دین محمدی ایک کامل دین  ہے جو کہ مسلمانوں کے لئے تاقیامت ایک مکمل ضابطہ حیات ہے اس کا کامل نمونہ حضور صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات اقدس ہے دین اسلام دور حاضر میں وہ واحد دین ہے جو انسانیت کے لیے رہتی دنیا تک روز مرہ کے معمولات زندگی سے وابستہ احکامات اپنے اندر سمیٹے ہوئے ہیں دین اسلام پانچ ارکان پر مشتمل ہے۔ جن میں نماز سرفہرست ہے نماز مسلمانوں کو اپنے رب کریم سے ملنے والا وہ نایاب تحفہ ہے جس کی قدر و قیمت اور اہمیت کا اندازہ صرف وہی شخص لگا سکتا ہے جس نے اس کا حقیقی مزہ چکھا ہو۔ ایمان اور عقائد کی درستی کے کے بعد تمام فرائض میں نہایت اہم و اعظم نماز ہے قرآن و حدیث اس کی اہمیت سے مالامال ہیں ایک روایت کے مطابق قیامت کے روز سب سے پہلے نماز کا حساب لیا جائے گا اس کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جاسکتا ہے کہ قرآن پاک کے متعدد مقامات پر نماز کے بارے میں آیات الہی جلوہ افروز ہیں جیسا کہ اللہ سبحانہ و تعالی نے قرآن کریم میں جابجا نماز کی تاکید فرمائی چنانچہ بچہ پارہ 16 سورہ طہٰ آیت 14 میں ارشاد ربانی ہوتا ہے: وَ اَقِمِ الصَّلٰوةَ ِذِكْرِیْ(۱۴)

ترجمہ کنزالایمان : اور میری یاد کے لیے نماز قائم رکھ۔

اسی طرح دوسری جگہ ارشاد فرمایا: اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳) ترجمہ کنزالایمان :بے شک نماز مسلمانوں پر وقت بندھا ہوا فرض ہے۔(سورۃ النساء پارہ 5)

مندرجہ بالا آیات سے نماز کی فرضیت و اہمیت کا اندازہ لگایا جاسکتا ہے کہ نماز ایک عظیم الشان عبادت ہے جس کے ذریعے انسان قرب الہی سے اپنےدل کو منور کرتا ہےاسی طرح احادیث مبارکہ میں بھی نماز کی اہمیت روز روشن کی طرح عیاں ہے۔ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا اسلام میں اللہ تعالی کے نزدیک سب سے زیادہ محبوب کیا چیز ہے تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا نماز کو اپنے وقت میں ادا کرنا جس نے نماز چھوڑی اس کا کوئی دین نہیں نماز دین کا ستون ہے۔

اسی طرح ایک اور روایت ملاحظہ ہو حضرت سیدنا ابو مالک اشعری رضی اللہ عنہٗ سے روایت ہے کہ اللہ پاک کے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا الصلاۃ نور یعنی نماز نور ہے

حضرت سیدنا امام ابو زکریا یحییٰ بن شرف نووی رحمۃ اللہ علیہ نماز کے نور ہونے کی وضاحت کرتے ہوئے لکھتے ہیں اس کا معنی یہ ہے کہ جس طرح نور کے ذریعے روشنی حاصل کی جاتی ہے اسی طرح نماز بھی گناہوں سے باز رکھتی ہے اور بےحیائی اور بری بات سے دور رکھتی ہے اور بے حیائی کے کاموں سے روکتی ہے صحابہ کرام علیہم رضوان اور دیگر بزرگان دین اور اولیاء کرام کی حیات مبارکہ کا مطالعہ کرنے سے نماز کی اہمیت کا پتہ چل جاتا ہے کہ

جنت میں نرم نرم بچھونوں کے تخت پر

آرام سے بٹھائے گی اے بھائیو نماز

اللہ تعالی ہم سب کو پنجگانہ نماز کی ادائیگی کرنے کی توفیق دے۔ آمین

خشوع و خصوع دل میں خوف اور عاجزی کی ایک کیفیت کا نام ہے ، دل میں اللہ کی عظمت و ہیبت و کبریائی کوپیش نظر رکھنا اور اعضا سے اس کا اظہار کرنا۔

آپ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا بے شک نماز سکون عاجزی ، گڑگڑانے ، خو ف اور زہد کا نام ہے۔( سنن ترمذی ج۱، ص ۳۹۴ حدیث ۳۸۵)

قرآن پاک میں خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے والوں کو کامیابی کی بشارت دی گئی ہے ارشاد باری تعالیٰ ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان :بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑا تے ہیں۔(پ۱۸، المؤمنون:۲،۱)

رحمت للعالمین صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان جنت نشان ہے:

جو اچھی طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو رکعتیں پڑھے تواس کے لیے جنت واجب ہوجاتی ہے۔( صحیح مسلم حدیث ۲۳۴۔ ص ۱۴۴)

حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں، غور و فکر کے ساتھ دو رکعت نفل پڑھنا غافل دل کے ساتھ پوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے۔( الزھد لابن المبارک، حدیث ۲۸۸، ص ۹۷)

خشوع و خضوع والی نماز رب کاقرب اس کی مغفرت و رضا دلاتی ہے غموں کو دور کرتی ، گناہوں سےبچاتی، جنت واجب کرواتی اور سنت کا ثواب دلاتی ہے، خشوع و خصوع نماز کی اصل روح ہے۔ اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جائے اس خشوع و خضوع کی مثال جسم میں روح اور کھانے میں نمک کی سی ہے جسم میں روح نہ ہو تو وہ بے جان کہلاتا ہے اور کھانے میں نمک نہ ہو تو وہ بدمزہ کہلاتا ہے، اسی طرح اگر نماز خشوع و خضوع سے خالی ہیں تو قبولیت کے درجے سے محروم رہتی ہے، اس پر ایمان کے دروازے بند کردیئے جاتے ہیں اور وہ منہ پر مار دی جاتی ہے اسی نماز سے نہ دینی فائدہ حاصل ہوتا ہے نہ دنیاوی نہ ثواب حاصل ہوتا ہے اور نہ سکون حاصل ہوتا ہے ۔

ہر چیز کے کچھ حقوق ہیں نماز کا حق اس کو خشوع و خضوع سے پڑھناہے اور جو حق کو ضائع کرتا ہے وہ مستحق عتاب ہوتا ہے نہ کہ مستحق ثواب، حضرت سیدنا حسن بصر رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں جو نماز حضور قلب سے نہ پڑھی جائے اس کی سزا جلد ملتی ہے۔( قوت القلوب ج ۲، ص ۱۶۹)

حضرت سیدنا ابودردا رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہیں۔ آدمی کی سمجھداری سے ہے کہ پہلے ہی اپنا ضروری کام نمٹالے تاکہ نماز شروع کرتے ہوئے ا س کا دل فارغ ہو۔( قوت القلوب ج۲، ص ۱۶۹)

نماز ر ب سے ملاقات و مناجات کا ذریعہ ہے، باتیں خدا سے اور دل میں غیر اللہ کا خیال یہ تو تَرکِ ادب ہے، سرکار صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عبرت نشان ہے، اللہ عَزَّوَجَلَّ اسی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے۔

(کتاب الفقہ علی المذاھب الاربعہ ج ۱، ص ۱۵۹)

حضرت سفیان ثوری رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہیں: جو خشو ع وخضوع سے نماز نہیں پڑھتا اس کی نماز فاسد ہے۔( قوت القلوب ج ۲، ص ۱۶۱)

بزرگوں کا انداز:

