اللہ پاک نے ہر انسان کو ایک باطنی  قوت عطا فرمائی ہے جس کا نام خوف ہے۔خوف کا دل سے گہرا تعلق ہوتا ہے اوردل کا اللہ پاک سے گہرا تعلق ہوتا ہےاور اسی دل کا اللہ پاک کی ناراضی ،اس کی بے نیازی، گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر گھبراہٹ میں مبتلا ہو جانا خوف خدا کہلاتا ہے ۔ اللہ پاک کا خوف اس کے خاص بندوں کو ہی حاصل ہوتا ہے اور رب العالمین خود ہی اس صفت کو اختیار کرنے کا حکم فرماتا ہے چنانچہ اللہ پاک فرماتا ہے۔واِیَّایَ فَارْھَبُونِ ترجمہ کنزالایمان اور خاص میرا ہی ڈر رکھو۔خوف خدا پاک میں رونا ایک عظیم الشان نیکی ہے ۔خوف خدا میں رونے سے بے شمار فوائد حاصل ہوتے ہیں جن میں سے چند درج ذیل ہیں:1:نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  نے ارشاد فرمایا۔حکمت کی اصل اللہ پاک کا خوف ہے۔ (شعب الایمان ،باب الخوف من اللہ پاک ،ج1، ص470، حدیث:743) 2: رحمت العالمین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا : جو شخص اللہ پاک کے خوف سے ہوتا ہے  وہ ہرگز جہنم میں داخل نہیں ہوگا حتی کے دودھ جانور کے تھن میں واپس آجائے ۔( شعب الایمان ، ج1، ص490، حدیث: 800)3:حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔ ( کنز العمال ج3، ص63، حدیث: 5909)4:حضرت یحیی علیہ السلام اپنے والد گرامی حضرت ذکریا علیہ السلام کے حوالے سے فرمایا:جنت اور دوذخ کے درمیان ایک گھاٹی ہے جسے وہی طے کر سکتا ہے جو بہت رونے والا ہو گا۔(شعب الایمان، ، 493/1، حدیث: 809)5: حضرت کعب احبار رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:جو شخص اللہ پاک کے ڈر سے روئے اور اس کے آنسؤں کا ایک قطرہ بھی ذمین پر گر جائے تو آگ اُس(رونے والے) کو نہ چھوئے گی۔(درۃالناصحین،ص253)6:رسول اکرمصلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں جو(آنکھ سے)اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جاتا ہے۔(احیاءالعلوم،ج4 ص200)7:امیرالمؤمنین حضرت علی المرتضیٰ رضی اللہ عنہ نے فرمایا، جب تم میں سے کسی کو رونا آئے تو وہ آنسؤں کو کپڑے سے صاف نہ کرے بلکہ رخساروں پر بہہ جانے دے کہ وہ اسی حالت میں رب کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو گا ۔(شعب الایمان،ج1، ص494، حدیث: 808)خوف خدا میں رونا قرب الہٰی پانے کا بہترین ذریعہ ہے۔ صد کروڑ افسوس!آج ہمارے آنسو بہتے ہیں تو دنیا کے غموں میں بہتے ہیں۔کاش!ہمارے اشک بھی بہیں تو خوف خدا میں بہیں۔ اللہ پاک ہمیں اپنے خوف سے رونے والی آنکھیں نصیب فرمائے ۔آمین

میرے اشک بہتے رہیں کاش! ہر دم تیرے خوف سے! یا خدا یا الہٰی 


لفظ خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے،  جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، خوف خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔خوف خدا میں رونے کے فضائل کئی روایتوں میں بیان ہوئے ہیں، جن میں سے چند ملاحظہ ہوں۔خوف خدا سے رونے والا:حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، جب یہ آیت مبارکہ نازل ہوئی:اَفَمِنْ ھٰذَاحدیث: تَعْجَبُوْنَ۔وَتَضْحَکُوْنَ وَلَا تَبْکُوْنَ۔ترجمہ کنزالایمان:تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو اور روتے نہیں۔(پ27، النجم:60، 59)تو اصحابِ صفہ رضی اللہُ عنہم اجمعین اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے، انہیں روتا دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے لگے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بہتے ہوئے (مبارک)آنسو دیکھ کر وہ یعنی اصحابِ صفہ علیہمُ الرضوان اور بھی زیادہ رونے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو۔(خوف خدا، ص 139)بخشش کا پروانہ: حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔(خوف خدا، ص 139)پسندیدہ قطرہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں،جو( آنکھ سے) اس(یعنی اللہ پاک)کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ جو اس کی راہ میں بہایا جاتا ہے۔

(خوف خدا، ص 138)اشکوں کا پیالہ:منقول ہے: بروزِ قیامت جہنم سے پہاڑ کے برابر آگ نکلے گی اور امتِ مصطفی کی طرف بڑھے گی تو سرکار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اسے روکنے کی کوشش کرتے ہوئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلائیں گے: اے جبرائیل! اس آگ کو روک لو، یہ میری امت کو جلانے پر تلی ہوئی ہے، حضرت جبرائیل علیہ السلام پیالے میں تھوڑا سا پانی لائیں گے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں پیش کر کے عرض کریں گے:اس پانی کو اس آگ پر ڈال دیجئے۔چنانچہ سرورِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس پانی کو آگ پر انڈیل دیں گے، جس سے وہ آگ فوراً بجھ جائے گی، پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کریں گے: اے جبرائیل!یہ کیسا پانی تھا، جس سے آگ فوراً بجھ گئی؟ وہ عرض کریں گے: یہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ان امتیوں کے آنسوؤں کا پانی ہے، جو خوفِ خدا کے سبب تنہائی میں رویا کرتے تھے، مجھے ربّ کریم نے اس پانی کو جمع کرکے محفوظ رکھنے کا حکم فرمایا تھا، تاکہ یہ آج کے دن آپ کی امت کی طرف بڑھنے والی اس آگ کو بجھایا جا سکے۔(خوف خدا، ص 166)آگ نہ چھوئے گی:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما سے مروی ہے، سرکار مدینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں ربّ کریم کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا میں پہرہ دینے کے لئے جاگے۔(خوف خدا، ص 138)اللہ پاک ہمیں خوفِ خدا اور عشقِ رسول میں رونے والی آنکھیں عطا فرمائے۔آمین


حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: جب یہ آیت نازل ہوئی:اَفَمِنْ هٰذَا حدیث: تَعْجَبُوْنَۙ۔ وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ۔ ترجمہ:توکیااس بات(یعنی قرآن سے) تعجب کرتے ہو اور ہنستےہو اور روتے نہیں ہو۔(پ 27،النجم:59،40)تو اصحابِ صفہ رضی اللہُ عنہم اس قدر رو ئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے، انہیں دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے لگے، لہٰذا حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو روتا دیکھ کر وہ اور رونے لگے، پھر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا : وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک کے ڈر سے رو یا ہو۔(شعب الایمان، ج 1،ص 489، حدیث:798)پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم تو اس طرح دعا فرمایا کرتے تھے:اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ عَیْنَیْنِ ھَطَالَتَیْنِ تُشْفَیَانِ بِذُرُوْفِ الدَّمْعِ قَبْلَ اَنْ تَصِیْرَ الدُّمُوْعَ دَمَأً وَالْاَضْرَاسُ جمرَأً ۔اے اللہ پاک مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما، جو کثرت سے آنسو بہاتی ہوں اور آنسو گرنے سے تسکین دیں، اس سے پہلے کے آنسو خون بن جائیں اور داڑھیں انگاروں میں بدل جائیں۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 400)آقا کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کواس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں، جوآنکھ سے اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ، جو اس کی راہ میں بہے۔(احیاء العلوم، 4، صفحہ 300)اس کی طرح ایک اور حدیث: پاک میں ہے:حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے: سرکارِ مدینہ، راحتِ قلب و سینہ، اللہ پاک کے آخری نبی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:دو آنکھوں کو آگ نہ چھوئے گی، ایک وہ جو رات کے اندھیرے میں ربّ کریم کے خوف سے روئے اور دوسری وہ جو راہِ خدا پاک میں پہرہ دینے کے لئے جاگے۔(شعب الایمان، ج1،ص478، حدیث:796)پیاری اسلامی بہنو! خوفِ خدا میں رونے والے کے لئے کیسی کیسی خوشخبریاں ہیں، اپنی زندگی کا جائزہ لیتے ہوئے ہمیں بھی خوفِ خدا میں رونا چاہئے، رونا نہ آئے تو رونے والی صورت ہی بنا لیں، امیر المؤمنین حضرت صدیق اکبر رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں:جو شخص رو سکتا ہو تو روئے اور اگر رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لے۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 401)منقول ہے: بروزِ قیامت جہنم سے پہاڑ کے برابر آگ نکلے گی اور اُمّتِ مصطفی کی طرف بڑھے گی تو آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اسے روکتے ہوئے حضرت جبرائیل علیہ السلام کو بلائیں گے: اے جبرائیل اس آگ کو روکو، یہ میری امت کو جلادے گی، حضرت جبرائیل علیہ السلامآقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو ایک پانی کا پیالہ پیش کریں گے، سرورِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس پانی کو آگ پر انڈیل دیں گے، جس سے وہ آگ فوراً بجھ جائے گی، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم حضرت جبرائیل علیہ السلام سے دریافت کریں گے: اے جبرائیل!یہ کیسا پانی تھا؟ وہ عرض کریں گے: یہ آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ان امتیوں کے آنسوؤں کا پانی ہے، جو خوفِ خدا کے سبب تنہائی میں رویا کرتے تھے، جو میں نے اللہ کے حکم سے جمع کئے تھے، تا کہ آج کے دن آپ کی امت کی طرف بڑھنے والی اس آگ کو بجھایا جا سکے۔(درۃ الناصحین،ص295)معلوم ہوا!جہنم کی آگ کو آنسو ہی بجھا سکتے ہیں۔

اللہ کیا جہنم اب بھی نہ سرد ہوگا رو رو کے مصطفی نے دریا بہا دیئے ہیں


خوف خدا پاک کا مطلب:خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے آنے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(احیاء العلوم،)ربّ کریم نے خود قرآن پاک میں ارشاد فرمایا:وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْن ۔ترجمۂ کنزالایمان:اور خاص میرا ہی ڈر رکھو۔(پ1، البقرہ:40)خوف خدا کی اہمیت:خوفِ خدا نیکی کا سرچشمہ ہے، برائی سے اس لئے بچنا کہ اس سے اللہ پاک ناراض ہوتا ہے اور اللہ پاک کی رضا کے لئے نیکی کرنا اس کا دوسرا رُخ ہے،خشیتِ الٰہی(یعنی اللہ پاک کا ڈر) انسان کو اللہ پاک سے بہت قریب کر دیتا ہے، کیونکہ اس کی وجہ سے انسان برائیوں سے بچنے اور نیکی کرنے کوشش کرتا ہے۔ رسول پاک صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خوفِ خدا کو دانائی کی اصل بنیادقرار دیا ہے اور اللہ پاک نے اسے انسانی فضیلت کا ذریعہ بتایا ہے۔ خوف خدا میں رونے کے بے شمار فضائل ہیں کہ یہ رو نا ہمیں ربِّ کریم کی ناراضی سے بچا کر اس کی رضا تک پہنچائے گا۔ان شاءاللہ پاک۔بخشش کا پروانہ:حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو شخص اللہ پاک کے خوف سے روئے، وہ اس کی بخشش فرما دے گا۔(کنزالعمال، جلد 3، صفحہ 23، حدیث:5909)نجات کیا ہے؟حضرت عقبہ بن عامر رضی اللہُ عنہ نے عرض کی:یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نجات کیا ہے؟ ارشاد فرمایا:اپنی زبان کو قابو میں رکھو، تمہارا گھر تمہیں کفایت کرے اور اپنی خطاؤں پر آنسو بہاؤ۔(شعب الایمان، ، ج1،ص492، حدیث:805)پسندیدہ قطرہ:رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کو اس قطرے سے بڑھ کر کوئی قطرہ پسند نہیں، جو(آنکھ سے)اس کے خوف سے بہے یا خون کا وہ قطرہ، جو اس کی راہ میں بہایا جاتا ہے۔(احیاء العلوم،جلد 4، صفحہ 200) مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی دعا:مدنی تاجدار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس طرح دعا مانگتے:اَللّٰھُمَّ ارْزُقْنِیْ عَیْنَیْنِ ھَطَالَتَیْنِ تُشْفَیَانِ بِذُرُوْفِ الدَّمْعِ قَبْلَ اَنْ تَصِیْرَ الدُّمُوْعَ دَمَأً وَالْاَضْرَاسُ جمرَأً۔اے اللہ پاک مجھے ایسی دو آنکھیں عطا فرما، جو کثرت سے آنسو بہاتی ہوں اور آنسو گرنے سے تسکین دیں، اس سے پہلے کے آنسو خون بن جائیں اور داڑھیں انگاروں میں بدل جائیں۔(ایضاً)رونے جیسی صورت بنا لے:اللہ والوں کے نزدیک خوف خدا میں رونا اس قدر اہمیت کا حامل ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہُ عنہ نے فرمایا:جو شخص رو سکتا ہو تو روئے اور اگر رونا نہ آتا ہو تو رونے جیسی صورت بنا لے۔(احیاء العلوم،جلد 4، صفحہ 201)

