اللہ پاک نے اپنے پیارے آخری نبی محمدِ عَرَبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو بے شُمار (uncountable) صِفات و کمالات عطا فرمائے ہے۔ آئیے ہم اُنہیں صِفات و کمالات میں سے 10 صِفاتِ جمیلہ کو قراٰنِ پاک کی آیتوں میں ملاحظہ کرتے ہیں۔ (1)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نور ہے: قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ(۱۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔(پ6،المائدۃ:15) علامہ خازن رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: نور سے مراد محمد صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہیں اللہ پاک نے آپ کو نور اس لیے فرمایا کہ جس طرح اَندھیرے میں نور (روشنی )کے ذریعے ہدایت حاصل ہوتی ہے اسی طرح آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ذریعے بھی ہدایت حاصل ہوتی ہے۔ (تفسیر صراط الجنان)(2)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم عام بَشَر (آدمی) کی طرح نہیں بلکہ اللہ پاک کے ایسے خاص(special) بشر ہے جن کی طرف وحی آتی ہے ۔اللہ پاک نے فرمایا: قُلْ اِنَّمَاۤ اَنَا بَشَرٌ مِّثْلُكُمْ یُوْحٰۤى اِلَیَّ اَنَّمَاۤ اِلٰهُكُمْ اِلٰهٌ وَّاحِدٌۚ-فَمَنْ كَانَ یَرْجُوْا لِقَآءَ رَبِّهٖ فَلْیَعْمَلْ عَمَلًا صَالِحًا وَّ لَا یُشْرِكْ بِعِبَادَةِ رَبِّهٖۤ اَحَدًا۠(۱۱۰) ترجَمۂ کنزُالایمان: تم فرماؤ ظاہر صورت بشری میں تو میں تم جیسا ہوں مجھے وحی آتی ہے کہ تمہارا معبود ایک ہی معبود ہے تو جسے اپنے رب سے ملنے کی امید ہو اُسے چاہئے کہ نیک کام کرے اور اپنے رب کی بندگی میں کسی کو شریک نہ کرے ۔ (پ16، الکھف: 110) (3) حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مسلمانوں پر خصوصی (Especially) مہربان اور رحمت فرمانے والے ہیں ۔ لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸) ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ ( پ11، التوبۃ:128 ) (4، 5، 6، 7، 8) مدینے کے تاجدار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم حاضرُ و ناظر، خوشخبری دینے والیں،ڈر سنانے والیں،داعی اِلَی اللہ اور سِراجُ و مُنیر ہیں۔ یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا(۴۶) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بےشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔ ( پ22، الاحزاب:45،46 )

یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا: آیت کے اس حصے میں نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک(صِفت) وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو شاہد بنا کر بھیجا ہے۔ شاہد کا ایک معنی ہے حاضر و ناظر یعنی مُشاہدہ فرمانے والا اور ایک معنی ہے گَواہ۔ اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ نے شاہِد کا ترجمہ ’’حاضرناظر ‘‘فرمایا ہے۔

مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا : یہاں سَیِّدُ العالَمین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے دو،(صِفات) اَوصاف بیان کئے گئے کہ اللہ پاک نے اپنے حبیب صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو اِیمانداروں کو جَنَّت کی خوشخبری دینے والا اور کافروں کو جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا ۔

دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ: اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلانے والا۔ آیت کے اس حصے میں حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے چوتھے وصف کا بیان ہے کہ اے حبیب! صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم، آپ کو خدا کے حکم سے لوگوں کو خدا کی طرف بلانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔

سِرَاجًا مُّنِیْرًا : یہاں سرکارِ دو عالَم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا پانچواں وصف بیان فرمایا گیا کہ اللہ پاک نے آپ کو چمکا دینے والا آفتاب(سورج)بنا کر بھیجا۔

مفتی نعیمّ الدّین مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : درحقیقت ہزاروں آفتابوں سے زیادہ روشنی آپ کے نورِ نبوت نے پُہنچائی اورکُفر و شِرک کے ظُلُماتِ شدیدہ (سخت اندھیرے) کو اپنے نورِ حقیقت اَفرُوز سے دور کر دیا اور خَلق کے لئے معرِفت و تَوحیدِ الٰہی تک پہنچنے کی راہیں روشن اور واضح کر دیں اور ضَلالت (گُمراہی)کی وادیٔ تاریک میں راہ گُم کرنے والوں کو اپنے انوارِ ہدایت سے راہ یاب فرمایا اور اپنے نورِ نبوت سے ضَمائر وبَصائر اور قُلوب و اَرواح کو مُنَوَّر(روشن) کیا ، حقیقت میں آپ کا وجود مبارک ایسا آفتابِ عالَم تاب ہے جس نے ہزارہاآفتاب بنا دیئے ،اسی لئے اس کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا۔ (الاحزاب:45،46 أیضاً)

(9)رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا اَخلاق(morality) تمام اَخلاقی اچھائیوں کا جامع ہے ۔ وَ اِنَّكَ لَعَلٰى خُلُقٍ عَظِیْمٍ(۴) ترجَمۂ کنزُالایمان: اور بیشک تمہاری خوبو بڑی شان کی ہے۔ ( پ 29، القلم:4 ) علامہ عبدالمصطفٰی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں : حضور نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم مَحاسَنِ اَخلاق کے تمام گوشوں کے جامع تھے۔ یعنی حِلم و عَفْو،رَحم و کَرم، عَدلُ و اِنصاف، جُودُ و سَخا، اِیثارُ و قُربانی، مہمان نوازی، عَدمِ تَشَدُّد، شُجاعت، اِیفائِ عہد، حُسنِ مُعاملہ، صَبروقناعت، نَرم گُفتاری، خُوش رُوئی، مِلَنساری، مُساوات، غَمخَوَاری، سادگی و بے تکلُّفی، تواضُع واِنکساری اور حیاداری کی اِتنی بُلند مَنزِلوں پر آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فائز و سرفراز ہیں کہ حضرت عائشہ رضی اللہُ عنہا نے ایک جُملے میں اس کی صحیح تصویر کھینچتے ہوئے ارشاد فرمایا کہ کَانَ خُلُقُہُ الْقراٰن یعنی تعلیماتِ قراٰن پر پورا پورا عمل یہی آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے اَخلاق تھے۔(القلم 4 أیضاً)

(10)حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم تمام جہانوں کیلئے رحمت ہے۔ وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷) ترجمۂ کنز الایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لیے۔(پ17،الانبیاء:107) حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں کہ حضورِ اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا رحمت ہونا عام(general) ہے، ایمان والے کے لئے بھی اور اس کے لئے بھی جو ایمان نہ لایا ۔ مؤمن کے لئے تو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا و آخِرت دونوں میں رحمت ہیں اور جو ایمان نہ لایا اُس کے لئے آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم دنیا میں رحمت ہیں کہ آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی بَدولت اُس کے دُنْیَوی عذاب کو مُؤخَّر کر دیا گیا اور اُس سے زمین میں دَھنسانے کا عذاب، شَکْلِیں بِگاڑ دینے کا عذاب اور جَڑ سے اُکھاڑ دینے کا عذاب اُٹھا دیا گیا۔(الأنبیاء 107 أیضاً)

اللہ پاک ہمیں اپنے پیارے آخری نبی محمدِ عَرَبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے صِفاتِ جمیلہ کا ذِکرِ جمیل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہِ خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


صفت کا لغوی معنی عادت، خوبی اور خاصیت ہے۔(فیروز اللغات، ص914) اور صفت کا لفظ انسان کی ہر عادت پر بولا جاتا ہے خواہ وہ اچھی ہو یا بُری مگر پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی ذاتِ گرامی ایسی ہے کہ آپ کی ہر ادا لاجواب ہے، قراٰن ِ پاک میں اللہ پاک نے سرکار علیہ السّلام کے اوصافِ حمیدہ کا کثیر مقامات پر ذکر فرمایا ہے ان میں سے 10 صفات ملاحظہ فرمائیں:

(1)خَاتَمُ النَّبِیّٖن اللہ پاک نے آپ علیہ السّلام کے وصفِ ختم ِ نبوت کو ذکر فرمایا جو کہ ہمارے ایمان کا بنیادی حصہ ہے۔﴿مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠(۴۰) ترجَمۂ کنزُ الایمان: محمّد تمہارے مَردوں میں کسی کے باپ نہیں ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے اور اللہ سب کچھ جانتا ہے۔ (پ22،الاحزاب:40)

(2)رَحْمَةٌ لِّلْعٰلَمِیْن آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ایک وصفِ عظیم یہ ہے کہ آپ تمام جہانوں کے لئے رحمت ہیں اور تمام جہانوں میں انبیا و رُسل، فرشتے اور انسان، دنیا اور آخرت سب شامل ہیں۔﴿وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ(۱۰۷)ترجَمۂ کنزُالایمان: اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔ (پ17،الانبیآء:107)

(3، 4)رَءُوْف اور رَحِیْم آپ کے دو عظیم وصف رَءُوْف اور رَحِیْم بھی قراٰنِ پاک میں بیان ہوئے ہیں:﴿لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔(پ11،التوبۃ:128)

(5)نبی اُمّی سیدُالمرسلین کی ایک صفت نبی اُمّی بھی ہے کہ آپ مخلوق میں، کسی کے شاگرد نہیں، ان کے رب نے ہی انہیں سب کچھ سکھایا ہے: ﴿اَلَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ الَّذِیْ یَجِدُوْنَهٗ مَكْتُوْبًا عِنْدَهُمْ فِی التَّوْرٰىةِ وَ الْاِنْجِیْلِ٘-ترجَمۂ کنزُ العرفان: وہ جو اس رسول کی اتباع کریں جو غیب کی خبریں دینے والے ہیں،جو کسی سے پڑھے ہوئے نہیں ہیں، جسے یہ (اہلِ کتاب) اپنے پاس تورات اور انجیل میں لکھا ہوا پاتے ہیں۔ (پ9،الاعراف:157)

(6)نرم دل حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نرم دلی تو ایسی کہ اللہ پاک فرماتا ہے: ﴿فَبِمَا  رَحْمَةٍ  مِّنَ  اللّٰهِ  لِنْتَ  لَهُمْۚ-ترجَمۂ کنزُالایمان: تو کیسی کچھ اللہ کی مہربانی ہے کہ اے محبوب تم ان کے لیے نرم دل ہوئے۔(پ4،اٰل عمرٰن:159)

(7)حیا یہ بہت ہی عمدہ وصف ہے، اسے ایمان کا حصہ بھی قرار دیا گیا ہے۔ کریم آقا علیہ السّلام کے اس وصف کو قراٰن یوں بیان فرماتا ہے: ﴿اِنَّ ذٰلِكُمْ كَانَ یُؤْذِی النَّبِیَّ فَیَسْتَحْیٖ مِنْكُمْ٘- ترجَمۂ کنزُالایمان: بےشک اس میں نبی کو ایذا ہوتی تھی تو وہ تمہارا لحاظ فرماتے تھے۔ (پ22،الاحزاب:53) اس میں پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی صفتِ حیا کو بیان فرمایا ہے اور آپ سب سے زیادہ حیا فرمانے والے ہیں۔

(8، 9، 10)شاہد،مبشر، نذیر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم شاہد ہیں یعنی گواہ ہیں اور یہی معنی حاضر و ناظر کے ہیں اور آپ مبشر ہیں کہ ایمان والوں کو جنت کی خوشخبری دینے والے اور نذیر بھی ہیں کہ کافروں کو جہنم کے عذاب سے ڈر سنانے والے ہیں:﴿یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ(۴۵) ترجَمۂ کنزُالایمان: اے غیب کی خبریں بتانے والے (نبی) بیشک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔ (پ22، الاحزاب: 45)

ذات ہوئی اِنتِخاب وَصف ہوئے لاجواب

نام ہوا مُصطَفےٰ تم پہ کروڑوں درود

(حدائقِ بخشش،ص264)