جب سرکار مدینہ صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نماز ادا فرماتے تو آپ کا سینہ مبارکہ ہانڈی کی طر ح جوش مارتا تھا۔ (مسند امام احمد ج ۵، ص ۵۰۱، حدیث ۱۶۳۲۶)

حضرت یحیی بن زکریا علیہ السَّلام جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے تو اس قدر روتے کہ درخت اور مٹی کے ڈھیلے بھی ساتھ رونے لگتے۔(احیا العلوم ج ۴، ص ۲۲۵)

حضرت سعید تنوخی رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب نماز پڑھتے تو ( اس قدر روتے کہ رخسا ر سے داڑھی تک مسلسل آنسو گرتے رہتے۔( تاریخ مدینہ دمشق الدین عساکر ج ۲۱، ص ۲۰۳)

خشوع کی  تعریف : خشوع کے معنی ہیں دل کا فعل اور ظاہری اعضا ( ہاتھ پاوں )کا عمل (فیضان نماز 282)

دل کا فعل :یعنی اللہپاک کی عظمت پیش ِ نظر ہو دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہوا ہو ۔

ظاہری اعضا کا عمل : یعنی سکون سے کھڑے رہنا ادھر اُدھر نہ دیکھنا نہ دیکھے اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے اور کوئی عبث و بے کار کام نہ کرے ،

نماز میں خشوع مستحب :

علامہ بدرالدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :نماز میں خشوع مستحب ہے ، میرے اآقا اعلی حضرت رحمۃ اللہ لکھتے : نماز کا کمال نماز کا نور ،نماز کی خوبی فہم و تدبر وحضور قلب (یعنی خشوع ) پر ہے مطلب یہ کہ اعلی درجے کی وہ نماز ہے جو خشوع کے سااتھ ادا کی جائے ۔اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے : قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔(مؤمنون، 1،2)

نماز میں ظاہری خشوع کسے کہتے ہیں ؟:

ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائے مثلاً نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نظر نہ اٹھائے کوئی عبث و بیکار کام نہ کرے ، کوئی کپڑا شانوں یعنی کندھوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں (ہاں اگر ایک کنارا دوسرے کندھے پر ڈال دیا اور دوسرا لٹک رہا ہے تو حرج نہیں ) انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے ۔

باطنی خشوع: باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں د ل لگا ہو (فیضان نماز ، ،)

عن انس قال قال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اقیموا الرکوع والسجود فو اللہ انی لازکم من ورائی (متفق علیہ )

ترجمہ : حضرت انس رضی اللہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ نے فرمایا رکوع کرو خدا کی قسم میں تم کو اپنے پیچھے سے دیکھتا ہوں (بخاری و مسلم )

خشوع کی راہ میں رکاوٹ:

اگر آپ خشوع وخضوع سے نماز پڑھنا چاہتے ہیں تو سب سے پہلے گناہوں سے پرہیز کیجئے گناہ خشوع کی راہ میں بڑی رکاوٹ ہیں گناہ قائم رہتے ہوئے خشوع حاصل نہیں ہو سکتا ۔(فیضان نماز ، 341)

خشوع میں وسوسے رکاوٹ بنتے ہوں تو نماز شروع کرنے سے دوسرے نہ دیکھیں اس طرح الٹے کندھے کی طرف تین تین بار تھو تھو کیجئے ،پھر ،لاحول ولا قوۃ الا با للہ العلی العظیم ، پڑھے قیام میں سجدے کی رکوع میں قدموں پر ،سجد ے میں ناک پر اور قعدہ میں گود میں نظر رکھے ان شاء اللہ وسو سوں سے بچت ہوگی ۔جو نماز ادا کر رہے ہیں اسے اپنی زندگی کی آخر ی نماز تصور کیجئے ۔

قول حضرت ابن عباس : حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہ کا قول ہے : خشوع و خضوع والے کی دو رکعتیں سیاہ دل والے کی ساری رات کی عبادت سے بہتر ہیں ۔( اسلامی تربیت نصاب)

میٹھی میٹھی اسلامی بہنوں ! ہمیں بھی اپنی نماز کا جائزہ لینا چاہے کیا ہماری نماز میں خشوع و خضوع ہے کیونکہ خشوع والی نماز نمازی کے حق میں دعا کرتی ہے ۔ نبی کریم علیہ السلام نے ارشاد فرمایا : جب مؤمن مخلص بندہ پاکیزہ لباس پہن کر اچھا وضو کر کہ افضل وقت میں رکوع ،سجود ،قیام وقعود و قومہ و جلسہ کی حفاظت کرکے نماز ادا کرتا ہے تو نماز اس کو دعا ئیں دیتی ہے اور کہتی ہے کہ جس طرح تو نے میری حفاظت کی اللہ تعالی تیری حفاظت فرمائے (تفسیر نعیمی ، 18/68)


خشوع کا معنی دل کا فعل اور ظاہری اعضاء کا عمل

تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتےہیں۔(پارہ 18 سورت مومنون آیت 1.2 )

علامہ بدرالدین عینی رحمتہ اللہ علیہ فرماتے ہیں: نماز میں خشوع مستحب ہے۔ (عمدہ القاری ج4 ص391 زیر حدیث 741)

اعلی حضرت لکھتے ہیں رحمتہ اللہ علیہ کامل نماز وہ ہے جو خشوع سےادا کی جائے۔(فتاوی رضویہ جلد 6 ص 205)

امیر المومنین حضرت ابو بکر صدیق رضی اللہ تعالی عنہ آپ نماز میں ایسے ہوتے گویا زمین میں گڑی ہوئی میخ ہے۔

دیگر صحابہ اکرام علیھم الرضوان رکوع میں اتنے پر سکون ہوتے ان پر چڑیاں بیٹھ جاتی گویا کہ وہ بے جان چیزوں میں سے ہیں۔(احیاءالعلوم جلد1 ص 228)

اللہ پاک ایسی نماز کی طرف نظر نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے۔

حضرت سیدنا سعید تنوخی رحمتہ اللہ علیہ جب نماز پڑھتے تو اس قدر روتے کہ رخسار سے داڑھی پر مسلسل آنسو گرتے۔(احیاءالعلوم جلد1 ص 470)

نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی:

ظاہری خشوع یہ کہ نماز کے آداب کی مکمل رعایت کی جائےنظر جائے نماز سے باہر نہ جائے،آنکھ کے کنارے سے بھی کسی کو نہ دیکھےآسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے ،کوئی عبث و بیکار کام نہ کرے،کوئی کپڑا کندھوں پر اس طرح نہ لٹکائے کہ دونوں کنارے لٹک رہے ہوں۔

انگلیاں نہ چٹخائے بلا وجہ آنکھیں بند نہ رکھے،تنگ لباس پہن کر نماز نہ پڑھے،جیب میں کوئی وزنی چیز نہ رکھے،ایسے نماز پڑھے کہ اگر کوئی کام کر رہا تھا تو جونہی نیت باندھے تو اس کام کو بھول جائے اور یکسوئی سے اور مکمل توجہ سے نماز ادا کرے جیسے رب کو دیکھ رہا ہے۔اور اس طرح کی ہر حرکات سے بچے جن سے نماز میں خلل واقع ہو۔باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو دنیا سے توجہ ہٹی ہو،اور نماز میں دل لگا ہو اور اپنی زندگی کی آخری نماز سمجھ کر پڑھے۔


