فتاوی رضویہ کی 10 خصوصیات

Thu, 24 Sep , 2020
3 years ago

تیرھویں صدی ہجری کی علمی روحانی شخصیت جن کے بارے میں علمائے کرام فرماتے ہیں کہ ان کو سو سے زائد علوم پر مکمل دسترس حاصل تھی جن کو زمانہ اعلیٰ حضرت  امام احمد رضا خان کے نام سے جانتا ہے، ان کا فقہی انسائیکلو پیڈیا بنام العطایہ النبویہ فی فتاویٰ رضویہ کو نہایت اہمیت حاصل ہے۔

یہی وجہ ہے اساتذہ کرام اور بالخصوص طلبائے دین اور علمائے کرام کو اس کے مطالعہ کی ترغیب دیتے رہتے ہیں اور کئی طلبا تو اس کا مکمل مطالعہ بھی فرماچکے ہیں اور دارالافتا اہلسنت سے جاری ہونے والے فتاویٰ جات میں اس کے جزئیات اپنی برکتیں بکھیر رہےہیں آئیے ہم اب اس کی دس خصوصیات کا تذکرہ کرتے ہیں۔

۱۔ فتاویٰ ر ضویہ قدیم اردو زبان میں لکھا گیا ہے جس کے ذریعے ہمیں اصل اردو زبان کے بارے میں پتا چلتا ہے۔

۲۔ اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے معاشرے کے رسم و رواج اور عرض کو نگاہ میں رکھا اور مفرد اھم سعی کی ہے کہ ایک مسلمان آسانی سے حقوق اللہ اور حقوق العباد سر انجام دینے کی سعادت حاص کرے۔(ماخوذ از مقالہ پروفیسر ڈاکٹر رشید احمد جالندھری ، جلد۷، فتویٰ رضویہ مخرجہ)

۳۔ اعلیٰ حضرت نے بنیادی نکتہ پر بیان کیا ہے کہ فرائض کی ادائیگی اور محرمات سے اجتناب کو رضا مخلوق پر مقدم رکھنے اور فتنہ فساد سے بچنے اور اضافی علوم کی مدارات اور مراعات کے لیے غیر اولیٰ امور کو ترک کردیاجائے۔(ایضا)

۴۔ فتاویٰ رضویہ کی ایک انفرادیت یہ ہے کہ اس میں اعلیٰ حضرت نے اپنے فتاویٰ کے مختلف ابواب فقیہ میں سے بعض موضوعات منتخب فرمائے ہیں، اور ان میں سے ہر موضوع پر ایک الگ اور مقبول رسالہ تصنیف کیا ہے، یہ رسائل جہاں بلند درجہ تحقیق و تدقیق کے آئینہ دار ہیں وہاں تمام متداول فقہی مصادر و ماخذ کا نچوڑ بھی پیش کرتے ہیں۔(ماخواز مقالہ پروفیسر ڈاکٹڑ ظہور احمد اظہر، قبل جلد نمبر۶، فتویٰ رضویہ مخرجہ)

۵۔ اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ علیہ نے بدعات کے رد پر جو رسائل تصنیف فرمائے ان کا بھی کوئی جواب اب تک دینے سے قاصر ہے۔

۶۔ فتاویٰ رضویہ میں جہاں فقہی مسائل ہیں محقق کا انحصار ہے وہیں عقائد و اعمال میں حد درجہ سے کم نہیں ہے،۔

زمین ساکن ہونے پر تحریر کیا جانے والا رسالہ اس قدر بے مثال و بے نیاز ہے کہ اس کا رد بھی نہ ابھی تک آیا ہے اور نہ آسکے گا، ان شآ اللہ

۸۔اعلیٰ حضرت رحمہ اللہ علیہ سے جس علم کے بارے میں سوال ہوا اسی علم کے بارے میں جواب عطا فرمادیا۔

۹۔اعلیٰ حضرت سے اردو میں سوال ہوا تو اس کا جواب اردو میں ، فار سی میں سوال ہوا تو جواب فارسی میں اور اگر سوال عر بی میں ہوا تو اس کا جواب بھی پیارے آقا صلی اللہ تعالیٰ علیہ وسلم، کی زبان (یعنی عربی) میں عطا فرمادیا۔(اگرچہ رضا فاؤنڈیشن والوں نے عربی اورفار سی سوالات و جوابات کا اردو ترجمہ کردیا ہے)

۱۰۔ جہاں جہاں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ اپنی تحقیقات پیش کیں اور اگر کوئی اسلاف کی تحقیق کے برعکس آئی تو اعلیٰ حضرت نے نہایت ادب سے کام لیا اور باکمال تحقیق کے ةعد اپنے لیے ہمیشہ عاجزی ہی کے الفاظ استعمال فرمائے۔

نوٹ: یہ مضامین نئے لکھاریوں کے ہیں۔حوالہ جات کی تفتیش و تصحیح کی ذمہ داری مؤلفین کی ہےادارہ اس کا ذمہ دار نہیں