طاقت کسی اچھے  آدمی کو ملے تو نعمت، بُرے کو ملے تو ایک نشہ، ایسا نشہ جو سر چڑھ کر بولتا ہے اور آدمی کو فساد کی طرف لے جاتا ہے، جو افراد اور قومیں طاقت دینے والے کی شُکرگزار ہوئیں، وہ تاریخ میں نیک نام ٹھہریں اور جنہوں نے ناشکری کی، بربادی اور ہلاکت نے انہیں اپنی لپیٹ میں لے لیا، قرآن مجید ان کے مِٹ جانے کی خبر دیتا ہے، تاکہ ہم اِن سرکشوں و نافرمانوں اور ناشُکروں جیسے نہ ہو جائیں، نعمت ملنے پر اس ذات پاک کا شکر ادا کریں۔

یہ کہانی ایک نافرمان قوم کی تباہی کی کہانی ہے، جس میں نصیحت بھی ہے اور عبرت کا مقام بھی ان کے لئے، جو صراطِ مستقیم کو اپنی منزل بنانا چاہتے ہیں۔

سیدنا نوح علیہ السلام کے پوتے کا نام ثمود تھا، ثمود کا خاندان حجاز اور تبوک کے درمیان حجر نامی مقام پر آباد تھا، جسے مدائن صالح کہا جاتا ہے، یہ لوگ جسمانی لحاظ سے بہت طاقتور تھے، پہاڑوں کو تراش کر اِن میں گھر بناتے تھے، جسمانی طاقت کے ساتھ ساتھ اللہ نے انہیں سرسبز زمین بھی دی تھی۔

پھر یہ قبیلہ نافرمان ہو گیا، اللہ کی دی ہوئی نعمتوں کو بُتوں کی عطا کردہ نعمتیں خیال کرنے لگے، حرام کو حلال سمجھنے لگے، کمزوروں پر ظلم کرنے لگے، اپنا وقت تماشے، ناچ گانوں میں بسر کرنے لگے۔

پھر اللہ نے انہی میں سے حضرت صالح کو نبوت عطا فرمائی، نبوت ملنے سے پہلے بھی حضرت صالح بہت نیک اور سچائی اور امانت کے اعتبار سے بہت مشہور تھے۔

نبوت ملنے پر آپ نے اپنی قوم کو اللہ کی طرف بلایا، قرآن کریم میں ہے:

"صالح نے کہا: کہ اے میری قوم!اللہ ہی کی عبادت کرو، اس کے سوا تمہارا کوئی معبود نہیں، اسی نے تم کو زمین سے پیدا کیا، اسی میں آباد کیا، اسی سے مغفرت مانگو، اس سے توبہ کرو، بیشک میرا ربّ نزدیک(بھی ہے اور دعا کا) قبول کرنے والا ہے۔"

آپ کی قوم نے آپ کا یہ پیغام سنا، لیکن ان پر کوئی اثر نہ ہوا، وہ ایک ایسی قوم تھی، جسے شرک نے اندھا کررکھا تھا اور ان میں سے ایک کہنے لگا"کہ تم جادوزن ہو، بھلا ایک آدمی جو ہم ہی میں سے ہے، ہم اس کی پیروی کریں؟"

ان کی جاہلانہ باتوں کے باوجود سیّدناصالح نے اپنا کام صبر اور بُردباری سے جاری رکھا، جب قوم نے دیکھا یہ باز نہیں آرہے تو اُنہوں نے آپ کو جھوٹا ثابت کرنے کے لئے ایک ترکیب سوچی اور طے کیا کہ ایک ایسا مطالبہ کیا جائے، جسے یہ پورا نہ کر سکیں اور کہا کہ "اپنے ربّ سے کہو کہ سامنے والی چٹان سے اُونٹنی برآمد کرے، ہم ایمان لے آئیں گے،" سیّدنا صالح نے دعا کی اور اللہ نے اُسی وقت چٹان کو حکم دیا، چٹان حرکت کرنے لگی اور پھٹ گئی اور اس میں سے اُونٹنی نکلی، اس عظیمُ الشّان قدرت کو دیکھ کر ان میں سے کُچھ سجدے میں گرگئے، لیکن کُچھ بے اثر گمراہی پر اڑے رہے۔

اس اُونٹنی کے پانی پینے کا ایک دن ہوتا اور دوسرا دن ان لوگوں کے پینے کا، ان میں سے ایک سردار نے جس کا نام قدار بن سالف تھا، اُونٹنی کو مارنے کی تجویز پیش کی، چنانچہ اُنہوں نے اُونٹنی کو تلاش کیا اور اس پر تیر اور نیزے چلا کر اسے ہلاک کر دیا۔

سیّدنا صالح کو معلوم ہوا تو وہ بہت غمگین ہوئے اور انہوں نے حکمِ الٰہی سے تین دن تک عذاب کے آنے کا وعدہ فرمایا، "اب تم تین دن تک اپنے گھروں میں فائدہ اٹھاؤ، یہ وعدہ جھوٹا نہیں ہے، جب مہلت کا پہلا دن آیا تو ان کے چہرے زرد ہو گئے، جب دوسرا دن آیا تو ان کے چہرے سُرخ ہوگئے، جب تیسرا دن آیا، تو ان کے چہرے سیاہ ہو گئے، جبکہ چوتھا دن آیا اور سورج طلوع ہوا تو آسمان سے ایک شدید آواز آئی اور ساتھ ہی زلزلہ آ گیا، جس سے ان کی روحیں پرواز کر گئیں، قرآن کریم میں اللہ نے قومِ ثمود کی تباہی کا نقشہ یوں کھینچا ہے:"اور ثمود کی قصّے میں بھی عبرت ہے، جب ان سے کہا گیا کہ کچھ دن تک فائدہ اٹھا لو، لیکن انہوں نے اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی، جس پر انہیں ان کے دیکھتے دیکھتے تیزوتند کڑاکے نے ہلاک کر دیا، پس نہ تو وہ کھڑے ہو سکے، نہ بدلہ لے سکے۔"اللہ نے ان کو اس طرح ملیامیٹ کردیا گویا وہ کبھی اپنے گھروں میں بسے ہی نہ تھے۔