پُررَوْنَق بازار میں ریشم کے کپڑے کی  ایک دُکان پر اس دکان کا خادِم مَشْغولِ دُعا ہے اور اللّٰہ پاک سے جنَّت کا سُوال کر رہا ہے یہ سن کر مالِکِ دُکان پر رِقّت طاری ہو گئی، آنکھوں سے آنسوں جاری ہوگئے حتیٰ کہ کنپٹیاں اور کندھے کانپنے لگے۔ مالک دکان نے فوراً دکان بَند کرنے کا حُکْم دیا، اپنے سر پر کپڑا لَپیٹ کر جَلدی سے اُٹھے اور کہنے لگے: افسوس! ہم اللّٰہ پاک پر کس قَدَر نِڈر ہو گئے کہ ہم سے ایک شخص صِرف اپنے دل کی مرضی سے اللّٰہ پاک سے جنت مانگتا ہے۔ ہم جیسے کو تو اللّٰہ پاک سے مُعافی مانگی چاہئے۔ یہ مالک دکان بَہُت زیادہ خوفِ خدا والے تھے رات جب نماز کے لیے کھڑے ہوتے ان کی آنکھوں سے اس قدر اَشکوں کی برسات ہوتی چَٹائی پر آنسو گرنے کی ٹپ ٹپ سنائی دیتی اور اِتنا روتے کہ پڑوسیوں کو رَحم آنے لگتا۔ یہ مالک دکان حضرتِ امامِ اَعْظَم سِیّدُنا امام ابو حنیفہ نُعمان بن ثابت رَحْمۃُ اللّٰہِ علیہ تھے۔ (فیصان نماز، ص 399-400)

جو بے مِثال آپ کا ہے تقویٰ، تو بے مِثال آپ کا ہے فتویٰ

ہیں علم و تقویٰ کے آپ سنگم، امامِ اعظم ابوحنیفہ

(وسائل بخشش، ص573)

خُشُوع وخُضُوع کی اہمیت قرآن مجید کی روشنی میں:

اَلَمْ یَاْنِ لِلَّذِیْنَ اٰمَنُوْۤا اَنْ تَخْشَعَ قُلُوْبُهُمْ لِذِكْرِ اللّٰهِ وَ مَا نَزَلَ مِنَ الْحَقِّۙ

(16:پارہ27، سورة الحدید)

ترجمہ کنزل العرفان: "کیا ایمان والوں کیلئے ابھی وہ وقت نہیں آیا کہ ان کے دل اللہ کی یاد اور اس حق کے لیے جُھک جائیں جو نازل ہوا ہے" ۔

ایک اور مقام پر اللّٰہ تعالیٰ اِرشاد فرماتا ہے؛

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ۔ (پارہ 18، سورة المؤمنون 1،2)۔

ترجمہ کنزالعرفان: "بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئے۔ جو اپنی نماز میں خُشُوع و خُضُوع کرنے والے ہیں "۔

خُشُوع وخُضُوع کی اہمیت اَحادیثِ مبارکہ میں؛

پیارے آقا صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا:"جو مسلمان اچّھی طرح وُضُو کرے پھر ظاہِر و باطِن کی یکسوئی کے ساتھ دو رَکْعَتیں ادا کرے تو اُس کے لیے جنَّت واجِب ہو جاتی ہے"۔ (مسلم ص118حدیث553)

اللہ کے پیارے نبی صلی اللّٰہ علیہ وسلم نے فرمایا " جس نے دو رکعت نفل ادا کئے جن میں اپنے دل سے کُچھ بات نہ کی تو اسے کے پِچھلے گُناہ بخش دیئے جائیں گے"۔

صحیح بخاری ص 78 حدیث 159)۔)

پیارے حَبیب صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا " بےشک نماز سکون, عاجزی، گڑگڑانے، خوف اور ندامت کا نام ہے اور یہ کہ تو ہاتھ باندھ کر یوں کہے: اے اللّٰہ! ، اے اللّٰہ! اور جو ایسا نہ کرے اس کی نماز ناقص ہے"۔(سنن الترمذی ص 394 حدیث 385)

خُشُوع وخُضُوع کی اہمیت بزرگان دین کے نزدیک:

حضرت سعید تنوخی رَحمۃُ اللّٰہِ علیہ جب نماز پڑھتے تو (اس قدر روتے کہ) رُخسار سے داڑھی پر مسلسل آنسو گرتے رہتے۔ (اِحیاءُ العُلوم جلد، 1 ص 470)۔

حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللّٰہ عنھما فرماتے ہیں:"غور وفکر کے ساتھ دو رکعت ادا کرنا ، غافِل دل کے ساتھ پوری رات قیام کرنے سے بہتر ہے"(اِحیاءُ العُلوم جلد 1 ص 473)۔

ِخُشُوع وخُضُوع کی اہمیت کے پیشِ نظر امیر اہلسنت بانی دعوت اسلامی ابو بلال محمد الیاس عطار دَامتْ بَرْکَاتُہُمُ الْعَالِیہ نے مدنی انعامات نامی رسالہ میں ایک مدنی انعام "کیا آج آپ نے نماز اور دعا کے دوران خُشُوع وخُضُوع پیدا کرنے کی کوشش کی؟" بھی شامل کیا ہے۔

نمازوں میں ایسا گُما یاالٰہی

نہ پاؤں میں اپنا پَتا یاالٰہی


خشوع کے معنی ہیں۔ دل کا فعل اور ظاہری اعضا (یعنی ہاتھ) کا عمل۔

(تفسیر کبیر ج،۸،ص۲۵۹)

دل کا فعل یعنی اللہ پاک کی عظمت بیش نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو، اور ظاہری اعضا کا عمل یعنی سکون سے کھڑا رہا ، ادھر ادھر نہ دیکھے،اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے اور کوئی ثبث و بے کار کام نہ کرے۔

(ماخوذ تقسیم کبیر ج۸،۔ ص ۲۵۹، مدارک ص ۷۵۱ صاوی ج ۴، ص ۱۳۵۶)

نماز میں خشوع مستحب ہے، علامہ بدر الدین عینی رحمہ اللہ علیہ فرماتے ہیں نماز میں خشوع مستحب ہے۔(عمدة القاری ۱ ص۳۹۱ تحت الحدیث ۷۴۱)

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ لکھتے ہیں مطلب یہ کہ اعلیٰ درجے کی نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے۔(فتاویٰ رصویہ ج ۴، ص ۲۰۵)

اللہ کریم پارہ۱۸، سورة المؤمنون کی آیت ۱ اور ۲ میں ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان : بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑ گڑاتے ہیں۔

تفسیر صراط الجنان، جلد ۶، ۴۹۶، پر ہے اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت ( یعنی خوش خبری) دی گئی ہے کہ بے شک وہ اللہ تعالیٰ کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور ہمیشہ کےلیے جنت میں داخل ہو کر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے۔

مزید صفحہ ۴۹۶ پر ہے ایمان والے خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں، اس وقت ان دلوں میں اللہ کریم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن ( یعنی ٹھہرے ) ہوتے ہیں۔

نماز میں ظاہری و باطنی:

خشوع کسے کہتے ہیں :

نماز میں خشوع ظاہری بھی ہوتا ہے اور باطنی بھی، ظاہری خشوع یہ ہے کہ نماز کے آدا ب کی مکمل رعایت کی جائے مثلا نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسی طرف نہ دیکھے، آسمان کی طرف نظر نہ اٹھائے کوئی عبث و بیکار کام نہ کرے کوئی کپڑا شانوں ( یعنی کندھوں) پر اس طرح نہ لٹکائے کہ اس کے دونوں کنارے لٹکتے ہوں( ہاں! اگر ایک کنارا دوسرا کندھے پر ڈال دیا اور دوسرا لٹک رہا ہے تو حرج نہیں) انگلیاں نہ چٹخائے اور اس قسم کی حرکات سے باز رہے۔

باطنی خشوع یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو، دنیا سے توجہ ہٹی ہوئی ہو اور نماز میں دل لگا ہو۔(تفسیر صراط الجنان ج ۴، ص ۴۹۴)

خشوع سے نماز پڑھنا گناہوں کا کفارہ:

امیر المومنین حضرت سیدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے اللہ پاک کے پیارے نبی صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو یہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ اچھی طرح وضو کرکے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طریقے سے رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجاتی ہے جب تک کہ وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ (یعنی گناہوں کی معافی کا سلسلہ ) ہمیشہ ہی ہوتا ہے۔ (کسی زمانے کے ساتھ خاص نہیں ہے)

(مسلم ص ۱۱۶، حدیث ۵۱۳)

شعر:

مصطفے کے سب صحابی جنتی ہیں لاجزم

سب سے راضی حق تعالیٰ سب پہ ہے اس کا کرم


خشوع کى تعرىف:

خشوع کے معنى ہىں دل کا فعل اور ظاہرى اعضا(ىعنى ہاتھ بازو) کا عمل۔

دل کا فعل یعنیاللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو دنىا سے توجہ بٹى ہوئى اور نماز مىں دل لگا ہو، اور ظاہرى اعضا کا عمل ىعنى سکون سے کھڑا رہے ادھر ادھر نہ دىکھے اپنے جس اور کپڑ وں کے ساتھ نہ کھىلے اور کوئى عبث و بے کار کام نہ کرے۔(فىضانِ نماز ،۲۸۲)

اللہ کرىم پارہ ۱۸ سورہ المومنون کى آىت نمبر۱اور ۲ مىں ارشاد فرماتا ہے:

تَرجَمۂ کنز الایمان:بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز مىں گڑ گڑاتے ہىں۔

حکاىت۔

بعض صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان فرماتے ہىں برو قىامت لوگ نماز والى کىفىت پر اٹھائے جائىں گے ىعنى نماز مىں جس کو جتنا اطمىنان و سکون حاصل ہوتا ہے اس کے مطابق ا ن کا حشر ہوگا۔

(فىضانِ نماز، ص ۲۸۳)

اللہ پاک اىسى نماز کى طرف نظر نہىں فرماتا جس مىں بندہ اپنے جسم کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے (ص ۲۸۳)

جنت واجب ہوجاتى ہے:

حضرت سىدناعقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ بىان کرتے ہىں مىں نے اللہ پاک کے پىارے حبىب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دىکھا آپ کھڑے ہو کر لوگوں سے ىہ ارشاد فرمارہے تھےکہ جو مسلمان اچھى طرح وضو کرے ، پھر ظاہر و باطن کى ىکسوئى کے ساتھ دو ر کعت ادا کرے تواس کے لىے جنت واجب ہوجاتى ہے۔( فىضانِ نماز ،ص ۲۸۵)

روزى مىں برکت کا مضبوط ذرىعہ :

کتاب راہ علم کے صفحہ ۹۲ پر ہے کہ رزق کى وسعت کا کالغوى معنى روزى مىں برکت کا مضبوط ترىن ذرىعہ ىہ ہےکہ انسان نماز کو خشوع و خضوع تعدىل ارکان ( ارکان نماز ٹہر ٹہر کر ادا کرے) کا لحاظ کرتے ہوئے اور تمام واجبات اور سنن و آداب کى پورى طرح رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔

خشوع و خضوع سے نماز نہ پڑھنے کے نقصانات:

اللہ کے پىارے نبى مکى مدنى مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ عالى شان ہے جو نمازىں اپنے وقت مىں ادا کرے اور نماز کے لىے اچھى طرح وضو کرے تو اس کى نماز سفىد اور روشن ہو کر ىہ کہتى ہوئى نکلتى ہے اللہ پاک تىرى حفاظت فرمائے جس طرح تو نے مىرى حفاظت کى۔

اور جو شخص نماز بے وقت ادا کرے اور اس کے لىے کامل اچھى طرح وضو نہ کرے اور اس کے خشوع، ر کوع اور سجدے پورے نہ کر ے تو وہ نماز مىلى تارىک (ىعنى کالى) ہو کر ر ىہ کہتى ہوئى نکلتى ہے اللہ پاک تجھے ضائع کرے جس طرح تو نے مجھے ضائع کىا،ىہاں تک کہ اللہ پاک جہاں چاہتا ہے وہ نماز اس جگہ پہنچ جاتى ہے پھر وہ بوسىدہ (ىعنى پرانے) کپڑے کى طر ح لپىٹ کر اس نمازى کے منہ پر مار دى جاتى ہے۔( فىضانِ نماز،ص ۳۲۱۔۳۲۲)

جتنا خشوع اتنا ثواب:

حضرت سىدنا عمار بن ىاسر رضی اللہ تعالٰی عنہ بىان کرتے ہىں مىں اللہ پاک کے پىارے حبىب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ آدمى نماز سے فارغ ہو کر لوٹتا ہے لىکن اس کے لىے نماز کا صر ف دسواں نواں اٹھواں ساتواں چھٹا پانچواں چوتھا تىسرا ىا نصف (آدھا) ثواب لکھا جاتا ہے۔

علامہ عبدالرؤف مناوى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں کہ حدىث پاک کى مراد ىہ ہے کہ خشوع اور غور و فکر وغىرہ نماز کو مکمل بنانے والى چىز وں سے نماز کا ثواب ملتا ہے، جب کہ باجماعت نماز مىں ہوتا ہے کہ کسى کو پچىس درجہ ثواب ملتا اور کسى کو ستائىس درجہ۔ (،فىضانِ نماز،ص ۳۲۷)


درود شرىف کا پرچہ کام آگىا:

قىامت کے دن مسلمان کى نىکیاں مىزان مىں ہلکى ہوجائىں گى تو پىارے آقا صلى اللہ تعالىٰ علىہ وسلم اىک پرچہ اپنے پاس سے نکال کر نىکىوں کے پلڑے مىں رکھ دىں گے تو اس سے نىکىوں کا پلڑا وزنى ہوجائے گا ، عرض کرے گا مىرے ماں باپ آپ پر قربان آپ کون ہىں؟

حضور صلى اللہ علیہ وسلم فرمائىں گے مىں تىرا نبى محمد (صلى اللہ علیہ وسلم )ہوں اورىہ تىرا درود شرىف ہے جو تو نے مجھ پر بھىجا تھا۔

خشوع کى تعرىف:

خشوع کے معنى ہىں دل کا فعل اور ظاہرى اعضا کا عمل دل کا فعل ىعنى اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہو دنىا سے توجہ ہٹى ہوئى ہو اور نمازمىں دل لگا ہو اور ظاہرى اعضا کا عمل ىعنى سکون سے کھڑا رہے اِدھر اُدھر نہ دىکھے اپنے جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھىلے اور کوئى عبث و بے کار کام نہ کرے

نماز مىں خشوع مستحب ہے:

علامہ بدر الدىن رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہىں نماز مىں خشوع مستحب ہے، مىرے آقا اعلىٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہىں:نماز کا کمال ، نماز کا نور، نماز کى خوبى، فہم و تدبر وحضور قلب (ىعنى خشوع) پر ہے مطلب ىہ ہے کہ اعلىٰ درجے کى نماز وہ ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کى جائے۔

اللہ کرىم پارہ ۱۸ سورة المومنون کى آىت نمبر ۱ اور دو مىں ارشاد فرماتا ہے: ترجمہ کنزالاىمان !بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز مىں گڑ گڑاتے ہىں۔

صراط الجنان جلد ۶ صفحہ ۴۹ پر ہے: اس آىت مىں اىمان والوں کو بشارت دى گئى ہے کہ بےشک وہ اللہ کے فضل سے اپنے مقصد میں کامىاب ہونگے اور ہمىشہ کے لیے جنت مىں داخل ہو کر ناپسندىدہ چىز سے نجات پاجائىں گے۔

خشوع سے نماز پڑھنا گناہوں کا کفارہ:

امىر المومنىن حضرت سىدنا عثمان ابن عفان رضى اللہ تعالىٰ عنہ بىان کرتے ہىں: مىں نے اللہ کے پىارے نبى صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کو ىہ فرماتے ہوئے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ اچھى طرح وضو کرکے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طرىقے سے رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہوجاتى ہے جب تک کہ وہ کسى کبىرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور ىہ ہمىشہ ہوتا ہے۔

بڑى عمر پانے کا سبب: نماز مىں خشوع خضوع کے ساتھ نماز پڑھنا بڑى عمر پانے کا سبب ہے۔

خشوع و خضوع سے نماز نہ پڑھنے کے نقصانات:

خادم نبى حضرت سىدنا انس بن مالک رضى اللہ تعالىٰ عنہ سے رواىت ہے کہ اللہ کے پىار ے حبىب صلى اللہ تعالىٰ علیہ وسلم کا فرمان عالى شان ہے:

جو نمازىں اپنے وقت مىں ادا کرے اور نماز کے لىے اچھى طرح وضو کرے اور اس کے قىام خشوع وخضوع و رکوع و سجود پورے کرے تو اس کى نماز سفىد اورر وشن ہو کر ىہ کہتى ہوئى نکلتى ہے اللہ پاک تىرى حفاظت فرمائے جس طرح تو نے مىرى حفاظت کى اور جو شخص نماز بے وقت ادا کرے اورا س کے لیے کامل وضو نہ کرے اور اس کے خشوع ، رکوع اور سجدے پورے نہ کرے تو وہ نماز سىاہ تارىک ہو کر ىہ کہتى ہوئى نکلتى ہے اللہ پاک تجھے ضائع کرے، جس طرح تو نے مجھے ضائع کىا ، ىہاں تک کہ اللہ پاک جہاں چاہتا ہے وہ نماز اس جگہ پہنچ جاتى ہے پھر وہ بوسىدہ کپڑے کى طرح لپىٹ کر اس نماز ى کے منہ پر مار ى دى جاتى ہے۔


اللہ کرىم پارہ ۱۸ سورة المومنون کى آىت نمبر :۱، اور ۲ مىں ارشاد فرماتا ہے:

قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان:بے شک مرادکو پہنچے اىمان والے جو اپنى نماز مىں گڑگڑاتے ہىں۔

تفسىر صراط الجنان جلد ۶، ص ۴۹۴ پر ہے اس آىت مىں اىمان والوں کو بشارت دى گئى ہے کہ بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد مىں کامىاب ہوگئے اور اور ہمىشہ کے لىے جنت مىں داخل ہو کر ناپسندىدہ چىزوں سے نجات پا جائىں گے، مزىد صفحہ ۴۹۶ پر ہے ، اىمان والے خشوع و خشوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں، اس وقت ان کے دلوں مىں اللہ کرىم کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن( ىعنى ٹھہرے ہوئے پرسکون) ہوتے ہىں۔

آگ لگ گئى مگر نماز مىں مشغول:

تابعى بزرگ حضرت سىدنا مسلم بن ىسار رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ اس قدر توجہ کے ساتھ نماز پڑھتے کہ اپنے آس پاس کى کچھ بھى خبر نہ ہوتى اىک بار نماز مىں شغول تھے کہ قرىب آگ بھڑک اٹھى لىکن آپ کو احسا س تک نہ ہوا حتى کہ آگ بجھادى گئى۔

حدىث مبارکہ:

امىر المومنىن حضرت سىدنا عثمان ابن عفان رضی اللہ تعالٰی عنہ بىان کرتے ہىں مىں نے اللہ پاک کے پىارے نبى اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو ىہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ اچھى طرح وضو کرکے خشوع کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طرىقے سے رکوع کرے تو وہ نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہواجاتى ہے جب تک کہ وہ کسى کبىرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اورىہ ( ىعنى گناہوں کى معافى کا سلسلہ) ہمىشہ ہى ہوتا ہے ( کسى زمانے کى ساتھ خاص نہىں ہے)۔

دوران نماز بچھو نے 40 ڈنک مارے (حکاىت):

حضرت سىدنا عبداللہ بن مبارک رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے ہىں کہ بچپن مىں دىکھى ہوئى اىک عبادت گزار خاتون مجھے اچھى طرح ىاد ہىں، بحالت نماز بچھو نے انہىں چالىس ڈنگ مارے مگر ان کى حالت مىں ذرا بھى فرق نہ آىا جب وہ نماز سے فارغ ہوئىں تو مىں نے کہا: اما! اس بچھو کو آپ نے ہٹاىا کىوں نہىں؟ جواب دىا۔ صاحبزادے ابھى تم بچے ہو ىہ کىسے مناسب تھا مىں تو اپنے رب کے کام مىں مشغول تھى اپنا کام کىسے کرتى؟

حدىث مبارکہ :

حضرت سىدنا عبد اللہ بن عباس رضی اللہ تعالٰی عنہ بىان کرتے ہىں کہ رحمت عالم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا:جب تم مىں سے کوئى نماز مىں کھڑا ہو تو اپنى آنکھىں بند کرے۔

آنکھىں بند رکھنا کب بہتر ہوتا ہے:

بہار شرىعت مىں ہے نماز مىں آنکھ بند رکھنا مکروہ تنزىہى ہے مگر جب کھلى رہنے مىں خشوع نہ ہو ہوتا ہو تو بندکرنے مىں حرج نہىں بلکہ بہتر ہے حضرت سىدنا امام ابوالقاسم قشىرى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہفرماتے ہىں کہ حضرت حُصرى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ فرماتے تھے کہ ایک بار بیٹھنا ہزار حج سے بہتر ہے اىک بار بىٹھنے سے مراد ىہى ہے کہ تمام تر توجہ جمع کرکے اللہ عَزَّوَجَلَّ کى بارگاہ مىں اپنے آپ کو حاضر تصور کرنا (اللہ عَزَّوَجَلَّ مجھے دىکھ رہا ہے)۔

نماز مىں ادھر ادھر دىکھنے کا مسئلہ :

دوران نماز ادھر ادھر دیکھنا مکروہ تحرىمى (ناجائز و گناہ ) ہے، کل چہرہ پھر گىا ہو ىا بعض اور اگر منہ نہ پھىرے صرف کنکھىوں سے ادھر ادھر بلاحاجت دىکھے تو کراہت تنزىہى ہے اور نادراً کسى غرض صحىح سے ہو تو اصلا حرج نہىں ہوگا، نگاہ آسمان کى طرف اٹھانا مکروہ تحرىمى ( ناجائز و گناہ ہے)۔

جنت واجب ہوجاتى ہے:

حضرت سىدنا عقبہ بن عامر رضی اللہ تعالٰی عنہ بىان کرتے ہىں مىں نے اللہ پاک کے پىارے حبىب صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو دىکھا کہ آپ کھڑے ہو کر لوگوں سے ارشاد فرمارہے تھے جو مسلمان اچھى طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کى ىکسوئى کے ساتھ دو ر کعتىں ادا کرے تو اس کے لىے جنت واجب ہوجاتى ہے۔

کلمہ اسلام کے بعد اسلام کا سب سے بڑا رکن نماز ہے, نماز ہر عاقل, بالغ, مسلمان, مرد و عورت پر فرض عین ہے بلاشبہ نماز کے بے شمار فضائل و برکات ہیں .

