قرآن وحدیث میں اسمائے مصطفے بکھرے موتی ہیں جو مختلف مقامات پر الگ الگ موجود ہیں۔علمائے کرام نے انہیں مختلف جگہوں سے اکٹھا کر کے لکھ دیا ہے۔ بعض علما نے اسمائے مصطفی کی تعداد بہت زیادہ بتائی ہے۔جس طرح اللہ پاک کے ان گنت اسمائے حسنی منقول ہیں لیکن ذاتی نام صرف اللہ ہے اسی طرح حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صفاتی نام تو بے شمار ہیں لیکن ذاتی نام صرف دو ہیں۔محمد اور احمد حضور علیہ الصلاۃ والسلام نے فرمایا: زمین پر میرا نام محمد اور آسمان پر احمد ہے۔ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسما کے حوالے سے علما کے متعدد اقوال ہیں۔قرآنِ کریم میں حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکااسمِ مبارک چار جگہ محمد اور ایک جگہ احمد آیا ہے۔ محمد(اٰل عمران: 144-الاحزاب:40میں)،محمد (آیت نمبر2 میں-الفتح، آیت نمبر29 میں)۔محمد نام حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے دادا عبدالمطلب نے رکھا تھا ۔ اس کا معنی ہے وہ شخصیت جس کی تمام مخلوق میں سب سے زیادہ تعریف کی جائے ۔احمد( الصف:6) سابقہ کتابوں میں بھی اس کا تذکرہ موجود ہے ۔ خود قرآنِ پاک میں حضرت عیسیٰ علیہ السلام کی زبانی یہ نقل ہوا ہے کہ میں تمھیں بشارت دیتا ہوں اپنے بعد آنے والے رسول کی جس کا نام احمد ہے ۔( الصف: 6)اللہ پاک نے آسمانوں پر بھی نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو احمد کے نام سے پکارا۔ احمد کا مطلب اللہ پاک کی سب سے زیادہ حمد بیان کرنے والا اور اس میں ذرہ بھر مبالغہ نہیں ۔آپ سے زیادہ اللہ پاک کی حمد نہ کسی نے کی ہے نہ کوئی کر سکتاہے۔اس کے علاوہ مکمل قرآنِ پاک میں اللہ پاک نے نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مختلف القاب سے مخاطب کیا ہے ۔خاتم النبیین(الاحزاب :40 )آپ پر انبیا کا سلسلہ مکمل ہوگیا ہے ۔ آپ پر نبوت ختم ہو چکی ہے۔ اب آپ کے بعد نہ کوئی نبی ہے نہ رسول ۔ آپ خاتم النبیین ہیں ۔ قرآنِ کریم کی سورۂ الاحزاب آیت نمبر 40 میں اس کا ذکر ہے۔اپنے خاتم النبیین ہونے کا تذکرہ خود نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا ہے ۔ ایک حدیث ملاحظہ کیجیے : رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : رسالت اور نبوت کا سلسلہ ختم ہو گیا ۔ میرے بعد اب نہ کوئی رسول ہے اور نہ نبی۔ ( ترمذی ، کتاب الرؤیا، باب ذہاب النبوۃ ۔ مسند احمد ، مرویات ، انس بن مالک)

رسول اللہ( الاعراف:158) ۔ النبی( الاحزاب:56) ۔رحمۃ للعلمین(الانبیاء:107)رب العلمین نے اپنے محبوب کو دونوں جہانوں کے لیے رحمت بنایا اور خود کلام پاک میں اس بات کو بیان بھی فرمایا اور ہم نے آپ کو تمام جہانوں کیلئے رحمت بنا کر بھیجا۔المزمل( المزمل آیت :1) المدثر( المدثر آیت :1) یٰسٓ(یس:1)مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًا (الاحزاب: 45) سراجاً منیراً(الاحزاب : 46)


سب سے اعلیٰ، افضل، با برکت اور خوبصورت ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اسماء مبارکہ ہیں، خواہ وہ اسمِ محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے یا ان کے اسماء صفات مثلاً محمد، احمد، حامد، محمود،ذوالفضل العظیم۔ ان کی برکات بے شمار ہیں، بعض علماء نے فرمایا: نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسماء کی تعداد اللہ پاک کے اسماء حسنہ کی تعداد کے برابر ننانوے ہے۔علامہ ابنِ وحیہ رحمۃ اللہ علیہ نے رسالتِ مآب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسماء کی تعداد تین سو تک بتائی ہے۔ امام ابو بکر ابنِ عربی رحمۃُ اللہِ علیہ نے ترمذی کی شرح میں بتایا:آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ایک ہزار اسماء گرامی ہیں، جن میں سے بعض قرآن و حدیث میں وارد ہیں اور بعض کتبِ قد یمیہ میں پائے جاتے ہیں۔امام ابنِ عربی رحمۃ اللہ علیہ نے عارضۃ الا خوذی 10/381 میں فرمایا:اللہ پاک نے رسولِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اپنی صفات کا مظہر بنایا ہے، ان کے اسماء کی تعداد اپنے اسماء کی تعداد کےبرابر رکھی۔ جب شے عظیم ہوتی ہے تو اس کے اسماء بھی عظیم بن جاتے ہیں،اس کے بعد اللہ پاک کے حبیب رحمت اللعالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسماء و صفات ہیں، جن کا تذکرہ اللہ پاک نے اپنی کتب تورات ، زبور، انجیل اور قرآنِ پاک میں کیا۔محمد، احمد، بشیرو نذیر،سراج منیر، رؤف رحیم، حریص علیکم،مبشر، شاہد، نور اور رحمت اللعالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم پر اوراقِ قرآن شاہد ہیں، خود رسالتِ مآب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے اسماء گرامی کا تذکرہ فرمایا۔حضرت جبیربن مطعم رَضِیَ اللہُ عنہ سے ہے، میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ فرماتے ہوئے سنا:اننی اسماء انا محمد و انا احمد و انا الماحی الذی یمحوا اللہ بی الکفر وانا الحاثر الذی یحشر الناس علی قدمی وانا العاقب والعاقب الذی لیس بعدہ نبی۔(بخاری و مسلم)ترجمہ:میرے متعدد نام ہیں، میں محمد ہوں، میں احمد ہوں، میں ماحی ہوں،جس کے ذریعے اللہ نے کفر کو مٹایا، میں حاشر ہوں، جس کے قدموں میں لوگوں کو اٹھایا جائے گا، میں عاقب ہوں عاقب وہ ہوتا ہے، جس کے بعد نبی نہ ہو۔ان اسماء مبارک کی معنوی جھلکیاں:یہ اسماء مبارکہ اپنے اندر کس قدر معانی اور برکات رکھتے ہیں، ان کا صحیح اور کامل علم اللہ پاک ہی کو ہے،کوئی دوسرا ان کا احاطہ نہیں کر سکتا۔اللہ پاک نے اپنے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذات کو باکمال، بے عیب بنایا اور اسی طرح آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسماء کو بھی باکمال اور بے عیب بنایااور اپنی لاریب کتاب میں بھی اپنے محبوب کے اسماء کا ذکر فرمایا۔قرآنِ کریم میں کئی مقامات میں اسماء النبی کا ذکر چمک دمک رہا ہے، جیسے سورۂ مزمل میں یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُ ۙاور سورۂ مدثر میں : یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُ،نیز پوری سورۂ طٰہ آپ کے لئے اُتری،سورۂ محمد آپ کے نام پر ہے، اس طرح یٰس اور دیگر کئیں سورتوں کی ابتداء ہی آپ کے صفاتی ناموں سے ہوئی ہے۔


