اس کار خانۂ قدرت میں جس کو جو نعمتیں ملیں ادب ہی کی بنا پر ملیں۔ جو ادب سے محروم رہا وہ حقیقت میں ہر نعمت سے محروم رہا۔ ادب ایک ایسی صفت ہے جو انسان کو ممتاز بناتی ہے۔دنیا کے شہنشاہوں کا اصول ہے جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور دربار کے آداب خود بناتا ہے جب وہ چلا جاتا ہے تو تعظیم بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ محمد مصطفٰےﷺ کی ذات گرامی ہے جن کی تعظیم و توقیر کا اللہ پاک نے حکم دیا ہے۔ قرآن ِکریم میں آپ کی تعظیم وادب کے با قاعدہ اصول اور احکام بیان فرمائے ہیں۔

1- سرکار دو عالم ﷺکی خدمت میں آواز بلندکرنے کو حرام قرار دیا گیا۔ الله پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

2-کسی قول و فعل میں ان سے آگے نہ بڑھو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

3-حضور ﷺ جب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (الانفال:24)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

4-بارگاہِ رسالت میں کوئی بات عرض کرنے سے پہلے صدقہ دے لو۔اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (المجادلۃ: 12) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لیے بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

5-جس کلمہ میں ادب ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے جیسا کہ لفظ ”را عنا“کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے۔الله پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104)ترجمہ: اے ایمان والو ! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

صحابہ کرام رضی اللہ عنہم وہ ہستیاں ہیں جنہوں نے اللہ پاک کے حبیب ﷺ کی زبان اقدس سے اللہ پاک کے وہ احکام سنے جن میں آپ کی تعظیم و توقیر اور ان کی بابرکت بارگاہ کے ادب واحترام کی شاندار مثالیں رقم ہیں، چونکہ انہیں حضور کا فیض بہت زیادہ حاصل تھا، لہٰذا وہ تاجدار رسالت ﷺ سے بہت محبت کرتے اور تعظیم و توقیر میں کوتاہی کے کبھی مرتکب نہیں ہوتے بلکہ ہمیشہ تعظیم و توقیر میں اضافہ ہی کرتے تھے۔

حضور کا ادب بجالانے کا درس:توحید کانور صرف انہی دلوں میں اتارا جاتا ہے جن میں ادب مصطفٰے ہوتا ہےیعنی ادب مصطفٰے کا صلہ نور توحید سے ملتا ہے۔ بے ادبی کفر ہے۔ ادب مصطفیٰ عین توحید ہے۔ گویایہ بات واضح ہوگئی کہ جس نے اللہ کی توحید کو سمجھنا ہو وہ حضور کے ادب کواپنالے جو دل اللہ کی توحید کے لیے منتخب کر لیےجاتے ہیں وہی انوار الہیہ کی منزل ہوتے ہیں لہٰذا کوئی توحید کے بارے میں پوچھے تو جواب ہے” ادب مصطفٰے“اور سب سے بڑا کفربے ادبی مصطفٰے ہے۔یہ درس وہ ہے جو ادب والے عمر بھر دیتے رہے۔ اس درس کو اپنا لیں اس سے سارے اعمال صالح مقبول اور نور بن جائیں گے۔ الله کریم ہمیں ایمان کے اصل جوہر کو پانے کی توفیق عطا فر مائے۔آمین

حضرت عثمان کا واقعہ:حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب حضور ﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر آپ کو قریش کے پاس بھیجا تو قریش نے آپ کو طواف کی اجازت دے دی لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ماکنت لافعل حتی یطوف بہ رسول اللہ یعنی میں اس وقت تک طواف نہیں کر سکتا جب تک رسول ﷺ طواف نہیں کرتے۔(شفاء، 2/39) اللہ کریم ہمیں سچی پکی عاشقہ رسول بنائے اورآقا ﷺ کی تعظیم کرنے والی بنائے۔ آمین 


حضرت محمدﷺ کی ذات انتہائی احترام کی متقاضی ہے۔آپ اللہ کے بندے اور رسول ہیں۔ جو آپ کا احترام نہیں کرتا وہ کامیاب نہیں ہوتا اور وہ یوں سمجھے کہ معاذالله الله پاک کا احترام نہیں کرتا۔ارشاد ہوا: اِنَّ اللّٰهَ وَ مَلٰٓىٕكَتَهٗ یُصَلُّوْنَ عَلَى النَّبِیِّؕ-یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا صَلُّوْا عَلَیْهِ وَ سَلِّمُوْا تَسْلِیْمًا(۵۶) (پ 22، الاحزاب: 56) ترجمہ: بے شک اللہ اور اس کے فرشتے نبی پردرود بھیجتے ہیں۔اے ایمان والو! ان پر درود اور خوب سلام بھیجو۔

جب رسول اللہﷺکا نام سنے تو چاہیے کہ درود بھیجے اور جو نہ بھیجے اس کے لیے کہا گیا ہے کہ وہ سب سے زیادہ بخیل شخص ہے۔

5 آداب قرآنی آیات و ترجمہ اور مختصر شرح کے ساتھ:

دربار رسول کا ادب یہ کہ آئیں بھی اجازت لے کر اور جائیں بھی اذن حاصل کر کے جیسا کہ غلاموں کا مولیٰ کے دربار میں طریقہ ہوتا ہے۔چنانچہ ارشاد ہوا: اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اِذَا كَانُوْا مَعَهٗ عَلٰۤى اَمْرٍ جَامِعٍ لَّمْ یَذْهَبُوْا حَتّٰى یَسْتَاْذِنُوْهُؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ یَسْتَاْذِنُوْنَكَ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ یُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-فَاِذَا اسْتَاْذَنُوْكَ لِبَعْضِ شَاْنِهِمْ فَاْذَنْ لِّمَنْ شِئْتَ مِنْهُمْ وَ اسْتَغْفِرْ لَهُمُ اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۶۲) ( النور: 62) ترجمہ کنز الایمان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر یقین لائے اور جب رسول کے پاس کسی ایسے کام میں حاضر ہوئے ہوں جس کے لیے جمع کیے گئے ہوں تو نہ جائیں جب تک اُن سے اجازت نہ لے لیں وہ جو تم سے اجازت مانگتے ہیں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاتے ہیں پھر جب وہ تم سے اجازت مانگیں اپنے کسی کام کے لیے تو ان میں جسے تم چاہو اجازت دے دو اور اُن کے لیے اللہ سے معافی مانگو بےشک اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

جو آپ سے اجازت مانگتے ہیں وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول ﷺ پر ایمان لاتے ہیں،ان کا اجازت چاہنا فرمانبر داری کا نشان اور صحت ایمان کی دلیل ہے۔ اے محبوب! جب وہ آپ سے جانے کی اجازت مانگیں تو ان میں جسے تم چاہو اجازت دے دو اور ان کے لیے اللہ سے معافی مانگو، بیشک الله بخشنے والا ہے۔

(2) رسول اکرم ﷺکے پکارنے کو آپس میں ایسا معمولی نہ بنالو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔کیونکہ رسول اکرم ﷺجسے پکاریں اس پر جواب دینا اور عمل کرنا واجب ہے۔چنانچہ ارشاد باری ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔

ہمارا رسول ﷺ کی بارگاہ میں ادب سے حاضر ہونا لازم ہو جاتا ہے اور قریب حاضر ہونے کے لیے اجازت طلب کرے اور اجازت سے ہی واپس ہو۔ دوسرا یہ کہ اے لوگو!میرے حبیب کا نام لے کر نہ پکارو بلکہ تعظیم،تکریم،توقیر، نرم آواز کے ساتھ انہیں اس طرح کے الفاظ کے ساتھ پکارو” یارسول الله، یانبی اللہ،یاخاتم النبین“اس لیے آپ کو ”یا محمد“ کہہ کر پکارنے کی اجازت نہیں۔

(3) رسولﷺ کے حلم کی پیروی کرنا اور ان کی اطاعت کرنا اور ان کو دل و جان سے زیادہ محبوب جاننا اور جو نہیں کرتا تو اس کو دردناک عذاب سے بھی ڈرایا گیا ہے۔ فَلْیَحْذَرِ الَّذِیْنَ یُخَالِفُوْنَ عَنْ اَمْرِهٖۤ اَنْ تُصِیْبَهُمْ فِتْنَةٌ اَوْ یُصِیْبَهُمْ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۶۳) (النور:63 ) ترجمہ کنز الایمان: تو ڈریں وہ جو رسول کے حکم کے خلاف کرتے ہیں کہ انہیں کوئی فتنہ پہنچے یا اُن پر دردناک عذاب پڑے۔

آپ ﷺ کے حکم سے اعراض کرنے والے اور ان کی اجازت کے بغیر چلے جانے والے اس بات سے ڈریں کہ انہیں دنیا میں تکلیف،قتل،زلزلے یا دل کا سخت ہو کر معرفتِ الٰہی سے محروم رہنا وغیرہ کوئی مصیبت پہنچے یا انہیں آخرت میں دردناک عذاب پہنچے۔

(4) کسی قول اور فعل میں رسول اکرم ﷺ سے آگے نہ بڑھو۔فرمانِ باری ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

حضور ﷺ جب بھی بلائیں فورا ًان کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ اور الله کے رسول ﷺ سے آگے بڑھنے کی ہماری اوقات ہی کیا ہے کہ ہم آخری نبی ﷺ سے آگے بڑھیں۔

(5)بارگاہ رسالت میں کوئی بات عرض کرنے سے پہلے صدقہ دے لو اور ادب بھی کرو: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (المجادلۃ: 12) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لیے بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ ( بعد میں وجوب کا حکم منسوخ ہو گیا۔)

ان آداب کو بجالانے کا درس: توحید کا نور صرف انہی دلوں میں اتارا جاتا ہے جن میں ادب مصطفٰے ہوتا ہے۔ یعنی ادب مصطفٰے کا صلہ نور توحید سے ملتا ہے۔ بے ادبی کفر ہے اور ادب مصطفٰے عین توحید ہے۔ گویا یہ بات واضح ہوگئی کہ جس نے اللہ کی توحید کو سمجھا ہو وہ حضور ﷺکے آداب کو اپنانے، جو دل اللہ کی توحید کے لیے منتخب کر لیے جاتے ہیں وہی انوارِ الہیہ کی منزل ہوتے ہیں۔لہٰذا کوئی توحید کے بارے میں پوچھے تو جواب ہے ادبِ مصطفٰے۔ سب سے بڑا کفر بے ادبی مصطفٰے ہے۔

حضرت عثمان کا واقعہ: حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ کے بارے میں روایت ہے کہ جب حضورﷺ نے حدیبیہ کے موقع پر آپ کو قریش کے پاس بھیجا تو قریش نے آپ کوطواف کی اجازت دے دی لیکن آپ نے یہ کہہ کر انکار کر دیا کہ ما کنت لافعل حتی یطوف بہ رسول اللہ میں اس وقت تک طواف نہیں کر سکتا جب تک رسولﷺ طواف نہیں کرتے۔ (الشفاء، 2/70)


پیارے پیارے نبی، مکی مدنی مصطفٰےﷺکی شان اتنی بلند ہے کہ آپ کی بارگاہ کے آداب کسی عام ذات نے بیان نہیں کئے، بلکہ خود الله پاک قرآنِ پاک میں جا بجا ارشاد فرما رہا ہے، کیونکہ آپ اللہ پاک کو اس قدر محبوب تھے کہ کوئی آپ کی شان میں بے ادبی کرتا تو ساتھ ہی اللہ پاک آیتیں نازل فرما کر اپنے محبوب کی شان بلند سے بلند فرما دیتا۔

بارگاہِ نبوی کے 5 آداب آپ بھی ملاحظ فرمائیے۔

(1)شانِ مصطفٰےبزبان خدا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ26،الحجرات:1) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھواور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ فر ماتے ہیں: اس آیت کا شان نزول کچھ بھی ہو مگر یہ حکم سب کو عام ہے یعنی کسی بات میں، کسی کام میں حضور ﷺ سے آگے ہونا منع ہے۔(شان حبیب ا لرحمن،ص224)

(2) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ26،الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔

ذہن میں رکھ آیۂ لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ بات کر طبع پیمبر کی نزاکت دیکھ کر

(3) وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ26،الحجرات: 2) ترجمہ کنز العرفان: اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسےایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال بربادنہ ہو جا ئیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

باب جبریل کے پہلو میں ذرا دھیرے سے فخر جبریل کو یوں کہتے ہوئے پایا گیا

اپنی پلکوں سے درِیار پہ دستک دینا اونچی آواز ہوئی مگر عمر بھر کا سرمایہ گیا

4)) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (پ26،الحجرات:5-4) ترجمہ کنز العرفان:بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے با ہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثربے عقل ہیں اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ تم ان کے پاس خود تشریف لے آتے تو یہ ان کے لئے بہتر تھا اور الله بخشنے والا مہربان ہے۔

آیت میں رسول اللہ ﷺ کی جلالتِ شان کو بیان فرمایاگیا ہے کہ بارگاہ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔(مدارک،ص1151)

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1،البقرۃ:104) ترجمہ کنز العرفان: اےایمان والو!راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

جب حضور ﷺ صحابہ کرام کو کچھ تعلیم و تلقین فرماتے تو وہ بھی کبھی درمیان میں عرض کرتے:راعنا یا سول اللہ! اس کے یہ معنی تھے کہ یار سول اللہ!ہمارے حال کی رعایت فرمائیے۔ یہودیوں کی لغت میں یہ کلمہ بے ادبی کا معنی رکھتا تھا انہوں نے اسے بری نیت سے بولنا شروع کر دیا تو اس پر یہ آیت نازل ہوئی جس میں راعناکہنے کی ممانعت اور“اُنظرنا “ کہنے کا حکم ہوا۔ (قرطبی، الجزء الثانی، 1/45-44)

لے سانس بھی آہستہ کہ دربار نبی ہے کہ کہیں کوئی گستاخی نہ ہو جائے

بارگاہِ نبوی میں صحابہ کرم کا انداز بھی نرالا ہوا کرتا تھا جب وہ نبی پاکﷺ کی بارگاہ اقدس میں حاضری سے مشرف ہوتے تو ایسے ہوتے جیسے اُن کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوں اگر وہ سر اٹھائیں تو وہ پرندے اڑجائیں۔ ایسا ادب ایسا عشق اللہ کریم ہمیں بھی نصیب فرمائے۔ ہماری جھولی بھی دامن محبوب کے عشق وادب سے بھر دے اور جب ہم بھی بارگاہ نبوی میں حاضر ہوں تو ہمیں بھی صحیح معنوں میں بارگاه رسالت کے آداب بجالانے کی توفیق عطافرمائے۔ آمین ثم آمین

بھول جاتے تھے صحابہ غم و آلام اپنے دیکھ لیتے تھے جو سرکار کو آتے جاتے


ہم غریبوں کے آقا پہ بے حد درود                    ہم فقیروں کی ثَروَت پہ لاکھوں سلام

حضور اقدس ﷺ نے اپنی امت کی خاطر جو تکالیف برداشت فرمائیں، امت کی مغفرت کے لئے دربار باری میں انتہائی بے قراری کے ساتھ گریہ و زاری فرمائی، اپنی امت کے لئے جو جو مشقتیں اٹھائیں ان کا تقاضا ہے کہ امت پر حضور کے کچھ حقوق ہیں جن کو ادا کرنا ہر امتی پر فرض و واجب ہے۔

ان حقوق میں ایک نہایت ہی اہم اور بہت ہی بڑا حق یہ بھی ہے کہ ہر امتی پر فرض عین ہے کہ حضور اکرم ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کی تعظیم و توقیر اور ان کا ادب و احترام کرے اور ہرگز ہرگز ان کی شان میں کوئی بے ادبی نہ کرے کہ ایمان لانے کے بعد تعظیمِ مصطفٰی ہی مطلوب و مقصود ہے، آپ کی عظمت و محبت پر ہی ایمان کا مدار ہے، ایمان مکمل ہی اس وقت ہوتا ہے جبکہ حضور کو اپنی جان، مال اور اولاد سے بڑھ کر محبوب جانا جائے اور یہ ایک جانی ہوئی بات ہے کہ "ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔"

اللہ پاک نے قرآن مجید میں کئی جگہ بارگاہِ نبوی کے آداب بیان کیے ہیں، آئیے ان میں سے چند آداب جاننے کی سعادت حاصل کرتے ہیں، چنانچہ ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت ِمبارکہ میں اللہ تعالیٰ نے ایمان والوں کواپنے حبیب ﷺ کے دو عظیم آداب سکھائے ہیں۔

