سیّد الشہداء حضرت امام حسین رضی اللہ عنہٍ کی ولادت 4شعبان المعظم کو مدینہ منورہ میں ہوئی،  حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم نے آپ رضی اللہ عنہ کا نام حسین اور شبیر رکھا اور آپ کی کنیت ابو عبداللہ اور لقب"سِبْطِ رسُولُ اللہ اور ریْحَانۃُ الرَّسُول اور آپ کے برادرِ معظم کی طرح آپ کو بھی جنتی جوانوں کا سردار اپنا فرزند فرمایا۔

خصوصیات:

1۔راکبِ دوشِ مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم جگر گوشہ مرتضٰی، دلبندِ فاطمہ، سلطانِ کربلا، سیّد الشہداء، امام عالی مقام، امام عرش مقام، امام ہمام، امام تشنہ کام حضرت سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہم اجمعین سراپا کرامت تھے، حتٰی کہ آپ کی ولادت باسعادت بھی با کرامت ہے، حضرت سیّدی عارف باللہ نورالدین عبدالرحمن جامی قدس سرہ السامی شواھدالنبوہ میں فرماتے ہیں، سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی ولادت باسعادت 4 شعبان المعظم، 4 ہجری کو مدینہ منورہ میں منگل کے دن ہوئی، منقول ہے کہ امام پاک رضی اللہ عنہ کی مدتِ حمل چھ ماہ ہے، حضرت سیدنا یحیٰی علی نبینا وعلیہ الصلاۃ والسلام اور امام عالی مقام امام حسین رضی اللہ عنہ کے علاوہ کوئی ایسا بچہ زندہ نہ رہا، جس کی مدّت حمل چھ ماہ ہوئی ہو۔

حضرت علامہ جامی قدس سرہ السامی مزید فرماتے ہیں، حضرت امام عالی مقام سیدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کی شان یہ تھی کہ جب اندھیرے میں تشریف فرما تے تو آپ کی مبارک پیشانی اور دونوں مقدّس رُخسار سے انوار نکلتے اور قُرب و جوار ضیابار یعنی روشن ہو جاتے۔

تیری نسل پاک میں ہے بچہ بچہ نور کا

تو ہے عینِ نور تیرا سب گھرانہ نور کا

2۔مسجد نبوی میں عصر کی نماز ہو رہی تھی، امام الانبیاءعلیہ السلام جماعت کرا رہے تھے اور مقتدی حضرت صدیق اکبر، حضرت عمر فاروق، حضرت عثمان غنی اور حضرت علی المرتضی رضی اللہ عنہم اجمعین تھے اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ کی چھ سال کی عمر تھی، وہ مدینہ منورہ کی گلیوں میں کھیل رہے تھے، وہ کبھی مدینے کے درودیوار کو دیکھتے اور کبھی نانا مصطفیٰ صلی اللہ علیہ وسلم کے مصلّے کو، کملی (علماء نے اس کی ممانعت فرمائی ہے)والے آقائےدوعالم سجدے میں گئے تو حضرت حسین رضی اللہ عنہ نے چھلانگ لگائی اورنبی علیہ السلام کے کندھوں پر سوار ہو گئے، عرش والے حیران رہ گئے، فرشتے دم بخود تھے اور حوریں محوِ حیرت، مگر روحِ فطرت مسکرا رہی تھی، جبرائیل پکار اٹھے کہ مولا یہ کیا نظارہ ہے کہ بچہ حسین امام الانبیاء کے کندھوں پر نماز میں اور سجدے کی حالت میں سوار ہوگیا ہے، خدا نے فرمایا:جبرائیل خاموش!آج جس بچے حسین کو تم سجدے میں نانا مصطفی علیہ السلام کے کندھوں پر دیکھ رہے ہو، کل اسی بچے حسین کو میدانِ کربلا میں نیزے پر چڑھ کر قرآن پڑھتے بھی دیکھنا۔

