حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے نام ایک ہزار ہیں۔ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے دو نام ذاتی ہیں۔محمد،احمد باقی نام صفاتی کیونکہ رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی صفات بہت ہیں۔نیز ان کے آستانے پر مختلف حاجت مند اپنی حاجتیں لے کر حاضر ہوتے رہیں گے۔اس لیے اس ذات کے نام بہت ہوئے۔جیساحاجت مند آئے اسی نام سے پکارے۔ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے پہلے کسی کا نام محمد نہ ہوا۔ہاں! یہ ثابت ہے کہ نجومیوں نے پیشن گوئی کی تھی کہ نبی آخرالزمان پیدا ہونے والے ہیں جن کا نام محمد ہوگا تو عرب میں چار شخصوں نے اپنے بیٹوں کے نام محمد رکھے۔ کیوں کہ یہ سن کر انہوں نے یہ نام رکھے اسی لیے پہلے حضور ہی کا نام محمد ہوا۔کیونکہ ساری مخلوق بلکہ خود خالق ہمیشہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہر ادا کی تعریف فرماتا رہے گا اسی لیے نامِ پاک محمد ہوا۔اللہ پاک نے اپنے محبوب کوتیس نام عطا فرمائے۔ عبدالمطلب نے بھی ایک خواب دیکھ کر حضور کا نام محمد رکھا۔حدیثِ پاک : حضرت جبیر بن مطعم رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں :میں نے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو فرماتے سنا کہ میرے بہت نام ہیں۔میں محمد ہوں۔میں احمد ہوں۔محو کرنے والا ہوں کہ اللہ پاک میرے ذریعے کفر کو محو فرمائے گا۔میں جامع ہوں کہ لوگ میرے قدموں پر جمع کیے جائیں گے۔میں عاقب ہوں۔عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہ ہو ۔(بخاری مسلم بحوالہ مراٰۃ المناجیح ، 8 /52)اس حدیثِ پاک کے تحت مرقات میں لکھا ہے :حضور کے تین نام حمد سے مشتق ہیں:(1) محمد(2)احمد(3)محمود۔محمد کے معنی ہر طرح،ہر وقت،ہر جگہ،ہر ایک کا حمد کیا ہوا یا ان کی ہر ادا کی ہر وصف کی ذات کی حمد کی ہوئی مخلوق بھی ان کی حمد کرے۔ خالق بھی ان کی حمد فرمائے،جتنی نعمتیں جتنی سوانح عمریاں ہر زبان میں ہر وقت حضور کی ہورہی ہیں اتنی کسی کی نہیں ہوئیں کیوں نہ ہو کہ قیامت کا دن اس نعمت خوانی میں تو صرف ہوتا ہے۔دن ہے پچاس ہزار سال کا وہ نعمت خوانی میں خرچ ہوگا۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمجامع ہیں حامدیت اور محمودیت میں جیسے آپ مرید بھی اللہ پاک کے اور مراد بھی۔ یوں ہی آپ طالب بھی ہیں مطلوب بھی۔ یوں ہی آپ احمد بھی محمود بھی حبیب بھی ہیں محبوب بھی ۔حضور سورج ہیں۔دوسرے انبیا چاند تارے شمع تھے۔کفر تاریکی ہے اگرچہ تاریکی کو چاند ستارے بھی دور کرتے ہیں مگر وہ رات کو دن نہیں بناتے۔سورج رات کو دن بنا دیتا ہے نیز چراغ وغیرہ ایک محدود جگہ میں روشنی کرتے ہیں سورج ساری زمین کو منور کر دیتا ہے اس لیے صرف حضور کا نام ماحی ہوا۔ سب سے پہلے قبر ِ انور سے حضور اٹھیں گے، پھر دوسرے لوگ سب سے پہلے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم میدانِ محشر میں پہنچیں گے،پھر حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پیچھے ساری مخلوق نیز سارے لوگ آخر کار شفاعت کی بھیک مانگتے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کے پاس پہنچیں گے۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کے اردگرد جمع ہوجائیں گے،حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہی کو گھیر لیں گے اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس آکر پھر بارگاہِ الٰہی میں حاضر ہوں گے، اس لیے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم حاشر ہیں۔عاقب بنا ہے عقب سے بمعنی پیچھے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سارے نبیوں سے پیچھے دنیا میں آئے نیز حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اپنے پیچھے بہت خیر چھوڑ گئے ،لہٰذا حضور عاقب ہیں اورسب کی عاقبت حضور کے دم سے ہی ہے ۔

اس حدیثِ پاک کے تحت نزہۃ القاری میں ہے: پانچ اسما میں حصر نہیں اس لیے مفہوم عدد حجت نہیں یہاں ان پانچ کے ذکر کرنے کی وجہ غالباً یہ ہے کہ اگلی امتوں اور کتابوں میں مشہور تھے یا اس لئے کہ یہ پانچوں اسما ایسے ہیں جو حضور کے ساتھ مختص ہیں۔کتبِ سابقہ میں احمد ہے اور قرآن میں محمد نیز آسمان میں احمد اور زمین میں محمد۔محمد کا معنیٰ ہے بہت زیادہ تعریف کیا ہوا۔احمد کا معنی بہت زیادہ تعریف کرنے والا ۔اسمائے صفاتِ حضور کتنے ہیں؟اس کا شمار اب تک نہیں ہو سکا۔دلائل الخیرات شریف میں دو سو بارہ ہیں علامہ عینی رحمۃ اللہ علیہ نے ابنِ عربی رحمۃ اللہ علیہ سے نقل فرمایا کہ حضور اقدس صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے اسما ہزار تک ہیں۔ (نزہۃ القاری، 4 / 508)حدیثِ پاک:حضرت ابو موسیٰ اشعری رَضِیَ اللہُ عنہ فرماتے ہیں:نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہم کو اپنے نام بتاتے تھے فرماتے تھے :میں محمد ہوں۔میں احمد ہوں۔مقفی ہوں۔میں حاشر ہوں۔میں توبہ کا نبی ہوں۔میں رحمت کا نبی ہوں۔( مسلم بحوالہ مراۃالمناجیح، 8 /53)