دنیا و آخرت میں سر خروئی حاصل کرنا کا بہترین ذریعہ کسی پیرِ کامل کے ہاتھ میں ہاتھ دینا ہے ہر شخص کو چاہیے کہ کسی پیر کامل کے ہاتھ پر بیعت کرلے ، علامہ ابو القاسم قشیری رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں: يجب عَلَى المريد أَن يتأدب بشيخ فَإِن لَمْ يكن لَهُ أستاذ لا يفلح أبدا. هَذَا أَبُو يَزِيد يَقُول: من لَمْ يكن لَهُ أستاذ فإمامه الشَّيْطَان. ترجمہ: مرید پر واجب ہے کہ کسی پیر سے تربیت لے کہ بے پیر فلاح نہ پائے گا۔

شیخ کی تعریف: حضرت سیِّدُنا عبد الغنی نابلسی حنفی رحمۃُ اللہ علیہ حدیقہ ندیہ میں شیخ یعنی پیر و مرشد کی تعریف کرتے ہوئے نقل فرماتے ہیں کہ شیخ سے مراد وہ بزرگ ہے جس سے اس کے بیان کردہ احکامِ شرع کی پیروی پر عہد کیا جائے اور وہ اپنے اقوال و افعال کے ذریعے مریدوں کے حالات اور ظاہری تقاضوں کے مطابق ان کی تربیت کرے اور اس کا دل ہمیشہ مراتب ِ کمال کی طرف متوجہ رہے ۔ (جامع شرائط پیر، ص5)

امامِ اہلسنت رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں: بیعت بیشک سنت محبوبہ ہے، امام اجل شیخ الشیوخ شہاب الحق والدین عمر رضی اللہ عنہ کی عوارف شریف سے شاہ ولی اﷲ دہلوی کی قول الجمیل تک اس کی تصریح اور ائمہ واکابر کا اس پر عمل ہے۔ (فتاوی رضویہ، 26/585)

شیخ در اصل بندہ اور خدا کے درمیان ایک واسطہ ہوتا ہے جو مرید کو خدا کی بارگاہ میں مقرب بناتا ہے، اس کی محبت در اصل خدا کی محبت ہے، اس کی اتباع رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع ہے جبھی تو علما نے فنا فی اللہ اور فنا فی الرسول کے مرتبے پر پہنچنے کے لیے ضروری ہے کہ پہلے فنا فی الشیخ کے مرتبہ پر فائز ہو ۔ ورنہ بغیر پیر کے کوئی اس مرتبہ عالیہ تک نہیں پہنچ سکتا۔ جو شخص اپنے پیر کی محبت میں مبالغہ نہ کرے یعنی اپنی تمام خواہشات پر ترجیح نہ دے وہ طریقت میں کامیاب نہیں ہو سکتا ہے کیونکہ شیخ کی محبت ہی اچھائی کا مرتبہ ہے۔

شیخ محی الدین ابن عربی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شیخ اللہ تک پہنچانے والے اور اس کے قریب کرنے والے ہیں اور وہ اللہ تک راہنمائی میں ان کی بھرپور تائید و مدد کرتے ہیں ۔ (رسالہ قشیریہ، ص160)

اسی طرح راہِ حق کے سالک کے لئے ایک ایسے مرشد کامل کا ہونا نہایت ہی ضروری ہے جو اس کی اَحسن طریقے سے تربیت کرے اور اللہ پاک کے راستے کی طرف اس کی راہ نمائی کرے۔

فتاوی رضویہ میں ہے : ائمہ دین نے تصریح فرمائی ہے کہ مرشد کے حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔ اور فرمایا ہے کہ باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ ہے، اور فرمایا ہے کہ کوئی کام اس کے خلاف مرضی کرنا مرید کو جائز نہیں۔ (فتاوی رضویہ، 26/562)

ذیل میں چند مرشد کے چند آداب ذکر کیے جاتے ہیں :۔

(1) محبت شیخ میں تمام گناہوں سے توبہ : اہلِ طریقت اس بات پر متفق ہیں کہ شیخ کی محبت میں سچے مرید کی صفات میں سے ایک صفت یہ ہے کہ وہ تمام گناہوں سے توبہ کرے اور تمام عیوب سے پاکیزگی حاصل کرے۔

(2)صرف شیخ کی بات سننا : صوفیا فرماتے ہیں : مرید طریقت میں اپنے شیخ (پیر کامل )کے علاوہ کسی دوسرے کی بات سننے سے بہرہ ہوجائے ۔