خصوصیت:یوں تو اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بہت سی خصوصیات سے نوازا ہے، جن میں سے ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے دوسرے انبیائے کرام کو ان کے نام سے مخاطب کیا، مگر خاتم المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ان کے نام سے مخاطب نہ کیا، بلکہ آپ کو یاایھا الرسول، یاایھا النبی وغیرہ سے مخاطب فرمایا۔1۔یٰسٓ: یٰسین حروفِ مقطعات میں سے ہے، اس کی مراد اللہ پاک ہی بہتر جانتا ہے، اس کے بارے میں مفسرین کا ایک قول یہ بھی ہے کہ یہ سیّد المرسلین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسماء مبارکہ میں سے ایک اسم ہے۔(صراط الجنان، سورۂ یس، آیت نمبر 1)2۔طہ: طہ حروفِ مقطعات میں سے ایک ہے، طہ کی تفسیر میں بعض نے کہا: یہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام ہے۔(صراط الجنان، سورۂ طہ، آیت نمبر 1)یاایھا المزمل:اس کے معنی ہیں:اے چادر اوڑھنے والے،ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یاایہا المزمل کی ندا دی۔(صراط الجنان، سورۂ مزمل، آیت نمبر 1)یاایہا المدثر:اس کے معنی ہیں:اے چادر اوڑھنے والے۔ایک مرتبہ جبریل علیہ السلام نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یاایہا المدثر کہا۔(صراط الجنان، سورۂ مدثر، آیت نمبر 1)مصدِّق:اس کے معنی ہے: تصدیق فرمانے والا، آیتِ مبارکہ میں بیان ہوا کہ وہ رسول کتابوں کی تصدیق فرمانے والا ہے۔(صراط الجنان، سورۂ ال عمران، آیت نمبر 81)یاایہا النبی:اے غیب بتانے والے نبی!تم اپنی بیویوں کی رضا چاہتے ہو۔اس آیت کے بارے میں شانِ نزول بیان کیا گیا ہے کہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے شہد تناول فرمایا۔(صراط الجنان، سورۂ تحریم، آیت نمبر 1)نذیر مبین:ڈر سنانے والا۔اور میں تو صرف یہی ڈر سنانے والا ہوں۔اس آیتِ مبارکہ سے معلوم ہوا!آپ کو ڈر سنانے والا بنا کر بھیجا گیا ہے۔(صراط الجنان، سورۂ ملک، آیت نمبر 26)محمد:محمد تو ایک رسول ہی ہیں۔ جنگِ اُحد میں کافروں نے شور مچایا کہ محمد مصطفٰی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم شہید ہوگئے تو کچھ صحابۂ کرام اضطراب میں آ کر میدانِ جنگ سے پیچھے ہٹ گئے، پھر جب ندا کی گئی کہ سرکارِ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم صحیح سلامت تشریف فرما ہیں تو صحابۂ کرام کی ایک جماعت واپس آگئی۔(صراط الجنان، سورۂ ال عمران، آیت نمبر 144)مبشر:خوشخبری دینے والا۔اے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم! ہم نے آپ کو ایمان اور اطاعت پر جنت کی خوشخبری دینے والا بناکر بھیجا ہے۔(صراط الجنان، سورۂ فرقان، آیت نمبر 56) عظمتِ مصطفیٰ:اس سے ثابت ہوا!ہمارےآقا و مولا،حبیبِ خدا، محمد مصطفیٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام انبیاء علیہم الصلوة والسلام میں سے سب سے بہتر و اعلیٰ اور افضل ہیں۔

وہ خدا نے ہے مرتبہ تجھ کو دیا، نہ کسی کو ملے نہ کسی کو ملا

کہ کلامِ مجید نے کھائی شہا تیرے شہر و کلام و بقا کی قسم(حدائق بخشش)


1۔ محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:یعنی بہت زیادہ تعریف کئے ہوئے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مشہور ترین اسمِ گرامی محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے، اللہ پاک نے حضرت آدم علیہ السلام بلکہ تمام مخلوق کے پیدا کرنے سے 20 لاکھ سال پہلے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کانامِ نامی محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم رکھا۔ 2۔ احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:یعنی اللہ پاک کی سب سے زیادہ تعریف کرنے والا۔ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے ذات دو ہیں، احمد اور محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم۔ کتبِ سابقہ میں احمد اور قرآنِ مجید میں محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے، نیز آسمان میں احمد اور زمین میں محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہے۔3۔ محمود صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: یعنی تعریف کئے ہوئے۔ حضرت داؤد علیہ السلام کی کتاب زبور میں سرکار دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام محمود واقع ہوا ہےاور تورات سے بھی یہی نقل ہوا کہ آسمانوں میں بھی آپ کا نام محمود ہے۔ 4۔ حاشر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:یعنی قیامت کے دن سب سے پہلے رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم فرمائیں گے:اللہ پاک میرے ذریعے کفر کو مٹائے گا اور میں حاشر ہوں، لوگ میرے پیچھے قیامت کے دن اکٹھے ہوں گے۔5۔ طہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک کا ارشاد ہے: اے محبوب!ہم نے تم پر قرآن اس لئے نہیں اتارا کہ تم مشقت میں پڑو اور اس کو نصیحت جو ڈررکھتا ہو۔6۔یٰس:اللہ پاک کا ارشاد ہے:مجھے راحت والے قرآن کی قسم!بے شک اے محمد(صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم)!تم سیدھی راہ پر بھیجے گئے ہو، جومنزلِ مقصود کو پہنچانے والی ہے، جس کی ہر راہ توحید اور ہدایت کی راہ ہے، تمام انبیاء علیہم السلام اسی راہ پر ہیں۔7۔ مزمل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:یعنی جھرمٹ مارنے والا یا لپٹنے والا۔بعض مفسرین نے کہا ہے:ابتدائے زمانہ وحی میں سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خوف سے اپنے کپڑوں میں لپٹ جاتے تھے ، ایسی حالت میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو جبرائیل علیہ السلام نے یا ایھا المزمل کہہ کر نداء دی۔ 8۔ ناصر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:یعنی مددگار۔حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اسلام کی تبلیغ و اشاعت اور جہاد کے ذریعے اللہ پاک کے دین کی مدد کرنے والے ہیں۔9۔ منصور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: یعنی مدد کئے ہوئے، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم دنیا اور آخرت میں یعنی دوجہاں میں منصور ہیں۔10۔ شہید صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:یعنی ہر شے کے نگہبان۔ ہر نبی کو ان کے امت کے اعمال پر مطلع کیا جاتا ہے، تاکہ روزِ قیامت امت کی شہادت دیں، کیونکہ ہمارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شہادت عام ہوگی، اس لئے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام امت کے احوال پر مطلع رہے ہیں۔قرآنِ پاک میں ان ناموں کے علاوہ اور بھی بہت سے نام آئے ہیں، جن میں مبین، غنی ،روؤف، عزیز،مصدق، مدثر، منیر ،بشیر ،شفیع وغیرہ ہیں۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی زندگی بہترین نمونہ ہے، ان لوگوں کے لئے جو اللہ پاک اور آخرت کے دن پر امید رکھتے ہیں۔

اللہ پاک ہمیں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین ثم آمین


تمام تعریفیں اللہ پاک  کے لئے ہیں جو تمام جہانوں کا ربّ اور تمام خوبیوں کا مالک ہے، اسی نے تمام خوبیوں سے متصف پیارے رسول، بلکہ اپنے محبوب، تمام نبیوں کے سردار ، دوجہاں کے مالک و مختار، ہم غریبوں کے غمگسار،رسولِ محتشم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نور کو تمام اوائل (ہر چیز) سے پہلے پیدا فرمایا، پھر تمام انبیاءورُسل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ارواحِ مقدسہ کی تخلیق سے پہلے آپ علیہ السلام کو نبی اور رسول بنایا۔ہر نبی کو معجزے عطا فرمائے، لیکن ہمارے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سب سے اعلیٰ و لازوال معجزہ قرآنِ کریم عطا فرمایا اور اس عظیم معجزے کو تعریفِ مصطفی میں نازل فرمایا، کہیں اداؤں کی تعریف کی گئی تو کہیں نامِ مصطفی کی تعریف کی گئی اور مختلف القاب سے قسم کے ساتھ ذکر فرمایا گیا، جس کی مثال بہت سے مقامات سے ملتی ہے۔1۔مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ وَ كَانَ اللّٰهُ بِكُلِّ شَیْءٍ عَلِیْمًا۠0 ترجمہ:حضرت محمد تم میں سے کسی مرد کے باپ نہیں، مگر وہ اللہ کے رسول ہیں اور خاتم النبیین ہیں اور اللہ ہر چیز کو خوب جاننے والا ہے۔(پارہ نمبر 22، سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 40) اس آیتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خاتم النبیین کہہ کر پکارا گیا ہے ۔2۔اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۔ ترجمہ:بے شک ہم نے آپ کو گواہ، خوشخبری دینے والا اور ڈرانے والا بنا کر بھیجا ہے۔(پارہ نمبر 26،سورۂ الفتح، آیت نمبر 8)اس آیتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو شاہد، مبشر اور نذیر کہہ کر پکارا گیا ہے۔