نماز میں اللہ کریم کی خوشنودی ہے,

نماز مکی مدنی آقا صلی اللہ علیہ وسلم کی آنکھوں کی ٹھنڈک ہے,

نماز انبیاء کرام علیہم السلام کی سنت ہے,

نماز مومن کی معراج ہے,

نماز جنت کی کنجی ہے,

الغرض نماز اللہ پاک کی بارگاہ میں حاضری کا نام ہے.

اسی طرح نماز میں خشوع و خضوع کی بھی اہمیت ہے علامہ بدر الدین عینی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نماز میں خشوع مستحب ہے.

میرے آقا اعلی حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں نماز کا کمال, نماز کا نور, نماز کی خوبی, فہم و تدبر, حضور قلب (یعنی خشوع) پر ہے مطلب یہ ہے کہ اعلی درجے کی نماز وہی ہے جو خشوع کے ساتھ ادا کی جائے.

اللہ کریم نے سورہ مؤمنون کی ابتدائی دس آیات میں ایمان والوں کے جو اوصاف بیان فرمائے ہیں ان میں سب سے پہلا وصف یہ بیان ہوا کہ ایمان والے خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہیں چنانچہ سورۃ المؤمنون کی آیت نمبر 1 اور 2 میں ارشاد باری تعالیٰ ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں۔

بے شک مراد کو پہنچے ایمان والے جو اپنی نماز میں گڑگڑاتے ہیں تفسیر صراط الجنان صفحہ نمبر 494 پر ہے : اس آیت میں ایمان والوں کو بشارت دی گئی ہے بے شک وہ اللہ پاک کے فضل سے اپنے مقصد میں کامیاب ہوگئے اور ہمیشہ کے لیے جنت میں داخل ہوکر ہر ناپسندیدہ چیز سے نجات پا جائیں گے.

مولا سے اپنے ملتا ہے بندہ نماز میں

اٹھ جاتا ہے جدائی کا پردہ نماز میں

خشوع وخضوع کسے کہتے ہیں؟ :

خشوع کا لغوی معنی ہے عاجزی کا اظہار کرنا تابع و فرمانبرداری کرنا نماز میں خشوع و خضوع سے مراد یہ ہے کہ اللہ پاک کی عظمت پیش نظر ہو دنیا سے توجہ ہٹی ہو نماز میں دل لگا ہو نماز کی ادائیگی کی مکمل رعایت کرے سکون سے کھڑا ہو جسم اور کپڑوں کے ساتھ نہ کھیلے کوئی عبث اور بیکار کام نہ کرے بدن میں عاجزی ہو اور دل میں گڑ گڑانے کی کیفیت پیدا کرے.

نماز کیسی ہونی چاہیے ؟

آداب دین کے صفحہ نمبر 30 پر ہے نمازپڑھنے والے کو چاہئے کہ عاجزی اور خشوع و خضوع کی کیفیت پیدا کرے اور حضور قلب کے ساتھ نماز پڑھے وسوسوں سے بچنے کی کوشش کرے ظاہری اور باطنی طور پر توجہ سے نماز پڑھے اعضا پرسکون رکھے نگاہیں نیچی رکھے قیام میں دایاں یعنی سیدھا ہاتھ بائیں یعنی الٹے ہاتھ پر رکھے تلاوت میں غوروفکر کرتے ہوئے اور خوفزدہ ہوکر تکبیر تحریمہ کہے خشوع وخضوع کے ساتھ رکوع کرے وقت کے ساتھ تسبیح پڑھے اورتشہد اور اس طرح پڑھے جسے اللہ پاک کو دیکھ رہا ہے رحمت خداوندی کی امید رکھتے ہوئے سلام پھیرے اس خوف سے پلٹے کہ نہ جانے میری نماز قبول بھی ہوئی ہے یا نہیں اور اور رضائے الہی طلب کرنے کی کوشش کرے.

آپہنچا خاص اپنے شہنشاہ کے حضور

جب بندہ ہاتھ باندھ کے آیا نماز میں

فضائلِ خشوع:

خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنا عمر میں اضافے کا سبب ہے خشوع کے ساتھ نماز ادا کرنا رزق میں وسعت کا ذریعہ ہے دعوت اسلامی کے مکتبۃالمدینہ کی کتاب راہ علم کے صفحہ نمبر 92 پر ہے رزق میں وسعت کا طویل ترین ذریعہ یہ ہے کہ انسان نمازکو خشوع وخضوع کے ساتھ تعدیل ارکان کا لحاظ رکھتے ہوئے اور تمام واجبات وسنن کی ادائیگی کی پوری طرح رعایت کرتے ہوئے ادا کرے۔ اسی کتاب کے صفحہ نمبر 87 پر ہے نماز کو خشوع وخضوع کے ساتھ ادا کرنا اور تحصیل علم میں لگے رہنا فکر و غم کو دور کردیتا ہے الغرض خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنا گناہوں کے کفارے کا سبب ہے ۔

چنانچہ حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ فرماتے سنا کہ جس مسلمان پر فرض نماز کا وقت آئے اور وہ اچھی طرح وضو کر کے خوشی کے ساتھ نماز پڑھے اور درست طریقے سے رکوع کرے تو نماز اس کے پچھلے گناہوں کا کفارہ ہو جاتی ہے جب تک وہ کسی کبیرہ گناہ کا ارتکاب نہ کرے اور یہ ہمیشہ ہی ہوتا ہے (مسلم صفحہ 116 حدیث 543)

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا اندازِ نماز:

ام المؤمنین حضرت عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں :سرکار صلی اللہ علیہ وسلم ہم سے اور ہم آپ سے گفتگو کر رہے ہوتے لیکن جب نماز کا وقت آتا تو گویا آپ ہمیں نہیں پہچانتے اور ہم آپ کو نہیں پہچانتے اس قدر ۔۔۔ (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 205)

بزرگان دین کا انداز:

بزرگ حضرت مسلم بن یسار رضی اللہ عنہ اس قدر انہماک سے نماز پڑھتے کہ اپنے قرب و جوار کی بھی خبر نہ رہتی ایک دن نماز میں مشغول تھے کہ قریب آگ بھڑک اٹھی لیکن انہیں احساس تک نہ ہوا حتیٰ کہ لوگوں نے آ کر آگ بجھادیں (اللہ والوں کی باتیں جلد 2 صفحہ 447 )

حضرت ابراہیم خلیل اللہ علیہ السلام جب نماز میں کھڑے ہوتے تو آپ کے دل کی آواز دو میل کے فاصلے پر سنائی دیتی تھی.

امام حاتم عصمرحمۃ اللہ علیہ سے کسی نے ان کی نماز کا حل پوچھا تو فرمایا کہ جب نماز کا وقت آتا ہے تو میں وضو کا عمل کرکے اس جگہ آتا ہوں جہاں نماز پڑھنے کا ارادہ ہو وہاں آکر بیٹھتا ہوں یہاں تک کہ میرے تمام اعضاء مطمئن ہوجائیں پھر میں نماز کے لیے کھڑا ہوتا ہوں اور کعبہ شریف کو اپنے سامنے اور پل صراط کو اپنے قدموں تلے تصور کرتا ہوں اور جنت کو اپنی داہنی طرف اور دوزخ کو اپنے بائیں طرف اور ملک الموت کو پشت کے پیچھے تصور کرتا ہوں اور اس نماز کو سب سے پچھلی نماز جانتا ہوں اور خوف ورجا کے ساتھ کھڑا ہوکر اللہ اکبر بلند آواز کے ساتھ کہتا ہوں اور قراءت اچھی طرح پڑھتا ہوں اور رکوع تواضع کے ساتھ کرتا ہوں اور بائیں طرف سرین پر بیٹھ کر پاؤں کو بچا لیتا ہوں اور دہانے یعنی سیدھے انگوٹھے کو کھڑا رکھتا ہوں اور ساری نماز میں اخلاص کی کوشش کرتا ہوں پھر میں نہیں جانتا کہ میری نماز قبول ہوئی یا نہیں (احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 206)

سبحان اللہ ہمارے بزرگان دین کا خوف خدا اتنا زیادہ اور اس قدرد انہماک کے ساتھ نماز ادا کرنے کے باوجود نماز قبول نہ ہونے کا خوف رکھتے تھے یہ صاحبان اعلی درجے کی نماز پڑھنے کے باوجود اللہ رب العزت کی بارگاہ میں اس قدر عاجزی کرتے تھے اس قدر قابل رشک اور لائق تقلید انداز میں نماز ادا فرماتے تھے اور ہماری حالت یہ ہے کہ نماز میں کبھی بدن کو تو کبھی لباس کو سہلاتے ہیں نماز میں بے توجہی اس قدر ہے کہ نماز کی رکعات تک بھول جاتے ہیں اور نماز میں وہ باتیں یاد آتی ہے جو نماز کے باہر یاد نہیں آتی غفلت کے ساتھ نماز پڑھنے کے باوجود ہمارے دل میں یہ خوف نہیں آتا کہیں میری نماز میرے منہ پر ہی نہ مار دی جائے.

پیارے نمازیوں نماز تو اللہ پاک سے مناجات اس کے ذکر کا نام ہے تو پھر غفلت کے ساتھ کیسے ادا ہو جائے گی چنانچہ حدیث پاک میں ہے اللہ پاک ایسی نماز کی طرف نظر عنایت نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے بدن کے ساتھ دل کو حاضر نہ کرے ۔ایک اور روایت میں ہے کہ نماز کا فرض ہونا اور حج اور طواف کا حکم ہونا اور دوسرے ارکان کا مقرر کرنا صرف ذکر الہی کے قائم کرنے کے لئے ہے (احیاء العلوم)

ہوں میری ٹوٹی پھوٹی نماز خدا قبول

ان دو کا صدقہ جن کو کہا شاہ نے میرے پھول

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں دلجمعی کے ساتھ خشوع وخضوع کے ساتھ نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین


یقیناً نماز پڑھنے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں مگر نماز کو مکمل خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا چاہیے کہ اس کی بہت اہمیت ہے ، اور خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کی جانے والی نماز کوہی اعلیٰ درجے کی نماز کہا گیا ہے  اور اس کی اہمیت کو قرآن و حدیث میں وضاحت کے ساتھ بیان کیا گیا ہے اور فرمایا گیا کہ یہی لوگ کامیابی پانے والے :- جیسا کہ اللہ پاک پارہ 18 سورہ المؤمنون کی آیت نمبر 1 اور 2 میں ارشاد فرماتا ہے کہ :قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱) الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲) ترجمہ کنزالعرفان :" بیشک ایمان والے کامیاب ہوگئےجو اپنی نماز میں خشوع و خضوع کرنے والے ہیں "

اس کے تحت تفسیر خزائن العرفان میں مولانا نعیم الدین مراد آبادی رحمۃاللہ علیہ لکھتے ہیں ۔

نماز میں خشوع و خضوع یہ ہے کہ اس میں دل لگا ہو اور دنیا سے توجہ ہٹی ہو نظر جائے نماز پر ہو اور گوشہ چشم سے کسی طرف نہ دیکھے ۔(تفسیر خزائن العرفان تحت آیت 1,2 سورۃ المؤمنون پارہ 18)

اللہ پاک کی محافظت :

شعب الایمان کی ایک حدیث پاک میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے فرمایا کہ : جو شخص اچھی طرح وضو کرے پھر نماز کے لئے کھڑا ہو اس کے رکوع , سجود اور قراءت کو مکمل کرے تو نماز کہتی ہے اللہ پاک تیری حفاظت کرے جس طرح تو نے میری حفاظت کی "

(شعب الایمان ج 3 ص 143 حدیث 3140)

نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ

شیطان قریب نہیں آتا :

حضرت سہل بن عبداللہ تُستری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں :جس شخص کے دل میں خشوع ہوتا ہے شیطان اس کے قریب نہیں آتا ہے ۔(بصائر ذوی التمییز ج 2 ص 542 )

رحمتِ الٰہی پھر جاتی ہے :

حضرتِ ابوذر رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا :اللہ پا ک کی رحمت نمازی کی طرف متوجہ رہتی ہے جب تک وہ ادھر اُدھر نہ دیکھے جب وہ اِدھر اُدھر دیکھتا ہے تو اللہ کی رحمت بھی اس سے پھر جاتی ہے ۔( ابوداؤد ج 1ص 344 حدیث نمبر 909)

صرف جاگنا ملتا ہے :

نماز میں خشوع و خضوع نہ ہونے کے بارے میں حضرت ابو ہُریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا : " بہت سے( رات میں) قیام کرنے والے ہیں جنہیں صرف جاگنا ہی ملتا ہے ۔ (شعب الایمان ج 3ص 316 حدیث 3642)

عمل قبول نہیں :

عبادت (نماز) میں خشوع و خضوع نہ ہونے کی وجہ سے عمل بھی قبول نہیں ہوتا جیسا کہ حدیث پاک میں ہے :سرکارِ مدینہ صلی اللہ علیہ والہ و سلم نے ارشاد فرمایا :"اللہ پاک اس عمل کو قبول نہیں فرماتا جس میں بندہ اپنے بدن کے ساتھ دل حاضر نہ کرے۔

غم و پریشانی دور :

نماز میں خشوع و خضوع کی اہمیت جس طرح دینی لحاظ سے ہے اسی طرح دنیوی لحاظ سے بھی ہے کہ نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنا فکر و غم کو دور کر دیتا ہے (راہِ علم ص 87)

عمر میں اضافہ اور رزق میں وسعت :

علماء کرام فرماتے ہیں: " نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا کرنےسے عمر میں اضافہ ہوتا ہے اور رزق میں وسعت ہوتی ہے (راہِ علم ص 93)

جنت واجب ہوجاتی ہے :

حضرت عقبہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ میں نے رسولِ کریم صلی اللہ علیہ والہ و سلم کو دیکھا کہ آپ لوگوں میں کھڑے ہو کر ارشاد فرما رہے تھے کہ "جو مسلمان اچھی طرح وضو کرے پھر ظاہر و باطن کی یکسوئی کے ساتھ دو رکعت پڑھے تو اس پر جنت واجب ہو جاتی ہے "

نماز مسلمان پر اىک اىسا اہم اور عظىم الشان فرىضہ (فرض رکن) ہے جو اللہ عَزَّوَجَلَّ کى جانب سے ہمارے پىارے پىارے آقا مکى مدنى مصطفى صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو معراج کى شب تحفےمیں عطا کىا گىا جس کو بجالانا ہر مسلمان مرد اور عورت پر فرض ہے اور نماز جىسے عظیم الشان فرىضہ کو ادا کرنے کے لىے نماز مىں خشوع و خضوع کى اہمىت کو مدنظر رکھنا ضرورى ہے کىونکہ نماز کے وہ تمام فضائل و برکات جو قران و حدىث مىں وارد ہوئے ہىں ان کو ہم اس وقت تک کما حقہ حاصل نہىں کرسکتے جب تک کہ ہم نماز کو خشوع و خضوع کے ساتھ ادا نہ کرىں۔

نماز مىں خشوع وخضوع سے مراد :

خشوع کہتے ہىں کہ دل کا فعل اور ظاہرى اعضا (ىعنى ہاتھ پاؤں ) کا عمل۔

دل کا فعل ىعنى اللہ پاک کى عظمت پىش نظر ہونا دنىا سے توجہ بٹى ہوئى ہو اورنماز مىں دل لگا ہو، اور ظاہرى اعضا کا عمل ىعنى سکون سے کھڑا رہے اورنماز کے آداب کى مکمل رعاىت کى جائے مثلا نظر جائے نماز سے باہر نہ جائے اور آنکھ کے کنارے سے کسى طرف نہ دىکھے، آسمان کى طرف نظر نہ اٹھائے اور کوئى عبث و بىکار کام نہ کرے(۱)

آئىے! اب ہم نماز مىں خشوع و خضوع کى اہمىت کو قرآن و حدىث اور بزرگانِ دىن و صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان کى واقعات کى روشنى مىں ملاحظہ کرتے ہىں۔

اللہ عَزَّوَجَلَّ ارشاد فرماتا ہے: قَدْ اَفْلَحَ الْمُؤْمِنُوْنَۙ(۱)الَّذِیْنَ هُمْ فِیْ صَلَاتِهِمْ خٰشِعُوْنَۙ(۲)

تَرجَمۂ کنز الایمان: بے شک مراد کو پہنچے اىمان والے، جو اپنى نماز مىں گڑ گ ڑاتے ہىں۔

چنانچہ ان آىات مبارکہ مىں اىمان والوں کو بشارت دى گئى کہ وہ اپنے مقصد مىں کامىاب ہوگئے اور ہمىشہ جنت مىں رہىں گے کہ اىمان والے خشوع و خضوع کے ساتھ نماز ادا کرتے ہىں اور اس وقت ان کے دلوں مىں اللہ عَزَّوَجَلَّ کا خوف ہوتا ہے اور ان کے اعضا ساکن ( ىعنى ٹھہرے ہوئے) ہوتے ہىں۔(۲)

رسول اکرم صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرماىا: جس مسلمان شخص پر فرض نماز کا وقت آجائے اور وہ اس نماز کا اچھى طرح وضو کرے پھر نماز مىں اچھى طرح خشوع اور رکوع کرے تو نماز اس کے سابقہ گناہوں کا کفارہ بن جاتى ہے جب تک کہ وہ کوئى کبىرہ گناہ نہ کرے اور ىہ سلسلہ ہمیشہ جارى رہے گا۔(۳)

اگر صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان ، بزگانِ دىن رحمۃ اللہ تعالٰی علیہم کى سىرت کا مطالعہ کىا جائے تو بکثرت اىسے واقعات مل جائىں گے جو اس سابقہ آىت مىں مذکور وصف کے اعلىٰ نمونے ہوں گے جىسا کہ

۱۔ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ تعالٰی عنہ فرماتے ہىں کہ جب صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان نماز پڑھتے تو وہ اپنى نماز کى طرف متوجہ رہتے اپنى نظرىں سجدہ کرنے کى جگہ پر رکھتے۔اور انہىں ىہ ىقىن ہوتا تھا کہ اللہ تعالىٰ انہىں دىکھ رہا ہے اور وہ دائىں بائىں توجہ نہىں کرتے تھے(۴)

۲۔ امىر المومنىن حضرت سىدنا صدىق اکبر رضی اللہ تعالٰی عنہ نماز مىں اىسے گوىا ( گڑى ہوئى) مىخ (گھونٹى) ہىں(۵)

۳۔ بعض صحابہ کرام علیہمُ الرِّضوان رکوع مىں اتنے پرسکون ہوتےکہ ان پر چڑىاں بىٹھ جاتىں گوىا وہ جماات ( ىعنى بے جان چىزىوں) مىں سے ہىں۔(۶)

۴ ۔ حضرت سىدنا سعىد تنوخى رحمۃ اللہ تعالٰی علیہ جب نماز پڑھتے تو ( اس قدرروتے کہ) رخسار(ىعنى گال مبارک) سے داڑھى پر مسلسل آنسو گرتے رہتے۔(۷)

نماز مىں خشوع و خضوع کىسے پىدا کىا جائے:

دعوت اسلامى کے مکتبہ المدىنہ کى کتاب آداب دىن کے صفحہ نمبر۳۰ پر ہےکہ نماز پڑھنے والے کو چاہىے کہ عاجزى کے کىفىت پىدا کرے اور حضور قلب( ىعنى دلى توجہ) کے ساتھ نماز پڑھے، وسوسوں سے بچنے کى کوشش کرے، ظاہرى و باطنى توجہ کے ساتھ نماز پڑھے اعضا کو پرسکون رکھے نگاہىں نىچے رکھے، قىام مىں داىاں یعنی سىدھا ہاتھ بائىں(الٹے) ہاتھ پر رکھے ، تلاوت مىں غور و فکر کرے، ڈرتے ہوئے اور خوف زدہ ہو کر تکبىر کہے، خشوع وخضوع کے ساتھ رکوع و سجود کرے، تعظىم و توقىر کے ساتھ تسبىحات پڑھے اور تشہد اس طرح پڑھے جىسے اللہ پاک کو دىکھ رہا ہے، رحمت خداوندى کى امىد رکھتے ہوئے سلام پھىرے، اس خوف سے پلٹے(ىعنى واپس) ہو کہ نہ جانے مىرى نماز قبول بھى ہوئى ىا نہىں۔

اللہ تعالىٰ ہمىں خشوع و خضوع کے ساتھ باجماعت نماز ادا کرنے کى توفىق عطا فرمائے۔اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم

نماز کے حوالے سے مزىد معلومات کے لىے مکتبہ المدىنہ سے شائع شدہ کتاب فىضانِ نماز مکتبہ المدىنہ سے ھدیۃً طلب فرما کر مطالعہ کىجئے۔

حوالہ جات:

۱۔(فىضان نماز ، مکتبہ المدىنہ کراچى ، باب خشوع و خصوع کے فضائل صفحہ ۲۸۲)

۲۔ تفسىر صراط الجنان ، مکتبہ المدىنہ کراچى ۔ جلد ۶، ص ۴۱۴،۴۹۶ آىت نمبر اى

۳ ۔مسلم شرىف کتاب الطہارة باب فصل الوضوع والصلوة عقبہ جلد نمبر ۱۴۲۔ اصؒ

۴۔ تفسىرصراط الجنان مکتبہ المدىنہ (دعوت اسلامى) کراچى جلد۶،ص۴۹۸، نعمہ الاىىہ ،سورہ المومنون ۱۔۲)

۵۔ فىضان نماز مکتبہ المدىنہ کراچى ، دعوت اسلامى باب خشوع و خضوع سے نماز پڑھنے کے فضائل صفحہ نمبر ۲۸۳

۶۔اىضاً

۷۔احىا العلوم اردو مترجمىن شعبہ تراجم المدىنہ العلمىہ دعوت اسلامى کراچى اور ج۱، ص ۴۲۰)