تمام انبیاء و مرسلین علیہم السلام انتہائی اعلیٰ اور عمدہ اوصاف کے مالک تھے ان میں سے کچھ کا ذکر قرآن مجید میں بھی مذکور ہے انہی میں سے ایک حضرت الیاس علیہ السلام بھی ہیں چنانچہ قرآن پاک میں حضرت الیاس علیہ السلام کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْنَ ترجمۂ کنزالایمان: " بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں سے ہے۔ " (پ 23 ، الصّٰٓفّٰت:132)

اس آیت سے اس بات پر تنبیہ کرنا مقصود ہے کہ سب سے بڑی فضیلت اور سب سے اعلیٰ شرف کامل ایمان سے حاصل ہوتا ہے اور حضرت الیاس علیہ السلام انتہائی اعلیٰ درجے کے کامل ایمان بندوں میں شامل ہیں. اللّٰه پاک نے حضرت الیاس علیہ السلام پر بہت سے انعامات فرمائے انہی میں سے چند یہ بھی ہیں .سورۃالانعام میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے؛ وَ زَكَرِیَّا وَ یَحْیٰى وَ عِیْسٰى وَ اِلْیَاسَؕ-كُلٌّ مِّنَ الصّٰلِحِیْنَ ترجمۂ کنزالعرفان : " اور زکریا اور یحییٰ اور عیسیٰ اور الیاس کو (ہدایت یافتہ بنایا)یہ سب ہمارے خاص بندوں میں سے ہیں." (پ 7 ، الانعام :85)

قرآن کریم میں حضرت الیاس علیہ السلام کی رسالت کی گواہی دی گئی ہے چنانچہ ارشاد ہوتا ہے: وَ اِنَّ اِلْیَاسَ لَمِنَ الْمُرْسَلِیْنَ ترجمۂ کنز الایمان" اور بے شک الیاس پیغمبروں سے ہے ۔"(پ23 ، الصّٰٓفّٰت:123 )

یہاں حضرت الیاس عَلَیْہِ السلام اور ان کی قوم کا واقعہ بیان کیا جارہا ہے۔ حضرت الیاس عَلَیْہِ السلام حضرت ہارون عَلَیْہِ السلام کی اولاد میں سے ہیں اور آپ عَلَیْہِ السَّلَام حضرت موسیٰ عَلَیْہِ السلام کے بہت عرصہ بعد بَعْلَبَکْ اور ان کے اطراف کے لوگوں کی طرف مبعوث ہوئے.

اللّٰه پاک نے بعد آنے والی امتوں میں آپ علیہ السلام کا ذکرِ خیر باقی رکھا اور آپ پر خصوصی سلام بھیجا، نیکی کرنے والوں اور اعلیٰ درجے کے کامل ایمان بندوں میں شمار فرمایا. اس کا ذکر قرآن پاک میں کچھ اس طرح مذکور ہے. وَ تَرَكْنَا عَلَیْهِ فِی الْاٰخِرِیْنَ ْ° سَلٰمٌ عَلٰۤى اِلْ یَاسِیْنَ °اِنَّا كَذٰلِكَ نَجْزِی الْمُحْسِنِیْنَ ° اِنَّهٗ مِنْ عِبَادِنَا الْمُؤْمِنِیْن° ترجمۂ کنز الایمان : " اور ہم نے پچھلوں میں اس کی ثنا باقی رکھی۔ سلام ہو الیاس پر۔ بے شک ہم ایسا ہی صلہ دیتے ہیں نیکوں کو۔ بے شک وہ ہمارے اعلیٰ درجہ کے کامل الایمان بندوں میں ہے۔" (پ .23، الصّٰٓفّٰت : 129-132)

یہ مضمون نئے لکھاری کا ہے ،حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلف کی ہے، ادارہ اس کا ذمہ دار نہیں۔