مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ حجازِمقدس کے دو قدیم شہر ہیں، جو اسلام کا مرکز اور نہایت افضل واعلیٰ ہیں، مکہ مکرمہ جائے ولادت حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے اور مدینہ منورہ جائے مدفن ِسرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے۔اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قبرِ انور رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کعبہ معظمہ بلکہ عرش سے بھی افضل ہے اور کعبہ معظمہ مدینہ طیبہ سے افضل ہے، مدینہ طیبہ علاوہ قبر ِاطہر اور مکہ مکرمہ علاوہ خانہ کعبہ کی افضلیت میں اختلافِ علما ہے، جمہور کے نزدیک مکہ معظمہ افضل ہے۔(فتاوی رضویہ، جلد 10، صفحہ 711)اور عشاق کی نگاہ میں مدینہ افضل ہے۔

ذکرِ مکہ:

قرآنِ کریم میں جابجا مکہ مکرمہ کے مقدس مقام کا تذکرہ ہے، دو جگہ ربّ کریم نے اس محترم شہر کی قسم یاد فرمائی اور ارشاد فرمایا:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِْ۔ترجمۂ کنز العرفان: مجھے اِس شہر کی قسم ۔(پ30،البلد:1) مزید فرمایا: وَھٰذَاالْبَلَدِالْاَمِیْنِ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اس امن والے شہر کی قسم۔(پارہ 30، والتین:3)

امام عبداللہ بن احمد نسفی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:مکہ مکرمہ کی قسم ذکر فرمانے سے اس بابرکت مقام کی عظمت و شرافت ظاہر ہوئی اور نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس مقام پر رہنے کی وجہ سے ظاہر ہونے والی خیروبرکت واضح ہوئی۔(تفسیر مدارک، صفحہ 1360)

ربّ پاک نے حضرت ابراہیم علیہ السلام کی تعمیر کعبہ کے وقت مکہ مکرمہ کے بارے میں مانگی جانے والی دعا کا ذکر کرتے ہوئے فرمایا:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهٖمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا بَلَدًا اٰمِنًا وَّ ارْزُقْ اَهْلَهٗ مِنَ الثَّمَرٰتِ مَنْ اٰمَنَ مِنْهُمْ بِاللّٰهِ وَ الْیَوْمِ الْاٰخِرِ ؕترجمۂ کنزالایمان:اور جب عرض کی ابراہیم نے کہ اے ربّ میرے اس شہر کو امان والا کردے اور اس کے رہنے والوں کو طرح طرح کے پھلوں سے روزی دے جو ان میں سے اللہ اور پچھلے دن پر ایمان لائیں۔(پارہ 1، سورہ بقرہ، آیت 126)

حضرت ابراہیم علیہ السلام کی دعا مقبول ہوئی، مکہ مکرمہ میں نہ کسی کا خون بہایا جا سکتا ہے، نہ شکار کیا جا سکتا ہے اور نہ ہی وہاں کی گھاس کاٹی جا سکتی ہے،نیز دنیا بھر کے پھل اور کھانے یہاں پر بکثرت ملتے ہیں، ربّ کریم نے مکہ مکرمہ کے حرمت والا ہونے کا ایک مقام پر ذکر فرمایا :اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا۔ ترجمۂ کنزالعرفان:مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر( مکہ) کے ربّ کی عبادت کروں، جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔(پارہ 20، نمل:91)اللہ پاک نے یہاں مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے فرمایا کیونکہ یہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔(تفسیر خازن، جلد 3، صفحہ 422)

ذکرِ مدینہ:

قرآنِ پاک میں متعدد مقامات پر مدینہ واہلِ مدینہ کا ذکر موجود ہے، ایک مقام پر مدینہ منورہ کی مسجد کا ذکر فرمایا:لَمَسْجِدٌ اُسِّسَ عَلَى التَّقْوٰى مِنْ اَوَّلِ یَوْمٍ اَحَقُّ اَنْ تَقُوْمَ فِیْهِ ؕ۔ترجمۂ کنزالعرفان:بیشک وہ مسجد جس کی بنیاد پہلے دن سے پرہیز گاری پر رکھی گئی، وہ اس کا حق دار ہے کہ تم اس میں کھڑے ہو۔(پارہ 11، توبہ: 108)