یٰا یُّھَاالْمُزَمّل ترجمہ: اے !چادر اوڑھنے والے۔(پارہ 29،سورۂ المزمل، آیت نمبر 1)اس آیتِ مبارکہ میں آپ علیہ السلام کو مزمل کہہ کر پکارا گیا، یعنی آپ کی اداؤں کو آپ کی تو صیف کے لئے ذکر کیا گیا ۔4۔وَ  مَا  مُحَمَّدٌ  اِلَّا  رَسُوْلٌۚ-قَدْ  خَلَتْ  مِنْ  قَبْلِهِ  الرُّسُلُؕ۔ ترجمہ:حضرت محمد نہیں ہیں، مگر اللہ کے رسول، آپ سے پہلے تمام رسول گزر چکے ہیں۔(پارہ نمبر 4، سورۂ آل عمران، آیت نمبر 144) اس سے معلوم ہوا! آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ظاہری طور پر تمام نبیوں سے بعد آئے اور اسمِ محمد کے ساتھ آئے ۔5۔وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا ۔ ترجمہ:اور اس کے حکم سے اللہ کی طرف بلاتے ہیں اور روشن چراغ ہیں۔(پارہ نمبر 22، سورۃ الاحزاب، آیت نمبر 46)( سراج منیرکہہ کرتعریف ِنبی کی گئی۔)وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ ترجمہ:اور ہم نے آپ کو نہیں بھیجا، مگر تمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔(پارہ نمبر 17، سورۂ الانبیاء، آیت نمبر 107)اس آیتِ مبارکہ میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو رحمت اللعالمین کہہ کر پکارا گیا۔7۔یا ایہا المدثرترجمہ:اے چادر والے ۔(پارہ نمبر 29، سورۂ المدثر، آیت نمبر 1)اس آیتِ مبارکہ میں المدثر کے نام سے مخاطب کیا گیا۔8۔مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ وَ الَّذِیْنَ مَعَهٗۤ اَشِدَّآءُ عَلَى الْكُفَّارِ رُحَمَآءُ بَیْنَهُمْ ترجمہ:حضرت محمد اللہ کے رسول ہیں اور وہ لوگ جو ان کے ساتھ ہیں، وہ کفار پر سخت ہیں اور آپس میں مہربان ہیں۔(سورۂ الفتح، آیت نمبر 29) اس آیتِ مبارکہ میں محمد رسول اللہ ذکر آیا ہے۔9۔یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ ترجمہ: اے نبی ۔ (پارہ نمبر 10، سورۂ الانفال، آیت نمبر 64)اس آیتِ مبارکہ میں آپ کو نبی کہہ کر ذکر کیا گیا۔10۔لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ ترجمہ:بیشک تمہارے درمیان تمہی میں سے رسول آیا، تمہارا دکھ اسے گراں گزرتا ہے اور وہ تم پر تمہارے نفع کا حریص ہے اور ایمانداروں پر شفیق و مہربان ہے۔(پارہ نمبر 10، سورۂ التوبہ، آیت نمبر 128)اس آیتِ مبارکہ میں رسول ،رؤف ،الرحیم کہہ کر آپ علیہ السلام کو مخاطب کیا گیا۔


لب پر آجاتا ہے جب نامِ جناب، منہ میں گھل جاتا ہے شہدِ نا یاب

وجد میں ہو کے اے جاں بیتاب، اپنے لب چوم لیا کرتے ہیں(حدائقِ بخشش)

آج ہم اپنے پیارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے میٹھے میٹھے اسمائے مبارکہ کا ذکر کریں گی، جو اپنے آپ میں خود اک نعمت ہیں، کیونکہ ہر اسم مبارکہ پیارے نبی کی تعریف بیان کرتا ہے، یوں تو نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسماء کی تعداد اللہ پاک کے اسماء حسنٰی کی تعداد کے برابر 99 بتائی جاتی ہے، لیکن تین سو اور ہزار کی تعداد میں اسمائے گرامی کا بھی ذکر ہوا ہے، جن میں سے بعض قرآن و حدیث میں وارد ہیں اور بعض کتبِ قدیمہ میں پائے جاتے تھے، ذیل میں آقا کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ان ناموں میں سے کچھ کا ذکر کیا جارہا ہے، جو قرآن شریف میں ذکر کئے گئے ہیں۔1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:تعریف والا ۔ وَمَا مُحَمَّدٌ اِلَّا رَسُوْلٌ ۚ۔(ال عمران:144)ترجمہ:اور محمد تو ایک رسول ہیں۔مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ۔(فتح:29)ترجمہ:محمد اللہ کے رسول ہیں۔کلمے میں، تشہد میں، خطبے میں اسی نام مبارکہ کا پڑھنا متعین ہے۔ امام بیہقی نے اپنی سند کے ساتھ ابنِ اسحاق سے روایت کیا ہے، وہ فرماتے ہیں :حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی والدہ ماجدہ حضرت آمنہ رَضِیَ اللہُ عنہا بیان کیا کرتی تھیں کہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ان کے شکمِ اطہر میں تھے کہ انہیں غیب سے یہ آواز آتی تھی: تیرے شکم میں اس امت کے سردار ہیں، جب وہ زمین پر تشریف لے آئیں تو یوں کہو:میں اسے اللہ واحد کی پناہ میں دیتی ہوں، ہر شریر کے شر سے، بے شک تمہارا یہ بیٹا حمید، ماجد کا بندہ احمد ہے، جس کی زمین و آسمان والے حمد کرتے ہیں اور انجیل میں اس کا نام احمد ہے، قرآن میں اس کا نام محمد ہے، پس اسی وجہ سے آپ کی والدہ ماجدہ نے آپ کا نام محمد رکھا۔2۔احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: سب سے زیادہ حمد کرنے والا۔وَ اِذْ قَالَ عِیْسَى ابْنُ مَرْیَمَ یٰبَنِیْۤ اِسْرَآءِیْلَ اِنِّیْ رَسُوْلُ اللّٰهِ اِلَیْكُمْ مُّصَدِّقًا لِّمَا بَیْنَ یَدَیَّ مِنَ التَّوْرٰىةِ وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُ ؕ۔(سورۂ الصف:6)ترجمہ:اور یاد کرو جب عیسیٰ بن مریم نے کہا اے بنی اسرائیل، میں تمہاری طرف اللہ کا رسول ہوں، اپنے سے پہلی کتاب توریت کی تصدیق کرتا ہوا اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوا، جو میرے بعد تشریف لائیں گے اُن کا نام احمد ہے۔ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہِ علیہ نے حدیث روایت کی ہے کہ حضرت محمد بن علی، حضرت علی رَضِیَ اللہُ عنہ سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے فرمایا :حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مجھے وہ کچھ عطا فرمایا گیا ہے، جو مجھ سے پہلے کسی نبی کو عطا نہیں کیا گیا، ہم نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! وہ کیا ہے؟ آپ نے فرمایا:رُعب سے میری مدد کی گئی، مجھے زمین کی کنجیاں عطا فرمائی گئیں اور میرا نام احمد رکھا گیا اور میرے لئے مٹی کو پاک کرنے والی بنائی گئی اور میری اُمّت کو تمام امتوں سے افضل بنایا گیا۔3۔رؤف الرحیم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:کمال مہربان مہربان۔لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ۔(سورۂ توبہ:128)بیشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول،جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گِراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان ۔اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یہ دونوں نام اپنے ناموں میں سے عطا فرمائے ہیں۔4۔رحمۃ للعالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:تمام جہانوں کے لئے رحمت۔وَ مَاۤ اَرْسَلْنٰكَ اِلَّا رَحْمَةً لِّلْعٰلَمِیْنَ0(سورۂ انبیاء:107)اور ہم نے تمہیں نہ بھیجا مگر رحمت سارے جہان کے لئے۔حضرت ابنِ عباس رضی اللہُ عنہما فرماتے ہیں: آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم مؤمنوں اور کافروں سب کے لئے رحمت ہیں، کیوں کہ کافروں کو دنیا میں پہنچنے والے اس عذاب سے بچایا گیا، جو انبیاء کرام علیہم السلام کی تکذیب کرنے والی سابقہ امتوں کو دیا گیا۔5۔سراجا منیرا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: چمکا دینے والا آفتاب۔وَّ دَاعِیًا اِلَى اللّٰهِ بِاِذْنِهٖ وَ سِرَاجًا مُّنِیْرًا۔(سورۃ الاحزاب:46)اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا او ر چمکا دینے والا آفتاب۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو سراج سے موسوم فرمانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کے نور سے دنیا کو روشنی ملی اور کفر اور اس کی تاریکیاں مٹ گئیں۔6۔مبلغ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: پہچانے والا۔یٰاَیُّهَا الرَّسُوْلُ بَلِّغْ مَاۤ اُنْزِلَ اِلَیْكَ مِنْ رَّبِّكَ ؕ۔(مائدہ:67)اے رسول پہنچا دو جو کچھ اترا تمہیں تمہارے ربّ کی طرف سے۔ مسلم شریف کی حدیث میں ہے :آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک نے مجھے مبلغ بنا کر بھیجا ہےاور مجھے تکلیف دینے والا بنا کر نہیں بھیجا۔ 7۔نور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: روشنی، نور۔قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌ ۙ۔(سورۂ مائدہ:15)بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور آیا اور روشن کتاب۔قاضی عیاض رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:آپ کو نور سے موسوم کیا جانے کی وجہ یہ ہے کہ آپ کا امر واضح اور آپ کی نبوت روشن وممتاز ہے اور آپ نے مؤمنین اور عارفین کے قلوب کو قرآن کے ذریعے روشن کیا۔8۔مولٰی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اولٰی : مالک۔اَلنَّبِیُّ اَوْلٰى بِالْمُؤْمِنِیْنَ مِنْ اَنْفُسِهِمْ وَ اَزْوَاجُهٗۤ اُمَّهٰتُهُمْ ؕ۔(سورۂ احزاب:6)یہ نبی مسلمانوں کے ان کی جان سے زیادہ مالک ہے اور اس کی بیبیاں ان کی مائیں ہیں۔ بخاری شریف کی حدیث میں ہے:میں ہر مؤمن کا دنیا و آخرت میں مولا ہوں، پس جو کوئی مال چھوڑ کر وفات پا جائے تو اس کے رشتہ دار اس کے مال کے وارث ہوں گے اور اگر وہ قرض یا عیال چھوڑ کر وفات پا جائے تو وہ(قرض خواہ اور یتیم بچے)میرے پاس آئیں، پس میں ان کا مولیٰ ہوں۔9۔مصدق صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:تصدیق کرنے والا۔وَ لَمَّا جَآءَهُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ عِنْدِ اللّٰهِ مُصَدِّقٌ لِّمَا مَعَهُمْ۔(سورۂ بقرہ:101)اور جب ان کے پاس تشریف لایا اللہ کے یہاں سے ایک رسول ان کی کتابوں کی تصدیق فرماتا۔العزفی کہتے ہیں: حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اس نام سے موسوم اس لئے ہیں کہ آپ نے انبیائے سابقین اور ان کی کتابوں کی تصدیق فرمائی ہے۔10۔خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم: سب نبیوں میں پچھلے۔مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَ ؕ۔( سورۂ احزاب:40) محمد تمہارے مردوں میں کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول ہیں اور سب نبیوں میں پچھلے۔ بخاری شریف کی حدیث ہے، سید عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا: میری اور میرےسے قبل کے انبیاکی مثال اس شخص کی سی ہے، جس نے ایک عمارت بنائی اور اس کو حسین و جمیل بنایا، مگر ایک کونے میں ایک اینٹ کی جگہ خالی چھوڑ دی، پس لوگ اس عمارت کے گرد چکر لگاتے ہیں اور خوش ہوتے ہیں اور کہتے ہیں: یہ اینٹ کیوں نہیں لگائی، پس میں(عمارت نبوت) کی وہ اینٹ ہوں اور میں خاتم النبیین ہوں۔اس مضمون کے لکھنے میں کنزالایمان فی ترجمۂ قرآن اور حضرت جلال الدین سیوطی رحمۃُ اللہِ علیہ کی کتاب الریاض الانیقہ فی شرح الاسماء خیر الخلیفۃ کے ترجمے کی کتاب شرح اسماء النبی سے مدد لی گئی ہے۔


