ویسے تو مرشد کریم کے درجنوں حقوق ہیں جن میں سے فقط دو آپ کے سامنے بیان کرتا ہوں: پہلا :(مرشد کے آداب)   دوسرا : ( مرشد سے محبت )

(1) مرشد کے آداب : کے دس حروف کی نسبت سے مرشد کے دس آداب ملاحظہ ہو ۔

آئمہ دین فرماتے ہیں کہ مرشد کے حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔ اور فرمایا کہ(1)باپ مٹی کے جسم کا باپ ہے اور پیر روح کا باپ ہے اور فرمایا کہ(2) کوئی کام اس کے خلافِ مرضی کرنا مرید کو جائز نہیں۔(3) اس کے سامنے ہنسنا منع ہے(4) اس کی بغیر اجازت بات کرنا منع ہے(5) اس کی مجلس میں دوسرے کی طرف متوجہ ہونا منع ہے(6) اس کی غیبت (یعنی عدم موجودگی) میں اس کے بیٹھنے کی جگہ بیٹھنا منع ہے۔(7) اس کی اولاد کی تعظیم فرض ہے اگر چہ بے جا حال پر ہوں (8) اس کے کپڑوں کی تعظیم فرض ہے۔(10) اس کی چوکھٹ کی تعظیم فرض ہے۔(فتاوی رضویہ ، 12/153 ، مطبوعہ شبير برادرز ، لاهور)

باطنی آداب : باطنی آداب میں سے ہے کہ مرشد کی مجلس میں دل کو تمام خیالات سے خالی رکھا جائے۔

(2)مرشد سے محبّت : کامل مرشد کی محبت کا پہلا اثر یہ ہوتا ہے کہ دل دنیا سے دور اور حق کی طرف راغب ہو جاتا ہے۔

مرشد سے محبت رکھنے والوں کے اوصاف: شیخ حضرت محی الدین ابن عربی قدس سرہ العزیز نے مرشد کی محبت رکھنے والوں کے اوصاف اس طرح بیان فرمائے کہ: (1) مرید اپنے محبوب یعنی مرشد کی خدمت گزاری میں بے ادبی سے ڈرنے والا ہو۔ (2) اپنی طرف سے محبوب کے حق میں جو کچھ بھی کرے اس کو تھوڑا سمجھنے والا ہو۔(3)محبوب کے تھوڑے کو بہت سمجھنے والا ہو۔(4) محبوب کی اطاعت سے چمٹنے والا ہو۔(5) اس(محبوب)کی مخالفت سے بھاگنے والا ہو۔(6) محبوب کی محبت میں دائمی جنون والا ہو ۔(7)اس (محبوب) کی رضا کو پانے (کی کوشش کرنے)والا ہو۔(8) نفس کے تمام مطالب پر (مرشد کے احکام کو ) ترجیح دینے والا ہو۔

اللہ والوں کے بھی مرشد سے محبت کے انداز نرالے ہوا کرتے تھے چنانچہ :

میرے مُرشد برحق: مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ جب بھی اپنے پیر و مرشد کا تذکرہ کرتے تو فرماتے "میرے مُرشد برحق" سید نعیم الدین مرادآبادی رحمۃُ اللہ علیہ نے یہ فرمایا۔

مفتی صاحب کے اس عمل سے یہ ثابت ہوا کہ مرید پر لازم ہے اپنے مرشد کو کامل اور برحق جانے ،اس کے متعلق ذرا بھی شک و شبہ کی گنجائش نہ رکھے اور اپنے خیالات و افکار کو مرشد ہادی کے ہاتھ میں تھما دے اسی میں عافیت ہے۔

الحمد للہ میرے مرشد امیر اہلسنت حضرت الیاس عطار قادری دامت برکاتہم العالیہ کامل و برحق ہیں ۔

با با فرید رحمۃُ اللہِ علیہ کا عشق مرشد: ایک مرتبہ خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ اپنے محبوب خلیفہ حضرت بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ کے یہاں تشریف لائے ۔ آپ نے اپنے مرید (بابا فرید رحمۃُ اللہِ علیہ) جو آپ کے عشق میں گھائل تھے ان کو بلا کر ارشاد فرمایا، اپنے دادا پیر (یعنی خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ) کے قدموں کو بوسہ دو بابا فرید رحمۃُ اللہِ علیہ حکمِ مرشد بجالانے کیلئے دادا پیر کے قدم چومنے جھکے مگر قریب ہی تشریف فرما اپنے ہی پیر ومرشد (بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ) کے قدم چوم لئے۔ بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ نے دوبارہ ارشاد فرمایا، فرید سنا نہیں دادا پیر کے قدم چومو بابا فرید جو مرشد کی حقیقی محبت میں گم تھے فوراً حکم بجا لائے اور دوبارہ دادا پیر کے قدم چومنے جھکے مگر پھر اپنے پیر بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ کے قدم چوم لئے۔ بختیار کاکی رحمۃُ اللہِ علیہ نے دوبارہ ارشاد فرمایا کہ میں تمہیں دادا پیر کے قدم چومنے کا کہتا ہوں مگر تم میرے قدموں کو کیوں چوم لیتے ہو؟ بابا فرید رحمۃُ اللہِ علیہ نے ادب سے سر جھکا کر بڑے ہی مؤدبانہ اور عشق و مستی کے عالم میں حقیقت حال بیان فرمائی۔ حضور میں آپ کے حکم پر دادا پیر غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ کے قدم چومنے ہی جھکتا ہوں ، مگر وہاں مجھے آپ کے قدموں کے سوا اور کوئی قدم نظر ہی نہیں آتے ۔ لہذا میں انہیں قدموں میں جا پڑتا ہوں۔ خواجہ غریب نواز رحمۃُ اللہِ علیہ نے ارشاد فرمایا، بختیار (رحمۃُ اللہِ علیہ ) فرید (رحمۃُ اللہِ علیہ) ٹھیک کہتا ہے ۔ یہ منزل کے اس دروازے تک پہنچ گیا ہے جہاں دوسرا کوئی نظر نہیں آتا۔ (مقامات اولیاء ص 180)

پیارے پیارے اسلامی بھائیو! واقعی اگر کوئی مرید حقیقی عشق مرشد کی لازوال دولت پالے اس کے لئے نہ صرف نیکیاں کرنا آسان بلکہ گناہوں سے بھی یکسر جان چھوٹ سکتی ہے۔

مولانا جامی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اگر تجھے مرشد کی ذات کا عشق نصیب ہو جائے تو اسے اپنی خوش نصیبی جان کیونکہ یہ عشقِ حقیقی تک پہنچنے کا وسیلہ ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں اپنے مرشد کریم امیر اہلسنت دامت برکاتہم العالیہ کے دامن سے مرتے دم تک وابستہ رکھے۔

جہیری مہندی رنگ نہ دیوے کی ہے اس دا لانرا

سوہنرے ملن ہزاراں پر اساں نہیں او یار وٹاراں