اس مسجد سے مراد اسلام کی پہلی مسجد، مسجدِ قبا ہے اور مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ اس سے مسجد مدینہ مراد ہے۔(تفسیر مدارک، صفحہ 455)ایک جگہ ربّ کریم نے مسلمانانِ مدینہ، انصار صحابہ کرام علیہم الرضوان کا شہر مدینہ کو آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آمد سے پہلے ہی مسکن بنانے کا ذکر فرمایا ہے، ارشاد فرمایا:وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور وہ جنہوں نے ان(مہاجرین)سے پہلے اس شہر کو اور ایمان کو ٹھکانہ بنالیا۔(پارہ 28، الحشر: 9)

معلوم ہوا!جس جگہ کو ربّ کے محبوب بندوں سے نسبت ہو جائے، ربّ اس جگہ کا ذکر بھی قرآن میں فرماتا ہے، ایک مقام پر اللہ پاک نے فرمایا:یہ مقدس زمین ناپاک باطن والوں کے لائق نہیں ہے،ربّ کریم جلد منافقوں سے مدینہ طیبہ کو پاک فرمائے گا،چنانچہ فرمایا:لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا۔ترجمۂ کنز العرفان:ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے، پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے، مگر تھوڑے دن۔(پارہ 22، سورہ احزاب، آیت60)

معلوم ہوا!اچھی جگہوں پر بھی گمراہ لوگ ہوتے ہیں، کسی کا کسی مقدس جگہ پر رہنا اس کے اچھا ہونے کی دلیل نہیں ہے، نیز ایسے لوگ جلد یا بدیر اس جگہ سے نکال دیئے جائیں گے۔ اللہ پاک ہمیں مکہ مدینہ کی با ادب، با ذوق، باشوق، مقبول حاضری عطا فرمائے۔آمین


قرآنِ کریم میں مکہ اور مدینہ کا ذکر ہوا، بلکہ اللہ پاک نے ان کی فضیلت کو  ہی قرآن میں ارشاد فرمایا، مکہ مکرمہ کی قسم ارشاد فرمائی اور اسے حرم اور امن والی جگہ بنایا اور اس میں موجود مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنایا اور مدینہ کے بارے میں فرمایا :یہاں حاضر ہونا گناہوں کی مغفرت کا ذریعہ ہے، درحقیقت یہ مکہ اور مدینہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے نسبت رکھنے والے شہر ہیں اور قرآن نعتِ مصطفے ، تو ان کا ذکر تو ہونا ہی تھا، خیر اب آیات اور ان کی کچھ تفسیر۔

مکہ مکرمہ کی قسم ارشاد فرماتے ہوئے اللہ کریم نے فرمایا:آیت:لَآقْسِمُ بِھٰذَاالْبَلَدِ،وَاَنْتَ حِلٌّ بِھٰذَا الْبَلَدِ۔ترجمۂ کنز الایمان: مجھے اِس شہر کی قسم کہ اے محبوب تم اِس شہر میں تشریف فرما ہو۔

مفسرین کرام کا اس بات پر اجماع (اتفاق) ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے جس شہر کی قسم ذکر فرمائی، وہ مکہ شریف ہے۔(اسلامی بیانات، جلد 6، صفحہ 163)

اللہ پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانا اس چیز کی فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر چیزوں میں سے ممتاز کرنے کے لئے ہے، جو لوگوں کے درمیان موجود ہیں، تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و فضیلت والی ہے۔(صراط الجنان، جلد 10، ص 679)اور مکہ میں موجود خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًا ؕ۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کا حج کرنا فرض ہے، جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(سورۃ ال عمران:97) اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا:وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّى ؕ۔ترجمۂ کنز العرفان: اور اے مسلمانوں! تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔(سورہ بقرہ:125)اور اس میں موجود مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بناتے ہوئے ارشاد فرمایا:وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗ ؕ۔ ترجمۂ کنزالعرفان:اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو، اپنا منہ اسی کی طرف کر لو۔(البقرہ:144)(یہ تمام صراط الجنان جلد 10، صفحہ 678 سے لیا گیا ہے خلاصہ)

اس سے معلوم ہوا!مکہ مکرمہ کی فضیلت ایسی ہے کہ اس میں موجود کعبہ معظمہ کو مسلمانوں کا قبلہ بنایا گیا، اس کا حج ہر مسلمان پر فرض کر دیا گیا اور تفسیر صراط الجنان جلد 2،صفحہ 191 پر ہے:کبیرہ گناہ توبہ ہی سے معاف ہوتے ہیں، البتہ حجِ مقبول پر اس کی بشارت ہے، یعنی کبیرہ گناہوں کے معاف ہونے کی اور حج مکمل ذکرِ الٰہی ہے اور مدینہ کے بارے میں یوں اللہ پاک نے فرمایا:وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا۔ترجمۂ کنزالعرفان:اور اگر وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں اور اے محبوب آپ کے پاس حاضر ہو کر خدا سے بخشش چاہیں اور رسول ان کی مغفرت مانگیں تو خدا کو توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔(سورۃ النساء:64)

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عالم حیات ظاہری میں حضور(یعنی حاضر ہونا) ظاہر تھا،اب حضور(حاضر ہونا) مزار پر انوار ہے۔(فتاویٰ رضویہ، جلد 15،654)

صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور سے ہی یہ معمول رہا ہے کہ آپ کی حیات ظاہری کے بعد آپ کے مزار پر حاضر ہو کر مشکلات کا حل چاہتے تھے، اپنی مغفرت ونجات کی التجا کرتے تھے۔(صراط الجنان سے خلاصہ، جلد 2، صفحہ 234)

مدینے کی فضیلت سمجھنے کے لئے بس اتنا سمجھ لینا کافی ہے کہ یہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی آرام گاہ اور اس سے بڑھ کر کون سی فضیلت تھی جو مدینہ کو حاصل ہوتی۔

اس در کے حضوری ہی عصیاں کی دوا ٹھہری ہے زہر ِمعاصی کا طیبہ ہی شفا خانہ(سامان بخشش)

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے بھی فرمایا :

مجرم بلائے آئے ہیں جاءوک ہے گواہ پھر ردّ ہو کب یہ شان کریموں کے در کی ہے


قرآن ِکریم میں متعدد مقامات پر ذکرِ مکہ و مدینہ کیا گیا ہے۔ارشادِ باری ہے:

1:اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَ ۚ (پ،ال عمرن:69)ترجمۂ کنز العرفان:بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔

2:وَ اِذْ قَالَ اِبْرٰهِیْمُ رَبِّ اجْعَلْ هٰذَا الْبَلَدَ اٰمِنًا ۔(پ13، ابرٰھیم:35)ترجمۂ کنز العرفان:اور یاد کرو جب ابراہیم نے عرض کی: اے میرے رب! اس شہر کو امن والا بنادے۔

3:اِنَّمَاۤ اُمِرْتُ اَنْ اَعْبُدَ رَبَّ هٰذِهِ الْبَلْدَةِ الَّذِیْ حَرَّمَهَا (پ20، النمل:91)ترجمۂ کنز العرفان:مجھے تو یہی حکم ہوا ہے کہ میں اس شہر (مکہ) کے رب کی عبادت کروں جس نے اسے حرمت والا بنایا ہے۔

اس آیت میں مکہ مکرمہ کا ذکر اس لئے ہواہے کہ وہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا وطن اور وحی نازل ہونے کی جگہ ہے۔(تفسیر صراط الجنان، النمل، تحت الآیۃ:91 ملتقطاً)

4:وَ هٰذَا الْبَلَدِ الْاَمِیْنِ ۙ (پ30، التین:3)ترجمۂ کنز العرفان: اور اس امن والے شہر کی(قسم)۔

5:لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۙ وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِ ۙ (پ30، البلد:1-2)ترجمۂ کنز العرفان:مجھے اِس شہر کی قسم جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

مفسرینِ کرام کا اس بات پر اجماع(اتفاق) ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے جس شہر کی قسم ذکر فرمائی ہے وہ مکہ شریف ہے۔اسی آیتِ مبارکہ کی طرف اشارہ کرتے ہوئے مسلمانوں کے دوسرے خلیفہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اللہ پاک کے آخری نبی، محمد عربی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی جناب میں یوں عرض گزار ہوئے:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم!میرے ماں باپ آپ پر فدا ہوں! آپ کی فضیلت اللہ پاک کےہاں اتنی بلند ہے کہ آپ کی حیاتِ مبارکہ کی ہی اللہ کریم نے قسم ذکر فرمائی ہے نہ کہ دوسرے انبیائے کرام علیہم الصلوة و السلام کی اور آپ کا مقام و مرتبہ اس کے ہاں اتنا بلند ہے کہ اس نےلَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ کے ذریعے آپ کے مبارک قدموں کی خاک کی قسم ذکر فرمائی ہے۔(اسلامی بیانات، 6/163 بحوالہ شرح زرقانی علی المواہب،8/ 463- فتاویٰ رضویہ،5/ 556)

6:وَ مِمَّنْ حَوْلَكُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ مُنٰفِقُوْنَ وَ مِنْ اَهْلِ الْمَدِیْنَةِ مَرَدُوْا عَلَى النِّفَاقِ (پ11،التوبۃ:101)ترجمۂ کنز العرفان: اور تمہارے آس پاس دیہاتیوں میں سے کچھ منافق ہیں اور کچھ مدینہ والے (بھی) وہ منافقت پر اڑگئے ہیں۔

اس آیت سے معلوم ہوا !کسی کے اچھا یا بُرا ہونے کا فیصلہ صرف جگہ سے نہیں کیا جا سکتا جیسے مدینہ منورہ میں رہنے کے باوجود کچھ لوگ منافق اور لائقِ مذمت ہی رہے، ہاں !اگر عقیدہ صحیح ہے تو پھر جگہ کی فضیلت بھی کام دیتی ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، التوبۃ، تحت الآیۃ:101)

7:مَا كَانَ لِاَهْلِ الْمَدِیْنَةِ وَ مَنْ حَوْلَهُمْ مِّنَ الْاَعْرَابِ اَنْ یَّتَخَلَّفُوْا عَنْ رَّسُوْلِ اللّٰهِ وَ لَا یَرْغَبُوْا بِاَنْفُسِهِمْ عَنْ نَّفْسِهٖؕ۔ (پ11، التوبۃ:120)ترجمۂ کنز العرفان: اہلِ مدینہ اور ان کے اِرد گرد رہنے والے دیہاتیوں کے لئے مناسب نہیں تھا کہ وہ اللہ کے رسول سے پیچھے بیٹھے رہیں اور نہ یہ کہ اُن کی جان سے زیادہ اپنی جانوں کو عزیز سمجھیں۔

8:لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا (پ22،الاحزاب:60)ترجمۂ کنز العرفان: منافق اوروہ کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے ہیں اگرباز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے مگر تھوڑے دن۔

اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ وہ لوگ جو منافق ہیں اور وہ لوگ جو فاجر و بدکار ہیں اور وہ لوگ جو مدینے میں اسلامی لشکروں کے متعلق جھوٹی خبریں اڑانے والے ہیں اور یہ مشہور کیا کرتے ہیں کہ مسلمانوں کو شکست ہوگئی، وہ قتل کر ڈالے گئے، دشمن چڑھا چلا آ رہا ہے اور اس سے ان کا مقصد مسلمانوں کی دل شکنی اور ان کو پریشانی میں ڈالنا ہوتا ہے، اگر یہ لوگ اپنے نفاق،بدکاری اور دیگر حرکتوں سے باز نہ آئے تو ضرور ہم مسلمانوں کو ان کے خلاف کاروائی کرنے کی اجازت دے دیں گے اور مسلمانوں کو ان پر مسلط کردیں گے، پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس تھوڑے دن ہی رہیں گے، پھر ان سے مدینہ طیبہ خالی کرا لیا جائے گا اور وہ لوگ وہاں سے نکال دیئے جائیں گے۔ (تفسیر صراط الجنان، الاحزاب، تحت الآیۃ:60)

9:یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَل َّ ؕوَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ ۠(پ28،المنٰفقون:8)ترجمۂ کنز العرفان: وہ کہتے ہیں : قسم ہے اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لیے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں۔

10:وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةً ؕ وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُ ۘ لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَ ۙ (پ14،النحل:41)ترجمۂ کنز العرفان: اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے۔ کسی طرح لوگ جانتے ۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے: اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللہ پاک نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔ (تفسیر صراط الجنان، النحل، تحت الآیۃ:41)


اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ   لَلَّذِیْ  بِبَكَّةَ  مُبٰرَكًا  وَّ  هُدًى  لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶) ترجمۂ کنز العرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔(پ4 ، اٰلِ عمران : 96) اس آیت مبارکہ کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے: یہودیوں نے کہا تھا کہ ہمارا قبلہ یعنی بیتُ المقدس کعبہ سے افضل ہے کیونکہ یہ گزشتہ انبیاء علیہم السلام کا قبلہ رہا ہے، نیز یہ خانہ کعبہ سے پرانا ہے۔ ان کے رد میں یہ آیتِ کریمہ اتری۔(صراط الجنان بحوالہ خازن، اٰل عمران، تحت الآیۃ: 96 ، 1 / 274)اور بتا دیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کیلئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔ حدیث شریف میں ہے کہ کعبہ معظمہ بیتُ المقدس سے چالیس سال قبل بنایا گیا۔(بخاری، کتاب احادیث الانبیاء ، 2 / 427 ، حدیث: 3366)

اس مسجد کو پوری دنیا کے مسلمانوں کے لئے قبلہ بنا تے ہوئے ارشاد فرمایا: وَ حَیْثُ مَا كُنْتُمْ فَوَلُّوْا وُجُوْهَكُمْ شَطْرَهٗؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اے مسلمانو! تم جہاں کہیں ہو اپنا منہ اسی کی طرف کرلو۔(پ2،البقرۃ:144) اور اس میں موجود مقامِ ابراہیم کے بارے میں مسلمانوں کو حکم دیا: وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ۔( پ1،البقرۃ:125)اور لوگوں کو خانہ کعبہ کا حج کرنے کا حکم دیتے ہوئے فرمایا: وَ لِلّٰهِ عَلَى النَّاسِ حِجُّ الْبَیْتِ مَنِ اسْتَطَاعَ اِلَیْهِ سَبِیْلًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور اللہ کے لئے لوگوں پر اس گھر کاحج کرنا فرض ہے جو اس تک پہنچنے کی طاقت رکھتا ہے۔(اٰلِ عمرٰن:97) اور خانہ کعبہ کے بارے میں ارشاد فرمایا: وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ ترجمۂ کنزُالعِرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا۔( پ1،البقرۃ:125)اور سورۂ بلد کی دوسری آیت میں گویا کہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔( تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ: 2، 11 / 164)

حضرت علامہ شیخ عبد الحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : علما فرماتے ہیں کہ اللہ پاک نے اپنی کتاب میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے علاوہ اور کسی نبی کی رسالت کی قَسم یاد نہ فرمائی اور سورۂ مبارکہ ’’ لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) ‘‘ اس میں رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی انتہائی تعظیم و تکریم کا بیان ہے کیونکہ اللہ پاک نے قسم کو اس شہر سے جس کا نام ’’بلد ِحرام‘‘ اور ’’بلد ِامین‘‘ ہے ،مُقَیَّد فرمایا ہے اور جب سے حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اس مبارک شہر میں نزولِ اِجلال فرمایا تب سے اللہ پاک کے نزدیک وہ شہر معزز و مکرم ہو گیا اور اسی مقام سے یہ مثال مشہور ہوئی کہ ’’شَرَفُ الْمَکَانِ بِالْمَکِیْنِ‘‘ یعنی مکان کی بزرگی اس میں رہنے والے سے ہے۔ مزید فرماتے ہیں کہ اللہ پاک کا اپنی ذات و صفات کے علاوہ کسی اور چیز کی قسم یاد فرمانا اس چیز کا شرف اور فضیلت ظاہر کرنے کے لئے اور دیگر اَشیاء کے مقابلے میں اس چیز کو ممتاز کرنے کے لئے ہے جو لوگوں کے درمیان موجود ہے تاکہ لوگ جان سکیں کہ یہ چیز انتہائی عظمت و شرافت والی ہے۔(مدارج النبوہ، باب سوم دربیان فضل وشرافت، 1 / 65 ) اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ کیا خوب فرماتے ہیں ،

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تِرے شہر و کلام و بقا کی قسم

مدینہ کے فضائل : وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ(۴۱) ترجَمۂ کنزُالعرفان: اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے۔ کسی طرح لوگ جانتے ۔(پ14،النحل : 41)تفسیر صراط الجنان میں ہے اس آیت سے مدینہ منورہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ یہاں اسے حَسَنَۃً فرمایا گیاہے۔ صحیح مسلم میں حضرت سعد رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشادفرمایا: مدینہ لوگوں کے لئے بہتر ہے اگر جانتے، مدینہ کو جو شخص بطورِ اِعراض چھوڑے گا، اللہ پاک اس کے بدلے میں اُسے لائے گا جو اس سے بہتر ہوگا اور مدینہ کی تکلیف و مشقت پر جو ثابت قدم رہے گا روزِ قیامت میں اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔(مسلم، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ودعاء النبی صلی اللہ علیہ وسلم فیہا بالبرکۃ۔۔۔ الخ، ص709، حدیث: 1363(

عَنْ أَنَسٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ اللَّهُمَّ اجْعَلْ بِالْمَدِينَةِ ضِعْفَيْ مَا جَعَلْتَ بِمَكَّةَ مِنَ الْبَرَكَةِ۔ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ اے اللہ! جتنی مکہ میں برکت عطا فرمائی ہے مدینہ میں اس سے دگنی برکت عطا فرما۔(بخاری ، حدیث : 1885)

عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ، قَالَ إِنَّ الْإِيمَانَ لَيَأْرِزُ إِلَى الْمَدِينَةِ كَمَا تَأْرِزُ الْحَيَّةُ إِلَى جُحْرِهَا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ( قیامت کے قریب ) ایمان مدینہ میں اس طرح سمٹ آئے گا جیسے سانپ سمٹ کر اپنے بل میں آ جایا کرتا ہے۔(بخاری ، 1 / 620 ، حدیث : 1885)

عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ ، قَالَ : اللَّهُمَّ ارْزُقْنِي شَهَادَةً فِي سَبِيلِكَ ، وَاجْعَلْ مَوْتِي فِي بَلَدِ رَسُولِكَ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حضرت عمر رضی اللہ عنہ مدینہ میں شہادت کی یوں دعا کیا کرتے تھے: اے اللہ! مجھے اپنے راستے میں شہادت عطا کر اور میری موت اپنے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے شہر میں مقدر کر دے۔(بخاری ، حدیث : 1876)


مکۂ مکرّمہ اور مدینۂ منوّرہ زَادَھما اللہ شرفاً و تعظیماً وہ مبارک مقامات ہیں جنہیں محبوبِ خدا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے اپنی سکونت سے مشرّف فرمایا۔اسی وجہ سے مکہ و مدینہ عاشقان ِ رسول کے قلوب کے لئے باعثِ راحت و چین ہیں قراٰنِ مجید میں کئی مقامات پر مکہ و مدینہ کا ذکر فرمایا گیا جو کہ درج ذیل ہے:

قراٰنِ مجید میں ذکرِ مکۂ مکرّمہ:

(1)اوّل گھر: اِنَّ اَوَّلَ بَیْتٍ وُّضِعَ لِلنَّاسِ لَلَّذِیْ بِبَكَّةَ مُبٰرَكًا وَّ هُدًى لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶)

ترجَمۂ کنزُالعرفان:بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔(پ4،اٰلِ عمرٰن:96)یہودیوں نے کہا تھا کہ ”ہمارا قبلہ یعنی بیتُ المقدس کعبہ سے افضل ہے کیونکہ یہ گزشتہ انبیا علیہمُ السّلام کا قبلہ رہا ہے، نیزیہ خانہ کعبہ سے پرانا ہے“۔ ان کے رد میں یہ آیتِ کریمہ نازل ہوئی۔(خازن، اٰلِ عمرٰن، تحت الآیۃ:96، 1/274ملتقطاً) اور بتا دیا گیا کہ روئے زمین پر عبادت کے لئے سب سے پہلے جو گھر تیار ہوا وہ خانہ کعبہ ہے۔

(2)مرجع الناس: وَ اِذْ جَعَلْنَا الْبَیْتَ مَثَابَةً لِّلنَّاسِ وَ اَمْنًاؕ-وَ اتَّخِذُوْا مِنْ مَّقَامِ اِبْرٰهٖمَ مُصَلًّىؕ-وَ عَهِدْنَاۤ اِلٰۤى اِبْرٰهٖمَ وَ اِسْمٰعِیْلَ اَنْ طَهِّرَا بَیْتِیَ لِلطَّآىٕفِیْنَ وَ الْعٰكِفِیْنَ وَ الرُّكَّعِ السُّجُوْدِ(۱۲۵) ترجَمۂ کنزُ العرفان: اور (یاد کرو) جب ہم نے اس گھر کو لوگوں کے لئے مرجع اور امان بنایا اور (اے مسلمانو!) تم ابراہیم کے کھڑے ہونے کی جگہ کو نماز کا مقام بناؤ اور ہم نے ابراہیم و اسماعیل کو تاکید فرمائی کہ میرا گھر طواف کرنے والوں اور اعتکاف کرنے والوں اور رکوع و سجود کرنے والوں کے لئے خوب پاک صاف رکھو۔ (پ1، البقرۃ: 125) آیتِ مبارکہ میں ”الْبَیْتَ“ سے کعبہ شریف مراد ہے اور اس میں تمام حرم شریف داخل ہے۔ ”مَثَابَةً“ سے مراد بار بار لوٹنے کی جگہ ہے۔ یہاں مسلمان بار بار لوٹ کر حج و عمرہ و زیارت کےلئے جاتے ہیں۔اور امن بنانے سے یہ مراد ہے کہ حرمِ کعبہ میں قتل و غارت حرام ہے۔ (مدارک، البقرۃ، تحت الآیۃ: 125، ص77 ملخصاً)اور آیت میں مقامِ ابراہیم وہ پتھر ہے جس پر کھڑے ہو کر حضرت ابراہیم علیہ السّلام نے کعبۂ معظمہ کی تعمیر فرمائی اور اس میں آپ کے قدم مبارک کا نشان ہے، اسے نماز کا مقام بنانا مستحب ہے۔(بیضاوی، البقرۃ، تحت الآیۃ:125، 1/ 398 ملخصاً)