سیّدالمرسلین نے ارادہ کیا کہ سجدے سے سرِ اقدس اُٹھاؤں، مگر جبرائیل نے آکر فرمانِ خداوندی سنایا کہ جب تک حسین اپنی مرضی سے نہ اُتریں، آپ سجدے سے سر نہ اٹھائیے، کملی والے نے نماز لمبی کر دی اور تین یا پانچ بار کی بجائے 72 دفعہ تسبیح پڑھی، حضرت حسین رضی اللہ عنہ اپنی مرضی سے نانا پاک کے کندھوں پر سے اُترے اور ہنستے کھیلتے گھر آگئے، آکر اپنی امّی سے سارا قصّہ کہہ سُنایا، قصّہ سُن کرخاتونِ جنت نے فرمایا:بیٹا حسین تم نے نماز کا خیال نہ کیا اور تم نے نبوت کا لحاظ نہ کیا، بیٹے نے زبانِ حال عرض کیا، امّا جان!پریشان نہ ہوں، یہ ایک راز کی بات ہے۔ ماں نے پوچھا بیٹا! وہ کیا راز ہے؟ عرض کی:امّاں جان! میرے نانا مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے لئے بہتّر تسبیحیں پڑھی ہیں اور کربلا کے میدان میں اس کے بدلے اپنے نانا کے دین کے خاطر 72 تن قربان کر دوں گا۔سبحان اللہ

3۔یزیدی فوج کا ایک سخت دل مُزنی شخص امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے سامنے آکر یہ بکنے لگا، "دیکھو تو سہی دریائے فرات کیسا موجیں مار رہا ہے، خدا کی قسم!تمہیں اس کا ایک قطرہ بھی نہ ملے گا اور تم یوں ہی پیا سے ہلاک ہوجاؤگے"، امام تشنہ کام رضی اللہ عنہ نے بارگاہِ ربّ الانام میں عرض کی:

"اَللّٰھُمَّ اَمِنْہ عَطْشَانًا"یعنی یا اللہ عزوجل اس کو پیاسا مار۔"

امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کے دُعا مانگتے ہی اس بے حیا مُزنی کا گھوڑا بدک کر دوڑا، مُزنی پکڑنے کے لئے اس کے پیچھے بھاگا، پیاس کا غلبہ ہو ا، اس شدت کی پیاس لگی کہ العطش! العطش! ہائے پیاس! ہائے پیاس! پکارتا تھا، مگر پانی جب اس کے منہ سے لگاتے تھے تو ایک قطرہ بھی نہیں پی سکتا تھا، یہاں تک کہ اِسی شدت ِپیاس میں تڑپ تڑپ کر مر گیا۔

4۔امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کی شہادت کے بعد آپ کے سرِ منور سے مُتعدد کرامات کا ظہور ہوا، اہلِ بیت علیہم الرضوان کے قافلے کے بغیر افراد 11 محرم الحرام کو کوفہ پہنچے، جبکہ شھدائے کربلا علیہم الرضوان کے مبارک سر اُن سے پہلے ہی وہاں پہنچ چکے تھے، امام عالی مقام رضی اللہ عنہ ھاسرِانور رُسوائے زمانہ یزیدی بد بخت "خولی بن یزید" کے پاس تھا، یہ مردود رات کے وقت کوفہ پہنچا، گورنر ہاؤس کا دروازہ بند ہو چکا تھا، یہ سرِ انور کو لے کر اپنے گھر آ گیا، ظالم نے سرِ انور کو بے ادبی کے ساتھ زمین پر رکھ کر ایک بڑا برتن اس پر اُلٹ کر اس کو ڈھانپ دیا اور اپنی بیوی"نوار" کے پاس جا کر کہا، میں تمہارے لئے زمانے بھر کی دولت لایا ہوں، وہ دیکھ حسین بن علی کا سر تیرے گھر پر پڑا ہے، وہ بگڑ کر بولی:تجھ پر خدا کی مار، لوگ تو سیم و زر لائیں اور تو فرزندِ رسول کا مبارک سر لایا ہے، خدا کی قسم! اب میں تیرے ساتھ کبھی نہ رہوں گی، نوار یہ کہہ کر اپنے بچھونے سے اُٹھی اور جدھر سرِ انور تشریف فرما تھا، ادھر آ کر بیٹھ گئی، ُ اس کا بیان ہے، خدا کی قسم! میں نے دیکھا کہ ایک نور برابر آسمان سے اُس برتن تک مثلِ سُتون چمک رہا تھا اور سفید پرندے اس کے ارد گرد منڈلا رہے تھے۔سبحان اللہ

