حضرت عیسیٰ علیہ السلام کو بھی اللہ کریم نے اپنی مخلوق کی رشد و ہدایت کے لیے نبی بنا کر بھیجا، آپ کے بے شمار فضائل و مناقب اللہ کریم نے قرآن پاک میں ذکر فرمائے ہیں ان کو ذکر کرنے سے پہلے آپ کے بارے میں تین عقائد ملاحظہ فرمائیے:

1۔ اللہ کریم نے آپ کو زندہ سلامت آسمان پر اٹھا لیا۔

2۔ آپ پر اب تک موت طاری نہیں ہوئی۔

3۔ قیامت سے پہلے آپ دنیا میں دوبارہ تشریف لائیں گے۔

ان تین عقائد میں سے پہلے دو عقائد کا انکار کرنے والا کافر اور تیسرے عقیدے کا انکار کرنے والا گمراہ اور بدمذہب ہے، (فتاویٰ حامدیہ، ص 140،142 ملتقطا) آئیے اب کچھ حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی صفات بھی ملاحظہ کرتے ہیں:

1۔ سورۂ اٰل عمران میں ہے: وَ یُكَلِّمُ النَّاسَ فِی الْمَهْدِ (پ 3، اٰل عمران: 46) ترجمہ کنز الایمان: اور لوگوں سے بات کرے گا پالنے میں۔ اس آیت کی تفسیر میں صراط الجنان میں ہے کہ آپ اللہ کے خاص بندے ہیں۔

2۔ مزید یہ کہ حضرت عیسیٰ کو سورۂ اٰل عمران آیت نمبر 45 میں کلمۃ اللہ فرمایا گیا، اسی آیت مبارکہ میں آپ کے اور بھی بہت سے اوصاف ذکر کئے گئے، جیسا کہ

3۔ آپ کا نام مبارک عیسیٰ ہے۔

4۔ آپ کا لقب مسیح ہے، کیونکہ آپ لوگوں کو چھو کر شفا دیتے تھے۔(تفسیر صراط الجنان، 1/476)

وَجِیْهًا فِی الدُّنْیَا وَ الْاٰخِرَةِ (پ 3، اٰل عمران: 45) ترجمہ کنز الایمان: رو دار ہوگا دنیا اور آخرت میں۔

وَ مِنَ الْمُقَرَّبِیْنَۙ(۴۵) (پ 3، اٰل عمران: 45) ترجمہ کنز الایمان: اور قرب والا۔اور آپ کا ایک نمایاں وصف یہ ہے کہ آپ کی نسبت باپ کی بجائے ماں کی طرف کی گئی اس سے معلوم ہوا کہ آپ بغیر باپ کے پیدا ہوئے: اسْمُهُ الْمَسِیْحُ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ (پ 3، اٰل عمران: 45) ترجمہ: جس کا نام مسیح عیسیٰ بن مریم ہوگا۔ اگر آپ کا باپ ہوتا تو آپ کو اس کی نسبت سے پکارا جاتا کیونکہ سورۂ احزاب آیت نمبر 5 میں ہے: ترجمہ کنز العرفان: لوگوں کو ان کے باپوں کی نسبت سے پکارو۔

ہے لبِ عیسیٰ سے جاں بخشی نرالی ہاتھ میں سنگریزے پاتے ہیں شیریں مقالی ہاتھ میں