آج کل لوگ ذرا ذرا سی بات پر بھی رشتے داریاں ختم کردیتے ہیں ، رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کے بجائے ان سے قطع تعلقی کر بیٹھتے ہیں اور ان کی عزتوں کو خراب کرتے ہیں۔مگر افسوس صد کروڑ افسوس امیر رشتے داروں کے ساتھ تو ہر کوئی اچھے سلوک کے ساتھ پیش آتا ہے مگر بے چارے بےبسی غریب رشتہ داروں کو پوچھنا کوئی گوارہ نہیں کرتا۔جبکہ اللہ عزوجل نے قرآن مجید میں ہمیں رشت ے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرنے کا حکم ارشاد فرمایا ہے: وَ اٰتِ ذَا الْقُرْبٰى حَقَّهٗ وَ الْمِسْكِیْنَ وَ ابْنَ السَّبِیْلِ تَرجَمۂ کنز الایمان: تَرجَمۂ کنز الایمان: اور ر شتہ داروں کو ان کا حق دے اور مسکین اور مسافر کو۔(سورہ بنی اسرائیل ،26)

ایک اور مقام پر اللہ عزوجل نے ارشاد فرمایا: وَ بِالْوَالِدَیْنِ اِحْسَانًا وَّ ذِی الْقُرْبٰى وَ الْیَتٰمٰى وَ الْمَسٰكِیْن ترجمہ کنزالایمان : اور ماں باپ کے ساتھ بھلائی کرو اور رشتہ دار وں اور یتیموں اور مسکینوں سے۔(پ ۱، سورہ البقرہ آیت۸۳)

بیان کردہ آیت کے تحت حکیم الامت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ نے بیان فرمایا کہ آیت میں اپنے رشتے داروں سے احسان کرنے کا حکم ہے اور سب سے زیادہ حق ماں باپ کا ہے پھر باقی رشتے دار ان کے بعد ہیں ۔ (تفسیر نعیمی،ص 447 ملخصا)

صلہ رحمی کے چند فضائل:

۱۔ ہمارے پیارے آقا مکی مدنی مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:ہر حسن سلوک صدقہ ہے غنی کے ساتھ ہو یا فقیر کے ساتھ۔(مجمع الزوائد،۳۳۱/ ۳ ر قم : ۴۷۵۴)

۲۔ حضور پُر نور شافع یوم النشور صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس نے والدین سے حسن سلوک کیا اسے مبارک ہو کہ اللہ پاک نے اس کی عمر بڑھادی۔(مستدرک 213/5 حدیث ، 7339)

3۔ فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم : جسے یہ پسند ہو کہ اس کی عمر اور رزق میں اضافہ کردیا جائے تو اسے چاہیے کہ اپنے والدین کے ساتھ اچھا برتاؤ کرے اور اپنے رشتہ داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرے۔

(الترغیب والترہیب ج ۳، ص ۲۱۷)

۴۔بالفرض اگر کوئی رشتہ دار ہمارے ساتھ بدسلوکی کرے لیکن تب بھی ہمیں اس کے ساتھ اچھا سلوک کرنا چاہیے۔ حضرت سیدنا ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم نورِ مجسم صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:جسے یہ پسند ہو کہ اس کے لیے جنت میں محل بنایا جائے اور اس کے درجات بلند کیے جائیں اسے چاہیے کہ جو اس پر ظلم کرے یہ اسے معاف کرے جو اسے محروم کرے یہ اسے عطا کرے اور جو اس سے قطع تعلق کرے ( یعنی تعلق توڑے) یہ اس سے ناطہ ( یعنی تعلق) جوڑے۔(مستدرک للحاکم ۳/۱۲ حدیث: 3215)

تو برائے وصل کردن آمدی

نے برائے فصل کردن آمدی

ترجمہ : یعنی تو جوڑ پیدا کرنے کے لیے آیا ہے توڑ پیدا کر نے کے لیے نہیں آیا۔

صلہ رحمی میں خواتین کا کردار:

صلہ رحمی کے معاملے میں ماں ایک مثالی کردار ادا کر سکتی ہے وہ اس طرح کہ اولاد کی اچھی تربیت کرے اور خود نیک بنے اوررشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک کرے گھر میں اچھا ماحول بنائے کیونکہ بچے کی پہلی درسگاہ ماں کی گود ہے ماں اگر نیک ہو تو اولاد پھر بابا فرید گنج شکر رحمۃ اللہ علیہ کی صورت میں ملتی ہے ماں اگر قرآن پاک پڑھنے والی ہو تو پھر حضور غوث اعظم رحمۃ اللہ علیہ ماں کے پیٹ میں ہی اٹھارہ پارے حفظ کرلیتے ہیں ،تو ماں اگر رشتے داروں کے اچھا سلوک اچھا برتاؤ کرتی ہو گی اور اولاد کو اس کی نصیحت بھی کرتی ہوگی تو پھر ان شا اللہ عزوجل اولاد بھی والدین کے ساتھ بھلائی ، ر شتے داروں کے ساتھ اچھاسلوک کرنے والی بنے گی۔

صلہ رحمی کی مختلف صورتیں:

صلہ رحمی ( یعنی رشتے داروں کے ساتھ اچھا سلوک کرنے کی مختلف صورتیں ہوسکتی ہیں جیسے۔

ان کو تحفہ دینا، انہیں سلام کرنا ان سے ملاقا ت کرنا، انہیں وقت دینا، ان سے بات چیت کرنا، ان کے ساتھ نرمی سے پیش آنا، ان کی جائز کام میں مدد کرنا، اگر وہ بیمار ہو تو ان کی عیادت کرنا، اگر وہ انتقال کر جائے تو ان کے جنازے میں شریک ہونا، ان سے کال پر بات کرلینا، انہیں خطوط بھجوا دینا اگر وہ پردیس میں ہوں وغیرہ وغیرہ۔

اگر آپ کی کسی رشتہ دار سے ناراضگی ہے تو اگرچہ قصور اسی کا ہو صلح کرلیجئے اور خود آگے بڑھ کر تعلقات کو بہتر بنالیجئے اگر جھکنا بھی پڑے تو بیشک رضائے الہی کے لیے جھک جائیں ان شآ اللہ سر بلندی پائیں گے ۔

فرمانِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہے:

من تواضع اللہ رفعہ اللہ ۔ یعنی جو اللہ کے لیے عاجزی کرتا ہے اللہ تعالیٰ اسے بلندی عطا فرماتا ہے۔(شعب الایمان ج ۶ص 276حدیث: 814)

اللہ ہمیں رشتے داروں کے ساتھ صلہ رحمی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ امین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وسلم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں