کسی کام کو یا کسی فن کو سیکھنا ہو تو ایک ماہر استاد کا ہونا ضروری ہے جو اس کو گاہےبگاہے راہ نمائی کرتا رہے ،اسی طرح قربِ الٰہی حاصل کرنے کے لئے اور ہدایت کی راہ پر گامزن رہنے کیلئے ایک کامل روحانی استاد کی بہت ضرورت ہے، جسے تصوف کی زبان میں شیخ یا مرشد کہا جاتا ہے، مرشد کا معنیٰ ہے ،سیدھا راستہ دکھانے والا، ہادی، راہ نما وغیرہ ۔(عام لغات)

ایک مسلمان کے لئے ایک کامل مرشد کا ہونا بہت ضروری ہے کہ وہی اپنے مرید کو راہِ راست پر لاتا ہے، گمراہی سے بچاتا ہے، اور خدا و رسول سے ملا دیتا ہے۔حضرت سیدی علی بن وفا رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: جس شخص نے بغیر مرشد اور ہادی کے کمال کا ارادہ کیا وہ مقصود کے راستے سے بھٹک گیا۔(آداب مرشد کامل، ص55، مکتبۃ المدینہ)

پیری مریدی کا سلسلہ قراٰنِ کریم سے ثابت ہے ،اللہ پاک ارشاد فرماتا ہے:﴿ یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ ترجمۂ کنزُالعِرفان: یاد کرو جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔(پ15، بنٓی اسرآءیل: 71)

اس آیت کی شرح میں مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ :اس سے معلوم ہوا کہ دنیا میں کسی صالح کو اپنا امام بنا لینا چاہیے، شریعت میں تقلید کرکے اور طریقت میں بیعت کرکے ،تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو، اگر صالح امام نہ ہو تو اس کا امام شیطان ہوگا ،اس آیت میں تقلید، بیعت اور مریدی سب کا ثبوت ہے۔ (نور العرفان تحت الآیۃ المذکورۃ)

کچھ لوگ کامل مرشد کے دامن سے تو وابستہ ہیں لیکن وہ اپنے پیر کے حقوق ادا نہ کرنے کی وجہ سے فیضِ مرشد سے محروم رہتے ہیں، اعلی حضرت رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ: مرشد کے حق باپ کے حق سے زائد ہیں۔(آداب مرشد کامل، ص71، مکتبۃ المدینہ ) تو آئیے پیر و مرشد کے چند حقوق نو کِ قلم سےسینۂ ورق کے سپرد کیا جائے۔

(1) مرید پر لازم ہے کہ اپنے پیر کے ساتھ حسن اعتقاد رکھے ،چنانچہ حضور غوث اعظم رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: جو مرید اپنے شیخ سے کمالِ اعتقاد نہ رکھے وہ مرید اس مرشد کے ہاتھوں پر کبھی کامیاب نہ ہو گا ۔(آداب مرشد کامل، ص53،مکتبۃ المدینہ )

(2)مرشد کا حق یہ بھی ہے کہ مرید اپنے پیر سے انتہائی درجے کی محبت رکھے۔

(3)مرشد کی فرمانبرداری کرنا اور اس کی نافرمانی سے بچنا ضروری ہے کہ اس سے مرشد کےفیضان سے محروم رہے گا۔

(4) مرشد پر یقین کامل رکھنا بھی ضروری ہے۔

(5) مرید جب بھی مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہو تو سچائی اور ادب کو مد نظر رکھ کر حاضر ہو۔

(6)مرید پر اپنے پیر کے تمام اقوال اور ان کی تعلیمات پر عمل پیرا ہونا ۔

(7) مرشد کی تعظیم و تکریم اور ان کا ادب بجالانا مرید کے لئے بے حد ضروری ہے۔

(8)مرشد جو حکم صادر فرمائے تو مرید بلا چوں چراں اس حکم کو سر آنکھوں پر تسلیم کرلے ۔

(9)مرید کبھی بھی اپنے پیر صاحب سے کرامت طلب نہ کرے، کہ یہ شرائط پیر میں سے نہیں ہے۔

(10)مرید اپنے پیر صاحب کی خدمت کو حرز جاں بنا لے۔

(11)ایک مرید اپنے مرشد کو ہمیشہ راضی رکھے، کبھی بھی ناراض نہ کرے کہ اس میں نقصان ہی نقصان ہے۔

(12)جب مرشد کی بارگاہ میں حاضر ہو تو ظاہر کے ساتھ ساتھ اپنے باطن کو بھی سنبھالیے۔

(13)مرید کبھی بھی یہ خیال نہ کرے کہ میں نے اپنے پیر کا حق ادا کردیا اگرچہ اپنے خیال کے مطابق تمام حقوق ادا کردیا ہو، مرید کیلئے یہ تصور مضر ثابت ہو سکتا ہے۔

