے ہاں آقا ﷺ کی عظمت کا عقیدہ یہ تھا کہ اُس میں کوئی حد ان کے ساتھ نہیں رہتی تھی۔ حضرت اُم المومنین عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہاکامعمول یہ تھا کہ جب حضور کاوصال ہو گیا تو مسجد نبوی میں اگر کوئی تعمیر کے دوران کبھی کوئی کیل لگانا پڑ جاتی تھی توکیل لگانے کی تھوڑی سے آواز سے بھی آپ منع فرماتیں کہ خبردار! اس آواز سے آقا کو تکلیف ہو رہی ہےیعنی مسجد کے اندر صحابہ کرام کو کیل تک لگانے کی اجازت نہیں تھی کہ اُس کی آواز سے آپ کے آرام میں خلل آ رہا ہے۔آقا سے محبت،آپ کا ادب، تعظیم وتکریم اس درجے کی ہو تو ایمان، عقیدہ اور اسلام قائم و دائم اور محفوظ رہتا ہے۔ ہمیں دل سے پیارے آقا کی تعظیم کرنی چاہیے۔ اللہ پاک غلطی اور بے ادبی سے بچائے۔ آمین