5۔حضرت سیّدنا شیخ خلیل ابی الحسن تمارسی رحمۃ اللہ علیہ سرِ انور کی زیارت کے لئے جب مشھد مبارک کے پاس حاضر ہوتے تو عرض کرتے، السلام علیکم یا ابنِ رسول اللہ اور فوراً جواب سنتے، وعلیکم السلام یا ابالحسن، ایک دن سلام کا جواب نہ پایا، حیران ہوئے اور زیارت کر کے واپس آگئے، دوسرے روز پھر حاضر ہو کر سلام کیا تو جواب تو جواب پایا:عرض کی ، یا سیّدی! کل جواب سے مشرف نہ ہوا، کیا وجہ تھی؟ فرمایا:اے ابو الحسن!کل اِس وقت میں اپنے نانا جان رحمتِ عالمیان صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمتِ اقدس میں حاضر تھا اور باتوں میں مشغول تھا۔ حضرت سیّدنا زید بن اَرقم رضی اللہ عنہ کا بیان ہے، جب یزیدیوں نے حضرت امام عالی مقام سیّدنا امام حسین رضی اللہ عنہ کا سرِ انور کو نیزے پر چڑھا کر کوفہ کی گلیوں میں گشت کیا، اُس وقت میں اپنے مکان کے بالاخانے پر تھا، جب سرِ مبارک میرے سامنے سے گُزرا تو میں نے سُنا کہ سرِ پاک نے (پارہ 15، سورۃ الکہف کی آیت نمبر 9)تلاوت فرمائی،

ترجمہ کنزالایمان:کیا تمہیں معلوم ہوا کہ پہاڑ کی کھوہ (غار)اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔سبحان اللہ

سورہ کہف کی تلاوت کیوں کررہے تھے، اس لئے کہ سورۃ کہف اصحابِ کہف کے لئے نازل ہوئی تھی، اس کا قرآن نے عجیب و غریب واقعہ قرار دیا ہے۔

اِسی طرح ایک دوسرے بزرگ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا کہ جب یزیدیوں نے سرِ مبارک کو نیزہ سے اُتار کر ابنِ زیاد بد نہاد کے محل میں داخل کیا، تو آپ رضی اللہ عنہ کے مقدس ہونٹ ہل رہے تھے اور زبانِ اقدس پر پارہ 13، سورۃ ابراہیم کی ایت نمبر 42 کی تلاوت جاری تھی،

ترجمہ کنزالایمان:اور ہرگز اللہ کو بے خبر نہ جاننا ظالموں کے کام سے۔"

منہال بن عمرو کہتے ہیں واللہ میں نے بچشمِ خود دیکھا کہ جب امام حسین رضی اللہ عنہ کے سرِانور کو لوگ نیزے پر لئے جاتے تھے، اُس وقت میں"دمشق"میں تھا، سرِ مبارک کے سامنے ایک شخص سورہ کہف پڑھ رہا تھا، جب وہ آیت نمبر 9 پر پہنچا:اَنَّ اَصْحٰبَ الْکَہْفِ وَالرَّقِیْمِ کَانُوْا مِنْ اٰیٰتِنَا عَجَبًا۔

" اور جنگل کے کنارے والے ہماری ایک عجیب نشانی تھے۔"

اس وقت اللہ تعالی نے قوتِ گویائی بخشی، تو سرِ اَنور نے بزبانِ فصیح فرمایا:اَعْجَبَ مِنْ اَصْحٰبَ الْکَہْفِ قتلی وَحَمْلِیً۔

اصحاب کہف کے واقعہ سے میرا قتل اور میرے سر کو لئے پھرنا عجیب تر ہے۔"