نبیِ کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے اسمائے پاک بےشمار ہیں۔اسما کا کثیر ہونا صفات کی کثرت کی وجہ سے ہوتا ہے۔قرآنِ پاک میں اللہ پاک نے اپنے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا کثیر اسمائے مبارکہ سے نام رکھا جن میں سے دس اسمائے پاک درج ذیل ہیں:1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:محمد وہ ہے،جس کی بہت زیادہ حمد کی جائے بوجہ اس کی کثرتِ خصال کے۔(تفسیرروح البیان، پارہ 22، ص 57، مکتبہ غوثیہ)فضیلت: سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:جس کے لڑکا پیدا ہوا اور وہ میری محبت اور میرے نامِ پاک سے تبرک کیلئے اس کا نام محمد رکھے، وہ اور اس کا لڑکا دونوں بہشت میں جائیں۔(فتاویٰ رضویہ، 15/280، مکتبہ غوثیہ بحوالہ کنز العمال، 16/422،حدیث:45223)مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے سارے حروف کے بے نقطہ ہونے میں راز:کلمہ مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ کے سب حروف بے نقطہ ہیں۔اس میں علمائے عجم نے ایک لطیفہ لکھا ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے جسم پر مکھی نہ بیٹھتی تھی، لہٰذا یہ کلمہ پاک کلی نقطوں سے محفوظ رہا کہ وہ شبیہ مکھیوں کے ہیں۔ (فتاوی رضویہ،19/ 373، مکتبہ غوثیہ)2۔احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:احمد کا معنی ہے:بہت ہی حمد فرمانے والے۔(مراة المناجیح،8/48، قادری پبلشرز) آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم(ربّ کریم کی) سب سے زیادہ حمد کرنے والے ہیں۔(تفسیر مظہری،9/ 383، ضیاء القرآن پبلیکیشنز)خصوصیت:نام محمد و احمد کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اللہ پاک نے آپ کے نامِ مبارک کی ایسی حفاظت فرمائی کہ کسی نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانہ اقدس سے پہلے یہ دونوں نام نہیں رکھے۔(شفا شریف، 1/208، کتب خانہ امام احمد رضا)رَحْمَةٌ لِّلْعٰلَمِیْن:عالم میں جتنی چیزیں داخل ہیں، سیدِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمان سب کیلئے رحمت ہیں۔(صراط الجنان،6/ 386،مکتبۃ المدینہ) رب کی صفت رَبُّ الْعٰلَمِیۡن اور حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی صفت ہے رَحْمَةٌ لِّلْعٰلَمِیْن ، یعنی جس کا خدا پاک ربّ ہے، اس کیلئے حضور علیہ الصلوة والسلام رحمت ہیں۔(شانِ حبیب الرحمن، ص 157، حسن پبلیشرز)خَاتَمُ النَّبِیّٖن:ختم کا معنی ہے:ما یطبع بہ(وہ شے جس سے مہر لگائی جائے) اب معنی یہ ہوا کہ حضور علیہ الصلوة والسلام وہ ذات ہیں،جن سے انبیاء علیہم السلام کی نبوت پر مہر لگادی گئی کہ آپ پر نبوت ختم ہوگئی،آپ آخری نبی ہیں۔(تفسیرروح البیان، پارہ 22، ص 65، مکتبہ غوثیہ)حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ:حَرِیۡصٌ عَلَیۡکُمۡ کا معنی ہے کہ وہ دنیا و آخرت میں تمہیں بھلائی پہنچانے پر حریص ہیں۔ (تفسیرصراط الجنان، 273/4، مکتبۃ المدینہ) کوئی اپنی اولاد کے آرام کا حریص ہوتا ہے، کوئی اپنی عزت کا، مگر محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنہ اولاد کے،نہ اپنے آرام کے،بلکہ تمہارے حریص ہیں،اسی لئے ولادتِ پاک معراج، حتی کہ بوقتِ وصال بھی ہمیں یاد فرمایا۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 120، حسن پبلشرز)اَلْقَلَم:قلم بھی سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا نامِ پاک ہے، آپ علیہ الصلوة والسلام کو قلم اس لئے کہتے ہیں کہ جیسے تحریر سے پہلے قلم ہوتا ہے، ایسے ہی عالم سے پہلے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہوئے۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 268، حسن پبلشرز)سِرَاجًا مُّنِیْرًا:سراج منیر بھی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا اسمِ گرامی ہے کہ اللہ پاک نے آپ علیہ الصلوة و السلام کو چمکادینے والا آفتاب بناکر بھیجا۔(تفسیرصراط الجنان،8/ 59)حقیقت میں آپ کا وجودِ مبارک ایسا آفتاب عالمِ تاب ہے، جس نے ہزارہا آفتاب بنادئیے اسی لئے اس کی صفت میں منیر ارشاد فرمایا گیا۔(تفسیرصراط الجنان،8/ 60)اَلنَّجْم:نجم بھی حضور علیہ الصلوة و السلام کا نامِ نامی ہے،ربِّ کریم ارشاد فرماتا ہے:وَالنَّجْمِ اِذَا ھَوٰی(پ27،النجم:1) آیت کے معنی یہ ہوں گے کہ اس پیارے چمکتے تارے محمد مصطفیٰ (صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم) کی قسم! جب وہ معراج کی رات آسمانوں سے اترے۔(تفسیرصراط الجنان،9/ 545)اَوْلٰی:اسمِ مبارک اَولیٰ کے معنی ہیں،نزدیک تر۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 178،حسن پبلشرز)دنیا میں سب سے زیادہ قریب ہماری جان ہے۔ اگر جسم کو ذرا بھی تکلیف پہنچ جاوے تو روح کو خبر ہوجاتی ہے اور جان سے بھی زیادہ قریب مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہیں۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 179، حسن پبلشرز)10۔بُرہان:بُرہان کے معنی دلیل،جس سے دعوے کو مضبوط کیا جاتا ہے، یہاں دلیل سے مراد معجزات ہیں،جس قدر معجزے پہلے پیغمبروں کو ملے، وہ سب کے سب حضور علیہ الصلوة والسلام کو عطا ہوئے اور اس کے علاوہ اور بےشمار معجزات ملے،بلکہ حق تو یہ ہے کہ حضور علیہ الصلوة والسلام اَز سر تا قدمِ پاک خود اللہ کی وحدانیت کی دلیل ہیں،لہٰذا بُرہان سے مراد حضور علیہ الصلوة و السلام کی ذاتِ پاک ہے۔(شانِ حبیب الرحمن،ص 71)

دئیے معجزے انبیاء کو خدا نے ہمارا نبی معجزہ بن کے آیا


اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تمام مخلوقات میں افضل واعلیٰ پیدا فرمایا۔جس طرح کوئی کسی سے محبت کرتا ہے تو اس کو کثیر القابات و اسماء سے پکارتا ہے، جو کہ انتہائی خوبصورت ہوتے ہیں، اسی طرح ربّ کریم نے اپنے محبوب حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بھی قرآنِ پاک میں کثیر القابات و صفات و اسماء سے مخاطب فرمایا، چنانچہ ان میں سے چند خوبصورت اسماء درج ذیل ہیں۔1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اس نام مبارک سے اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خطاب فرمایا، اس کا لغوی معنی ہے: بہت زیادہ تعریف کیا ہوا۔2۔الاُمّیْ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآن کی سورۂ الاعراف کی آیت نمبر 157 میں اس اسم مبارک سے آپ کا پیارا ذکر فرمایا، چنانچہ اس لفظ اُمّی کا معنی ہے:بےپڑھا ہوا، یعنی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کسی مخلوق سے پڑھنا لکھنا نہ سیکھا، بلکہ خالق نے تعلیم فرمائی۔(مفتی قاسم کی تحریر نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی خوبصورت شان، مخلصاً)۔3۔نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:قرآنِ پاک کی سورۂ الاعراف کی آیت 157 میں اللہ پاک نے نبی کے پیارے اسم سے مخاطب فرمایا، اس کے معنی ہیں غیب کی خبریں دینے والے، چنانچہ تفسیر صراط الجنان میں اس آیت کی تفسیر میں ہے:اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ نے اس کا ترجمہ غیب کی خبریں دینے والا کیا ہے اور یہ نہایت صحیح ترجمہ ہے، کیونکہ نَبَّاَ خبر کو کہتے ہیں۔4۔مصدق صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اس کا معنی ہے:تصدیق کرنے والا، کیوں کہ آپ تمام آسمانی کتابوں کی تصدیق فرماتے تھے، (صراط الجنان، آیت101، سورۂ البقرہ)۔5۔رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اس صفاتی نام سے آپ کا ذکر سورۂ البقرہ، آیت 101 ہی میں ہوا ہے، جس کا معنی ہے:پیغام پہنچانے والا۔6۔خاتم النبین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اس کا معنی سب نبیوں کے آخر میں تشریف لانے والے، سورۃ الاحزاب کی آیت 40 میں صفاتی نام سے متصف کیا گیا ہے۔7۔المزمل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:یعنی چادر اوڑھنے والے۔ ایک قول کے مطابق آپ چادر میں لپٹے آرام فرما رہے تھے تو آپ کو اس صفاتی نام سے پکارا گیا۔8۔شاہدٌا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:یعنی مشاہدہ کرنے والا، یعنی مشاہدہ کے ساتھ علم رکھنے والا۔9۔مبشراً صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:یعنی (جنت کی)خوشخبری دینے والا۔10۔نذیراً صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:ڈر سنانے والایعنی آپ کافروں کا جہنم کے عذاب کا ڈر سنانے والے ہیں اور ان دونوں صفاتی ناموں کا تذکرہ سورۃ الاحزاب کی آیت 45 میں ہوا ہے۔

آنکھوں کا تارا نامِ محمد دل کا اجالا نامِ محمد


اَلْحَمْدُ سے لے کر والنَّاس تک قرآنِ پاک کا لفظ لفظ محبوب کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مدح وثناء میں نازل ہوا، جگہ جگہ اللہ کریم نے اپنے پیارے محبوب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لئے مختلف نام استعمال فرمائے، اپنے ذکرِ جلیل کے ساتھ ذکرِ خلیل ملایا، اللہ پاک نے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا بہترین ناموں کے ساتھ ذکر فرمایا۔1۔یٰسین:فرمایا:یٰس والقرآن الحکیم۔(پ22، سورۂ یٰس:2،1)حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:خدا پاک کی بارگاہ میں میرے دس نام ہیں، ان میں طٰہ اور یٰس بھی ہیں۔ایک قول ہے کہ یٰس سے مرادیا سید ہے۔(الشفاء، ص 45 ملتقطاً)2۔نور:فرمایا:قَدْ جَاءَکُمْ مِّنَ اللہِ نُوْرٌوَّکِتَابٌ مُّبِیْنٌ۔(پ6، المائدہ:15)ایک روایت ہے :نور سے مراد حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہیں۔3۔شاہد:فرمایا:اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا۔(پ22،الاحزاب:45)شاہد،بمعنی گواہ۔4۔کریم:فرمایا:اِنَّہٗ لَقَوْلُ رَسُوْل کَرِیْم۔(پ30، التکویر:19)کریم بمعنی بھلائی کرنے والے، احسان کرنے والے، معاف فرمانے والے۔5۔الرءوف:فرمایا:بِالْمُؤمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَحِیْمٌ۔(پ11، التوبہ: 128)رءوف بمعنی مہربان۔6۔نذیر:فرمایا:وَنَذِیْرًا وَدَاعِیًا اِلَی اللہِ بِاِذْنِہ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا۔(پ22، الاحزاب: 46)نذیر بمعنی ڈر سنانے والا۔7۔امی:فرمایا:الَّذِیْنَ یَتَّبِعُوْنَ الرَّسُوْلَ النَّبِیَّ الْاُمِّیَّ۔(پ9،الاعراف:157)امی بمعنی بے پڑھے ہوئے۔8۔ طٰہ: فرمایا:طٰہٰ وَمَا اَنْزَلْنَا عَلَیْکَ الْقُرْآنَ لِتَشْقٰی۔(پ16، طہ: 2)یہ حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ناموں میں سے ایک نام ہے اور یہ حروفِ مقطعات ہیں۔9۔محمد:فرمایا:مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَد مِّنْ رِّجَالِکُمْ۔(پ22، الاحزاب: 40)محمد بمعنی بار بار تعریف کیا ہوا ۔10۔خاتم النبین: فرمایا:مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنّ رَسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔(پ22،الاحزاب40) خاتم النبین بمعنی نبیوں کے خاتم، آخری نبی۔یہاں کس کس کا بیان ہو، قرآنِ کریم کا حرف حرف آپ کی ثناء بیان کر رہا ہے، آپ کی ذاتِ عالی پر، آپ کی صفات و اسماء پر کروڑوں سلام۔اللہ کریم ہمیں سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے                              باغِ خلیل کا گلِ زیبا کہوں تجھے(اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ)