اللہ پاک ہم سب کو اپنے مرشد کے تمام حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اللہ پاک قراٰنِ کریم میں ارشاد فرماتا ہے:﴿یَوْمَ نَدْعُوْا كُلَّ اُنَاسٍۭ بِاِمَامِهِمْۚ ترجمۂ کنزالایمان: جس دن ہم ہر جماعت کو اس کے امام کے ساتھ بلائیں گے۔(پ15،بنٓی اسرآءیل:71) اس آیتِ مبارکہ کے تحت مُفَسِّرِ شَہیر،حکیمُ الْامَّت حضرت مفتی احمد یا ر خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سے معلوم ہوا کہ دُنیا میں کسی صالح کو اپنا امام بنا لینا چاہئے شریعت میں ”تقلید کر کے اور طریقت میں بیعت کر کے تاکہ حشر اچھوں کے ساتھ ہو۔ اگر صالح امام نہ ہو گا تو اس کا امام شیطان ہو گا۔ اس آیت میں تقلید، بیعت اور مُریدی سب کا ثبوت ہے۔(نورُالعرفان، ص 461)

بیعت کا لغوی معنی بک جانا اور اصطلاحِ شرع و تصوف میں اس کی متعدد صورتیں ہیں جن میں سے ایک یہ ہے کہ کسی پیرِ کامل کے ہاتھوں میں ہاتھ دے کر گزشتہ گناہوں سے توبہ کرنے، آئندہ گناہوں سے بچتے ہوئے نیک اعمال کا ارادہ کرنے اور اسے اللہ پاک کی معرفت کا ذریعہ بنانے کا نام بیعت ہے۔(پیری مُریدی کی شَرعی حیثیت،ص3)

اعلیٰ‌حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: بیعت بیشک سنّتِ محبوبہ(پسندیدہ سنت) ہے۔(فتاویٰ رضویہ، 26/586)

اعلیٰ‌حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہاں شیخ سے مراد ہادیانِ راہِ خدا ہیں یعنی وہ لوگ جو اللہ پاک کی راہ کی جانب ہدایت دینے والے ہیں اور قراٰنِ کریم میں ایسے لوگوں کی اطاعت کو لازم قرار دیا گیا ہے۔ چنانچہ باری تعالیٰ فرماتا ہے:﴿ اَطِیْعُوا اللّٰهَ وَ اَطِیْعُوا الرَّسُوْلَ وَ اُولِی الْاَمْرِ مِنْكُمْۚ ترجمۂ کنز الایمان : حکم مانو اللہ کا اور حکم مانو رسول کا اور ان کا جو تم میں حکومت والے ہیں ۔ (پ5،النسآء: 59) یہاں اُولِی الْاَمْر سے مراد علمائے شریعت و طریقت دونوں ہیں۔ (فتاویٰ رضویہ، 21/483،ملخصاً)

جس ہستی کی اہمیت و فضیلت اس قدر ہے تو اس کے حقوق کی ادائیگی بھی بہت ہی اہمیت کی حامل ہے ، لہٰذا اسی مناسبت سے یہاں پیر و مرشد کے 10 حقوق فتاویٰ رضویہ جلد24، ص369 سے خلاصۃً بیان کئے جا رہے ہیں:

(1) اپنے پیر و مرشد کی رضا کو اللہ پاک کی رضا اور ان کی ناخوشی کو اللہ کریم کی ناخوشی جانے۔

(2) انہیں اپنے حق میں تمام اولیائے زمانہ سے بہتر سمجھے ۔

(3) اگر کوئی نعمت بظاہر دوسرے سے ملے تو بھی اسے اپنے مرشد ہی کی عطا اور انہی کی نظرِ توجہ کا صدقہ جانے اور مال ، اولاد، جان، سب ان پر تصدق (قربان) کرنے کو تیار رہے

(4) ان کے حضور ہنسنا تو بڑی چیز ہے ان کے سامنے آنکھ، کان، دل، ہمہ تن(مکمل طور پر) انہی کی طرف مصروف رکھے اور جو وہ پوچھیں نہایت ہی نرم آواز سے بکمالِ ادب بتا کر جلد خاموش ہو‌ جائے۔

(5) اگر وہ حکم دیں تو لفظ ”کیوں“ نہ کہے اور حکم پر عمل کرنے میں دیر نہ کرے بلکہ سب کاموں پر اسے تقدیم (اولیت) دے۔

(6) ان کے کپڑوں، بیٹھنے کی جگہ، اولاد اور ان کے مکان، محلے، شہر کی تعظیم کرے حتی کہ ان کی غَیْبَت(غیر موجودگی) میں بھی ان کے بیٹھنے کی جگہ نہ بیٹھے۔

(7) اگر وہ زندہ ہیں تو روزانہ ان کی سلامتی و عافیت کی دُعا بکثرت کرتا رہے اور اگر انتقال ہو گیا تو ہر روز ان کے نام پر فاتحہ و دُرُود کا ثواب پہنچائے۔

(8) ان کے دوست کا دوست اور دشمن کا دشمن رہے۔

(9) اللہ پاک و رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے بعد ان کے تعلق کو تمام جہان کے تعلق پر دل سے ترجیح دے اور اسی پر کار بندر ہے۔

(10) ان کے ہاتھ میں اس طرح رہے جس طرح مردہ زندہ کے ہاتھ میں ہوتا ہے۔

اللہ پاک ہمیں کماحقہ پیر کے حقوق ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ خَاتَمِ النَّبِیّٖن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم