ہمارے معاشرے میں نااتفاقی اور محبت و الفت کی کمی کی ایک بہت بڑی وجہ صلہ رحمی (یعنی رشتے داروں کے ساتھ حسن سلوک)  کی کمی ہے۔

یاد رکھیں! مرد ہو یا عورت ہر ایک پر صلۂ رحمی واجب اور قطعِ رحمی حرام ہے۔ جیسا کہ بہارِ شریعت میں ہے۔ساری اُمت کا اس پر اتفاق ہے کہ صلۂ رحم واجب ہے اور قطع رحم حرام ہے۔ (بہارِ شریعت، ج 3، ح 16، ص 561)

صلہ رحمی کی تعریف: صلہ رحم کے معنی ہیں رشتے کو جوڑنا ہے یعنی رشتے والوں کے ساتھ نیکی اور سلوک (بھلائی) کرنا۔ (بہارِ شریعت، ج 3، ص 558)

ایک عورت صلہ رحمی کو کیسے بڑھا سکتی ہے اس کو درج ذیل نکات اور روایات سے ملاحظہ کیا جا سکتا ہے۔

صلہ رحمی قائم رکھنے کے لیے عورتوں کا غیبت و چغلی اور ایک کی بات دوسرے فرد کو بلا اجازت شرعی بتانے سے بچنا بہت ضروری ہے کیوں کہ اس سے نفرتیں بڑھتی اور محبت و پیار کم ہوتا ہے اور یہ کام عورتیں زیادہ کرتی ہیں۔ جیسا کہ میراۃالمناجیح میں ہیں غیبت عورتیں زیادہ کرتی ہیں انہیں اس سے عبرت لینی چاہیے۔ (میراۃالمناجیح ج 6، ص 619)

ایک عورت بیوی ہونے کی حیثیت سے اپنے شوہر کے ساتھ صلہ رحمی کرے، شوہر کی ہر جائز بات پر عمل کرے۔ چنانچہ آخری نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا فرمان خوشبودار ہے۔ قسم ہے اس کی جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے اگر قدم سے سر تک شوہر کے تمام جسم میں زخم ہوں جن سے پیپ اور کچ لہو یعنی پیپ ملا خون بہتا ہو پھر عورت اسے چاٹے بے تب بھی حق شوہر ادا نہ کیا۔ (مسند احمد بن حنبل ج 4، ص 318، حدیث 12614)

بات بات پر عورت روٹھ کر میکے نہ جایا کریں کیوں کہ یہ بھی صلہ رحمی قائم رکھنے میں بڑی رکاوٹ ہے۔ جیسا کہ حدیث پاک میں ہیں۔ بیوی بغیر اجازت شوہر کے گھر سے نہ جائے اگر ایسا کیا تو جب تک توبہ نہ کرے یا واپس لوٹ نہ آئے اللہ اور فرشتے اس پر لعنت کرتے ہیں۔ (کنز العمال، ج 16، ص 144، حدیث 44801، ملخصا)

عورت خود اگر خود کو حسن اخلاق کا پیکر بنا لے تو صلہ رحمی کرنا بہت آسان ہوگا کیونکہ حسن اخلاق اور نرمی کے ذریعے ہر کام پایہ تکمیل تک پہنچ سکتا ہے۔ حدیث پاک میں ہے۔ بے شک اللہ نرمی فرمانے والا ہے اور نرمی کو پسند فرماتا ہے اور نرمی پر وہ کچھ عطا فرماتا ہے جو سختی پر آتا نہیں فرماتا۔ ( سنن ابو داؤد، حدیث 4807)

اللہ پاک ہم سب کو صلہ رحمی اختیار کرنے اور اپنی پسند کا بندہ بنائے۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں