الحمدللہ ذکر ِمدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحتِ قلب و سینہ ہے اور عشاقِ مدینہ اس کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، دنیا کی جتنی زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینہ منورہ کے ہجر وفراق اور اس کے دیدار کی تمنا میں پڑھے گئے، پڑھے جاتے ہیں، اتنے دنیا کے کسی اور شہر یا خطے کے لئے نہیں پڑھے گئے اور نہیں پڑھے جاتے۔جسے ایک بار  بھی مدینہ کا دیدار ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بخت بیدار سمجھتا اور مدینے میں گزرے ہوئے حسین لمحات کو ہمیشہ کے لئے یادگار قرار دیتا ہے۔ کسی عاشقِ رسول نے کیا خوب کہا ہے:

وہی ساعتیں تھیں سرور کی، وہی دن تھے حاصلِ زندگی بحضور شافعِ امتاں، میری جن دنوں طلبی ر ہی

قرآنِ پاک میں ذکرِ مدینہ:

قرآن ِکریم میں متعدد مقامات پر ذکرِ مدینہ کیا گیا ہے، مثلاً پارہ 28 سورۃ المنافقون آیت نمبر 8 میں ہے: یَقُوْلُوْنَ لَئِنْ رَّجَعْنَآاِلَی الْمَدِیْنَۃِ لَِیُخْرِجَنَّ اْلاَعَزُّ مِنْھَا اْلاَذَلَّ وَلِلہِ الْعِزَّۃُ وَلِرَسُوْلِهٖ وَلِلْمُؤْمِنِیْنَ وَلٰکِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۔ترجمۂ کنزالایمان: کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزّت والا ہے وہ اس میں سے نکال دے گا اسے جو نہایت ذلّت والا ہے اور عزّت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو خبر نہیں۔(پارہ 28، سورہ منافقون: 8)

فضائلِ مدینہ:

1۔مدینہ لوگوں کو پاک و صاف کرے گا:

رسولِ نذیر، سراج منیر، محبوب ربِّ قدیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان دلپذیر ہے:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف (ہجرت) کاحکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک وصاف کرے گی،جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(عاشقان رسول کی 130 حکایات، ص252)

مدینہ کو یثرب کہنا گناہ ہے:

اس روایت میں مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کی ممانعت کی گئی ہے،فتاویٰ رضویہ جلد 21 صفحہ 116 پر ہے: مدینہ طیبہ کو یثرب کہنانا جائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار ۔رسول الله صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:جو مدینہ کو یثرب کہے اس پر تو یہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔

علامہ مناوی تفسیر شرح ِجامع ِصغیر میں فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوا! مدینہ طیبہ کا یثرب نام رکھنا حرام ہے کہ یہ یثرب کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ سے ہی ہوتی ہے۔(عاشقان رسول کی 130 حکایات، صفحہ 253)

فتاویٰ رضویہ جلد 26 صفحہ 119 پر ہے:حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اشعۃ اللمعات شرح مشکوۃ میں فرماتے ہيں:آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں لوگوں کے رہنے سہنے اور جمع ہونے اور اسی شہر سے محبت کی وجہ سے اس کا نام مدینہ رکھا اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ثرب سے بنا ہے، جس کے معنی ہلاکت اور فسادہے اور تثریب بمعنی سرزنش اور ملامت یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت یہ کسی جابر و سرکش بندے کا نام ہے۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں ایک حدیث لائے ہیں کہ جو کوئی ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو اسے کفارے میں دس مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔قرآن مجید میں جو یٰاَہْلَ یَثْرِبَ(یعنی اے یثرب والو) آیا ہے، وہ دراصل منافقین کا قول ہے کہ یثرب کہہ کر وہ مدینہ منورہ کی توہین کا ارادہ رکھتے تھے۔ ایک دوسری روایت میں ہے کہ یثرب کہنے والا اللہ پاک سے استغفار(توبہ) کرے اور معافی مانگے اور بعض نے فرمایا: جو مدینہ منورہ کویثرب کہے،اسے سزا دینی چاہئے، حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے لوگوں کی زبان سے اشعار میں لفظی ثرب صادر ہوا ہے اور اللہ پاک خوب جانتا ہے اور عظمت و شان والے کا علم بالکل پختہ اور ہر طرح سے مکمل ہے۔( عاشقان رسول کی 130 حکا یات ، صفحہ 254)

زندگی کیا ہے مدینہ کے کسی کوچے میں موت موت پاک و ہند کے ظلمت کدے کی زندگی

2۔مدینہ منورہ میں مرنے کی فضیلت:

دوجہاں کے تاجور، سلطانِ بحر و بر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ روح پرور ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے ہی میں مرے، کیونکہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، ج 3، ص 497، حدیث 1482)

3۔دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکتا:

سرکارِ والا تبار،ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشادِ خوشگوار ہے:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں،اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری شريف،ج1،ص619، حدیث 1880، عاشقان رسول کی 130 حکا یات، صفحہ 250)

4۔مدینہ منورہ ہر آفت سے محفوظ:

نبیِّ مکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے،مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ،مگر اُس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔

(مسلم شریف ، ص 714، حدیث 1374)

5۔مدینہ منورہ بہتر ہے:

نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ روح پرور ہے:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے،پھر جب وہ خوشحالی پا لیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے، حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کیلئے بہتر ہے۔( مسند امام احمد بن حنبل، ج 5، ص 106، حدیث 14686، عاشقان رسول کی 130 حکا یات، صفحہ 250)

6۔خاکِ شفا:

مدینہ منورہ میں آپ کا قلب مبارک سکون پاتا،یہاں کاگردوغبار اپنے چہرۂ انور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب ،صفحہ22)

7۔ہر بیماری سے شفا:

حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،جب رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمغزوۂ تبوک سے واپس تشریف لارہے تھے تو تبوک میں شامل ہونے سے رہ جانے والے کچھ صحابہ کرام علیہم الرضوان ملے، انہوں نے گرد اڑائی ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ان کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کےقبضہ قدرت میں میری جان ہے!مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔

(جامع الاصول للجزری، ج9، ص297، حدیث6962، عاشقان رسول کی 130 حکا یات،صفحہ 260،261)