1۔پہلا ادب یہ ہے کہ اے ایمان والو! جب نبیٔ کریم ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ آہستہ اور پَست آواز سے کرو۔

2۔دوسرا ادب یہ ہے کہ حضورِ اَقدس ﷺ کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو اور جیسے آپس میں ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو اس طرح نہ پکارو بلکہ تمہیں جو عرض کرنا ہو وہ ادب و تعظیم اور توصیف وتکریم کے کلمات اور عظمت والے اَلقاب کے ساتھ عرض کرو جیسے یوں کہو: یا رسولَ اللہ!، یا نَبِیَّ اللہ!، کیونکہ ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہو گی۔ (تفسیر قرطبی، الحجرات، تحت الآیۃ:2، 8 / 220)

3۔ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ-فَاِنْ لَّمْ تَجِدُوْا فَاِنَّ اللّٰهَ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۱۲) (المجادلۃ: 12) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو جب تم رسول سے کوئی بات آہستہ عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو یہ تمہارے لیے بہتر اور بہت ستھرا ہے پھر اگر تمہیں مقدور نہ ہو تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس آیت مبارکہ میں بارگاہ نبوی کا ایک اور ادب بیان کرتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ اے ایمان والو! جب تم رسولِ کریم ﷺ سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو کہ اس میں بارگاہِ رسالت میں حاضر ہونے کی تعظیم اور فقراء کا نفع ہے۔یہ عرض کرنے سے پہلے صدقہ کرنا تمہارے لیے بہت بہتر ہے کیونکہ اس میں اللہ پاک اور اس کے حبیب کی اطاعت ہے اور یہ تمہیں خطاؤں سے پاک کرنے والا ہے، پھر اگر تم اس پر قدرت نہ پاؤ تو اللہ پاک بخشنے والا مہربان ہے۔( خازن، المجادلۃ، تحت الآیۃ:12،4/241-242)

4۔ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَدْخُلُوْا بُیُوْتَ النَّبِیِّ اِلَّاۤ اَنْ یُّؤْذَنَ لَكُمْ اِلٰى طَعَامٍ غَیْرَ نٰظِرِیْنَ اِنٰىهُۙ-وَ لٰكِنْ اِذَا دُعِیْتُمْ فَادْخُلُوْا فَاِذَا طَعِمْتُمْ فَانْتَشِرُوْا وَ لَا مُسْتَاْنِسِیْنَ لِحَدِیْثٍؕ-اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘-وَ اللّٰهُ لَا یَسْتَحْیٖ مِنَ الْحَقِّؕ- ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والونبی کے گھروں میں نہ حاضر ہو جب تک اذن نہ پاؤ مثلا کھانے کے لیے بلائے جاؤ نہ یوں کہ خود اس کے پکنے کی راہ تکو ہاں جب بلائے جاؤ تو حاضر ہو اور جب کھا چکو تو متفرق ہو جاؤ نہ یہ کہ بیٹھے باتوں میں دل بہلاؤ بے شک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور الله حق فرمانے میں نہیں شرماتا۔ اس آیت مبارکہ میں بھی بارگاہ نبوی کے دو آداب بیان کیے گئے۔

اے ایمان والو!میرے حبیب ﷺ کے گھروں میں یونہی حاضر نہ ہو جاؤ بلکہ جب اجازت ملے جیسے کھانے کیلئے بلایا جائے تو حاضر ہوا کرو اور یوں بھی نہ ہو کہ خودہی میرے حبیب ﷺ کے گھر میں بیٹھ کر کھانا پکنے کاانتظار کرتے رہو، ہاں جب تمہیں بلایا جائے تو اس وقت ان کی بارگاہ میں حاضری کے احکام اور آداب کی مکمل رعایت کرتے ہوئے ان کے مقدس گھر میں داخل ہوجاؤ۔

5۔ جب کھانا کھا کر فارغ ہو جاؤتو وہاں سے چلے جاؤ اور یہ نہ ہو کہ وہاں بیٹھ کر باتوں سے دل بہلاتے رہو کیونکہ تمہارا یہ عمل اہلِ خانہ کی تکلیف اور ان کے حرج کاباعث ہے۔ بیشک تمہارا یہ عمل گھر کی تنگی وغیرہ کی وجہ سے میرے حبیب ﷺ کو ایذا دیتا تھا لیکن وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے اور تم سے چلے جانے کے لئے نہیں فرماتے تھے لیکن اللہ تعالیٰ حق بیان فرمانے کو ترک نہیں فرماتا۔(روح البیان، الاحزاب، تحت الآیۃ: 7،53/213-214)

یہی وجہ ہے کہ حضرات صحابہ کرام رضی اللہ عنہم حضور اقدس ﷺ کا اس قدر ادب و احترام کرتے تھے اور آپ کی مقدس بارگاہ میں اتنی تعظیم و تکریم کا مظاہرہ کرتے تھے کہ حضرت عروہ بن مسعود ثقفی رضی اللہ عنہ جب کہ مسلمان نہیں ہوئے تھے اور کفار مکہ کے نمائندہ بن کر میدان حدیبیہ میں گئے تھے تو وہاں سے واپس آ کر انہوں نے کفار کے مجمع میں علی الاعلان یہ کہا تھا کہ اے میری قوم ! میں نے بادشاہ روم قیصر اور بادشاہ فارس کسری اور بادشاہ حبشہ نجاشی سب کا دربار دیکھا ہے مگر خدا کی قسم ! میں نے کسی بادشاہ کے درباریوں کو اپنے بادشاہ کی اتنی تعظیم کرتے نہیں دیکھا جتنی تعظیم محمدکے اصحاب محمد کی کرتے ہیں۔(بخاری، 1/380) اس روایت سے یہ اندازہ لگایا جا سکتا ہے کہ حضور ﷺ کے اصحاب کبار اپنے آقائے نامدار کے دربار میں کس قدر تعظیم و تکریم کے جذبات سے سرشار رہتے تھے۔ہمیں بھی چاہئے کہ ان نفوس قدسیہ کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اور قرآن کے احکام پر عمل کرتے ہوئے ہم بھی بارگاہ نبوی کے آداب کو ملحوظ خاطر رکھیں اور مدینہ پاک کی حاضری کے وقت ان پر عمل بھی کریں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے مدنی آقا ﷺ اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی ہر چیز کی تعظیم و ادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ

با ادب ہے بانصیب اے اَہل دِیں بے ادب سے بدنصیبی ہے قریں


دنیا کے شہنشاہوں،بادشاہوں(Kings) کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور اپنے دربار کے آداب خود بناتا ہے اور جب وہ چلاجاتا ہے تو اپنی تعظیم و آداب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے۔ لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے،جس کےدربار کا عالم ہی نرالا ہے۔اُس کی تعظیم اور اُس کی بارگاہ میں ادب و احترام کے اصول و قوانین نہ اُس نے خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی نے بنائے ہیں۔ بلکہ تمام بادشاہوں کے بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا کرنے والے ربّ نے بنائے ہیں۔ اور بہت سے قوانین کسی خاص وقت کے لئے نہیں، بلکہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے مقرر فرمائے ہیں۔ اور وہ عظیم شہنشاہ اس کائنات کے مالک و مختار، محمد ِ مصطفےٰﷺ کی ذاتِ گرامی ہے۔اللہ پاک نے قرآنِ کریم میں آپ کی تعظیم اور ادب کے اصول و احکام بیان فرمائے ہیں۔

(1)پارہ 9،سورۂ انفال، آیت نمبر 24 میں اللہ پاک نے فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ- ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ اور رسول کے بلانے پر حاضر ہو۔ جب رسول تمہیں اس چیز کے لئے بلائیں جو تمہیں زندگی بخشے گی۔ اس آیت سے ثابت ہو اکہ تاجدارِ رسالت ﷺ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حا ضر ہو جائے، چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو۔(تفسیر صراط الجنان، ص539)

(2) پارہ نمبر26،سورۂ حجرات آیت نمبر 2 میں اللہ پاک نے فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو!اپنی آوازیں اونچی نہ کرو،اس غیب بتانے والے (نبی)کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کر نہ کہو،جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت نہ ہوجائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیتِ مبارکہ میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب سکھایا ہے کہ جب نبیِ کریم ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو، تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز اُن کی آواز سے بلند نہ ہو، بلکہ جو عرض کرنا ہے آہستہ اور پست آواز سے کرو۔ (تفسیر صراط الجنان، ص396-397)

(3) پ26 سورۂ حجرات آیت نمبر 1 میں اللہ پاک نے فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) ترجمۂ کنز الایمان: اے ایمان والو!اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سنتا جانتا ہے۔

آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول ﷺ کی اجازت کے بغیر کسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے، کیونکہ یہ آگے بڑھنارسولِ کریم ﷺکے ادب و احترام کے خلاف ہے۔ (تفسیر صراط الجنان، ص 394)

(4) پارہ 18 سورۂ نورآیت نمبر 63 میں اللہ پاک نے فرمایا: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرالو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ اس آیت سے معلوم ہوا کہ اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: اے لوگو! میرے حبیب ﷺکا نام لے کر نہ پکارو، بلکہ تعظیم و تکریم، نرم آواز کے ساتھ” یارسول اللہ، یا حبیب اللہ “کے الفاظ کے ساتھ پکارو۔ ایسے الفاظ کے ساتھ ندا کرنا جائز نہیں جن میں ادب و تعظیم نہ ہو۔ (تفسیر صراط الجنان، ص675)

(5) پارہ28،سورۂ مجادلہ، آیت نمبر 12 میں اللہ پاک نے فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اِذَا نَاجَیْتُمُ الرَّسُوْلَ فَقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیْ نَجْوٰىكُمْ صَدَقَةًؕ-ذٰلِكَ خَیْرٌ لَّكُمْ وَ اَطْهَرُؕ- ترجمہ کنز الایمان:اے ایمان والو! جب تم رسول سے تنہائی میں کوئی بات عرض کرنا چاہو تو اپنی عرض سے پہلے کچھ صدقہ دے لو، یہ تمہارے لئے بہت بہتر اور زیادہ پاکیزہ ہے۔

عرض کرنے سے پہلے صدقہ کرنا تمہارے لیے بہت بہتر ہے، کیونکہ اس میں اللہ پاک اور اس کے حبیب ﷺ کی اطاعت ہے اور یہ تمہیں خطاؤں سے پاک کرنے والا ہے۔ پھر اگر تم اس پر قدرت نہ پاؤ تو اللہ پاک بخشنے والا مہربان ہے۔ (تفسیر صراط الجنان)

درس:قرآنِ کریم اور احادیثِ مبارکہ میں بارگاہِ نبوی کے آداب بیان ہوئے ہیں، ان سے ہمیں یہ درس ملتا ہے کہ جس طرح صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم کو ظاہری حیات کے آداب سکھائے گئے تو نبیِ کریم ﷺ کے وصالِ ظاہری کے بعد بھی ہم پر ان آداب پر عمل کرنا ضروری ہے کہ جب احادیث کا درس ہورہا ہو تو اپنی آواز کو بلند نہ کریں، دو زانو باادب بیٹھ کر تعظیم کے ساتھ احادیث کو سنیں۔ اپنے ذہن کو دنیاوی خیالوں سے پاک کرکے درود شریف پڑھیں،مدینے کا تصور باندھ کر پڑھیں۔کیونکہ انسان کو جس سے محبت ہوتی ہے، اُس کا کلام اُس کو لذت و سکون دیتا ہے اور محبت اطاعت بھی کرواتی ہے۔

خاموش! اے دل! بھری محفل میں چلانا اچھا نہیں ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔

واقعہ:حضرت علی مرتضیٰ رضی اللہُ عنہ نے رسولِ کریم ﷺ کی تعظیم کی خاطر عبادات میں سے افضل عبادت نماز وہ بھی درمیانی نمازِ عصر قربان کردی۔ اس واقعے کی طرف اشارہ کرتے ہوئے اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

مولیٰ علی نے واری تیری نیند پر نماز اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلیٰ خطر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل اصول بندگی اس تاجور کی ہے

بارگاہِ نبوی کے مزید آداب سیکھنے کے لئے دعوتِ اسلامی کے بیانات سنیں اور تفسیر صراط الجنان کا مطالعہ فرمائیں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بارگاہِ نبوی کے آداب بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


پیارے آقا ﷺ کی بارگاہ کے آداب کیا ہونے چاہییں، یہ ہمیں قرآن سکھا رہا ہے۔ بادشاہوں کی بارگاہ کے آداب کو ان کے نائبین بیان کرتے ہیں،مگر قربان جائیے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں سید المرسلین ﷺ کی شان اتنی بلند ہے کہ ان کی بارگاہ کے آداب اللہ پاک نے خود قرآنِ پاک میں ارشاد فرمائے ہیں۔ چنانچہ

(1)اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

اس آیتِ مبارکہ کی تفسیر کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیبﷺ کا ادب و احترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے۔ اور آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ پاک اور اس کے رسول کی اجازت کے بغیرکسی قول اور فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے۔ کیونکہ یہ آگے بڑھنا حضور کے ادب و احترام کے خلاف ہے، جبکہ بارگاہِ رسالت میں نیاز مندی اور آداب کا لحاظ رکھنا لازم ہے اور تم اپنے تمام اَقوال و اَفعال میں اللہ پاک سے ڈرو، کیونکہ اگر تم اللہ پاک سے ڈرو گے تو یہ ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا۔ترکِ ادب سے نیکیوں کے برباد ہونے کا اندیشہ ہے اور اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔

(2) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت حضور ﷺ کی خدمت میں پہنچے، اس وقت حضور آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے حجرے کے باہر سے آپ کو پکارنا شروع کر دیا اور آپ باہر تشریف لائے۔ اس آیت میں حضور کی جلالت ِشان کو بیان فرمایا گیا کہ آپ کی بارگاہِ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔

(3) وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 5) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔ اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ ان لوگوں کو ادب کی تلقین کی گئی کہ پکارنے کی بجائے صبر اور انتظار کرتے،یہاں تک کہ حضور ﷺ خود حجرے سے باہر تشریف لے آتے اور وہ لوگ اپنی عرض پیش کرتے۔جن سے یہ بے ادبی سرزَد ہوئی ہے، اگر وہ توبہ کریں تو اللہ پاک اُنہیں بخشنے والا اور ان پر مہربانی فرمانے والا ہے۔

ان آیاتِ مبارکہ سے ہمیں یہ درس حاصل ہوا کہ حضور ﷺ کی تعظیم ہم پر لازم ہے۔آپ کی بے ادبی کرنے والا گنہگار اور عذابِ نار کا حق دار ہے۔ جبکہ آپ کی تعظیم کرنے اور آپ کی تعلیمات پر عمل کرنے والا بخشش و بڑے ثواب کو پانے والا ہے۔یاد رہے یہ آداب خاص وقت تک کے لئے نہیں، بلکہ ہمیشہ کے لئے ہیں۔

(4) اِنَّ الَّذِیْنَ یَغُضُّوْنَ اَصْوَاتَهُمْ عِنْدَ رَسُوْلِ اللّٰهِ اُولٰٓىٕكَ الَّذِیْنَ امْتَحَنَ اللّٰهُ قُلُوْبَهُمْ لِلتَّقْوٰىؕ-لَهُمْ مَّغْفِرَةٌ وَّ اَجْرٌ عَظِیْمٌ(۳) ( الحجرات:3 ) ترجمہ کنز الایمان: بے شک وہ جو اپنی آوازیں پست رکھتے ہیں رسول اللہ کے پاس وہ ہیں جن کا دل اللہ نے پرہیزگاری کے لیے پرکھ لیا ہے ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ جب یہ آیت نازل ہوئی تو حضرت ابو بکر صدیق، حضرت عمر اور دیگر صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم نے بہت احتیاط لازم کرلی اور سرکار ﷺ کی بارگاہ میں بہت ہی پست آواز میں عرض و معروض کرتے۔ ان حضرات کے حق میں یہ آیت نازل ہوئی اور ان کے عمل کی تعریف کی گئی اور آخرت میں ان کے لئے بخشش اور بڑے ثواب کی بشارت دی گئی۔

(5) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔ اس آیت کے تحت تفسیر صراط الجنان میں ہے:ایمان والوں کو حضور ﷺ کے دو عظیم ادب سکھائے جارہے ہیں:

(1) اے ایمان والو! جب نبی ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم ان کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز ان کی آواز سے بلند نہ ہو، بلکہ جو عرض کرنا ہو وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔

(2) حضور ﷺ کو ندا دینے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو جیسے آپس میں ایک دوسرے کا نام لے کر پکارتے ہو ویسے نہ پکارو، بلکہ عظمت والے القابات کے ساتھ عرض کرو۔ جیسے یوں کہو: یارسول اللہ، یا نبی اللہ۔ کیونکہ صحابۂ کرام نے تاجدارِ رسالت ﷺ کی ظاہری حیاتِ مبارکہ میں بھی اور وصالِ ظاہری کے بعد بھی آپ کی بارگاہ کا بےحد ادب و احترام کیا۔ اسی طرح ان کے بعد تشریف لانے والے بزرگانِ دین نے بھی دربارِ رسالت کے آداب کا خوب خیال رکھا۔ چنانچہ ان کی سیرت کے اس پہلو کے متعلق ایک واقعہ ملاحظہ ہو:

امام مالک رحمۃ اللہ علیہ(مسجدِ نبوی میں درس دیا کرتے تھے،جب ان)کے حلقۂ درس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو ان سے عرض کی گئی: آپ ایک آدمی مقر کرلیں جو(آپ سے حدیثِ پاک سن کر) لوگوں کو سنائے۔ امام مالک رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنزالایمان: اے ایمان والو! اپنی آوازیں اونچی نہ کرو، اُس غیب بتانے والے نبی کی آواز پر۔ اور رسولِ کریم ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے۔ اس لئے میں کسی شخص کو یہاں آواز بلند کرنے کے لئے ہرگز مقرر نہیں کرسکتا۔ (الشفاء، ص 43)اللہ پاک ہمیں بھی ادبِ مصطفےٰ کرنے اور آپ کی مبارک سیرت پر عمل پیرا ہونے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین


دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ وہ اپنی تعظیم کے اصول خود بناتے ہیں، اپنے دربار کے آداب خود بناتے اور جب چلے جاتے ہیں تو اپنی تعظیم و ادب کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتے ہیں۔ لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے، جس کے دربار کا دستور ہی نرالا ہے کہ اس نے اپنی بارگاہ کے ادب و احترام کے اصول و قوانین نہ خود بنائے ہیں اور نہ ہی مخلوق میں سے کسی نے بنائے ہیں۔بلکہ سب سے بڑے شہنشاہ،بادشاہ اور ساری کائنات کو پیدا فرمانے والے ربّ کریم نے نازل فرمائے ہیں۔ وہ ہستی عظیم، شہنشاہ، مالک و مختار ہستی محمدِ مصطفےٰ ﷺ کی ذاتِ گرامی ہے، جن کی تعظیم و توقیر کرنے کا خود اللہ پاک نے حکم فرمایا۔ چنانچہ

(1)اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (پ9، الانفال: 24)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔ حضور ﷺ جب بھی بلائیں، حکم فرمائیں تو فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہوجاؤ۔

(2) اللہ پاک فرماتا ہے: لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبیِ کریم ﷺ کو پکارنے سے منع فرمایا گیا ہے۔

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ1، البقرۃ: 104)ترجمہ کنز العرفان: اے ایمان والو! راعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لئے درد ناک عذاب ہے۔

آیتِ مبارکہ سے پتا چلا کہ جس کلمہ میں ادب ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو، وہ زبان پر لانا ممنوع ہے۔ جیسا کہ لفظِ راعنا کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے۔

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ (پ26، الحجرات:2)ترجمہ کنز العرفان: اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔

آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ اے ایمان والو! آقا کریم ﷺ کی بارگاہ میں کچھ عرض کرنا ہو تو تم پر لازم ہے کہ تمہاری آواز اُن کی آواز سے بلند نہ ہو، بلکہ جو بھی عرض کرنا ہو وہ آہستہ اور پست آواز سے کرو۔

(5) اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)(پ26، الحجرات: 4) ترجمہ کنز العرفان: بےشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں، ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

رسول اللہ ﷺ کی جلالتِ شان کو بیان فرمایا گیا کہ سید المرسلین ﷺ کی بارگاہ اقدس میں اس طرح پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔سیدی اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

یہی وجہ ہے کہ صحابۂ کرام رضی اللہُ عنہم اور صحابیاتِ طیبات رضی اللہُ عَنہُنَّ حضورِ اقدس ﷺ کا بےحد ادب و احترام کرتے اور بارگاہِ رسالت کے آداب کا ہمیشہ خیال رکھتے۔

صحابیہ کا ادبِ رسول: بحیرہ بن فراس قشیری نامی شخص نے حضور ﷺ کی اونٹنی کی کوکھ میں نیزہ چبھادیا،وہ اچھلی اور آپ زمین پر تشریف لے آئے۔حضرت ضُباعہ بنتِ عامر رضی اللہُ عنہا یہ سن کر آپے سے باہر ہوگئیں اور اپنے چچا زاد آلِ عامر کے ذریعے اس گستاخی کا بدلہ لیا۔آلِ عامر نے ابھی اسلام قبول نہیں کیا تھا۔ حضور پرنور ﷺ نے خوش ہوکر برکت کی دعا دی۔انہوں نے اسلام قبول کرلیا۔اپنے آقا پر جانیں قربان کردیں۔(صحابیات و صالحات کے اوصاف،1/80) اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں پیارے آقا ﷺ سے اور آپ سے نسبت و تعلق رکھنے والی تمام چیزوں کا ادب و احترام بجالانے کی توفیق عطا فرمائے۔ 


اللہ پاک نے اپنی تمام مخلوقات میں ہمارے نبی کریم ﷺ کو جو عزت و شرافت اور مقام و مرتبہ عطا فرمایا ہے،اتنا کسی کو نہیں دیا گیا۔آپ کو دل سے مقصدِ تخلیقِ کائنات،واجب الاتباع،خاتم الانبیا،محسن، ہادی اور رہبر جاننا اور ماننا ضروری ہے۔آپ کی شان میں ادنیٰ سی گستاخی کرنا بھی کفر ہے۔اللہ پاک نے قرآنِ پاک میں بارگاہِ نبوی کے آداب کو بیان فرمایا ہے:

(1)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

اس آیتِ مبارکہ میں راعنا کی بجائے انظرنا کہنے کا حکم دیا،جس کا معنی ہے:ہم پر نظر و شفقت فرمائیں۔

(2) اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۸) لِّتُؤْمِنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ تُعَزِّرُوْهُ وَ تُوَقِّرُوْهُؕ-ترجمہ کنز الایمان: بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشی اور ڈر سناتا تاکہ اے لوگو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ اور رسول کی تعظیم و توقیرکرو۔

(3) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔

(4) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ (پ9، الانفال: 24)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

اس آیتِ کریمہ سے ثابت ہوا رسول اللہ ﷺ کا بلانا اللہ پاک کا ہی بلانا ہے۔

(5) لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ- (النور: 63) ترجمہ کنز الایمان:رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ ٹھہرا لو جیسا تم میں ایک دوسرے کو پکارتا ہے۔ اس آیتِ مبارکہ میں ارشاد فرمایا گیا ہے کہ ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح آقا ﷺ کو نہ پکارو۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ کا ادبِ ملاقات:حضرت ابو ہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں کہ ایک دفعہ مدینے شریف کی گلی میں رحمتِ عالم،نورِ مجسم ﷺ سے میرا سامنا ہوا اور اس وقت میں جنبی (ناپاکی کی)حالت میں تھا، تو میں نے گوارا نہ کیا کہ اس حالت میں آقا ﷺ کے سامنے آؤں۔چنانچہ میں نے آپ کو دیکھتے ہی راستہ بدل لیا اور غسل کرکے آپ کی خدمت میں حاضر ہوا تو آپ نے فرمایا:اے ابو ہریرہ!کہاں تھے؟ تو میں نے عرض کی:میں ناپاکی کی حالت میں تھا،اس لئے آپ کے پاس بیٹھنا پسند نہ کرتا تھا۔ (ابو داؤد، 1/110، حدیث: 231)اللہ پاک ہمیں آقا ﷺ کی تعظیم و توقیر سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ 


ادب اخلاقیات کا حصہ اور ہمارے دین اسلام کا اہم جز ہے۔ ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔ با ادب با مراد۔ اسلام میں ادب و احترام کو ہر شعبہ ہائے زندگی میں ملحوظ رکھا گیا ہے، یہ ہماری بنیادی تربیت کا حصہ بھی ہے۔ فرمان سید الانبیاء ﷺہے کسی باپ نے اپنے بیٹے کو اچھا ادب سکھانے سے بڑھ کر کوئی عطیہ نہیں دیا۔ (ترمذی،‏3/ 383، حدیث: 1959) اس حدیث پاک سے ادب کی اہمیت کا اندازہ ہوتا ہے۔ اس مضمون میں ہم قرآن کریم میں بارگاہ نبوی ﷺکے آداب کی بات کر رہے ہیں۔ رب کریم نے اپنے پیارے محبوب ﷺکی بارگاہ کے آداب خود قرآن کریم میں بیان فرما دئیے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔اس آیت مبارکہ میں ایمان والوں سے خطاب ہے اور حضور کو پکارنے کے ادب کو بیان کیا جا رہا ہے کہ راعنا نہ کہو، جس کے معنی ہیں (ہمارے حال کی رعایت فرمائیے) اور یہود کی لغت میں (خطا کار کے )ہیں۔ تو یہودی مذاق کے طور پر راعنا کہتے اور صحابہ کرام کلام کو اچھی طرح سمجھنے کے لئے عرض کرتے۔ تو آیت میں راعنا کی جگہ انظرنا کہنے کا حکم دیا گیا۔ آیت سے معلوم ہوا کہ انبیاء کی تعظیم و توقیر، ان کی جناب میں ادب کا لحاظ رکھنا فرض ہے، جس کلمہ میں ترکِ ادب کا معمولی بھی اندیشہ ہو زبان پر لانا ممنوع ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱)(پ 26، الحجرات:1) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو اللہ اور اس کے رسول سے آ گے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بےشک اللہ سُنتا جانتا ہے۔آیت کا خلاصہ یہ ہے کہ اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول ﷺکی اجازت کے بغیر کسی قول و فعل میں اصلاً ان سے آگے نہ بڑھنا تم پر لازم ہے۔

چند لوگوں نے عیدالاضحیٰ کے دن حضور ﷺسے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم دیا گیا کہ وہ دوبارہ قربانی کریں۔(تفسیر صراط الجنان)

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲)(پ 26، الحجرات:2) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو !اپنی آواز یں اونچی نہ کرو اس غیب بتانے والے (نبی) کی آواز سے اور ان کے حضور بات چلا کرنہ کہو جیسے آپس میں ایک دوسرے کے سامنے چلاتے ہو کہ کہیں تمہارے عمل اکارت ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

ان آیات میں مطلقاً دو آداب بیان ہوئے، پہلا کہ جب حضور ﷺ تم سے کلام فرمائیں اور تم کچھ عرض کرو تو تمہاری آوازیں ان سے بلند نہ ہوں۔ اور دوسرا یہ ہےکہ حضور ﷺکو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو نام لے کر نہ پکارو بلکہ جو عرض کرنا ہے وہ ادب و تعظیم و توصیف و تکریم کے کلمات کے ساتھ ہو۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (الحجرات: 4) ترجمہ کنز الایمان: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

اس آیت میں بارگاہِ رسالت میں حاضری کا ادب بیان ہوا کہ جب حضور ﷺ حجروں میں ہوں تو باہر سے پکارنا جہالت اور بے عقلی ہے۔

وَ لَوْ اَنَّهُمْ اِذْ ظَّلَمُوْۤا اَنْفُسَهُمْ جَآءُوْكَ فَاسْتَغْفَرُوا اللّٰهَ وَ اسْتَغْفَرَ لَهُمُ الرَّسُوْلُ لَوَجَدُوا اللّٰهَ تَوَّابًا رَّحِیْمًا(۶۴) (پ 5، النساء:64) ترجمہ کنز الایمان: اور اگر جب وہ اپنی جانوں پر ظلم کریں تو اے محبوب تمہارے حضور حاضر ہوں اور پھر اللہ سے معافی چاہیں ا ور رسول ان کی شفاعت فرمائے تو ضرور اللہ کو بہت توبہ قبول کرنے والا مہربان پائیں۔

حضور ﷺکی تعظیم و توقیر جس طرح آپ کی حیات ظاہری میں کی جاتی ہے ٹھیک اسی طرح ہماری نظروں سے پردہ فرمانے کے بعد بھی واجب و لازم ہے۔

محمد بن سیرین رضی اللہ عنہ کے متعلق مشہور ہے کہ وہ اپنی شگفتہ مزاجی کے باوجود جب بھی حدیث سنتے تو سراپا انکساری و عاجزی ہو جاتے۔

اسی طرح خود حضور ﷺکی زبان پاک سے سنتے وقت خاموش رہنا واجب ہے۔ (الشفاء،2/ 92)

جب یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ والی آیت نازل ہوئی تو حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے عرض کی یا رسول اللہ ﷺاللہ کی قسم آئندہ میں آپ سے سرگوشی کے انداز میں بات کیا کروں گا۔ (کنزالعمال، 1/214)

مذکورہ بالا آیات مبارکہ سے ہمیں درس ملتا ہے کہ حضور ﷺکی بارگاہ میں حاضری کے وقت آداب کو ملحوظ خاطر رکھنا چاہیے کہ اسی میں دین و دنیا کی بھلائی ہے۔

اللہ پاک ان حضرات کے طفیل حضور کی بارگاہ کے آداب بجا لانے کی توفیق عطا فرمائے آمین۔

آئیے ترغیب کے لیے ایک واقعہ ملاحظہ فرمائیے چنانچہ امیر المومنین حضرت علی رضی اللہ عنہ حاضرین مجلس کے ساتھ حضور اقدس کی سیرت پاک کا تذکرہ کرتے ہوئے فرماتے ہیں: جس وقت آپ ﷺ کلام فرماتے تھے تو آپ کی مجلس میں بیٹھنے والے صحابہ کرام اس طرح سر جھکا کر خاموش اور سکون سے بیٹھ رہا کرتے تھے کہ گویا ان کے سروں پر پرندے بیٹھے ہوئے ہیں۔ جس وقت آپ خاموش ہو جاتے تو صحابہ کرام گفتگو کرتے اور کبھی آپ کے سامنے کلام میں تنازع نہیں کرتے، اور جو آپ کے سامنے کلام کرتا آپ توجہ کے ساتھ اس کا کلام سنتے رہتے یہاں تک کہ وہ خاموش ہوجاتا۔(شمائل ترمذی، ص 125)


دنیا کے شہنشاہوں کا اصول یہ ہے کہ جب ان میں سے کوئی شہنشاہ آتا ہے تو وہ اپنی تعظیم کے اصول اور دربار کے آداب خود بناتا ہے دنیا سے جاتے ہوئے تعظیم کے نظام کو بھی ساتھ لے جاتا ہے لیکن کائنات میں ایک شہنشاہ ایسا ہے جس کے دربار کا عالم ہی نرالا ہے اس کی بارگاہ کے آداب اور اصول نہ خود اس نے اور نہ ہی مخلوق نے بنائے بلکہ تمام بادشاہوں کے بادشاہ اللہ پاک نے قرآن میں بیان فرمائے اور خاص وقت کے لیے نہیں بلکہ ہمیشہ کے لئے مقرر فرمائے اور وہ عظیم شہنشاہ اس کائنات کے مالک و مختار محمد مصطفیٰ ﷺ کی ذات گرامی ہے۔

اعلی حضرت فرماتے ہیں:

مولا علی نے واری تیری نیند پر نماز

اور وہ بھی عصر سب سے جو اعلی خطر کی ہے

صدیق بلکہ غار میں جان ان پر دے چکے

اور حفظِ جاں تو جان فروض غرر کی ہے

ہاں تو نے ان کو جان انہیں پھیر دی نماز

پر وہ تو کر چکے تھے جو کرنی بشر کی ہے

ثابت ہوا کہ جملہ فرائض فروع ہیں

اصل الاصول بندگی اس تاجور کی ہے

قرآنی آیات:

1۔ اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ(پ9، الانفال:24) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ و رسول کے بلانےپر حاضر ہو جب رسول تمہیں بلائیں۔

تفسیر: حضور اکرم ﷺجب بھی بلائیں فوراً ان کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے۔

2- لَا تَجْعَلُوْا دُعَآءَ الرَّسُوْلِ بَیْنَكُمْ كَدُعَآءِ بَعْضِكُمْ بَعْضًاؕ-(پ18،النور: 63) ترجمہ کنزالعرفان: اے لوگو! رسول کے پکارنے کو آپس میں ایسا نہ بنا لو جیسے تم میں سے کوئی دوسرے کو پکارتا ہے۔

تفسیر: ایک دوسرے کو پکارنے کی طرح نبی ﷺکو نہ پکارو۔ اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں: علما تصریح فرماتے ہیں حضور ﷺکو نام لے کر ندا کرنا حرام ہے، خالی نام کی بجائے القاب سے پکارنا چاہیے۔

3-اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ26، الحجرات: 1)ترجمہ کنزالعرفان: ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بے شک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر: کسی قول اور فعل میں ان سے آگے نہ بڑھو۔ تمام مخلوق پر حضور کی اطاعت واجب ہے۔

4-اللہ پاک فرماتا ہے یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (البقرۃ:104) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو ! ر اعنا نہ کہو اور یوں عرض کرو کہ حضور ہم پر نظر رکھیں اور پہلے ہی سے بغور سنو اور کافروں کے لیے دردناک عذاب ہے۔

تفسیر: جس کلمہ میں ادب ترک ہونے کا شائبہ بھی ہو وہ زبان پر لانا ممنوع ہے جیسا کہ لفظ راعنا کو تبدیل کرنے کا حکم دینے سے یہ بات واضح ہے۔

5- اللہ پاک فرماتا ہے: اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴)وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (الحجرات: 4) ترجمہ: بےشک وہ جو تمہیں حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ اُن کے پاس تشریف لاتے تو یہ اُن کے لیے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر: حجروں کے باہر سے پکارنے والوں کو اللہ نے بے عقل فرمایا اور انہیں تعظیم کی تعلیم دی۔

درس: ان آیات سے واضح ہے کہ اللہ پاک کی بارگاہ میں اس کے حبیب کا ادب انتہائی مطلوب ہے، ان کا ادب نہ کرنا اللہ پاک کو انتہائی ناپسندیدہ ہے حضور کا ادب کرنا شرک نہیں۔

اعلیٰ حضرت فرماتے ہیں:

شرک ٹھہرے جس میں تعظیم حبیب اس بُرے مذہب پہ لعنت کیجیے

لہٰذا ان آداب کو بجا لانا چاہیے۔

بزرگ کا واقعہ:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مسجد نبوی میں درس دیا کرتے تھے جب ان کے حلقے میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو ان سے عرض کی گئی آپ ایک آدمی مقرر کر لیں جو آپ سے حدیث پاک سن کر لوگوں کو سنا دے۔ امام مالک نے فرمایا: اللہ پاک فرماتا ہے: اے ایمان والو اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔ اور رسول کی عزت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے اس لیے میں یہاں کسی شخص کو آواز بلند کرنے کے لئے ہر گز مقرر نہیں کر سکتا۔ (صراط الجنان)


حضور کی شان اتنی بلند ہے کہ اللہ پاک نے خود اپنے پیارے حبیب کی بارگاہ میں حاضر ہونے کے آداب بیان فرمائے اور لوگوں کو سکھائے۔ قرآنی آیات کی روشنی میں آدابِ نبوی بیان کیے جاتے ہیں:

آیاتِ مبارکہ:

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَقُوْلُوْا رَاعِنَا وَ قُوْلُوا انْظُرْنَا وَ اسْمَعُوْاؕ-وَ لِلْكٰفِرِیْنَ عَذَابٌ اَلِیْمٌ(۱۰۴) (پ 26، الحجرات:1) ترجمہ: اے ایمان والو ! اللہ اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور اللہ سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

تفسیر: اس آیت میں اللہ پاک نے ایمان والوں کو اپنے حبیب ﷺ کا ادب واحترام ملحوظ رکھنے کی تعلیم دی ہے کہ لوگوں کو حضور ﷺ کی اجازت کے بغیر ان کے قول یا فعل میں اصلا ان سے آگے نہ بڑھنا لازم ہے۔ تم اللہ سے ڈرتے رہو، کیونکہ یہ ہی ڈرنا تمہیں آگے بڑھنے سے روکے گا۔

شانِ نزول یہ ہے کہ چند لوگوں نے عید الضحیٰ کو حضور ﷺ سے پہلے قربانی کر لی تو ان کو حکم ہوا کہ دوبارہ قربانی کریں۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) (پ 26، الحجرات:2) ترجمہ: اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اوران کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے ہو کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں اور تمہیں خبر نہ ہو۔

تفسیر:اس میں آداب سکھائے گئے ہیں کہ ایک یہ کہ تم جب نبی کی بارگاہ میں کچھ عرض کرو یا وہ تم سے کلام فرمائیں تو تم پر لازم ہے کہ ان سے اپنی آواز بلند نہ کرو اور دوسرا یہ کہ نبی کو ندا کرنے میں ادب کا پورا لحاظ رکھو جس طرح تم ایک دوسرے کو نام لے کر پکارتے ہو ایسے نہ پکارو، بلکہ لقب سے ندا کرو کیونکہ ترکِ ادب سے اعمال برباد ہونے کا اندیشہ ہے اس کی تمہیں خبر بھی نہ ہوگی۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (پ26،الحجرات: 4) ترجمہ: بیشک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔

تفسیر: بنو تمیم کے چند لوگ دوپہر کے وقت نبی کریم ﷺ کی خدمت میں پہنچے اس وقت حضور آرام فرما رہے تھے، ان لوگوں نے آپ کو حجروں کے باہر سے پکارنا شروع کر دیا اور حضور باہر تشریف لائے تو اس پر یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی اور ان لوگوں کی ملامت کی گئی۔

وَ لَوْ اَنَّهُمْ صَبَرُوْا حَتّٰى تَخْرُ جَ اِلَیْهِمْ لَكَانَ خَیْرًا لَّهُمْؕ-وَ اللّٰهُ غَفُوْرٌ رَّحِیْمٌ(۵) (پ26، الحجرات:5) اور اگر وہ صبر کرتے یہاں تک کہ آپ خود ان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کیلئے بہتر تھا اور اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

تفسیر:اس آیت میں ادب کی تلقین کی گئی کہ اگر وہ نبی خودان کے پاس تشریف لے آتے تو یہ ان کے لیے بہتر تھا اور جن سے یہ بے ادبی سرزد ہوئی اگر وہ اس سے توبہ کر لیں اور نبی کا ادب اپنے اوپر لازم کر لیں تو اللہ بخشنے والا مہربان ہے۔

یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اسْتَجِیْبُوْا لِلّٰهِ وَ لِلرَّسُوْلِ اِذَا دَعَاكُمْ لِمَا یُحْیِیْكُمْۚ-(پ 9، الانفال:24)ترجمہ: اے ایمان والو! اللہ اور اس کے رسول کی بارگاہ میں حاضر ہو جاؤ جب وہ تمہیں اس چیز کیلئے بلائیں جو تمہیں زندگی دیتی ہے۔

تفسیر: اس آیت سے ثابت ہوا کہ تاجدار رسالت ﷺ جب بھی کسی کو بلائیں تو اس پر لازم ہے کہ وہ آپ کی بارگاہ میں حاضر ہو جائے، چاہے وہ کسی بھی کام میں مصروف ہو اگرچہ نماز میں ہو۔

آداب بجالانے کا درس:ان سب آیات سے ہمیں معلوم ہوا کہ حضور ﷺ کا ادب ہر مسلمان پر فرض ہے اور اس ادب کو ترک کرنے والے کے اعمال برباد ہونے کا اندیشہ ہے تو اسی طرح ادب کی ترغیب دیتے ہوئے ایک قرآنی آیت پیش ِنظر رہے، ترجمہ: بیشک جو لوگ اللہ کے رسول کے پاس اپنی آوازیں نیچی رکھتے ہیں یہی لوگ ہیں جن کے دلوں کو اللہ نے پرہیزگاری کیلئے پر کھ لیا ہے، ان کے لیے بخشش اور بڑا ثواب ہے۔ اس آیت مبارکہ میں ادب کا درس دینے کے ساتھ ساتھ ادب والے کے لیے بخشش اور بڑے ثواب کی بشارت ہے تو کیوں نہ ہو کہ ہم بھی اس ثواب کو پانے کے حقدار بنیں۔ اس سے مراد یہ ہے نبی کے ہر قول و فعل حدیث پاک کا ادب کیا جائے اور علماء اور پیرو مرشد کا ادب کیا جائے جو صحیح العقیدہ عالم ہوں۔ حضرت ابو عبیدہ رضی اللہ عنہ فرمایا کرتے تھے: میں نے کبھی اپنے کسی استاد کے دروازے پر دستک نہیں دی بلکہ میں ان کا انتظار کرتا رہتا اور جب وہ خود تشریف لاتے تو میں ان سے استفادہ کرتا۔

ایک صحابی کا واقعہ:امام مالک رحمۃ اللہ علیہ مسجد میں درس دیا کر تے تھے جب ان کے حلقہ درس میں لوگوں کی تعداد زیادہ ہوئی تو ان سے عرض کی گئی: آپ ایک آدمی مقرر کرلیں جو آپ سے حدیث سن کر لوگوں کو سنادے۔ امام مالک نے فرمایا: اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو۔ اور رسول کریم ﷺ کی عزت و حرمت زندگی اور وفات دونوں میں برابر ہے اس لیے میں یہاں کسی شخص کو آواز بلند کرنے کیلئے ہر گز مقرر نہیں کر سکتا۔(صراط الجنان،9/403)


حضور اقدس ﷺ کی بارگاہ اللہ پاک کی بارگاہ ہے اور ان کے ہاں حاضری اللہ کے حضور حاضری ہے۔ حضور کا حکم اللہ تعالیٰ کا حکم ہے اور حضور کے حکم سے منہ موڑنا رب تعالیٰ کے حکم سے منہ موڑنا ہے۔ قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اور جو اللہ اور اس کے رسول کی اطاعت کرے اور الله سے ڈرے اور اس کی نافرمانی سے ڈرے تو یہی لوگ کامیاب ہیں۔(مدارک، النور، تحت الآیۃ:52، ص 787)

1۔مقدس قرآن پاک میں اللہ پاک کا فرمان ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَرْفَعُوْۤا اَصْوَاتَكُمْ فَوْقَ صَوْتِ النَّبِیِّ وَ لَا تَجْهَرُوْا لَهٗ بِالْقَوْلِ كَجَهْرِ بَعْضِكُمْ لِبَعْضٍ اَنْ تَحْبَطَ اَعْمَالُكُمْ وَ اَنْتُمْ لَا تَشْعُرُوْنَ(۲) ترجمہ کنز العرفان:اے ایمان والو! اپنی آوازیں نبی کی آواز پر اونچی نہ کرو اور ان کے حضور زیادہ بلند آواز سے کوئی بات نہ کہو جیسے ایک دوسرے کے سامنے بلند آواز سے بات کرتے کہ کہیں تمہارے اعمال برباد نہ ہو جائیں۔ اس آیت مبارکہ میں حضور اکرم ﷺ کی آواز سے اپنی آواز بلند کرنے کی ممانعت فرمائی گئی ہے کہ سرکار دو عالم ﷺکی خدمت میں آواز بلند کرنے کو حرام قرار دیا گیا ہے۔

آسکتا ہے کب ہم سے گنواروں کو ادب وه جیسا کہ ادب کرتے تھے یاران محمد

2۔قرآن پاک میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: تم فرماؤ اللہ کی اطاعت کرو اور رسول کی اطاعت کرو پھر اگر تم منہ پھیرو تو رسول کے ذمہ وہی تبلیغ ہے جس کی ذمے داری کا بوجھ ان پر رکھا گیا اور تم پر وہ (اطاعت) لازم ہے جس کا بوجھ تم پر رکھا گیا ہے اور اگر تم رسول کی فرمانبراری کرو گے تو ہدایت پاؤ گے اور رسول کے ذمے صرف صاف صاف تبلیغ کر دینا لازم ہے۔(تفسیر طبری، النور،تحت الآیۃ:54، 9/346) اس آیت مبارکہ میں فرمایا گیا ہے کہ اے حبیب! تم ان سے فرما دو کہ اگر وہ اللہ اور اس کے رسول کی فرمانبرداری کریں گے تو ہدایت پائیں گے اگر وہ نافرمانی کریں گے تو اس میں ان کا اپنا ہی نقصان ہے، کیونکہ رسول پاک کی ذمہ داری صرف دین کی تبلیغ اور احکام الٰہی پہنچانا ہے اور انہوں نے اپنا یہ کام پورا کرلیا ہے اور آپ پر ان کی فرمانبرادی لازم ہے اگر رو گردانی کروگے تو اللہ تعالیٰ کے عذاب اور اس کی ناراضگی کاتمہیں سامنا کرنا پڑے گا۔

3۔قرآن پاک کی سورۃ الحجرات میں ارشاد ہوتا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تُقَدِّمُوْا بَیْنَ یَدَیِ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ وَ اتَّقُوا اللّٰهَؕ-اِنَّ اللّٰهَ سَمِیْعٌ عَلِیْمٌ(۱) (پ 26، الحجرات:1) ترجمہ: اے ایمان والو!الله اور اس کے رسول سے آگے نہ بڑھو اور الله سے ڈرو بیشک اللہ سننے والا جاننے والا ہے۔

اِنَّمَا الْمُؤْمِنُوْنَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا بِاللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖ ثُمَّ لَمْ یَرْتَابُوْا وَ جٰهَدُوْا بِاَمْوَالِهِمْ وَ اَنْفُسِهِمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِؕ-اُولٰٓىٕكَ هُمُ الصّٰدِقُوْنَ(۱۵) (پ 26، الحجرات: 15) ترجمہ کنز الایمان: ایمان والے تو وہی ہیں جو اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لائے پھر انہوں نے شک نہ کیا اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جہاد کیا وہی سچے ہیں۔اس آیت میں بیان کیا گیا ہے کہ جو الله اور اس کے رسول پر سچے دل سے ایمان لائے اور ایمان لانے کے بعد اس میں شک نہ کرے اور اپنی جان اور مال سے اللہ کی راہ میں جو جہاد کرے وہی سچا ہے۔

اِنَّ الَّذِیْنَ یُنَادُوْنَكَ مِنْ وَّرَآءِ الْحُجُرٰتِ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۴) (پ26،الحجرات: 4) ترجمہ: بے شک جو لوگ آپ کو حجروں کے باہر سے پکارتے ہیں ان میں اکثر بے عقل ہیں۔ اس آیت میں اُن لوگوں کو بے عقل قرار دیا گیا ہے کہ جو آپ ﷺ کو حجرے سے باہر کسی کام کے لیے بلاتے تھے۔

ان آداب کو بجالانے کا درس: تمام مخلوقات میں الله کے نزدیک رسول کریم ﷺ سب سے زیادہ بزرگ و محترم مقرب و محبوب اور برگزیدہ ہیں، آپ کی بارگاہ عالی وہ ہے جہاں آواز بلند کرنے سے منع کیا گیا ہے اور آواز بلند کرنے کا وبال یہ ہے کہ تمام اعمال و عبادتیں ضائع اور برباد ہو جاتی ہیں اور آدمی کو اس کا شعور و احساس بھی نہیں رہتا اس لیے لازم ہے کہ ہر مسلمان آپ کا ادب واحترام کرے اور بے ادبی سے بچتا رہے۔

ایک صحابی کا واقعہ: ایک دفعہ حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ عنہ کے والد ابو قحافہ نے کفر کی حالت میں رسول اللہ ﷺ کی شان میں ناشائستہ کلمہ منہ سے نکالا اس پر حضرت ابوبکر صدیق نے فوراً اُن کے منہ پر طمانچہ کھینچ کر مارا، رسول اکرم ﷺ نے دریافت فرمایا تو عرض کی: یارسول الله اس وقت میرے پاس تلوار نہ تھی ورنہ ایسی گستاخی پر اُن کی گردن اتار دیتا۔ اس وقت آپ کی شان میں یہ آیت نازل ہوئی، ترجمہ: آپ ان لوگوں کو جو اللہ پر اور یوم آخرت پر ایمان رکھتے ہیں کبھی اس شخص سے دوستی کرتے ہوئے نہ پائیں گے جو اللہ اور اس کے رسول سے دشمنی رکھتا ہے، خواہ وہ ان کے باپ اور دادا ہوں یا بیٹے اور پوتے ہوں، اُن کے بھائی ہوں یا اُن کے قریبی رشتے دار ہوں یہ ہی وہ لوگ ہیں جن کے دلوں میں اُس اللہ نے ایمان ثبت فرمایا ہے اور اُنہیں اپنی روح (یعنی قبض خاص) سے تقویت بخشی ہے۔