ادب و تعظیم کو عبادت کے لائق نہ سمجھیں تومحض تعظیم ہے جیسے نماز میں ہاتھ باندھ کر کھڑا ہونا عبادت ہے اور نماز کے علاوہ ہاتھ باندھ کر کھڑے ہونا تعظیم ہے۔(صراط الجنان)

بارگاہ الٰہی کے آداب والی آیات ترجمہ و تفسیر کی روشنی میں:

اِیَّاكَ نَعْبُدُ وَ اِیَّاكَ نَسْتَعِیْنُ0ہم تجھی کو پوجیں اور تجھی سے مدد چاہیں۔( البقرۃ:4)اس آیت میں بیان ہوا کہ ہر طرح کی حمد و ثنا کا حقیقی مستحق اللہ پاک ہے،بندوں کو سکھایا جا رہا ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اپنی بندگی کا اظہار یوں کرو کہ اے اللہ پاک ہم صرف تیری ہی عبادت کرتے ہیں کیونکہ عبادت کا مستحق صرف تو ہی ہے اور کوئی عبادت کے لائق نہیں اور حق کی مدد کرنے والا بھی تو ہی ہے اور تیری اجازت و مرضی کے بغیر کوئی کسی کی ظاہری باطنی، جسمانی،روحانی،چھوٹی،بڑی مدد نہیں کر سکتا۔ معلوم ہوا کہ اللہ تعالی کی بارگاہ میں اپنی حاجت عرض کرنے سے پہلے اپنی بندگی کا اظہار کرنا چاہیے۔

قُلْ اِنْ كُنْتُمْ تُحِبُّوْنَ اللّٰهَ فَاتَّبِعُوْنِیْ یُحْبِبْكُمُ اللّٰهُ وَ یَغْفِرْ لَكُمْ ذُنُوْبَكُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ0 اے محبوب تم فرمادو کہ لوگو اگر تم اللہ کو دوست رکھتے ہو تو میرے فرمان بردار ہوجاؤ اللہ تمہیں دوست رکھے گا اور تمہارے گناہ بخش دے گا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔( اٰل عمران:31) اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ کی محبت کا دعوی جب ہی سچا ہو سکتا ہےجب بندہ رسول اللہ کی اتباع کرنے والا ہو اور حضور کی اطاعت اختیار کرے۔ایک قول کے مطابق مدینہ کے یہودی کہا کرتے تھے کہ ہمیں حضور کی اتباع کرنے کی ضرورت نہیں ہم تو اللہ کے بیٹے اور اس کے پیارے ہیں۔اس سے معلوم ہوا ہر شخص کو حضور پر نور ﷺ کی اتباع اور پیروی کرنا ضروری ہے۔ (صراط الجنان)

وَ مَاۤ اَرْسَلْنَا مِنْ رَّسُوْلٍ اِلَّا لِیُطَاعَ بِاِذْنِ اللّٰهِؕ-وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا0ترجمہ: او رہم نے کوئی رسول نہ بھیجا مگر اس لیے کہ اللہ کے حکم سے اُس کی اطاعت کی جائے اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔ (النساء: 64)

تفسیر:یہاں رسول کی تشریف آوری کا مقصد بیان ہے کہ اللہ تعالی رسولوں کو بھیجتا ہی اس لیے ہے کہ اللہ کے حکم سے ان کی اطاعت کی جائے۔اللہ تعالی انبیاء اور رسول کو معصوم بناتا ہے،کیونکہ اگر انبیاء خود گناہوں کے مرتکب ہوں گے تو اللہ کی اطاعت کے لیے،رسول کی اطاعت ضروری ہے اس سے ہٹ کر اطاعت الٰہی کا دوسرا طریقہ نہیں،جو رسول کی اطاعت کا انکار کرےگاہ وہ کافر ہو گا۔ (صراط الجنان،جلد 2) 4۔ قُلْ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ الرَّسُوْلَۚ-فَاِنْ تَوَلَّوْا فَاِنَّ اللّٰهَ لَا یُحِبُّ الْكٰفِرِیْنَ0 ترجمہ: تم فرما دو کہ اللہ اور رسول کی فرمانبرداری کرو اگر وہ منہ پھیریں تو اللہ کافروں کو پسند نہیں کرتا۔ حضرت عبداللہ بن عباس سے مروی ہے جب یہ آیت نازل ہوئی اور فرمایا گیا کہ اے حبیب آپ ان سے فرما دیں کہ اللہ تعالی نے میری اطاعت اس لیے واجب کی کہ میں اس کی طرف سے رسول ہوں،اللہ کے احکام لوگوں تک پہنچانے کا ذریعہ رسول ہی ہیں اگر وہ اطاعت سے منہ پھیریں تو انہیں اللہ کی محبت حاصل نہ ہو گی اللہ انہیں سزا دے گا۔(صراط الجنان، جلد 2)