حضرت صالح علیہ السلام قومِ ثمود کی طرف نبی بنا کر بھیجے گئے،  آپ نے جب قومِ ثمود کو خدا کا فرمان سنا کر ایمان کی دعوت دی، تو اس سرکش قوم نے آپ سے یہ معجزہ طلب کیا کہ آپ اس پہاڑ کی چٹان سے ایک گابھن اونٹنی نکالئے، جو خوب فربہ اور ہر قسم کے عیوب و نقائص سے پاک ہو، چنانچہ آپ نے چٹان کی طرف اشارہ فرمایا تو وہ فوراً پھٹ گئی اور اس میں سے ایک نہایت خوبصورت و تندرست اور خوب بلند قامت اُونٹنی نکل پڑی، جو گابھن تھی اور نکل کر اس نے ایک بچہ بھی جنا اور یہ اپنے بچوں کے ساتھ میدانوں میں چرتی پھرتی رہی، اس بستی میں ایک ہی تالاب تھا، جس میں پہاڑوں کے چشموں سے پانی بھر کر جمع ہوتا تھا، آپ نے فرمایا: کہ اے لوگو! دیکھو یہ معجزہ کی اونٹنی ہے، ایک روز تمہارے تالاب کا سارا پانی یہ پی ڈالے گی اور ایک روز تم لوگ پینا، قوم نے اس کو مان لیا، پھر آپ نے قومِ ثمود کے سامنے تقریر فرمائی، چند دن قومِ ثمود نے اس تکلیف کو برداشت کیا، پھر ان لوگوں نے طے کرلیا کہ اس اُونٹنی کو قتل کر ڈالیں۔

چنانچہ اس قوم میں قدار بن سالف جو سُرخ رنگ کا بُھوری آنکھوں والا اور پستہ قد آدمی تھا اور ایک زِنا کار عورت کا لڑکا تھا، ساری قوم کے حکم سے اس اُونٹنی کو قتل کرنے کے لئے تیار ہو گیا، حضرت صالح علیہ السلام منع ہی کرتے رہے، لیکن قدار بن سالف نے پہلے تو اُونٹنی کے چاروں پاؤں کو کاٹ ڈالا، پھر اس کو ذبح کردیا اور اِنتہائی سرکشی کے ساتھ حضرت صالح علیہ السّلام سے بے ادبا نہ گفتگو کرنے لگا، چنانچہ خداوندِ قدوس کا ارشاد ہے کہ:

ترجمہ کنزالایمان:"پس ناقہ کی کونچیں کاٹ دیں اور اپنے ربّ کے حکم سے سرکشی کی اور بولے اے صالح! ہم پر لے آؤ جس کا تم وعدہ دے رہے ہو، اگر تم رسول ہو۔"

قومِ ثمود کی اس سرکشی پر عذابِ خُداوندی کا ظہور اِس طرح ہوا کہ پہلے ایک زبردست چنگھاڑ کی خوفناک آواز آئی، پھر شدید زلزلہ آیا، جس سے پوری آبادی اتھل پتھل ہو کر چکنا چور ہو گئی اور قومِ ثمود کاایک ایک آدمی گھٹنوں کے بَل اوندھا گر کر مر گیا۔

خلاصہ کلام یہ ہوا کہ قومِ ثمود کی پوری بستی برباد و ویران ہو کر کھنڈر بن گئی اور پوری قوم فنا کے گھاٹ اُتر گئی کہ آج ان کی نسل کا کوئی انسان روئے زمین پر باقی نہیں رہ گیا۔(عجائب القران مع غرائب القران، صفحہ 103۔105)

اللہ سے دعا ہے کہ وہ ہم کو اپنا فرمانبردار بنائے اور اپنے خوب عبادت کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہم سے سدا کے لئے راضی ہو جائے۔اللہم آمین