پیارے پیارے اسلامی بھائیو! کسی پیرِ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دے کر بیعت ہونے سے پیرِکامل سے نسبت  حاصل ہو جاتی ہے جس کی بدولت باطِن کی اِصلاح کے ساتھ ساتھ نیکیوں سے محبت اور گناہوں سے نفرت کا جذبہ بیدار ہوتا ہے۔ پیرِکامل کی صحبت اور اس کے فَوائد بیان کرتے ہوئے حضرتِ سیِّدُنا فقیہ عبدُالواحد بن عا شر رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: عارفِ کامل کی صحبت اِختیار کرو۔ وہ تمہیں ہلاکت کے راستے سے بچائے گا۔ اس کا دیکھنا تمہیں اللہ پاک کی یاد دِلائے گا اور وہ بڑے نفیس طریقے سے نَفْس کا مُحاسَبہ کراتے ہوئے اور”خَطَراتِ قلْب“(یعنی دل میں پیدا ہونے والے شیطانی وَساوس)سے مَحفوظ فرماتے ہوئے تمہیں اللہ پاک سے ملا دےگا۔ اس کی صحبت کے سبب تمہارے فرائض و نوافل محفوظ ہو جائیں گے۔”تصفیۂ قلب“(یعنی دل کی صفائی) کے ساتھ ”ذکرِ کثیر“کی دولت میسر آئے گی اور وہ اللہ پاک سے متعلقہ سارے اُمور میں تمہاری مدد فرمائے گا۔ (حقائق عن التصوف الباب الثانی ، ص57)

اعلیٰ حضرت،امامِ اہلسنَّت مولانا شاہ امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کی بارگاہ میں سُوال ہوا کہ”مُرید ہونا واجب ہے یاسنَّت؟ نیز مُرید کیوں ہوا کرتے ہیں؟ مُرشِد کی کیوں ضرورت ہے اور اس سے کیا کیا فَوائد حاصل ہوتے ہیں؟“ تو آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے جواباً اِرشاد فرمایا: مُرید ہونا سنَّت ہے اور اس سے فائدہ حضورسیِّدِعالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے اِتصالِ مسلسل۔ (صِرَاطَ الَّذِیْنَ اَنْعَمْتَ عَلَیْهِمْ ﴰ) ترجمۂ کنزالایمان: راستہ اُن کا جن پر تُو نے احسان کیا ۔(پ1،الفاتحہ :6) میں اس کی طرف ہدایت ہے، یہاں تک فرمایا گیا: مَن لَّا شَیْخَ لَہٗ فَشَیْخُہُ الشَّیْطٰن جس کا کوئی پیر نہیں اس کا پیر شیطان ہے۔ صحتِ عقیدت کے ساتھ سلسلہ صحیحہ متصلہ میں اگر اِنتساب باقی رہا تو نظر والے تو اس کے بَرکات ابھی دیکھتے ہیں جنہیں نظر نہیں وہ نزع میں، قبر میں، حشر میں اس کے فوائد دیکھیں گے۔ (فتاویٰ رضویہ ،26/570، ملتقطا )

شیخ (مرشد) کی تعریف: حضرت سید نا عبد الغنی نابلس حنفی علیہ رحمۃُ اللہ القوی حدیقہ ندیہ میں شیخ یعنی پیر و مرشد کی تعریف کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ شیخ سے مراد وہ بزرگ ہے جس سے اس کے بیان کردہ احکام شرع کی پیروی پر عہد کیا جائے اور وہ اپنے اقوال و افعال کے ذریعے مریدوں کے حالات اور ظاہری تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت کرے اور اس کا دل ہمیشہ مراتب کمال کی طرف متوجہ رہے۔(الحدیقۃ الندیۃ، الباب الأول، فمرجع الاحكام ومثبتها الكتاب والسنۃ الخ، 1/159)

پیر و مرشد کے حقوق: اعلی حضرت امام اہل سنت مجدد دین وملت مولینا شاہ احمد رضا خان رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: پیر واجبی پیر ہو، چاروں شرائط کا جامع ہو۔ وہ حضور سید المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا نائب ہے۔ اس کے حقوق حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حقوق کے پر تو (یعنی عکس ) ہیں ۔ جس سے پورے طور پر عہدہ برآ ہونا محال ہے۔ مگر اتنا فرض و لازم ہے کہ اپنی حد قدرت تک ان کے ادا کرنے میں عمر بھر ساعی (کوش کرتا) رہے ۔ پیر کی جو تقصیر ( یعنی باوجود کوشش کے حقوق پورے کرنے میں جو کمی) رہے گی اللہ و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم معاف فرماتے ہیں۔ پیر صادق کہ اُن کا نائب ہے، یہ بھی معاف کر دیگا یہ تو ان کی رحمت کے ساتھ ہے۔ ائمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ

(1)مرشد کے حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔

(2) اور فرمایا کہ کا باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ ہے ۔

(3)اور فرمایا کہ کوئی کام اس کے خلاف مرضی کرنا مرید کو جائز نہیں۔

(4) اس کے سامنے ہنسنا منع ہے۔

(5) اس کی غیر اجازت بات کرنا منع ہے۔

(6) اس کی مجلس میں دوسرے کی طرف متوجہ ہونا منع ہے۔

(7) اس کی غیبت (یعنی عدم موجودگی) میں اس کے بیٹھنے کی جگہ بیٹھنا منع ہے ۔

(8) اس کی اولاد کی تعظیم فرض ہے اگرچہ بے جا حال پر ہوں۔

(9) اس کے کپڑوں کی تعظیم فرض ہے ۔

(10) اس کے بچھونے کی تعظیم فرض ہے۔

(11) اس کی چوکھٹ کی تعظیم فرض ہے۔

(12) اس سے اپنا کوئی حال چھپانے کی اجازت نہیں، اپنے جان و مال کو اس کا سمجھے۔ (فتاوی رضویہ ، 12/152 ، مطبوعہ شبير برادرز لاهور)

اللہ پاک ہمیں اپنے پیر و مرشد کا ادب و احترام کرنے اور ان کے حقوق کو پورا کرنے والا بنائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم