علمائے کرام آپ علیہ السلام کا نسب بیان کرتے ہوئے یوں بیان فرماتے ہیں الیاس بن فنحاص بن العیزارین ہارون . آپ علیہ السلام کو الیاس نشبی بھی کہتے ہیں اور بعض نے یوں بھی کہا الیاس بن العازرین العیزار بن ہارون بن عمران. بھی کہتے ہیں حضرت الیاس علیہ السلام جب تشریف. لائے تو اس وقت لوگ ایک بعل نامی بت کی پوجا کرتے تھے تو آپ علیہ السلام نے ان لوگوں کو بت کی پوجا کرنے سے منع فرمایا کہ وہ بت کی پوجا چھوڑ دیں، لیکن آپ علیہ السلام نے بہت بڑی قربانی دی۔ آئیے آپ علیہ الصلوۃ والسلام کی صفات پڑھتے ہیں۔

حضرت الیاس علیہ السلام رسولوں میں سے ہیں: اللہ تعالیٰ قرآن میں ارشاد فرماتا ہے۔ (صفت آیت 123) ترجمۂ کنزالایمان: کنز العرفان : اور بیشک الیاس ضرور رسولوں میں سے ہے۔

تفسیر : حضرت الیاس علیہ الصلوة والسلام حضرت ہارون علیہ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور آپ علیہ السلام حضرت موسی علیہ السلام کے بہت عرصہ بعد بعلبک اور ان کے اطراف کے لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے

(2) الله کے چنے ہوئے بندے تھے: اللہ تعالیٰ قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے ! الأَعِبَادَ اللهِ المُخلصين (صفت آیت 128) ترجمة كنز العرفان مگر الله کے چنے ہوئے بندے ۔

تفسیر:اس قوم میں سے برگزیدہ بندے جو حضرت الیاس علیہ السلام پر ایمان لائے انہوں نے عذاب سے نجات پائی

(3) آپ علیہ السلام کی ثنا باقی رکھی: الله تعالی قرآن پاک ارشاد فرماتا ہے : وتَرَكْنَا عَلَيْهِ فِي الْآخِرِينَ ترجمہ کنز العرفان :

ہم نے پچھلوں میں اسکی ثناء باقی رکھی ۔ ( صفت آیت (139)

(4) آپ علیہ السلام پر سلامتی ہو: اللہ تعالیٰ نے قرآن پاک میں ارشاد فرمایا : ترجمة كنز العرفان: الیاس پر سلام ہو. (صفت آیت 130)

تفسیر: اس آیت کا معنی یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ کی طرف سے حضرت الیاس علیہ السلام پر سلام . م ہو اور دوسرا معنی یہ ہے کہ قیامت تک بندے ان کے حق میں دعا کرتے اور ان کی تعریف کرتے رہیں گے اعلی درجہ کے کامل ایمان والے ہندوں میں سے اللہ تعالٰی قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے : بے شک وہ ہمارے اعلی درجہ کے کامل الایمان والے بندوں میں سے ہے۔

چار انبیاء کرام علیہم الصلوۃ والسلام ابھی تک زندہ ہیں: چار انبیاء کرام علیہم انہیں میں سے حضرت الیاس علیہ السلام بھی ہے۔

(1) حضرت ادریس علیہ السلام (2) حضرت عیسی علیہ سلام یہ دونوں انبیاء کرام میں ہیں۔ (3) حضرت. خضر علیہ السلام سمندر پر اور 4) حضرت الیاس علیہ السلام خشکی پر منتظم۔

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