ادب انسان کے لئے انتہائی ضروری چیز ہے، اس کے ہوتے ہوئے کسی اور شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ادب یہ ہے کہ انسان کے گفتار اور کردار میں تقویٰ نظر آئے،بڑوں کی عزت اور چھوٹوں پر شفقت کریں،نیز ادب کو محض فصاحت و بلاغت میں محصور کر دینا مناسب نہیں ہے۔ کتب احادیث میں خصوصی طور پر ادب کے عنوان کے تحت احادیث کو جمع کیا گیا ہے۔ ادب کا صلہ اور بدلہ بہت عظیم ہوتا ہے، چنانچہ با ادب شخص کے لئے نبی کریم ﷺنے جنت میں محلات کی ضمانت دی ہے۔مسلمانو! تقویٰ اختیار کرو کیونکہ متقی کامیاب ہوں گے اور حد سے تجاوز کرنے والے بدبخت تباہ و برباد ہوں گے۔ قرآنِ مجید میں ارشاد ہے:یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا  وَ  اَنْتُمْ  مُّسْلِمُوْنَ0 اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو جیسا اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہر گز نہ مرنا مگر مسلمان۔ (اٰل عمران: 102 )

ادب انسان کا شرف ہے، ادب پر مبنی شرف کی وجہ سے حسب و نسب کے شرف کی ضرورت نہیں رہتی۔ شرف بلند ہمتی سے حاصل ہوتا ہے۔بوسیدہ ہونے والی ہڈیوں سے نہیں۔

بارگاہِ خداوندی کے آداب: بندے کو چاہیے کہ بارگاہِ الٰہی میں اپنی نگاہیں نیچی رکھے،اپنے غموں اور پریشانیوں کو اللہ پاک کی بارگاہ میں پیش کرے، خاموشی کی عادت بنائے، اعضاء کو پر سکون رکھے،جن کاموں کا حکم دیا گیا ہے ان کی بجا آوری میں جلدی کرے اور جن سے منع کیا گیا ہے ان سے اور اُن پر اعتراض کرنے سے بچے، اچھے اخلاق اپنائے، ہر وقت ذکر ِالہٰی کی عادت بنائے، اپنی سوچ کو پاکیزہ بنائے،اعضا ءکو قابو میں رکھے، دل پر سکون ہو،اللہ پاک کی تعظیم بجالائے،غیض و غضب نہ کرے،محبتِ الہٰی کو لوگوں سے چھپائے، اخلاص اپنانے کی کوشش کرے،لوگوں کے پاس موجود مال و دولت کی طرف نظر کرنے سے بچے، صحیح و درست بات کو ترجیح دے، مخلوق سے اُمید نہ رکھے، عمل میں اخلاص پیدا کرے، سچ بولے اور گناہوں نیکیوں کو زندہ کرے( نیکیوں پر عمل پیرا ہو)لوگوں کی طرف اِشارے نہ کرے اور مفید باتیں نہ چھپائے ہمیشہ باوقار و پیر جلال رہے، حیا کو اپنا شعار بنانے، خوف وڈر کی کیفیت پیدا کرے، تو کل اپنائے، ایک نماز کے بعد دوسری نماز کا انتظار کرے، ذکر کرتے وقت دل میں خوفِ خداوندی پیدا کرے،فقر و فاقہ کے وقت تو کل کو اپنا شعار بنائے اور جہاں تک ہو سکے قبولیت کی امید رکھتے ہوئے صدقہ کرے۔

قرآن ِکریم میں بارگاہِ الٰہی کے آداب: جس طرح اللہ پاک کے حضور نماز ادا کرنا فرض ہے۔اسی طرح ہر نمازی پر یہ بھی فرض ہے کہ وہ نماز کی ادائیگی کے دوران قرآن و سنت کے احکام کی پابندی کرے۔ صلوۃ:(نماز) کے معنی ہیں کسی کے قریب ہو جانا اور دعا کرنا۔ لہٰذا نماز کی لفظی و معنوی حقیقت تین نکات پر مشتمل ہے۔ یہ کہ الله پاک کے دربار میں شعوری طور پر بڑھ کر حاضر ہو جانا۔ الله پاک کے حضور ہمہ تن متوجہ ہو جانا، اللہ پاک سے ہم کلام ہو جانا، نماز کے ان تینوں بنیادی لوازمات کے ساتھ نماز میں اللہ پاک سے ہم کلامی کے طریقے کے لیے قرآن و سنت کے احکام کی پابندی بھی لازم و واجب ہے۔

نماز سے متعلق اولین حکم یہ ہے کہ نمازی پورے شعور کے ساتھ اپنا رخ الله پاک کے لیے اس کعبۃ اللہ کی جانب کر لے جو دنیا میں انسانوں کے لیے بنایا گیا،قرآن مجید میں ارشاد ہے: اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ   لَلَّذِیْ  بِبَكَّةَ  مُبٰرَكًا  وَّ  هُدًى  لِّلْعٰلَمِیْنَ0 بے شک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کو مقرر ہوا ہے وہ جو مکہ میں ہے برکت والا اور سارے جہانوں کا رہنما۔ (اٰل عمران:96) ایک اور جگہ ارشاد ہے:وَحَیۡثُ مَا کُنۡتُمْ فَوَلُّوۡا وُجُوۡهَکُمْ شَطْرَہٗؕ اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرو۔( مسجد حرام) (البقرۃ:15)