(3)مکۂ مکرّمہ کی قسم یاد فرمانا:﴿ لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) ﴾ترجَمۂ کنزُالعرفان: مجھے اِس شہر کی قسم۔ جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔(پ 30،البلد:1، 2) صِراطُ الجنان میں ان دو آیات کے متعلق ہے: اے پیارے حبیب!صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مجھے اِس شہرِ مکہ کی قسم! جبکہ تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔اے پیارے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مکۂ مکرّمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔(صراط الجنان، 10/678، 679ملتقطاً)

قراٰنِ مجید میں مدینۂ منوّرہ زادھا اللہ شرفاً و تعظیماً کے فضائل:

(1)مدینہ طیبہ کا اچھی جگہ ہونا:﴿ وَ الَّذِیْنَ هَاجَرُوْا فِی اللّٰهِ مِنْۢ بَعْدِ مَا ظُلِمُوْا لَنُبَوِّئَنَّهُمْ فِی الدُّنْیَا حَسَنَةًؕ-وَ لَاَجْرُ الْاٰخِرَةِ اَكْبَرُۘ-لَوْ كَانُوْا یَعْلَمُوْنَۙ(۴۱)﴾ ترجَمۂ کنزُالعرفان:اور جنہوں نے اللہ کی راہ میں اپنے گھر بار چھوڑے اس کے بعد کہ ان پر ظلم کیا گیا تو ہم ضرور انہیں دنیا میں اچھی جگہ دیں گے اور بیشک آخرت کا ثواب بہت بڑا ہے۔ کسی طرح لوگ جانتے۔ (پ14،النحل:41)

صِراطُ الجنان میں ہے کہ اس آیتِ مبارکہ میں اچھی جگہ سے مراد مدینہ طیبہ ہے جسے اللہ تعالیٰ نے ان کے لئے ہجرت کی جگہ بنایا۔اس آیت سے مدینۂ منوّرہ کی فضیلت بھی معلوم ہوئی کہ یہاں اسے ” حَسَنَةً (اچھی جگہ)“فرمایا گیاہے۔(صراطُ الجنان،5/318ملتقطاً)

(2)ایمان کا گھر:وَ الَّذِیْنَ تَبَوَّؤُ الدَّارَ وَ الْاِیْمَانَ مِنْ قَبْلِهِمْ ترجَمۂ کنزُالعرفان:اوروہ جنہوں نے ان (مہاجرین)سے پہلے اس شہر کو اور ایمان کو ٹھکانہ بنا لیا۔(پ28،الحشر:9) اس آیت میں انصار صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کی انتہائی مدح وثنا کی گئی چنانچہ اس آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ جنہوں نے مہاجرین سے پہلے یا ان کی ہجرت سے پہلے بلکہ نبیِّ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی تشریف آوری سے پہلے اس شہرِ مدینہ کو اپنا وطن اور ایمان کو اپنا ٹھکانہ بنالیا۔(صراطُ الجنان،10/73)

اللہ پاک تمام عاشقانِ رسول کو بار بار حرمین شریفین کی زیارت سے مشرف فرمائے۔اٰمین!


مکہ مکرمہ اور مدینہ منورہ دونوں ہی نہایت قابلِ احترام اور لائقِ تعظیم مقامات ہیں۔ان کے مقام و مرتبے کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ جو فضائل و کمالات اللہ پاک نے انہیں عطا کئے وہ کسی اور شہر کے حصے میں نہ آئے۔ ایسا کیوں نہ ہو کہ مکۂ مکرمہ میں مسلمانوں کی عقیدتوں اور محبتوں کا مرکز بیت اللہ شریف موجود ہے۔ جس کی محبت اور شوقِ زیارت میں ہر مسلمان کا دل دھڑکتا ہے۔ جبکہ مدینہ منورہ میں سرکارِ دو عالم، نور مجسم،شاہ آدم و بنی آدم‌، رسولِ محتشم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا برکتیں لٹاتا اور نور برساتا مزارِ پرانوار موجود ہے۔

الحمد للہ یہی وہ مقدس مقامات ہیں جن کا ذکر آیاتِ قرآنیہ میں بھی موجود ہے۔ چنانچہ پارہ 4 سورہ اٰلِ عمران کی آیت نمبر 96 میں اللہ پاک کا فرمانِ عظمت نشان ہے :اِنَّ  اَوَّلَ  بَیْتٍ  وُّضِعَ  لِلنَّاسِ   لَلَّذِیْ  بِبَكَّةَ  مُبٰرَكًا  وَّ  هُدًى  لِّلْعٰلَمِیْنَۚ(۹۶) ترجمۂ کنز العرفان: بیشک سب سے پہلا گھر جو لوگوں کی عبادت کے لئے بنایا گیا وہ ہے جو مکہ میں ہے برکت والا ہے اور سارے جہان والوں کے لئے ہدایت ہے۔ صدر الافاضل حضرت علامہ مولانا سید مفتی نعیم الدین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ اس آیتِ کریمہ کے تحت فرماتے ہیں کہ اس میں بتایا گیا ہے کہ سب سے پہلا مکان جس کو اللہ پاک نے طاعت و عبادت کے لئے مقرر کیا، نماز کا قبلہ، حج اور طواف کا موضع یعنی مقام بنایا، جس میں نیکیوں کے ثواب زیادہ ہوتے ہیں وہ کعبہ معظمہ ہے، جو مکہ معظمہ میں واقع ہے۔(خزائن العرفان، ص126)

پارہ 30 سورۂ بلد کی آیت نمبر 1 اور2 میں ارشاد خداوندی ہے: لَاۤ اُقْسِمُ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۱) وَ اَنْتَ حِلٌّۢ بِهٰذَا الْبَلَدِۙ(۲) ترجمۂ کنز الایمان: مجھے اس شہر کی قسم کہ اے محبوب! تم اس شہر میں تشریف فرما ہو۔

سبحان اللہ مکہ مکرمہ کی شان کس قدر ارفع و اعلیٰ ہے کہ اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں اس کی قسم ارشاد فرمائی۔تفسیرِ کبیر میں ہے سورۂ بلد کی دوسری آیت میں گویا کہ ارشاد فرمایا کہ اے پیارے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، مکہ مکرمہ کو یہ عظمت آپ کے وہاں تشریف فرما ہونے کی وجہ سے حاصل ہوئی ہے۔( تفسیرکبیر، البلد، تحت الآیۃ: 2، 11 / 164) اعلی حضرت فرماتے ہیں:

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا ترے شہر و کلام و بقا کی قسم

اسی طرح قرآنِ کریم میں مدینہ منورہ کا ذکر بھی موجود ہے چنانچہ پارہ 21،سورہ احزاب کی آیت نمبر 60 میں منافقین اور جھوٹی خبریں پھیلانے والوں کے متعلق ارشاد ہوا: لَىٕنْ لَّمْ یَنْتَهِ الْمُنٰفِقُوْنَ وَ الَّذِیْنَ فِیْ قُلُوْبِهِمْ مَّرَضٌ وَّ الْمُرْجِفُوْنَ فِی الْمَدِیْنَةِ لَنُغْرِیَنَّكَ بِهِمْ ثُمَّ لَا یُجَاوِرُوْنَكَ فِیْهَاۤ اِلَّا قَلِیْلًا ﳝ(۶۰) ترجمۂ کنز العرفان: منافق اوروہ کہ جن کے دلوں میں مرض ہے اور وہ لوگ جو مدینے میں جھوٹی خبریں پھیلانے والے ہیں اگر باز نہ آئے تو ضرور ہم تمہیں ان کے خلاف اکسائیں گے پھر وہ مدینہ میں تمہارے پاس نہ رہیں گے مگر تھوڑے دن۔

سورہ منافقون کی آیت نمبر 8 میں اللہ پاک نے منافقین کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرمایا: یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَةِ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّؕ-وَ لِلّٰهِ الْعِزَّةُ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ۠(۸) ترجمۂ کنز العرفان: وہ کہتے ہیں : قسم ہے اگر ہم مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا حالانکہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ۔

تفسیرِ صراط الجنان میں ہے کہ منافق کہتے ہیں : اگر ہم اس غزوہ سے فارغ ہونے کے بعد مدینہ کی طرف لوٹ کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے وہ اس میں سے نہایت ذلت والے کو نکال دے گا۔ منافقوں نے اپنے آپ کو عزت والا کہا اور مسلمانوں کو ذلت والا ،اللہ پاک ان کا رد کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے کہ عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے مگر منافقوں کو معلوم نہیں ،اگر وہ یہ بات جانتے تو ایسا کبھی نہ کہتے ۔( صراط الجنان)

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بار بار حرمین طیبین کی با ادب حاضری نصیب فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم۔