اللہ تعالیٰ نے تمام انبیاء کرام کو عزت و تکریم کے ساتھ اس دنیا میں معبوث فرمایا قرآن مجید میں بھی انہیں عزت کے لائق بندوں میں شامل فرمایا ارشاد باری تعالٰی ہے: كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ترجمہ کنز الایمان : سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔ الانعام : 85)

ان میں اللہ پاک کے ایک نبی حضرت الیاس علیہ السلام بھی ہیں ان کے بارے میں اللہ پاک نے فرمایا : زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ (85) الانعام۔ ترجمہ کنز الایمان اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو یہ سب ہمارے قرب کے لائق ہیں۔

آپ علیہ السلام کا مختصر تعارف: آپ علیہ السلام اللہ پاک کے رسول ہیں قرآن مجید میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ (123 ( ترجمۂ کنز الایمان اور بے شک الیاس پیغمبروں سے ہے۔(صافات)

نام: آپکا نام مبارک "الیاس" ہے اور قرآن کریم میں "ال یا سین" بھی موجود ہے

معجزات: اللہ پاک نے ہر نبی کو معجزات سے نوازا ہے اللہ پاک نے آپ علیہ السلام کو بھی معجزات عطا فرمائے ۔ جیسے تمام پہاڑوں اور حیوانات کو آپ علیہ السلام کے لیے مسخر فرما دیا ،آپ کو ستر انبیاء کرام کی طاقت بخشی اور قوت و طاقت میں حضرت موسیٰ علیہ السلام کا ہم پلہ بنایا۔

انعامات الٰہی: آپ پر اللہ پاک نے بہت سے انعامات بھی فرمائے ان میں سے بعض قرآن مجید میں بھی مذکور ہیں قرآن پاک میں آپ علیہ السّلام کی رسالت کی گواہی دی گئی۔ ارشاد باری تعالی ہے : وَإِنَّ الْيَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِينَ (پا 22 صافات123 (

ترجمۂ کنز الایمان اور بے شک الیاس پیغمبروں سے ہے۔

اللہ تعالیٰ نے بعد آنے والی امتوں میں آپ عَلَيْهِ السَّلام کا ذکر خیر باقی رکھا، آپ عَلَيْهِ السلام پر خصوصی سلام بھیجا، نیکی کرنے والوں اور اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں شمار فرمایا۔ فرمانِ الہی ہے :

وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ(129)سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ یَاسِیْنَ(130)اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ (131) اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ(پ 22 صافات 129تا131) ترجمہ: کنزالعرفان : اور ہم نے بعد والوں میں اس کی تعریف باقی رکھی۔ الیاس پرسلام ہو۔ بیشک ہم نیکی کرنے والوں کوایسا ہی صلہ دیتے ہیں ۔ بیشک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل ایمان والے بندوں میں سے ہے۔

تفسیر ‎صراط الجنان میں ہے کہ حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت ہارون عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کی اولاد میں سے ہیں اور آپ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام کے بہت عرصہ بعد بَعْلَبَکْ اور ان کے اطراف کے لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے۔

چار پیغمبروں کی ابھی تک ظاہری وفات نہیں ہوئی :یاد رہے کہ چار پیغمبر ابھی تک زندہ ہیں ۔دو آسمان میں ،(1) حضرت ادریس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام (2) حضرت عیسیٰ عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام، اوردوزمین پر۔(1)حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ (2) حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام۔ حضرت خضر عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام سمندر پر اور حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام خشکی پر مُنْتَظِم ہیں۔ (روح البیان، الصافات، تحت الآیۃ 123، 132، 7 / 481، 483

جب قیامت قریب آئے گی تو اس وقت وفات پائیں گے اوربعض بزرگوں کی ان سے ملاقات بھی ہوئی ہے۔ حضرت الیاس عَلَیْہِ الصَّلٰوۃُ وَالسَّلَام نے اپنی قوم سے فرمایا’’اے لوگو! کیا تمہیں اللہ تعالیٰ کا خوف نہیں اور تم اللہ تعالیٰ کے علاوہ معبود کی عبادت کرنے پر ا س کے عذاب سے ڈرتے نہیں ؟کیا تم بعل کی پوجا کرتے ہو اور ا س سے بھلائیاں طلب کرتے ہو جبکہ اس رب تعالیٰ کی عبادت کو ترک کرتے ہوجو بہترین خالق ہے اور وہ تمہارا رب ہے اور تمہارے اگلے باپ دادا کا بھی رب ہے ۔ ’’بَعْل‘‘ اُن لوگوں کے بت کا نام تھاجو سونے کا بنا ہوا تھا ۔