میرے اشک بہتے رہیں کاش! ہر دم تیرے خوف سے یا خدا یا الٰہی

الغرض خوف خدا میں رونے کے بے شمار فضائل و برکات ہیں، خوف خدا میں رونا سفرِ آخرت کی کامیابی کے لئے اہمیت رکھتا ہے۔اللہ پاک ہمیں اپنے خوف میں رونے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


اَفَمِنْ هٰذَا حدیث: تَعْجَبُوْنَۙ۔ وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ۔ترجمہ کنزالایمان:تو کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو، روتے نہیں۔(پ 27، النجم:59، 60)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ بیان کرتے ہیں:نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک کے خوف کی وجہ سے روتا ہے، اس وقت تک جب تک دودھ تھن میں واپس نہ چلا جائے اور اللہ پاک کی راہ میں غبار اور جہنم کا دھواں اکٹھے نہیں ہو سکتے۔(ریاض الصالحین، صفحہ 180، حدیث: 448)خوف خدا سے رونے والا:حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے، جب یہ آیت نازل ہوئی:اَفَمِنْ هٰذَا حدیث: تَعْجَبُوْنَۙ۔ وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ۔ترجمۂ کنزالایمان:تو کیا تم اس بات سے تعجب کرتے ہو اور ہنستے ہو، روتے نہیں۔تو اصحابِ صفہ رضی اللہُ عنہم اجمعین اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے، انہیں روتا دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے لگے، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے بہتے ہوئے (مبارک)آنسو دیکھ کر وہ یعنی اصحابِ صفہ علیہمُ الرضوان اور بھی زیادہ رونے لگے، پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو۔(خوف خدا، ص139)

تیرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ میں تھر تھر رہوں کانپتی یا الٰہی(وسائل بخشش، صفحہ 105)

خوف خدا کسے کہتے ہیں؟امیر ِاہلسنت بانی دعوت اسلامی، حضرت علامہ مولانا محمد الیاس عطار قادری دامَتْ بَرَکاتُہمُ العالِیَہ اپنی مایہ ناز تالیف کفریہ کلمات کے بارے میں سوال جواب، صفحہ 26 پر فرماتے ہیں:اللہ پاک کی خفیہ تدبیر، اس کی بے نیازی، اس کے ناراضی، اس کی گرفت(پکڑ) اس کی طرف سے دیئے جانے والے عذابوں، اس کے غضب اور اس کے نتیجے میں ایمان کی بربادی وغیرہ سے خوفزدہ رہنے کا نام خوف خدا ہے۔قرآن کریم میں اللہ پاک مؤمنین کو کئی مقامات پر اس پاکیزہ صفت کو اختیار کرنے کا حکم صادر فرمایا، چنانچہ سورۂ ال عمران، آیت نمبر 175 میں ارشاد ہے:وَخَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ترجمہ:اور مجھ سے ڈرو اگر ایمان رکھتے ہو۔خوف خدا میں رونے کی عادت بنائیں: فکرِ آخرت میں آنسو بہانے کی ترغیب پر مشتمل دو احادیث طیبہ :1۔ قیامت کے دن سب آنکھیں رونے والی ہوں گی، مگر تین آنکھیں نہیں روئیں گی، ان میں سے ایک وہ ہوگی جو خوف خدا سے روئی ہوگی۔(کنز العمال، کتاب المواعظ8/356، حدیث: 4335)2۔ اے لوگو! رویا کرو اور اگر نہ ہوسکے تو رونے کی کوشش کیا کرو، کیوں کے جہنم میں جہنمی روئیں گے، یہاں تک کہ ان کے آنسو ان کے چہروں پر ایسے بہیں گے، گویا وہ نالیاں ہیں، جب آنسو ختم ہوجائیں گے تو خون بہنے لگے گا اور آنکھیں زخمی ہوجائیں گی۔(شرح السنۃ للبغوی، جلد 7، صفحہ 565، حدیث: 4314) (خوف خدا میں رونے کی اہمیت، صفحہ10)

جَلا دے نہ نارِ جہنم کرم پئے بادشاہِ اُمم یا الٰہی

مجھے نارِ دوزخ سے ڈر لگ رہا ہے ہو مجھ ناتواں پر کرم یا الٰہی

تو عطار کو بے سبب بخش مولیٰ کرم کر کرم کر کرم یا الٰہی

(وسائل بخشش مرمم، صفحہ 110، 111)


1:ایک شخص نے تاجدارِ رسالت، شہنشاہِ نبوت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی بارگاہ میں حاضر ہو کر عرض کی:یا رسول صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم! میں کس چیز کے ذریعے جہنم سے نجات پاسکتا ہوں؟فرمایا:اپنی آنکھوں کے آنسوؤں سے، عرض کی:میں اپنی آنکھوں کے آنسؤوں کے ذریعے کیسے جہنم سے نجات پاؤں گا؟ فرمایا:ان دونوں کے آنسوؤں کو اللہ پاک کے خوف سے بہاؤ، کیونکہ جو آنکھ اللہ پاک کے خوف سے روئے، اسے جہنم کا عذاب نہیں ہو گا۔

یاربّ میں تیرے خوف سے روتی رہوں ہر دم دیوانی شہنشاہِ مدینہ کی بنا دے

(بحر الدموع ، آنسوؤں کا دریا، ص37 تا 38)

2:حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہ نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہانا مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ پسند ہے۔(حکایتیں اور نصیحتیں، ص نمبر 131)3:حضرت نضر بن سعد رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کسی کی آنکھ سے خشیتِ الٰہی پاک سے آنسو بہتے ہیں تو اللہ پاک اس کے چہرے کو جہنم پر حرام فرما دیتا ہے، اگر اُس کے رخسار پر بہہ جائیں تو قیامت کے دن نہ وہ ذلیل ہوگا اور نہ اُس پر کوئی ظلم ہوگا اور اگر کوئی غمگین شخص اللہ پاک کے خوف سے کچھ لوگوں میں روئے تو اللہ پاک اس کے رونے کے سبب ان لوگوں پر بھی رحم فرماتا ہے، آنسو کے علاوہ ہر عمل کا وزن کیا جائے گا اور آنسوؤں کا ایک قطرہ آگ کے سمندروں کو بجھا دیتا ہے۔(حکایتیں اور نصیحتیں ، ص 131)4:شہنشاہِ مدینہ، راحتِ قلب وسینہ، صاحبِ معطر پسینہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:اللہ پاک کو کوئی شے دو قطروں سے زیادہ پسند نہیں:1:خوفِ الٰہی سے بہنے والے آنسوؤں کا قطرہ اور 2:اللہ پاک کی راہ میں بہنے والے خون کا قطرہ۔(حکایتیں اور نصیحتیں، ص 130)5: رسول اکرم، نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جو اللہ پاک سے ڈرتا ہے، ہر چیز اس سے ڈرتی ہے اور جو غیر اللہ سے ڈرتا ہے، وہ ہر چیز سے ڈرتا ہے۔(لباب الاحیا،ص 317)6: نبی رحمت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ مغفرت نشان ہے:جس بندہ مؤمن کی آنکھوں سے خوفِ الٰہی پاک سے آنسو نکلتے ہیں، وہ اگرچہ مکھی کے سر کے برابر ہو، پھر اسے ان کے نکلتے وقت کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ پاک اُسے جہنم کی آگ پر حرام فرما دیتا ہے۔(لباب الاحیا، ص 317)حضور نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم یہ دعا فرمایا کرتے :اے اللہ پاک! مجھے رونے والی آنکھیں عطا فرما، جو تیرے خوف سے آنسو بہاتی رہیں، اس سے پہلے کہ خون کے آنسو رونا پڑے اور داڑھیں پتھر ہو جائیں۔

رونے والی آنکھیں مانگو، رونا سب کا کام نہیں ذکرِ محبت عام ہے لیکن، سوزِ محبت عام نہیں(حکایتیں اور نصیحتیں ،ص 131)

حضرت ابو بکر کنانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: میں نے خواب میں ایک ایسا نوجوان دیکھا، جس سے زیادہ خوبصورت کسی کو نہ دیکھا تھا، میں نے اس سے پوچھا :تو کون ہے؟تو اس نے جواب دیا:میں تقویٰ ہوں، میں نے اس سے استفسار کیا:تو کہاں رہتا ہے؟ تو اس نے بتایا:ہر غمگین رونے والے کے دل میں۔(حکایتیں اور نصیحتیں ،ص 132)


خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ ربّ کی بے نیازی،  اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(نجات دلانے والے اعمال کی معلومات، صفحہ 200)قرآن کریم میں کئی مقامات پر خوفِ خدا میں رونے کی فضیلت بیان کی گئی ہے، چنانچہ ربِّ کریم فرماتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے ،اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27، رحمن: 46)احادیث طیبہ بھی خوفِ خدا سے رونے کی فضیلت سے مالا مال ہیں، چنانچہ ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے رونے والا شخص دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، جب تک کہ دودھ تھن میں واپس نہ چلا جائے(اور یہ ناممکن ہے)اور اللہ پاک کی راہ میں پہنچنے والی گردوغبار اور دوزخ کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے۔(جامع ترمذی، جلد اول، حدیث:1701)

مجھ کو آقا عطا اپنا عشق اور خوفِ خدا کیجئے( وسائل بخشش)

ایک اور حدیث: میں ہے کہ حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہ روایت کرتے ہیں: میں نےنبی رحمت، شفیعِ اُمّت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی، (ایک) وہ آنکھ جو اللہ پاک کے خوف سے روئی، ( دوسری) وہ آنکھ جس نے اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دے کر گزاری۔(جامع ترمذی، 4/32، حدیث:1639)

تیرے خوف سے تیرے ڈر سے ہمیشہ میں تھر تھر رہوں کانپتی یا الٰہی

حضرت کعب الاحبار رحمۃُ اللہِ علیہ کا ارشاد ہے:جس شخص کی آنکھوں سے خوفِ خدا کے سبب آنسو جاری ہو جائیں اور اس کے قطرے زمین پر گریں تو جہنم کی آگ اسے کبھی نہیں چھوئے گی۔(حلیۃ الاولیاء، جلد 5، صفحہ 401، رقم 7516)معلوم ہوا !اللہ پاک کے خوف سے رونا سعادت مندوں کا حصّہ ہے، الغرض خوفِ خدا کے سبب رونا انبیائے کرام علیہم السلام، صحابہ کرام علیہمُ الرضوان ، تابعینِ عظام، اولیائے کرام کا طریقہ ہے۔ہمیں بھی اللہ پاک وہ آنکھ عطا کرے، جو ہر گھڑی اس کے خوف میں روتی رہے، وہ دل عطا کرے، جو ہر لمحہ اس کے خوف سے روتا رہے۔آمین

میرے اَشک بہتے رہیں کاش ہر دم تیرے خوف سے یا خدا یا الٰہی( وسائل بخشش)


خوف خدا میں رونا ایک ایسی نعمت ہے،  اس کے سبب انسان گناہوں کی دَلدل سے محفوظ رہ سکتا ہے، جب ارتکابِ گناہ کی ساری رکاوٹیں دور ہو جائیں تو خوفِ خدا ہی انسان کو گناہوں میں مبتلا ہونے سے روک سکتا ہے، خوف ِخدا اور عشقِ مصطفی میں رونا ایک عظیم الشان نیکی ہے، اس کا جاہ و جلال دل و نظر میں سما جاتا ہے تو بندہ اس کے خوف سے لرزنے لگتا ہے، جو شخص اپنے ربّ سے جتنا ڈرتا ہے، اتنا ہی اسے زیادہ قربِ الٰہی نصیب ہوتا ہے، ربِّ کریم قرآن پاک میں خود ہی ارشاد فرماتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27 ، رحمٰن: 46)اس آیت سے معلوم ہوا!اللہ پاک کا خوف بہت اعلی نعمت ہے، اللہ پاک سب مسلمانوں کو اپنا خوف نصیب کرے۔امیر المؤمنین حضرت عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے زمانہ مبارک میں ایک نوجوان بہت متقی و پرہیزگار اور عبادت گزار تھا، حتی کہ حضرت عمر رضی اللہُ عنہ بھی اس کی عبادت پر تعجب کیا کرتے تھے، وہ نوجوان نمازِ عشاء مسجد میں ادا کرنے کے بعد اپنے بوڑھے باپ کی خدمت کرنے کے لئے جایا کرتا تھا، راستے میں خوبرو عورت اسے اپنی طرف بلاتی ، لیکن یہ نوجوان اس پر توجہ دیئے بغیر نگاہیں جھکائے گزر جایا کرتا تھا، آخر ایک دن وہ نوجوان شیطان کے ورغلانے اور اس عورت کی دعوت پر برائی کے ارادے سے اس کی جانب بڑھا ، لیکن دروازے پر پہنچا تو اسے اللہ پاک کا یہ فرمان عالیشان یاد آگیا:اِنَّ الَّذِیْنَ اتَّقَوْا اِذَا مَسَّہُمْ طٰئِفٌ مِّنَ الشَّیْطٰنِ تَذَکَّرُوْا فَاِذَاھُمْ مُّبْصِرُوْن۔ ترجمہ:بے شک جب شیطان کی طرف سے پرہیز گاروں کو یہ خیال آتا ہے تو وہ فورا حکمِ خدا یاد کرتے ہیں، پھر اسی وقت ان کی آنکھیں کھل جاتی ہیں۔اس آیت مبارکہ کی یاد آتے ہی اس کے دل پر خوفِ خد اس قدر غالب ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر زمین پر گر گیا، جب یہ بہت دیر تک گھر نہیں پہنچا تو اس کا بوڑھا باپ اسے تلاش کرتا ہوا وہاں پہنچا اور لوگوں کی مدد سے اسے اٹھا کر گھر لے آیا ، ہوش آنےپر باپ نے تمام واقعہ دریافت کیا، نوجوان پورا واقعہ بیان کیا کہ جب اس آیت مبارکہ کا ذکر کیا تو ایک مرتبہ پھر اس پر اللہ پاک کا شدید خوف غالب ہوا ، اس نے ایک زور دار چیخ ماری اور اس کا دم نکل گیا، راتوں رات ہی اس کے غسل و کفن ودفن کا انتظام کر دیا گیا، صبح جب یہ واقعہ حضرت عمر رضی اللہُ عنہ کی خدمت میں پیش کیا گیا تو آپ اس کے باپ کے پاس تعزیت کے لئے تشریف لے گئے اور اس سے فرمایا :آپ نے ہمیں اطلاع کیوں نہیں دی؟(تاکہ ہم بھی جنازے میں شریک ہو جاتے)۔اس نے عرض کی:امیر المؤمنین! اس کا انتقال رات میں ہوا تھا اور(آپ کے آرام کا خیال کرتے ہوئے بتانا مناسب معلوم نہ ہوا)، آپ نے فرمایا: مجھے اس کی قبر پر لے چلو، وہاں پہنچ کر آپ نے یہ آیت مبارکہ پڑھی:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚ ۔ترجمہ کنزالایمان:اور جو اپنے ربّ کے حضور کھڑے ہونے سے ڈرے اس کے لئے دو جنتیں ہیں۔(پ 27 ، رحمٰن: 46)تو قبر میں اس نوجوان نے جواب دیتے ہوئے کہا:یا امیر المؤمنین! بے شک میرے ربّ نے مجھے دو جنتیں عطا فرمائی ہیں۔(ابن عساکر ،الخ 45/450، د،الہوئی، الباب الثانی والثلاثون فی فضل من ذکر ربّہ فترک ذنبہ، صفحہ 190۔191) حدیث: پاک کی روشنی میں خوفِ خدا کے فضائل:بخاری شریف میں حضور اکرم، نور مجسم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمان عالیشان ہے:اَنَا اَخْوَفْلُمْ لِلّٰہِیعنی میں تم سب سے زیادہ خوف خدا رکھتا ہوں۔(صحیح بخاری، جلد 2، کتاب الادب، صفحہ 901)تاجدار حرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:حضرت جبرائیل علیہ السلام جب بھی میرے پاس آئے تو اللہ پاک کے خوف سے کانپتے تھے۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 233)نبی اکرم، تاجدارِ عرب و عجم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا فرمانِ معظم ہے:جس مؤمن کی آنکھوں سے اللہ پاک کے خوف سے آنسو جاری ہو جائیں، اگرچہ مکھی کے پر کے برابر ہی ہوں تو چہرے کی گرمی کی وجہ سے اسے کوئی تکلیف پہنچتی ہے تو اللہ پاک اس کی وجہ سے اسے جہنم پر حرام کر دیتا ہے۔(شعب الایمان، جلد 1، صفحہ 490، حدیث: 802)حضرت عمر بن عبداللہ رضی اللہُ عنہ فرماتے ہیں: میں نے امیر المؤمنین عمر فاروق رضی اللہُ عنہ کے پیچھے نماز پڑھی تو دیکھا کہ تین صفوں تک ان کے رونے کی آواز پہنچ رہی تھی۔(حلیۃالاولیاء ، 89، حدیث: 141)


خوفِ خدا :خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہو جائے اور گناہوں سے دور رہے، یقیناً خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی ایک بہت بڑی سعادت ہے، ربّ کریم نے قرآن مجید میں متعدد جگہ اس صفت کو اختیار کرنے کا فرمایا،جیسے ایک جگہ ارشاد فرمایا:وَاِیَّایَ فَارْھَبُوْنَاور خاص میرا ہی ڈر رکھو۔(پ 1، البقرہ:40)

