دورِ حاضر میں انسان اپنے ارد گرد متوجہ ہو تو اس کے سامنے ایسی بہت سی خصلتیں رُونماں ہوں گی جو اس کے ظاہر و باطن دونوں کے لیے نقصان دہ ثابت ہو سکتی ہے ان خصلتوں میں سے ایک خصلت بدگمانی ہے جس کو اختیار کرنے کے ساتھ انسان اپنے قریبی رشتہ داروں سے بے تعلق ہو کر دنیا میں فردِ واحد کی مثل بن جاتا ہے اور یوں وہ ذلت و رسوائی کا سامنا کرتے کرتے شرمندگی سے مر جاتا ہے اور یہی وہ خصلت ہے جس کے سبب ایک انسان دوسرے انسان کے لیے اپنے دل میں نفرت، بُغض، حسد اور ان جیسی دیگر بیماریوں کو جنم دے کر دوسرے مسلمان بھائی کے لیے بُرا سوچنا شروع کر دیتا ہے۔

سیَّدی امیر اہلسنت مولانا الیاس دامت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں : بدگمانی سے مراد یہ ہے کہ بلا دلیل دوسرے کے برے ہونے کا دل سے اِعتقادِ جازِم (یعنی یقین) کرنا۔ (باطنی بیماریوں کی معلومات،ص140)

آئیے احادیث میں بیان کردہ بد گمانی کی مذمت ملاحظہ کیجئے اور اس سے بچنے کا سامان کیجئے۔

(1) رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اپنے آپ کو بدگمانی سے بچاؤ کہ بدگمانی بدترین جھوٹ ہے، ایک دوسرے کے ظاہری اور باطنی عیب مت تلاش کرو، حرص نہ کرو،حسد نہ کرو، بغض نہ کرو، ایک دوسرے سے رُوگَردانی نہ کرو اور اے اللہ کے بندوں بھائی بھائی ہو جائو۔(مسلم، کتاب البرّ والصّلۃ والآداب، باب تحریم الظّنّ والتّجسّس... الخ، ص1386، حدیث: 2563)

(2) رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے اپنے بھائی سے بدگمانی کی بے شک اس نے اپنے رب سے بدگمانی کی، کیونکہ اللہ پاک فرماتا ہے ’’ اجْتَنِبُوْا كَثِیْرًا مِّنَ الظَّنِّ٘ ‘‘ ترجمۂ کنزُالعِرفان: بہت زیادہ گمان کرنے سے بچو۔( در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: 12 ، 7 / 566)

(3) حضرت سیدنا جابر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے رسول کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو وفات سے تین دن پہلے یہ فرماتے ہوئے سنا ہے کہ تم میں سے کوئی شخص اس حال میں نہ مرے کہ وہ اللہ پاک کے ساتھ نیک گمان رکھتا ہو ۔ (مسلم کتاب ، حدیث : 1581)

(4) نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد گرامی ہے: مسلمان کا خون مال اور اس سے بد گُمانی (دوسرے مسلمان) پر حرام ہے۔(شعب الایمان ،باب فی تحریم اعراض الناس،5/297،حدیث :6706)

(5) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں : تم اپنے بھائی کے منہ سے نکلنے والی کسی بات کا اچھا مَحمل پاتے ہو تو اس کے بارے میں بد ُگمانی نہ کرو۔(در منثور، الحجرات، تحت الآیۃ: 12 ، 7/ 566)

بدگمانی سے بچنے کا طریقہ: حضرت سیدنا حارثہ بن نعمان رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے آپ علیہ السّلام نے فرمایا: میری امت پر تین چیزیں لازماً رہیں گی: بدفالی، حسد، اور بدگمانی۔ ایک صحابی نے عرض کی یارسولُ اللہ جس شخص میں یہ تین خصلتیں ہو وہ ان کا تدارک کس طرح کرے?“ ارشاد فرمایا: جب تم حسد کرو تو اللہ پاک سے استغفار کرو اور جب تم کوئی بدگمانی کرو تو اس پر جمے نہ رہو اور جب تم بدفالی نکالو تو اس کام کو کرلو۔

علامہ عبد الرؤوف مناوی علیہ رحمہ فیض القدیر میں لکھتے ہیں اس حدیث میں اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ یہ تینوں خصلتیں امراضِ قلب میں سے ہیں جن کا علاج ضروری ہے جو کہ حدیث میں بیان کر دیا گیا ہے بدگمانی سے بچنے کا طریقہ یہ ہے کے دل یا اعضاء سے اس کی تصدیق نا کرے۔

بد گمانی، جھوٹ، غیبت، چغلیاں

چھوڑ دے تُو رب کی نافرمانیاں

پیارے اسلامی بھائیو! ہمیں چاہیئے کہ ہم اپنے گمان کو صاف رکھیں اور سوچ کو پاکیزہ بنائیں اس بات کو مدِّ نظر رکھتے ہوئے کہ ہم امتحان میں ہیں، ہم سے نہ صرف اعضاء و جوارح سے صادر ہونے والے اعمال کے بارے میں پوچھا جائے گا، بلکہ بلا دلیل دل میں راسخ ہونے والے خیالات پر بھی مؤاخذہ ہوگا۔ اگر ہم زندگی کے ہر موڑ پر اس احساس کو تازہ رکھیں تو اللہ پاک کی ذات سے امید ہے کہ ہماری سوچ مثبت اور درست ہو جائے گی اور ہمارے اعمال بھی صحیح رخ پر گامزن ہوجائیں گے۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ وہ ہمیں بدگمانی کرنے اور اس تک پہچانے والے اسباب سے محفوظ فرمائے۔ اٰمین