اس واقعہ کو اللہ پاک نے قرآنِ حکیم میں یوں ارشاد فرمایا: اِذْ قَالَ لِقَوْمِهٖۤ اَلَا تَتَّقُوْنَ اَتَدْعُوْنَ بَعْلًا وَّ تَذَرُوْنَ اَحْسَنَ الْخَالِقِیْنَ اللّٰهَ رَبَّكُمْ وَ رَبَّ اٰبَآىٕكُمُ الْاَوَّلِیْنَ فَكَذَّبُوْهُ فَاِنَّهُمْ لَمُحْضَرُوْنَ اِلَّا عِبَادَ اللّٰهِ الْمُخْلَصِیْنَ )پ 22 صافات124تا128 ) ترجمہ: کنزالعرفان : جب اس نے اپنی قوم سے فرمایا: کیا تم ڈرتے نہیں ؟ کیا تم بعل (بت) کی پوجا کرتے ہواور بہترین خالق کوچھوڑتے ہو؟ اللہ جو تمہارا رب اور تمہارے اگلے باپ دادا کارب ہے۔ پھر انہو ں نے اسے جھٹلایا تو وہ ضرور پیش کئے جائیں گے۔ مگر اللہ کے چُنے ہوئے بندے۔

حضرت الیاس علیه السلام کالوگوں کی نظروں سے اوجھل ہونا:

آپ علیہ السلام کی تبلیغ و نصیحت سے کچھ لوگ تو ایمان لے آئے اور دیگر افراد اپنے کفر و سرکشی پر قائم رہے جیسا کہ اوپر بیان ہوا، پھر گزرتے وقت کے ساتھ ساتھ شہر کا بادشاہ ” ارحب “ آپ عَلَيْهِ السلام کا جانی دشمن بن گیا اور اس نے آپ علیہ السلام کو شہید کر دینے کا ارادہ کر لیا۔ خطرہ محسوس ہونے پر آپ علیہ السلام نے خدا کے حکم سے شہر سے ہجرت فرمائی اور پہاڑوں کی چوٹیوں اور غاروں میں روپوش ہو گئے۔ سات برس تک روپوشی کے عالم میں رہے اور اس دوران جنگلی گھاسوں، پھولوں اور پھلوں پر زندگی بسر فرماتے رہے۔ بادشاہ نے آپ کی گرفتاری کے لئے بہت سے جاسوس مقرر کر دیئے تھے لیکن اللہ تعالیٰ کے فضل و کرم سے کوئی بھی آپ تک نہ پہنچ سکا۔ آخر ایک دن آپ عَلَيْهِ السلام نے یہ دعا مانگی: اے اللہ! مجھے ان ظالموں سے نجات اور راحت عطا فرما۔ آپ علیہ السلام پر وحی آئی کہ تم فلاں دن فلاں جگہ پر جاؤ اور وہاں جو سواری ملے بلا خوف اس پر سوار ہو جاؤ۔ چنانچہ اس دن اس مقام پر آپ علیہ السلام پہنچے تو ایک سرخ رنگ کا گھوڑا کھڑا تھا۔ آپ علیہ السلام اس پر سوار ہو گئے اور گھوڑا چل پڑا تو آپ عَلَيْهِ السلام کے چچازاد بھائی حضرت الينغ علیہ السلام نے آپ کو اپکارا اور عرض کی: اب میں کیا کروں؟ یہ سن کر حضرت الیاس علیہ السلام نے اپنا کمبل ان پر ڈال دیا اور یہ اس بات کی نشانی تھی کہ میں نے تمہیں بنی اسرائیل کی ہدایت کے لئے اپنا خلیفہ بنا دیا۔ پھر اللہ تعالیٰ نے حضرت الیاس علیہ السلام کو لوگوں کی نظروں سے اوجھل فرما کر کھانے پینے سے بے نیاز کر دیا اور آپ کو فرشتوں کی جماعت میں شامل فرمالیا ۔

اللہ پاک ہمیں تمام انبیاء کرام علیھم السلام کا صدقہ نیک اور صالح بنائے اور ان پر لیے گئے انعامات میں سے ہمیں بھی اپنی رحمت کے ساتھ حصہ عطا فرمائے آمین

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