یاربّ میں تیرے خوف سے ڈرتی رہوں ہر دم دیوانی شہنشاہِ مدینہ کی بنا دے

جنت میں اعلی مقام:بیشک اپنے پروردگار کا خوف اپنے دل میں بسانے والوں کے لئے دونوں جہانوں میں کامیابی ہی کامیابی ہے۔ احیاء العلوم جلد4، صفحہ201میں ہے:آگ اس جگہ کو نہ چھوئے گی، جہاں خوفِ خدا کی وجہ سے آنسو لگے ہوں۔ربِّ کریم کا فرمان ہے:اِنَّ الْمُتَّقِیْنَ فِیْ جَنّٰتِ وَّعُیُوْنٍ۔بے شک ڈر والے باغوں اور چشموں میں ہیں۔(پ14، الحجر:45)مندرجہ بالا آیت کریمہ سے معلوم ہوا!بے شک اللہ پاک سے ڈرنے والوں کے لئے جنت میں باغات اور چشمے موجود ہیں، اپنے ربّ سے ڈرنے والے ہی سعادتمند اس کا قرب پاتے ہیں، جیسا کہ ارشاد ہوتا ہے:بیشک اللہ کے یہاں تم میں زیادہ عزت والا وہ ہے، جو تم میں زیادہ پرہیزگار ہے۔(پ 26، الحجرات:13)گناہوں سے بخشش:خوفِ خدا سے رونے والوں کے صدقے دوسرے گنہگاروں کی بخشش فرما دی جاتی ہے، یہاں تک کہ فرشتے بھی ان کے صدقے گنہگاروں کی مغفرت کی دعا مانگتے ہیں، چنانچہ ایک مرتبہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خطبہ دیا تو حاضرین میں سے ایک شخص رو پڑا ، یہ دیکھ کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر آج تمہارے درمیان وہ تمام مؤمن موجود ہوتے، جن کے گناہ پہاڑوں کے برابر ہیں تو انہیں اس ایک شخص کے رونے کی وجہ سے بخش دیا جاتا، کیونکہ فرشتے بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے اور دعا کر رہے تھے: اَللّٰہُمَّ شَفِّعِ الْبَکَّائِیْنَ فِیْمَنْ لَّمْ یَبْكِ۔اے اللہ پاک نہ رونے والوں کے حق میں رونے والوں کی شفاعت قبول فرما۔(شعب الایمان، جلد 1، صفحہ 494، حدیث: 810)آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:وہ شخص جہنم میں داخل نہیں ہوگا، جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو۔خوف خدا سے گرے آنسو کی فضیلت:خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی سے گرنے والے آنسو بڑی فضیلت کے حامل ہیں، حضرت مولانا روم فرماتے ہیں:جب خوفِ خدا سے کسی کے آنسو جاری ہوتے ہیں تو رحمت کے پھول کھلتے ہیں۔اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہنا میرے نزدیک ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے بہتر ہے۔(شعب الایمان، جلد 1، صفحہ 502، حدیث: 842)آگ اس جگہ کوئی نہ چھوئے گی، جہاں خوفِ خدا کی وجہ سے آنسو لگے ہوں۔(احیاء العلوم، جلد 4، صفحہ 201)جو آنکھیں خوفِ خدا اور عشق مصطفی کے باعث آنسوؤں سے بھر جائیں تو آنسو کے پہلے قطرے کے گرنے کے ساتھ ہی آگ کے کئی سمندر بجھا دیئے جاتے ہیں۔خوفِ خدا میں رونا بڑی خوش قسمتی ہے، جو رو سکتا ہو تو وہ روئے اور جو نہ رو سکتا ہو، جیسے کسی کو رونا نہ آئے تو رونے جیسی صورت بنا لے کہ بے شک اچھوں کی نقل بھی اچھی ہے اور جو شخص خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی کی وجہ سے روئے تو اسے چاہئے کہ آنسوؤں کو کپڑے سے صاف نہ کرے، بلکہ رخسار پر بہہ جانے دے کہ وہ بروزِ قیامت اسی حالت میں ربِّ کریم کی بارگاہ میں حاضر ہو گا۔اللہ پاک ہمیں نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے صدقے خوفِ خدا میں رونے والی آنکھ نصیب فرمائے۔آمین

جی چاہتا ہے پھوٹ کے روؤں تیرے ڈر سے اللہ مگر دل سے قساوت نہیں جاتی


خوف خدا  میں رونا گناہوں کی آگ کو بجھاتا ہے، دلوں کی کھیتی کو زندہ کرتا اور مطلوب تک پہنچاتا ہے، اللہ پاک نے کسی آسمانی کتاب میں ارشاد فرمایا:میرے عزت و جلال کی قسم!جو بندہ میرے خوف سے روئے گا، میں اس کے بدلے نور سے اُسے خوشی عطا کروں گا، میرے خوف سے رونے والوں کو بشارت ہو کہ جب رحمت نازل ہوتی ہے تو سب سے پہلے انہی پر نازل ہوتی ہے اور میرے گناہ گار بندوں سے کہہ دو کہ وہ میرے خوف سے رونے والوں کی محفل اختیار کریں، تاکہ جب رونے والوں پر رحمت نازل ہو تو ان کو بھی رحمت پہنچے۔حدیث: مبارکہ میں ہے:حضرت نضر بن سعد رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: کسی کی آنکھ سے خشیتِ الٰہی پاک سے آنسو بہتے ہیں تو اللہ پاک اس کے چہرے کو جہنم پر حرام فرما دیتا ہے، اگر اس کے رخسار پر بہہ جائے تو قیامت کے دن نہ وہ ذلیل ہوگا۔ اگر کوئی غمگین شخص اللہ پاک کے خوف سے کچھ لوگوں میں روئے تو اللہ پاک اس کے رونے کے سبب ان لوگوں پر بھی رحم فرماتا ہے، آنسو کے علاوہ ہر عمل کا وزن کیا جائے گا اور آنسو کا ایک قطرہ آگ کے سمندر کو بجھا دیتا ہے۔حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہُ عنہما نے ارشاد فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے آنسو کا ایک قطرہ بہانا مجھے ایک ہزار دینار صدقہ کرنے سے زیادہ افضل ہے۔حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے ،حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا:جس مسلمان کی آنکھ سے مکھی کے سر کے برابر خوف خدا کی وجہ سے آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آ گریں تو اللہ پاک اس پر دوزخ کو حرام فرما دے گا۔ حضرت احمد بن ابی حواری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:میں نے اپنی لونڈی کو خواب میں دیکھا کہ اس سے زیادہ حسین کوئی عورت نہ دیکھی، اس کا چہرہ حسن و جمال سے دمک رہا تھا، میں نے اس سے پوچھا:تیرا چہرہ اتنا روشن کیوں ہے؟تو وہ کہنے لگی:آپ کو وہ رات یاد ہے، جب آپ رحمۃُ اللہِ علیہ اللہ پاک کے خوف سے روئے تھے؟میں نے کہا:جی، اس نے کہا:آپ کے آنسو کا ایک قطرہ میں نے اٹھا کر اپنے چہرے پر مل لیا تو چہرہ ایسا ہو گیا، جیسا آپ ملاحظہ فرما رہے ہیں۔قیامت کے دن تمام اعضاء گواہی دیں گے اور اعضاء گواہی دیں گے، مولا! اس نے حرام کام کئے تھے اور اس کے لئے جہنم کا حکم دے دیا جائے گا، جب اس کے لئے جہنم کا حکم دیا جائے گا تو اس شخص کی سیدھی آنکھ کا بال ربّ کریم سے کچھ عرض کرنے کی اجازت طلب کرے گا، اجازت ملنے پر سیدھی آنکھ کا ایک بال عرض کرے گا:الٰہی! کیا تو نے نہیں فرمایا تھا کہ میرا جو بندہ اپنی آنکھ سے کسی بال کو میرا خوف سے بہائے جانے والے آنسوؤں سے تر کرے گا، میں اس کی بخشش فرما دوں گا؟ اللہ پاک ارشاد فرمائے گا:کیوں نہیں، تو وہ بال عرض کرے گا: میں گواہی دیتا ہوں کہ تیرا یہ گنہگار بندہ تیرے خوف سے رویا تھا، جس سے میں بھیگ گیا تھا، یہ سن کر اللہ پاک اس بندے کو جنت میں جانے کا حکم فرما دے گا۔ایک منادی پکار کر کہے گا:سنو! فلاں بن فلاں اپنی آنکھ کے ایک بال کی وجہ سے جہنم سے نجات پا گیا۔(کتاب الرقۃ والبکاء، ابن ماجہ، طبرانی، خوف خدا)

رونے والی آنکھیں مانگو رونا سب کا کام نہیں ذکرِ محبت عام ہے لیکن سوزِ محبت عام نہیں


خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے،  جو کسی ناپسندیدہ اَمر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہو، مثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہو جانے کا ڈر۔جب کہ خوفِ خدا کا مطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔(احیاء علوم الدین، باب بیان حقیقۃ الخوف4/190 ماخوذا، خوف خدا، صفحہ14)ربّ العالمین نے خود قرآن مجید میں متعدد مقامات پر اس کو اختیار کرنے کا حکم فرمایا ہے، جسے درج ذیل آیات میں ملاحظہ کیا جاسکتا ہے:وَ لِلّٰهِ مَا فِی السَّمٰوٰتِ وَ مَا فِی الْاَرْضِؕوَ لَقَدْ وَصَّیْنَا الَّذِیْنَ اُوْتُوا الْكِتٰبَ مِنْ قَبْلِكُمْ وَ اِیَّاكُمْ اَنِ اتَّقُوا اللہَ۔ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک تاکید فرمائی ہے ہم نے ان سے، جو تم سے پہلے کتاب دیئے گئے اور تم کو کہ اللہ سے ڈرتے رہو۔(پ 5، النساء:131) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ وَ قُوْلُوْا قَوْلًا سَدِیْدًاۙ۔ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور سیدھی بات کہو۔(پ22،الاحزاب:70)فَلَا تَخْشَوْهُمْ وَاخْشَوْنِ۔ترجمۂ کنزالایمان:تو اُن سے نہ ڈرو اور مجھ سے ڈرو۔(پ6،المائدہ:3) یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ اتَّقُوْا رَبَّكُمُ الَّذِیْ خَلَقَكُمْ مِّنْ نَّفْسٍ وَّاحِدَةٍ۔ترجمہ کنزالایمان:اے لوگو!اپنے ربّ سے ڈرو، جس نے تمہیں ایک جان سے پیدا کیا۔(پ4، النساء:1)یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللہَ حَقَّ تُقٰتِهٖ وَ لَا تَمُوْتُنَّ اِلَّا وَ اَنْتُمْ مُّسْلِمُوْنَ۔ترجمہ کنزالایمان:اے ایمان والو!اللہ سے ڈرو جیسا کہ اس سے ڈرنے کا حق ہے اور ہرگز نہ مرنا،مگر مسلمان۔(پ4،ال عمران:102) وَ خَافُوْنِ اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ۔ترجمہ کنزالایمان:اور مجھ سے ڈرو، اگر ایمان رکھتے ہو۔(پ4، ال عمران:175)وَ اِیَّایَ فَارْهَبُوْنِ۔ترجمہ کنزالایمان:اور خاص میرا ہی ڈر رکھو۔(پ1، البقرہ:40)وَ یُحَذِّرُكُمُ اللہ نَفْسَهٗؕ۔ترجمہ کنزالایمان:اللہ تمہیں اپنے غضب سے ڈراتا ہے۔(پ3، ال عمران:28)وَاتَّقُوْا یَوْمًا تُرْجَعُوْنَ فِیْهِ اِلَى اللہ۔ترجمہ کنزالایمان:اور ڈرو اس دن سے، جس میں اللہ کی طرف پھرو گے۔(پ3، البقرہ:281)خوف خدا کے متعلق احادیث مبارکہ:عَنِ ابْنِ عباس رضی اللہُ عنہما قَالَ:سَمِعْتُ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم یَقُوْلُ:عَیْنٌ بَکَتْ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہ، وَعْیْنٌ بَاتَتْ تَحْرُسُ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ۔(ترمذی فی السنن،4/92، الرقم 1439)حضرت عبداللہ بن عباس رضی اللہُ عنہما روایت کرتے ہیں،میں نے حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا:دو آنکھوں کو آگ نہیں چھوئے گی، (ایک) وہ آنکھ جو اللہ پاک کے خوف سے روئی اور (دوسری) وہ آنکھ جس نے اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دے کر رات گزاری۔عَنْ مُعَاوِیَۃَ بْنِ حَیْدَةَ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ:قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: ثَلَاثَۃٌ لَاتَرَی اَعْیُنُہُمُ النَّارَعَیْنٌ حَرَسَتْ فِی سَبِیْلِ اللّٰہ، وَعَیْنٌ غَضَّتْ عَنْ مَحَارِمِ اللّٰہِ۔ (طبرانی فی المعجم الکبیر19/416، رقم1003، والسیوطی فی الدارالمنثور1/593)حضرت معاویہ بن حیدہ رضی اللہُ عنہ کا بیان ہے ،رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:تین افراد کی آنکھیں دوزخ نہیں دیکھیں گی، ایک آنکھ وہ ہے جس نے اللہ پاک کی راہ میں پہرہ دیا، دوسری وہ آنکھ جو اللہ پاک کی خشیت سے روئی اور تیسری وہ جو اللہ پاک کی حرام کردہ چیزوں سے باز رہی۔عَنْ اَنَسٍ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: یَقُوْلُ اللّٰہ تعالی: اَخْرِجُوْا مِنَ النَّارِ مَنْ ذَکَرَنِی یَوْمًا اَوْ خَافَنِی فِی مَقَامٍ۔( ترمذی فی السنن، کتاب صفۃ جہنم، باب ما جاء ان للنار نفسین4/712، رقم2594)حضرت انس رضی اللہُ عنہ سے مروی ہے ، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک فرمائے گا:دوزخ میں سے ہر ایسے شخص کو نکال دو، جس نے ایک دن بھی مجھے یاد کیا یا میرے خوف سے کہیں بھی مجھ سے ڈرا۔