مشکل کام کا ثواب زیادہ: جو کام جتنا مشقت والا ہوتا ہے،اس کا ثواب بھی اتنا ہی ہوتا ہے،جیسے صبر کرنا مشقت کا کام ہے، لیکن اس کا بدلہ جنت ہوتا ہے ،صبر اگر آسان ہوتا تو پھر اس کے عوض جنت نہ ہوتی، صبر کرنا مشقت ہے، اس لئے اس کے عوض میں جنت ہے۔اسی طرح سے نماز ِعشا میں مشقت ہوتی ہے، لیکن اس کا اجر زیادہ ہوتا ہے، کیونکہ مشقت والے کام میں اجر زیادہ ہوتا ہے۔تلخ حقیقت:لوگ عشا کی نماز اپنی کاہلی اور سستی کی وجہ سے چھوڑ دیتے ہیں، مشقت کا کام سمجھتے ہیں، جبکہ اسے خشوع و خضوع کے ساتھ پڑھا جائے تو اس میں زیادہ سُرور آتا ہے۔عشا کو مؤخر کرنا کیسا؟آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:عشا کی نماز تہائی رات تک مؤخر کرو ۔ اس سے ثابت ہوا ! عشا کی نماز بوجھ نہیں، بلکہ اجرِ عظیم تصور کر کے نماز ادا کی جائے۔عشا کے لغوی و اصطلاحی معنی:عشا کے لغوی معنی رات کی ابتدائی تاریکی کے ہیں، چونکہ یہ نماز اندھیرا ہوجانے کے بعد ادا کی جاتی ہے، اس لئے اس نماز کو نماز ِعشا کہا جاتا ہے۔سب سے پہلے نماز ِعشا کس نے پڑھی؟شرح معانی الآثار میں ہے:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے سب سے پہلے نمازِ عشاادا فرمائی اور یہ نماز حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پسندیدہ نماز ہے۔فرامینِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،تاجدارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: سب نمازوں میں زیادہ گراں یعنی بوجھ والی منافقوں پر نمازِ عشا اور فجر ہے اور جو ان میں فضیلت ہے اگر جانتے تو ضرور ضرور حاضر ہوتے، اگرچہ سرین(یعنی بیٹھنے میں بدن کا جو حصہ زمین پر لگتا ہے اس) کے بل گھسٹتے ہوئے، یعنی جیسے بھی ممکن ہوتا آتے۔(فیضان نماز)2۔ تابعی بزرگ حضرت سعید بن مسیب رحمۃ اللہ علیہ سے مروی ہے، سرورِدوجہاں صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ عبرت نشان ہے: ہمارے اور منافقین کے درمیان علامت (یعنی پہچان)عشا اور فجر کی نماز میں حاضر ہونا ہے، کیونکہ منافقین ان نمازوں میں آنے کی طاقت نہیں رکھتے۔3۔فرمانِ مصطفیٰصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے نمازِ عشا باجماعت پڑھی، اس نے تمام رات نماز پڑھی اور جس نے فجر کی نماز باجماعت پڑھی، گویا اس نے سارا دن نماز پڑھی۔(فیضان نماز)4۔فرمانِ مصطفیصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے فجرو عشا کی نماز باجماعت پڑھی اور جماعت سے کوئی بھی رکعت فوت نہ ہوئی ہو، اس کے لئے جہنم ونفاق سے آزادی لکھ دی جاتی ہے۔فرمایا: جہاں تک تعلق ہے عشا کی نماز کا، یاد رکھو !قبر ایک تاریک کوٹھری ہے، روزِ قیامت بھی تاریک، تو جو شخص رات کے اندھیرے میں نمازِ عشا کی ادائیگی کے لئے چلتا ہے، اللہ پاک اس پر جہنم کو بھی حرام فرما دیتا ہے اور اللہ پاک اس کو ایک ایسا نور عطا فرمائے گا بروزِ محشر جس کی برکت سے وہ پل صراط کو پار کر جائے گانیز اس کی قبر میں بھی نور علی نور معاملات فرمائے جائیں گے۔ بقول مفتی نذیر احمد رضا قادری۔ان فرامینِ مصطفی سے ہمیں پتہ چلتا ہے کہ نمازِ عشا کتنی عظیم ہے کہ اس کو پڑھنے پر کتنا ثواب ملتا ہے تو پھر کیوں ہم عظیم وکبیر ثواب کو چھوڑیں اور نمازِ عشا کو ترک کرنے کا عذاب اپنے سر لیں! ہمیں چاہئے کہ عشا کی نماز خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کریں اور صرف عشا ہی نہیں، بلکہ تمام نمازیں، کیونکہ نماز فرض ہے اور فرض مطلب جو آپ پر لازم ہے، ضروری ہے لہٰذا ترک کرنے کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا، یعنی ہمیں ہر حال میں نماز ضرور بضرور پڑھنی ہے، یہاں تک کہ نماز کے احکام اتنے سخت ہیں کہ ایک پانی میں ڈوبتے ہوئے شخص پر نماز فرض ہے، اس کا طریقہ بھی موجود ہے تو صحیح سالم شخص پر تو بدرجہ اولیٰ نماز کی ادائیگی ہے کہ جب پانی میں کوئی شخص ڈوبتا ہے تو اس کا بھی طریقہ ارشاد ہے تو ہمیں کیا نماز چھوڑنی چاہئے؟ نماز کی بہت اہمیت و فضیلت ہے اور اس پر بہت ثواب ہے تو ہم تو ہمیشہ فائدے کا سودا کرتی ہیں تو پھر یہاں پر نماز چھوڑ کر نقصان کا سودا کیوں کریں؟انسان کی تو فطرت میں ہے کہ وہ فائدے کا سودا کرتا ہے اور ہر ذی عقل کو نظر آتا ہے کہ نماز کتنی مفید ہے! جو لوگ اپنے موٹاپے سے پریشان ہیں، وہ پانچوں وقت کی نماز ادا کریں تو ان شاءاللہ فائدہ خود دیکھیں گی، جو رزق روزی کی وجہ سے پریشان ہیں تو وہ بھی آرامِ قلب پائیں گی۔ ہمیں چاہئے کہ نماز کی پابندی کریں اور اللہ پاک کا قرب پائیں اور جو جوان ہیں، انہیں تو لازمی نماز ادا کرنی چاہئے کہ جوانی کی عبادت تو زیادہ مقبول ہوتی ہے۔