اللہ پاک سے دعا کرنا عبادت ہے۔ اس میں اپنی بندگی کا اقرار و اظہار ہے۔ دعا عبادت  کارُکنِ اعلٰی ہے، جیسے مغز کے بغیر ہڈی، گودے کے بغیر چھلکے کی کوئی قدر نہیں، ایسے ہی دعا سے خالی عبادت کی کوئی قدر نہیں۔ یوں ہی دعا مانگنے پر ثواب ملتا ہے، سب سے بڑھ کر یہ کہ ربّ کریم دعا مانگنے کو پسند فرماتا ہے،خود اللہ پاک قرآنِ مجید میں فرماتا ہے:ادْعُوْنِیْۤ اَسْتَجِبْ لَكُمْمجھ سے دعا مانگو میں قبول کرنے والا ہوں۔(پارہ 24، المؤمن:60)وہیں نہ مانگنے والوں کے بارے میں فرمایا:ترجمہ: تمہاری کچھ قدر نہیں، میرے رب کے یہاں، اگر تم اسے نہ پوچھو۔ (پ25 :77)اسی طرح احادیث میں جا بجا دعا کی ترغیب دلائی، فرمایا:الدعاء مخ العبادۃ دعا عبادت کا مغز ہے۔ الدعاء صلاح المؤمن دعا مؤمن کا ہتھیار ہے۔مزیدفرمایا:قال رسول اللّٰہ من لم یسال اللّٰہ یغضب علیہ جو اللہ پاک سے نہ مانگے، اللہ پاک اس پر ناراض ہوتا ہے۔(رواہ ترمذی حوالہ مراۃالمناجیح، جلد 3، صفحہ 317، حدیث 2133)

آئیے !ان مقامات کا ذکر پڑھئےجن میں دعا قبول ہوتی ہے۔1۔مطاف میں 2۔ملتزم وہ مقام ہے جو خانہ کعبہ شریف کی مشرقی دیوار کے جنوبی حصہ میں حجرِ اسود(کالا پتھر) اور کعبہ کے دروازے کے درمیان میں موجود ہے، یہی وہ جگہ ہے جہاں لوگ لپٹ کر خوب دعائیں مانگتے ہیں۔ 3۔بیت اللہ شریف کی عمارت کے اندر۔ 4۔زیرِ میزاب: سونے کا وہ پرنالہ جس سے بارش کا پانی حطیم میں نچھاور ہوتا ہے۔ 5۔حطیم کعبہ معظمہ کے پاس گول دائرے کی شکل کا ہوتا ہے، یعنی اس باؤنڈری کے اندر کا حصّہ حطیم کہلاتا ہے، اس مقام پر بھی دعا قبول ہوتی ہے۔ 6۔حجرِ اسود، یہ جنتی پتھر ہے۔ 7۔نزد زم زم۔ 8۔مقامِ ابراہیم کے پیچھے۔ 9۔جمراتِ ثلاثہ، تینوں جمروں کے پاس۔ 10۔صفا۔11۔مروہ۔ 12۔مسجدِ نبوی۔ 13۔مواجہہ شریف حضور سید الشافعین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم 14۔اولیاء علماء کی مجالس میں 15۔حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مشاہدِ متبرکہ، یعنی وہ تمام جگہ جہاں آخری نبی ہمارے آقا و مولا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی حیات ِطیبہ میں تشریف لے گئے، جیسے حضرت سلمان فارسی رضی اللہ عنہکا باغ۔( فضائلِ دُعا، ص128 تا136)خاص مقام: علماء کرام نے اس جگہ کو مقبولیت کا مقامات سے شمار کیا ہے، جہاں کسی کی دعا قبول ہوئی ہو،یوں ہی جہاں اولیاء کا وجود ہو یا جہاں وہ رہے ہوں،خانہ کعبہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے روضہ اقدس اور مزاراتِ اولیاء خاص مقامات ہیں، جہاں دعائیں قبول ہوتی ہیں۔ایک ایسا واقعہ جس کا ذکر خود اللہ پاک نے بھی قرآن میں فرمایا اور سورۂ الِ عمران آیت نمبر38 میں اس کا ذکر ہے:ترجمۂ کنزالایمان:یہاں پُکارا ز کریا نے اپنے رب کو بولا اے رب میرے مجھے اپنے پاس سے دے ستھری اولاد، بے شک تو ہی دعا سننے والا ہے۔حضرت مریم رضی اللہ عنہا کی پیدائش کے بعد ان کی کفالت حضرت زکریا علیہ السلام نے کی۔حضرت ذکریا علیہ السلام جب بھی حضرت مریم رضی اللہ عنہا کے پاس جاتے تو وہ بے موسم پھل پاتے۔ ایک مرتبہ آپ نے حضرت مریم رضی اللہ عنہا سے پوچھا:یہ پھل تمہارے پاس کہاں سے آتے ہیں؟ تو حضرت مریم رضی اللہ عنہا نے بچپن کی عمر میں جواب دیا:اللہ پاک کی طرف سے۔حضرت ذکریا علیہ السلام نے سوچا جو پاک ذات حضرت مریم رضی اللہ عنہا کو بے موسم اور بغیر ظاہری سبب کے میوہ دینے پر قادر ہے، وہ اس بات پر بھی قادر ہے کہ میری بانجھ بیوی کو نئی تندرستی دے اور مجھے بڑھاپے کی عمر میں اولاد کی امید ختم ہو جانے کے بعد فرزند عطا فرما دے، اس خیال سے آپ نے اس جگہ دعا مانگی، آپ کی دعا قبول ہوئی اور آپ کو بشارت ملی کہ آپ کو ایسا بیٹا عطا کیا جائے گا جس کا نام یحیٰ ہوگا۔اس واقعہ کا تفصیلی ذکر سورہ ٔمریم آیت 2 تا15 میں مذکور ہے۔آج ہماری اکثریت دعا سے یکسر غافل نظر آتی ہے۔ جب کوئی مصیبت آ پڑی فورا ًدعا مانگنا شروع کر دی، دعا ہمیشہ کرتی رہیں۔ یاد رکھئے! دعا کے دو فائدے ہوتے ہیں:ایک یہ کہ اس کی برکت سے آئی بلا ٹل جاتی ہےاوردوسرا یہ کہ آنے والی بلا رُک جاتی ہے۔نیت فرمالیجئےکہ دعا کو اپنا معمول بنائیں گی اور خوب دعائیں مانگیں گی۔ ان شاءاللہ