(3) شیخ سے محبت : سب سے زیادہ اپنے شیخ سے محبت کرے ، کہ شیخ کی محبت اسے اللہ پاک اور رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی محبت تک پہنچائے گی۔ امام عبد الوہاب شعرانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مرشد کی محبت سیڑھی کی سی ہے ، مرید اس کے ذریعے ہی سے چڑھ کر اللہ کی بارگاہ عالیہ کو پہنچتا ہے۔ (آداب مرشد کامل، ص38)

(4) شیخ کا ادب : مرید کے لیے ضروری ہے کہ وہ اپنے شیخ کا ہر حال میں ادب کرے کہ جو شخص اپنے مرشد کا ادب نہیں کرتا وہ کبھی کامیاب نہیں ہوگا۔

(5) حسن اعتقاد: مرید اپنے پیر و مرشد کے متعلق اچھا خیال رکھے ، بدگمانی اور برے نہ سوچے بلکہ اپنے مرشد کو وقت کا سب سے بڑا ولی جانے۔

شیخ عبد القادر جیلانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو مرید اپنے شیخ کے کمال کا اعتقاد نہ رکھے وہ مرید اس مرشد کے ہاتھوں پر کبھی کامیاب نہ ہوگا۔

(6) پیر پر اعتراض نہ کرے: طریقت کے میدان میں مرید کے لیے ضروری ہے کہ پیر کے ہر حکم کو لازم جانے اور اس کے کسی قول و فعل پر اعتراض نہ کرے۔ امام اہلسنت امام احمد رضا محدث بریلوی رحمۃُ اللہ علیہ لکھتے ہیں: پیرکے افعال و اقوال پر اعتراض سخت حرام اور موجب محرومی برکات دارین ہے، اس کی جو بات اپنے ذہن میں خلاف معلوم ہو واجب ہے کہ اچھی تاویل کرے اور تاویل میں سمجھ نہ آئے تو یہ سمجھے کہ اس کا کوئی عمدہ منشا ہوگا جو میری سمجھ میں نہ آیا۔ (فتاوی رضویہ، 26/587)

(7) پیر سے کچھ نہ چھپائے : مرید کے دل کی جو کیفیت اور حالت ہے اسی طرح جو خارجی چیزیں اس کے متعلق ہیں سب اپنے مرشد کو بتائے کوئی چیز مرشد سے نہ چھپاے ، حضرت علی بن وفا رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: مرید پر لازم ہے کہ وہ اپنے تمام مسائل و وسائل ، ابواب اور اپنے تمام معمولات کو جن پر اسے اعتماد ہے اپنے مرشد کے سامنے پیش کرے تاکہ مرشد ان تمام چیزوں کو فنا اور گم کرڈالے۔ (آداب مرشد کامل، ص54)

(8) مرشد کی اطاعت: جس بات کا شیخ حکم کریں اور جس بات سے منع کرے اس پر عمل کرنا ضروری ہے، پیر کی باتوں پر عمل نہ کرنے والا کامیاب نہیں ہو سکتا۔ عبد الوہاب شعرانی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: تو مرشد کی اطاعت کو لازم کر لے ان شاءاللہ دائمی عزت پائے گا۔

(9)مرشد کی ہر اعتبار سے تعظیم بجا لائے۔ امامِ اہلسنت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس کے سامنے ہنسنا منع ہے، اس کی غیبت میں اس کے بیٹھنے کی جگہ بیٹھنا منع ہے، اس کی اولاد کی تعظیم فرض ہے اگرچہ بے جا حال پر ہوں، اس کے کپڑوں کی تعظیم فرض ہے، اس کے بچھونے کی تعظیم فرض ہے، اس کی چوکھٹ کی تعظیم فرض ہے، اس سے اپنا کوئی حال چھپانے کی اجازت نہیں، اپنے جان ومال کو اسی کا سمجھے۔

خلاصہ کلام یہ ہے کہ اپنے آپ کو اس کی ملک اور بندہ بے دام سمجھے، اس کے احکام کو جہاں تک بلا تاویل صریح خلاف حکم خدا نہ ہوں حکم خدا و رسول جانے ۔وباﷲ التوفیق،واﷲ تعالٰی اعلم۔ (فتاوی رضویہ، 26/562، مطبوعہ لاہور)