نبی پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم تمام جہانوں کے لئے رحمت بن کر آئے، آپ نے لوگوں کو ایک ربّ کی عبادت کرنے کا درس دیا، آپ تمام خصلتوں کے جامع ہیں اور اس بنا پر آپ کے بہت سے نام ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں:1۔بشیر: خوشخبری دینے والے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خوشخبری سنانے والا بنا کر بھیجا گیا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم قرآن کو ماننے والوں اور اس کے احکام پر عمل کرنے والوں کو نجات و فلاح اور جنت کی خوشخبری دیتے ہیں، قرآنِ پاک میں ارشادِ باری ہے:اے حبیب!بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ خوشخبری دینے والا اور ڈر کی خبریں دینے والا بنا کر بھیجا۔(سورۂ فاطر، آیت24)2۔ نذیر:ڈر سنانے والا، آپ دوزخ سے ڈرانے کی خبریں دینے والے ہیں، آپ کی تبلیغ کے باوجود اگر کوئی جہنم کی راہ جاتا ہے تو اس کے متعلق آپ سے سوال نہ ہوگا کہ وہ کیوں ایمان نہ لایا، کیونکہ آپ نے اپنا فرض پوری طرح ادا کر دیا ہے۔ قرآن مجید میں ہے:ترجمہ صراط الجنان:بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا، خوشخبری دیتا اور پھر ڈر سناتا اور تم سے دوزخ والوں کا سوال نہ ہوگا۔(سورۂ بقرہ، آیت119)3۔مزمل:کپڑے میں لپٹنے والے، روایاتِ صحیحہ میں ہے کہ شروع میں جب وحی کی دہشت اور نقل سے آپ کا بدن کانپنے لگا تو آپ نے گھر والوں سے فرمایا:زملونی زملونی(مجھے کپڑا اڑھاؤ، کپڑا اڑھاؤ)چنانچہ کپڑا اڑھا دیا گیا، اللہ پاک نے اس اور اس سے اگلی صورت میں آپ کو وہی نام لے کر پکارا، قرآنِ مجید میں ہے:یا ایھا المزمل اے کپڑے میں لپٹنے والے۔(سورۂ مزمل، آیت 1)4۔رؤف:نرم دل، مہربان، آپ نرم دل کے مالک تھے، آپ لوگوں پر مہربان تھے اور ان کی خطاؤں کو معاف فرما دیتے تھے، جنگِ احد میں عتبہ بن ابی وقاص نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دندان مبارک کا کچھ حصہ شہید کر دیا اور عبداللہ بن قمیہٕ نے چہرہ انور کو زخمی کردیا، مگر آپ نے ان لوگوں کے لئے اس کے سوا کچھ نہ فرمایا:اے اللہ پاک! میری قوم کو ہدایت دے، کیوں کہ یہ لوگ مجھے نہیں جانتے ۔(الشفا بتعریف حقوق المصطفی فصل واماالحلم۔الخ، ج1،ص105)5۔صادق:سچ کہنے والا، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمیشہ سچ بولتے ہیں، آپ کے سچ بولنے کی وجہ سے لوگ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو صادق و امین پکارنے لگے، آپ کی سچائی کا قائل ابوجہل جیسا کافر بھی تھا۔

جس کو کافر بھی تسلیم کرتے تھے حق اس صداقت امانت پہ لاکھوں سلام

6۔عاقب: پیچھے آنے والا، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے آخر میں تشریف لائے، سب سے آخری کتاب آپ کو ملی، سب سے آگے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا دین آیا اور قیامت تک حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا دین باقی رہے گا۔ آپ نے فرمایا:میرا نام عاقب ہے، عاقب وہ ہے جس کے بعد کوئی نبی نہیں۔(مسلم، حدیث6096)7۔قاسم:تقسیم کرنے والا، آپ خزانوں میں سے تقسیم کرنے والے ہیں، بانٹنے والے ہیں، اگر کوئی فقیر آتا تو خود بھوکے رہتے تھے، مگر اپنا کھانا اس فقیر کو دے دیتے، آپ نے فرمایا:اَللہُ الْمُعْطِیْ وَاَنَا قَاسِمٌ۔اللہ پاک دینے والا ہے اور ہم اس کو تقسیم کرنے والے ہیں۔(بخاری، 3116)8۔محمود:تعریف کیا ہوا، آپ کا یہ صفاتی نام ہے۔ حضرت عباس رَضِیَ اللہُ عنہ نے فرمایا:آپ کا یہ نام زبور میں بھی موجود ہے، نیز حضرت ابنِ عباس رَضِیَ اللہُ عنہما سے روایت ہے: آپ کا نام مبارک آسمانوں میں محمود ہے۔9۔حامد:تعریف کرنے والا، آپ کی والدہ ماجدہ آمنہ رَضِیَ اللہُ عنہا فرماتی ہیں:میں نے خواب میں دیکھا کہ کوئی کہنے والا کہتا ہے :اے آمنہ!تیرے شکم میں ساری مخلوق سے بہتر اور سب کے سردار جلوہ افروز ہیں، ان کا نام حامد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم رکھنا۔(الریاض الانیقہ،139)10۔احمد:سب سے زیادہ حمد کرنے والا، آپ اللہ پاک کی سب سے زیادہ حمد کرنے والے ہیں، آپ کی زبان مبارک ہر وقت اللہ کے ذکر سے تر رہتی۔حضرت عیسی علیہ السلام نے فرمایا:میں بشارت دیتا ہوں کہ میرے بعد ایک شان والا رسول آئے گا، اس کا نام احمد ہوگا ۔

لیکن رضا نے ختمِ سُخن اس پہ کر دیا خالق کا بندہ خلق کا آقا کہوں تجھے(اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ)


اللہ پاک نے ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو بہت ہی خوبصورت اسمائے کرام سے نوازا ہے اور قرآنِ کریم میں جگہ جگہ آپ کو بہت ہی احسن انداز میں مخاطب فرمایا ہے۔متعدد نام رکھنے کا سبب دراصل نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بلند مرتبے اور اللہ پاک کی نظر میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے عزت و احترام کو بیان کرنا ہے، کیونکہ اہلِ عرب جب کسی چیز کی اپنے دل سے تعظیم کرتے ہیں تو اس کے زیادہ نام رکھتے ہیں، اللہ پاک کے نزدیک آپ سے برگزیدہ اور عظیم ہستی کوئی نہیں۔اللہ پاک نے آپ کو عمدہ صفات سے مزین فرمایا، یہ صفات آپ کی ذات پر بکثرت استعمال کی وجہ سے آپ کا اسم اور لقب بن گئیں اور اللہ پاک نے ان اسماء کو پڑھنے اور یاد کرنے والے کیلئے جنت کی نعمتیں تیار کر رکھی ہیں، آپ کے ہر نام کے ساتھ درود شریف پڑھنا چاہئے کہ درود پاک کی بڑی برکتیں ہیں اور آپ کا ذکر مبارک ہو تو درود شریف پڑھو اور دعا مانگو کہ یہ قبولیت کی گھڑی ہوتی ہے، آپ کا ذکرِ مبارک کرنے والے پر سُکون اور رحمت نازل ہوتی ہے۔ایک حدیثِ مبارکہ میں ارشاد ہے:قرآن میں میرے سات نام ہیں، پھر آپ نے ان میں سے محمد،احمد،یسین، طہ،مدثر،مزمل،عبداللہ بیان فرمائے۔(اسمائے نبی کے فضائل و خصوصیات،صفحہ63)1۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:آپ کا اسمِ گرامی محمد قرآنی آیات اور حدیث میں وارد ہوا ہے، نیز اس نام پر امتِ محمدیہ کا اجماع ہے، قرآنِ کریم میں اللہ پاک کا ارشاد ہے: مُحَمَّدٌ رَّسُوْلُ اللّٰهِ ؕ۔محمد اللہ کے رسول ہیں۔(سورۂ فتح، آیت 29)وَ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اٰمَنُوْا بِمَا نُزِّلَ عَلٰى مُحَمَّدٍ وَّ هُوَ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۙ۔اور جو ایمان لائے اور اچھے کام کئے، اس پر ایمان لائے جو محمد پر اتارا گیا (سورۂ محمد:2)محمد نام کا مطلب لائقِ حمد ہے، حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا نام محمد بہت جامع ہے، جس میں حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بے شمار فضائل بیان ہوئے ہیں، محمد کے معنی ہیں ہر طرح، ہر وصف میں بے حد تعریف کئے ہوئے۔ایک سروے کے مطابق دنیا میں سب سے زیادہ رکھا جانے والا نام محمد ہے اور کیوں نہ ہو کہ اس نام کے رکھنے کی بڑی برکتیں ہیں، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس نے میرے نام سے برکت کی امید کرتے ہوئے، میرے نام پر نام رکھا، قیامت تک صبح و شام اس پر برکت نازل ہوتی رہے گی۔(نام رکھنے کے احکام، صفحہ22)سبحان اللہ! آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے نام مبارک پر نام رکھنے کی فضیلت کتنی ہے، جب نام کی برکت کا یہ عالم ہے تو صاحبِ نام کا کیا عالم ہوگا کہ نام رکھنا دوزخ کے عذاب سے بچا لے گا تو آپ کے قول کو ماننا، آپ کے فعل کی پیروی کرنا، سب ہمارے لئے باعثِ رحمت اور آخرت میں باعثِ نجات ہوگا۔لیکن خبردار!ایک احتیاط بہت ضروری ہے، جو ہمارے بزرگانِ دین نے ہمیں محمد نام رکھنے کے حوالے سے بیان کی ہے کہ یہ نام اتنا مقدس ہے، جس کی ادنیٰ بے ادبی کہیں ہمارے لئے پکڑ کر سبب نہ بن جائے۔جیسا کہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اگر نام بگڑنے کا اندیشہ نہ ہو تو یہ نام رکھا جائے اور ایک صورت یہ ہے کہ عقیقہ کا نام یہ ہو اور پکارنے کے لئے کوئی دوسرا نام تجویز کر لیا جائے۔اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے اپنے بیٹوں،بھتیجوں کاعقیقے میں صرف محمد نام رکھا، پھر نامِ اقدس کے حفظِ آداب اور باہم تمیز کے لئے عُرف جدا مقرر کئے۔(نام رکھنے کے احکام)

