علم حدیث کی اہمیت

Mon, 20 Apr , 2020
4 years ago

لغوی معنی: حديث کا لغوی معنی بات کرنا، گفتگو کرنا، وغیرہ کے ہیں۔

اصطلاحی معنی : حضور نبی اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال افعال ، تقریرات اور احوال کو حدیث کہتے ہیں۔

حدیث کی اقسام :حدیث کی مندرجہ ذیل تین اقسام ہیں۔ (1) حدیث قولی(2) حدیث فعلی(3) حدیث تقریری ۔

حدیث قولی : وہ تمام تر روایات جس میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے کسی کام کے کرنے کا حکم دیا ہو قولی حدیث کہلاتی ہے۔

حدیث فعلی : ایسی روایات جن میں نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فعل کا تذکرہ ہو حدیث فعلی کہلاتی ہے۔

حدیث تقریری : ایسی روایت جس میں حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صحابہ کا وہ عمل درج ہو جو آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے سامنے کیا گیا ہو اور آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس سے منع نہ فرمایا ہو، حدیث تقریری کہلاتی ہے۔

حدیث اور سنت میں فرق:

(1) حدیث میں حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اقوال شامل ہوتے ہیں۔

(2)حدیث عام ہے یعنی حدیث کا اطلاق سنت سمیت قول اور فعل پر کیا جاتا ہے، جب کہ سنت خاص ہے اور اس سے مراد آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا طریقۂ زندگی ہے ۔

حدیث کی اہمیت اور اس کی دینی حیثیت :

جس طرح قران کریم ہمارے لئے حجت ہے اسی طرح حدیث بھی حجت ہے، قرآن کی رو سے حضور اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے فرمان کی کیا حیثیت اور اہمیت ہے کچھ آیات سے جائزہ لیتے ہیں۔

(1)اسوہ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم امت کے لئے ذریعہ رہنمائی، ارشاد باری تعالی ہے:

لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِیْ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُسْوَةٌ حَسَنَةٌ ( سورہ الاحزاب آیت ۲۱)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک تمہیں رسول اللہ کی پیروی بہتر ہے

قرآن کریم کی عملی تفسیر سیرت مصطفی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم میں ہے ،مسلمان کو ہر معاملے میں رہنمائی اسوہ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے ملتی ہے ۔

(2)اتباع رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم ایمان کی نشانی :

اللہ تعالیٰ نے اپنی ذات اور قرآن پر ایمان لانے والوں کو نبی کریم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اتباع کا حکم دیا ہے۔ یعنی ایمان کی تکمیل رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی سنت کی اتباع سے ہوتی ہے۔

فَاٰمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهِ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ الَّذِیْ یُؤْمِنُ بِاللّٰهِ وَ كَلِمٰتِهٖ وَ اتَّبِعُوْهُ لَعَلَّكُمْ تَهْتَدُوْنَ

تَرجَمۂ کنز الایمان: تو ایمان لاؤ اللہ اور اس کے رسول بے پڑھے غیب بتانے والے پر کہ اللہ اور اُس کی باتوں پر ایمان لاتے ہیں اور ان کی غلامی کرو کہ تم راہ پاؤ ۔(الاعراف 158)

(3)رسول اللہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نافرمانی حکمِ الہی کی خلاف ورزی۔

اگر کوئی شخص حضور اکرم صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کے حکم کے مطابق نہیں چلتا تو وہ قرآن اور آپ صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم کی خلاف ورزی کرتا ہے ۔

وَ مَاۤ اٰتٰىكُمُ الرَّسُوْلُ فَخُذُوْهُۗ-وَ مَا نَهٰىكُمْ عَنْهُ فَانْتَهُوْاۚ-

تَرجَمۂ کنز الایمان: اور جو کچھ تمہیں رسول عطا فرمائیں وہ لو (ف۲۲) اور جس سے منع فرمائیں باز رہو

(سورہ حشر:7)

(4)اطاعتِ رسول صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرض ہے :

الله تعالی نے اہل ايمان سے مخاطب ہو کر جہاں اپنی اطاعت کو لازم قرار دیا وہیں اپنے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی اطاعت بھی لازم قرار دی، اس لئے اگر کوئی قرآن پر ایمان رکھے مگر حدیث کا انکار کردے تو یہ حکمِ الہی سے روگردانی ہے۔

ارشاد باری تعالیٰ ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ

تَرجَمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ کا حکم مانو اور رسول کا حکم مانو۔