صدرالافاضل حضرت علامہ مولانا سیّد محمد نعیم الدّین مرادآبادی علیہ الرحمہ اپنی کتاب سوانح کربلا میں یہ حکایت نقل کرنے کے بعد فرماتے ہیں:"درحقیقت بات یہ ہے کیونکہ اصحابِ کہف پر کافروں نے ظلم کیا تھا اور حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو ان کے نانا جان صلی اللہ علیہ وسلم کی امت نے مہمان بنا کر بلایا، پھر بے وفائی سے پانی تک بند کر دیا، آل و اصحاب علیھم الرضوان کو حضرت امام باقر رضی اللہ عنہ کے سامنے شہید کیا، پھر خود حضرت امام عالی مقام رضی اللہ عنہ کو شہید کیا، اہل بیت کرام علیھم الرضوان کو اسیر یعنی قیدی بنایا، سرِ مبارک کو شہر شہر پھرایا، اصحابِ کہف سالہا سال کی طویل نیند کے بعد بولے، یہ ضرور عجیب ہے، مگر سرِانور کا تنِ مبارک سے جُدا ہونے کے بعد کلام فرمانا عجیب تر ہے، یہ حضرت اِمام عالی مقام کی سب سے بڑی خصوصیت تھی۔

کملی والے نے حضرت حسین کے کانوں میں اذان کہی اور ساتھ ہی فرمایا: بیٹا!حسین یہ تیرے نانا مصطفٰی کی آواز ہے، اس کی لاج رکھنا، امام حسین رضی اللہ عنہ نے آنکھ کھولی اور نا نا پاک کی طرف دیکھا اور نگاہ سے نگاہ ملی تو حضرت امام حسین نے نگاہوں میں جواب دیا کہ نانا جان!آپ فکر نہ کریں، اگر آواز آپ کی ہے تو کان حسین رضی اللہ عنہ کے ہیں اور لوگ تو مسجدوں میں قرآن پڑھتے ہیں، مگر نانا جان اگر وقت آیا تو میں نیزے پر بھی قرآن پڑھ کر سُناؤں گا۔

جب تک دُنیا قائم رہے گی، امام حسین کا نام زندہ رہے گا، اس لئے نہیں کہ وہ نواسہ رسول ہیں، اس لئے نہیں کہ وہ جگر گوشہ بتول ہے اور اس لئے نہیں کہ وہ نوِر نگاہِ علی ہے، نواسہ رسول ہونا بڑی سعادت ہے، جگر گوشہ بتول ہونا بڑی عزت، لیکن امام حسین کا نام اس لئے بھی زندہ رہے گا کہ خدا کو ناز ہے اور ہو بھی کیوں نہ؟ سجدہ فرش والے بھی کرتے ہیں اور عرش والے بھی، زمین والے بھی کرتے ہیں اور آسمان والے بھی، جنت کی حوریں بھی کرتی ہیں اور بہشت کے غلمان بھی اور زمین سے لے کر آسمان تک اور فرش سے لے کر عرش تک کائنات کا ذرّہ ذرّہ خداوند تعالیٰ کی حمد و ثنا اور تسبیح و تہلیل میں ہر وقت مشغول رہتا ہے، مگر عرشِ عظیم کے سائے میں سجدہ کرنا آسان ہے، جنت کی پُر کیف فضاؤں میں حمد و ثنا کرنی مشکل نہیں، مسجد کے حجرے میں اللہ اللہ کرنا آسان ہے، لیکن جوان بیٹے کی لاش پر گھوڑے دوڑتے دیکھ کر، مظلوم اصغر کے حلق پر تیر پیوست ہوتا دیکھ کر، عباس کے بازو قلم ہوتے دیکھ کر، عون و محمد کی لاش تڑپتی دیکھ کر اور پھر اپنے جسم پر سینکڑوں زخم کھانے کے بعد کربلا کی تپتی ہوئی ریت پر بارگاہِ الٰہی میں سجدہ کرنا حسین ہی کا کام ہے۔

میدانِ کربلا میں جو کچھ ہوا، وہ کیوں ہوا؟ اور حضرت امام حسین رضی اللہ عنہ نے ایسا کیوں کیا؟ تواس کا ایک ہی جواب ہے اور وہ یہ کہ امام عرش مقام کے کانوں میں آخری دم تک نانا مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کی آواز آتی رہی کہ کسی فاسق و فاجر حکمران کی اطاعت اور سیاہ کا رو گنہگار بادشاہ کی بیعت ایک مسلمان کے لئے باعثِ ذلت ہے اور پھر اس لئے وہ جانتے تھے کہ اِلَّا اللہ کی بنیاد لَااِلٰہ سے قائم ہے۔