نامِ محمد کتنا میٹھا میٹھا میٹھا لگتا ہے

2۔احمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:وَ مُبَشِّرًۢا بِرَسُوْلٍ یَّاْتِیْ مِنْۢ بَعْدِی اسْمُهٗۤ اَحْمَدُؕ۔اور ان رسول کی بشارت سناتا ہوں، جو میرے بعد تشریف لائیں گے ان کا نام احمد ہے۔(سورۂ الصف:آیت 6)احمد: حمد سے مشتق ہے اور یہ حمد سے اسم تفصیل ہے، آپ تمام تعریف کئے ہوؤں اور تمام تعریف کرنے والوں میں سب سے زیادہ تعریف کرنے والے ہیں، روایات میں آیا ہے: آپ کا نام آسمان میں احمد ہے، اللہ پاک نے آپ کا نام آسمانوں پر احمد رکھا، اس سے آپ کی بلند شان اور مرتبہ ظاہر ہوتا ہے۔فرمانِ مصطفی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:روزِ قیامت دو شخص اللہ پاک کے حضور کھڑے کئے جائیں گے، حکم ہوگا:انہیں جنت میں لے جاؤ، عرض کریں گے:الہٰی! ہم کس عمل پر جنت کے قابل ہوئے؟ ہم نے تو کوئی کام جنت کا نہ کیا؟ اللہ پاک فرمائے گاجنت میں جاؤ، میں نے حلف فرمایا ہے، جس کا نام احمد یا محمد ہو، وہ دوزخ میں نہ جائے گا۔(الفردوس بماثور الخطاب، جلد2، حدیث 883، پوسٹ دعوت اسلامی احمد یا محمد نام رکھنے کی برکت)

کیوں بارہویں پہ ہے سبھی کو پیار آگیا آیا اسی دن احمدِ مختار آگیا

3۔یسصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰسٓ ۚ۔ وَ الْقُرْاٰنِ الْحَكِیْمِ ۙ۔ترجمہ:یسین۔حکمت بھرے قرآن کی قسم ۔ (سورۂ یاسین، آیت1)یسین حروفِ مقطعات میں سے ہے، نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو یسین کے ساتھ مخاطب فرمایا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی یسین اس بات پر دلالت کرتا ہے کہ آپ علیہ السلام کو بلند مقام حاصل ہے اور اس نام کے ذریعے اللہ پاک کا قسم کھانا آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عظمت کی دلیل ہے۔4۔طہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:طٰهٰ ۚ۔ مَاۤ اَنْزَلْنَا عَلَیْكَ الْقُرْاٰنَ لِتَشْقٰۤى ۙ۔ ترجمہ:طہ، ہم نے تم پر قرآن اس لئے نازل نہیں کیا کہ تم مشقت میں پڑو۔(سورۂ طہ)طہ حروفِ مقطعات میں سے ہے،ایک قول کے مطابق طہ اللہ پاک کا نام ہے اور اللہ پاک نے اس نام کے ذریعے نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکارا ہے، نیز اس خطاب کے ذریعے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بلند مرتبے کا اظہار کیا ہے۔یسین اور طہ نام رکھنا منع ہے:بہارِشریعت میں ہے:طہ اور یسین نام نہ رکھے جائیں کہ یہ مقطعاتِ قرآنیہ سے ہیں، جن کے معنی معلوم نہیں، یہ نام اسمائے نبی یا اسمائے الہیہ میں سے ہے، جب معنی معلوم نہیں تو ہو سکتا ہے کہ اس کے ایسے معنی ہوں، جواللہ پاک اور نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ساتھ خاص ہوں۔(نام رکھنے کے احکام، صفحہ 37)محمد یسین یامحمد طہ:ان ناموں کے ساتھ محمد ملا کر کہنا بھی ممانعت کو دور نہیں کرے گا تو یوں بھی نام نہ رکھا جائے۔غلام یسین یا غلام طہ۔ا ن ناموں کے ساتھ غلام ملا کر کہنا درست ہے۔

سرور کہوں کہ مالک و مولا کہوں تجھے باغِ خلیل کا گلِ زیبا کہوں تجھے

5۔المزمل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ۔اے جھرمٹ مارنے والے۔(سورۂمزمل:1)اس تفسیر میں ہے کہ اپنے کپڑوں سے لپٹنے والے۔ اس کا شانِ نزول میں کئی اقوال ہیں،ایک قول یہ ہے کہ حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم چادر شریف میں لپٹے ہوئے آرام فرما تھے، اس حالت میں آپ کو نداء کی گئی: یٰۤاَیُّهَا الْمُزَّمِّلُۙ، بہرحال یہ نداء بتاتی ہے کہ محبوب کی ہر ادا پیاری ہے اور یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس کے معنی یہ ہیں کہ آپ رداء نبوت و چادرِرسالت کے حامل و لائق تھے۔(کنزالایمان تفسیر و ترجمہ)6۔ المدثر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا الْمُدَّثِّرُۙ۔اے بالاپوش اوڑھنے والے۔(سورۂ مدثر، آیت 1)حضرت جابر بن عبداللہ رَضِیَ اللہُ عنہ نے بیان کیا ہے کہ رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں حرا پہاڑ کے اوپر تھا، مجھے آواز دی گئی: اےمحمد! بے شک آپ اللہ پاک کے رسول ہیں، میں نے دائیں بائیں دیکھا، لیکن کچھ نظر نہ آیا، پھر میں نے اوپر کی طرف دیکھا تو عرش پر ایک فرشتہ بیٹھا ہوا تھا اور مجھےپکارے جا رہا تھا، آپ فرماتے ہیں:مجھ پر رعب طاری ہو گیا اور میں حضرت خدیجہ رضی اللہُ عنہا کے پاس آیا اور ان سے کہا:مجھے کمبل اڑھاؤ(ایک قول)آپ کی حالت ایسی تھی کہ آپ کا دل کانپ رہا تھا، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:مجھے کمبل میں لپیٹ دو، مجھے کمبل لپیٹ دو، اس کے بعد وحی کا سلسلہ منقطع ہو گیا، کچھ وقفہ کے بعد جب رسالت کے بارے میں پہلی آیت نازل ہوئی تو ربّ کریم نے آپ کو اےبالا پوش اوڑھنے والے کہہ کر مخاطب فرمایا۔

کہیں مزمل کہیں مدثر یا روح القرآن

میں تیرے قربان محمد

7۔بشیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:8۔نذیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:یٰۤاَیُّهَا النَّبِیُّ اِنَّاۤ اَرْسَلْنٰكَ شَاهِدًا وَّ مُبَشِّرًا وَّ نَذِیْرًاۙ۔

