قومِ عاد کی نافرمانیاں

Wed, 2 Jun , 2021
2 years ago

وَ اِلٰى عَادٍ اَخَاهُمْ هُوْدًاؕ-   ترجَمۂ کنزُالایمان: اور عاد کی طرف انکی برادری سے ہود کو بھیجا ۔(سورة الاعراف، آیت: ٦٥)

قومِ عاد دو ہیں : عادِ اولٰی یہ حضرت ہود علیہ السّلام کی قوم ہے اور یہ یمن میں آباد تھے اور عادِ ثانیہ ، یہ حضرت صالح علیہ السّلام کی قوم ہے ، اسی کو ثمود کہتے ہیں ان دونوں کے درمیان سو برس کا فاصلہ ہے۔(صراط الجنان، ج ٣، ص ٣٥١)

قومِ عاد احقاف میں رہتی تھی۔ قوم عاد نے زمین کو فسق سے بھر دیا تھا۔یہ لوگ بت پرست تھے۔ اللہ تعالٰی نے ان میں حضرت ہود علیہ السّلام کو مبعوث فرمایا۔ آپ نے انہیں توحید کا حکم دیا ،شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری کی ممانعت کی ، لیکن وہ نہ مانے اور آپ کی تکذیب کرنے لگے اور کہنے لگے ہم سے زیادہ زورآور کون ؟(صراط الجنان ، ج ٣ ، ص ٣٥٦)

جب حضرت ھود علیہ السلام کی قوم نے نصیحت حاصل نہ کی تو قادر و قدیر اور سچے رب تعالٰی کی بارگاہ سے انکے عذاب کا حکم نافذ ہوگیا (صراط الجنان ، ج ٤، ص ٤٥٦)

دنیا اور آخرت دونوں جگہ لعنت انکے ساتھ ہے اور لعنت کا معنی ہے اللہ تعالٰی کی رحمت اور ہر بھلائی سے دوری ۔ اس کے بعد اللہ تعالٰی نے ان کے برے انجام کا اصلی سبب بیان فرمایا کہ قومِ عاد نے اپنے رب کے ساتھ کفر کیا اس لیے انکا اتنا برا انجام ہوا۔(صراط الجنان ، ج ٤ ، ص ٤٥٨)

وَ اِلٰى ثَمُوْدَ اَخَاهُمْ صٰلِحًاۘ- ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ثمود کی طرف ان کی برادری سے صالح علیہ السلام کو بھیجا۔ (سورة الاعراف، آیت: ٧٣)

قومِ ثمود قومِ عاد کے بعد ہوئی اور حضرت صالح علیہ السّلام حضرت ہود علیہ السّلام کے بعد ہیں ۔ قومِ ثمود بھی قومِ عاد کی طرح شرک و بت پرستی اور ظلم و جفا کاری میں مبتلا تھے اور جب حضرت صالح علیہ السّلام نے انہیں ان برائیوں سے روکا تو انہوں نے اپنی طاقت کے گھمنڈ میں آ کر خوب نافرمانیاں کی۔ بالآخر قومِ ثمود کا سردار جندع بن عمرو نے حضرت صالح علیہ السّلام سے عرض کی کہ آپ پہاڑ سے فلاں فلاں صفات کی اونٹنی لے آئیں تو ہم آپ پر ایمان لیے آئیں گے۔ چنانچہ حضرت صالح علیہ السّلام نے اپنے رب سے دعا کی تو یہ معجزہ بھی پورا ہوا اور چند لوگ جندع بن عمرو کے ساتھ ایمان لے آئے اور حضرت صالح علیہ السّلام نے اپنی قوم کو اس اونٹنی کے پاس بری نیت سے جانے اور اسے نقصان پہنچانے سے خبردار کیا، لیکن آپ کی قوم باز نہ آئی اور اونٹنی کی ٹانگیں کاٹ دیں اور کہنے لگے کہ لے آؤ وہ عذاب جس کا تم ہم سے وعدہ کرتے ہو۔ چنانچہ وہ لوگ ایک زوردار آواز میں گرفتار ہوئے جن سے انکے سینے پھٹ گئے اور ہلاک ہو گئے ۔

(صراط الجنان ، ج ٣ ، ص ٣٦٠ ، ملخصاً)