اے غیب کی خبریں بتانے والے نبی!بے شک ہم نے تمہیں بھیجا حاضر و ناظر اور خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔(الاحزاب:45)مبشر اور بشیر آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اسمائے گرامی ہیں، اللہ پاک نے ان دو ناموں کے ذریعے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تعریف فرمائی، ایمانداروں کو جنت کی خوشخبری سناتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں کو وہ باتیں یاد دلاتے ہیں، جن سے ان کے دل خوش ہوتے ہیں، لوگوں کو جنت کے محلات، خوبصورتی، ان میں موجود نعمتوں کے بارے میں بتاتے ہیں، جنت میں موجود نہروں کے حال بتاتے ہیں، اور بھی ایسی خوشخبریاں سناتے ہیں کہ جس سے بندہ مؤمن خوش ہو جاتا ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کتنے ہی صحابہ کرام کو دنیا میں بھی جنتی فرما دیا تھا، جن میں دس صحابہ کرام عشرہ مبشرہ کے نام سے مشہور ہیں۔اس کے علاوہ بھی آپ علمِ غیب رکھتے تھے اور آنے والے شخص کے جنتی ہونے کی خبر بھی دے دیا کرتے تھے، اسی طرح کافروں کو عذابِ جہنم کا ڈر سناتے ہیں، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم لوگوں کو اللہ پاک کے عذاب اور اس کی ناراضی سے ڈراتے تھے، نذیر ڈرانے میں مبالغہ کرنے والے کو کہتے ہیں اور احادیث مبارکہ میں موجود ہے کہ نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے کافروں کے جہنمی ہونے اور جہنم میں ان کے ساتھ پیش آنے والے عذابات کو بیان کرکے لوگوں کو اس سے ڈرایا کرتے تھے۔9۔النور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:قَدْ جَآءَكُمْ مِّنَ اللّٰهِ نُوْرٌ وَّ كِتٰبٌ مُّبِیْنٌۙ۔بے شک تمہارے پاس اللہ کی طرف سے ایک نور اور روشن کتاب۔(سورۂ مائدہ:15)اس کی تفسیر میں ہے کہ اللہ پاک کی طرف سے آنے والے نور سے مراد یا نبی کریم کی ذاتِ گرامی ہے اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نور اس لئے فرمایا گیا کیونکہ آپ سے تاریکی وکفر دور ہوئی اور راہِ حق واضح ہوئی ہے۔النور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا اسمِ گرامی ہے، یہ اللہ پاک کا نام بھی ہے، بے شک نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم اللہ پاک کے نور ہیں۔

تم ہو خدا سے کب جدا نورِ خدا ہو باخدا

آئینہ خدا نما صلی علی محمد

اللہ پاک کا اپنا نام اپنے محبوب کو دینا نبی کریم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مرتبہ و مقام کے بلند واعلیٰ ہونے کی واضح دلیل ہے۔یا نور:

اس اسم کی بہت برکت ہے، اگر کوئی شخص سات مرتبہ سورۂ نور اور 1001 یا نور پڑھے تو ان شاءاللہ اس کا دل روشن ہو جائے گا۔(مدنی پنج سورۂ)10۔خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:مَا كَانَ مُحَمَّدٌ اَبَاۤ اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِكُمْ وَ لٰكِنْ رَّسُوْلَ اللّٰهِ وَ خَاتَمَ النَّبِیّٖنَؕ۔ترجمہ:محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، ہاں اللہ کے رسول، سب نبیوں میں پچھلے۔(سورۂ احزاب، آیت 40)خاتم النبیین کا معنی آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سب سے آخر میں آ کر نبوت کو ختم اور مکمل کرنے والے ہیں، یعنی ہمارے نبی آخری نبی ہیں، اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو مبعوث فرماکر نبوت و رسالت کو مکمل فرمایا۔آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس اسمِ گرامی سے ہمارا عقیدہ ختم نبوت واضح ہوتا ہے اور جب ربّ نے آپ کو خاتم فرمایا توکسی بھی قسم کی گنجائش نہیں کہ ہم اس کا انکار کریں، اس عقیدہ کے بارے میں قرآن میں صریح نَص موجود ہے اور آپ کے خاتم النبیین ہونے میں شک کرنے والا بھی دائرہ اسلام سے خارج ہے۔آپ کا یہ خوبصورت نام آج کے دور میں اُٹھنے والے خطرناک فتنے کی صراحتاً نفی کرتا ہے، ہمارا ایمان ہے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم خاتم النبیین ہیں۔اللہ پاک ہمارے ایمان کی حفاظت فرمائے۔آمین

فتحِ بابِ نبوت پہ بے حد درود ختمِ دورِ رسالت پہ لاکھوں سلام


اسمائے نبی سے مراد حضرت محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے 99 صفاتی نام ہیں، قرآنِ مجید میں آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے دو ذاتی نام محمد اور احمد بیان ہوئے ہیں اور بعض جگہ آپ کو مدثر کہہ کر مخاطب کیا گیا اور کہیں مزمل پکارا گیا، کہیں طہٰ کے لقب سے پکارا گیا اور کہیں یٰسٓ خطاب کیا گیا، اسی طرح امی کے ذریعے آپ کی شان اُمّیت اور خاتم النبین کے ذریعے شانِ ختمِ نبوت کا بطورِ خاص بیان ہوا ہے۔

اہلِ ایمان کو خوشخبری دینے کے لئے آپ کو بشیر ومبشر اور کفار و منافقین کو عذابِ الہٰی کی وعید سنانے کے لئے آپ کو نذیر اور منذر کے القاب سے پکارا گیا۔1۔رحمۃ للعالمین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اللہ پاک نے آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کو تمام جہان والوں کے لئے رحمت بنا کر بھیجا ہے۔ وَمَا اَرْسَلْنٰکَ اِلَّا رَحْمَۃً لِّلْعَالَمِیْنَ۔(انبیاء:107)اور اے رسول! ہم نے آپ کو نہیں بھیجا، مگرتمام جہانوں کے لئے رحمت بنا کر۔

2۔محمد صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:مَا کَانَ مُحَمَّدٌ اَبَا اَحَدٍ مِّنْ رِّجَالِکُمْ وَ لٰکِنّ رَسُوْلَ اللہِ وَخَاتَمَ النَّبِیِّیْنَ۔وَکَانَ اللہُ بِکُلِّ شَیْءٍ عَلِیْماً۔(الاحزاب)

محمد تمہارے مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، مگر اللہ کے رسول اور نبیوں میں سے آخری ہیں اور اللہ ہر چیز کو جاننے والا ہے۔3۔نذیر:اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ بِالْحَقِّ بَشِیْرًا وَّ نَذِیْرًا۔ بے شک ہم نے تمہیں حق کے ساتھ بھیجا خوشخبری دیتا اور ڈر سناتا۔4۔شاھد:یٰاَیُّھَا النَّبِیُّ اِنَّا اَرْسَلْنٰکَ شَاھِدًا۔(الاحزاب)اے نبی بے شک ہم نے تمہیں بھیجا خوشخبری دینے والا بنا کر۔داعی الی اللہ:وَدَاعِیاً اِلَی اللہِ بِاِذْنِہ وَسِرَاجًا مُّنِیْرًا۔ اور اللہ کی طرف اس کے حکم سے بلاتا اور چمکا دینے والا آفتاب۔ (الاحزاب)لَقَدْ جَاءَکُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسَکُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْہِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْکُمْ بِالْمُؤمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَحِیْمٌ۔(التوبہ)رَءُوْفٌ:بہت مہربان۔7۔رَحِیْمٌ: رحم فرمانے والا ۔بے شک تمہارے پاس تم میں سے وہ عظیم رسول تشریف لائے، جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا بھاری گزرتا ہے اور وہ تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے، مسلمانوں پر بہت مہربان رحمت فرمانے والے ہیں۔8۔ عبداللہ:اس کا معنی ہے:اللہ پاک کا بندہ، حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم بندگی کے اس مقام پر فائز ہیں کہ جس تک کوئی نہیں پہنچ سکتا،آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کا یہ نام سورۂ الجن (19:72) میں مذکور ہے۔9۔اٰمِرٌ:یَاْمُرُھُمْ بِالْمَعْرُوْفِ وَیَنْھٰھُمْ عَنِ الْمُنْکَرِ۔وہ انہیں اچھی باتوں کا حکم دیتے ہیں اور بری باتوں سے منع فرماتے ہیں۔(الاعراف،7:157) 10۔اُمِّیٌ:فَاٰمِنُوْ بِااللہِ وَرَسُوْلِہ النَّبِیِّ الْاُمِّیِّ۔ (الاعراف،158:7)سو تم اللہ اور اس کے رسول پر ایمان لاؤ، شان امیت (کا حامل) نبی ہے۔