عَنْ اَبِی ہُرَیْرَةَ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: لَا یَلِجُ النَّارَ رَجُلٌ بَکَی مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہِ حَتَّی یَعُوْدَ اللَّبَنُ فِی الضَّرْعِ، وَلَا یَجْتَمِعُ غُبَارٌ فِی سَبِیْلِ اللّٰہِ وَدُخَانُ جَہَنَّمَ۔(ترمذی فی السنن،4/171، رقم1633)حضرت ابوہریرہ رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اللہ پاک کے خوف سے رونے والا انسان دوزخ میں داخل نہیں ہوگا، جب تک کہ دودھ، تھن میں واپس نہ چلا جائے اور اللہ پاک کی راہ میں پہنچنے والی گردوغبار اور جہنم کا دھواں جمع نہیں ہو سکتے۔عَنْ عَبْدِاللّٰہ بْنِ مَسْعُوْدٍ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رسول اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: مَا مِنْ عَبْدٍ مُؤمِنٍ یَخْرُجُ مِنْ عَیْنَیْہِ دُمُوْعٌ وَاِنْ کَانَ مِثْلَ رَاْسِ الذُّبَابِ مِنْ خَشْیَۃِ اللّٰہ ثُمَّ تُصِیْبُ شَیْئًا مِنْ حُرِّ وَجْھِہِ اِلَّا حَرَّمَہُ اللّٰہ عَلَی النَّارِ۔(ابن ماجہ فی السنن، 2/1404، الرقم4197)حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا: جس مسلمان کی آنکھ سے مکھی کے سَر کے برابر خوفِ خداوندی کی وجہ سے آنسو بہہ کر اس کے چہرے پر آگریں گے تو اللہ پاک اس پر دوزخ کو حرام فرما دے گا۔عَنِ الٰہیثَمِ بْنِ مَالِکٍ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: خَطَبَ رسولُ اللّٰہ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: النَّاسَ فَبَکَی رَجُلٌ یَدَیْہِ فَقَالَ النَّبِیُّ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: لَوْ شَہِدَکُمْ الْیَوْمَ کُلُّ مُؤْمِنٍ عَلَیْهِ مِنَ الذُّنُوْبِ کَاَمْثَالِ الْجِبَالِ الرَّوَاسِی لَغُفِرَھُمْ بِبُکَاءِ ھَذَا الرَّجُلِ وَ ذَلِکَ اَنَّ الْمَلَائِکَۃَ تَبْکِی وَ تَدْعُوْلَہُ وَتَقُوْلُ: اَللَّھُمَّ شَفِّعِ الْبَکَّائِیْنَ فِیْمَنْ لَمْ یَبْکِ ۔( بہیقی فی شعب الایمان1/494، رقم 810)حضرت ہیثم بن مالک رضی اللہُ عنہ سے روایت ہے، وہ بیان کرتے ہیں:حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے لوگوں سے خطاب فرمایا، تو خطاب کے دوران آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سامنے بیٹھا ہوا ایک شخص رو پڑا، اس پر حضور نبی اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اگر آج تمہارے درمیان وہ تمام مؤمن موجود ہوتے، جن کے گناہ پہاڑوں کے برابر ہیں تو انہیں اس ایک شخص کے رونے کی وجہ سے بخش دیا جاتا اور یہ اس وجہ سے ہے کہ فرشتے بھی اس کے ساتھ رو رہے تھے اور دعا کر رہے تھے:اے اللہ پاک!نہ رونے والوں کے حق میں، رونے والوں کی شفاعت قبول فرما۔عَنْ مُطَرِّفٍ عَنْ اَبِیْہِ قَالَ: رَاَیْتُ رسول اللّٰہِ صلی اللّٰہ علیہ واٰلہٖ وسلم: یُصَلِّی وَفِی صَدْرِہِ اَزِیْزٌِ کَاَزِیْزِ الْمِرْجَلِ مِنَ الْبُکَاءِ۔ (ابن حبان فی الصحیح3/30، رقم 753)حضرت مطرف اپنے باپ سے روایت کرتے ہیں،میں بارگاہِ نبوی میں حاضر ہوا، آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نماز ادا فرما رہے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے سینہ اَقدس اور اَندروں جسد میں رونے کی وجہ سے ایسا جوش اور اُبال محسوس ہوتا تھا، جیسے کہ دیگِ جوشاں چولہے پر چڑھی ہو۔عَنْ زَیْدِ ابْنِ اَرْقَمَ رضی اللّٰہُ عنہ قَالَ: قَالَ رَجُلٌ: یَارسول اللّٰہ، بِمَ اَتَّقِی النَّارَ؟ قَالَ: بِدُمُوْعِ عَیْنَیْکَ فَاِنَّ عَیْنًا بَکَتْ مِنْ خَشْیَةِ اللّٰہ لَا تَمَسُّھَا النَّارُ اَبَدًا۔ (ابن رجب الحنبلی فی التخفیف من النار1/42، والمنذری فی الترغیب والترھیب4/114، رقم 5030)حضرت زید بن ارقم رضی اللہُ عنہ نے بیان کیا ہے :ایک آدمی نے عرض کی:یارسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم !میں دوزخ سے کیسے بچ سکتا ہوں؟آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:اپنی آنکھوں کے ذریعے، جو آنکھ اللہ پاک کے خوف سے رو پڑی، اسے کبھی(دوزخ کی) آگ نہیں چھوئے گی۔

خوف کے تین درجات ہیں:1۔ضعیف(یعنی کمزور):یہ وہ خوف ہے جو انسان کو کسی نیکی کے اپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت نہ رکھتا ہو، مثلاً جہنم کی سزاؤں کے حالات سُن کر محض جُھرجُھری لے کر رہ جانا اور پھر سے غفلت و معصیت(گناہ) میں گرفتار ہو جانا۔2۔معتدل(یعنی متوسط):یہ وہ خوف ہےجو انسان کو نیکی کے اَپنانے اور گناہ کو چھوڑنے پر آمادہ کرنے کی قوت رکھتا ہو، مثلاً عذابِ آخرت کی وعیدوں کو سن کر ان سے بچنے کے لئے عملی کوشش کرنا اور اس کے ساتھ ساتھ ربّ کریم سے اُمیدِ رحمت بھی رکھنا۔3۔قوی(یعنی مضبوط):یہ وہ خوف ہے، جو انسان کو نا اُمیدی، بے ہوشی اور بیماری وغیرہ میں مبتلا کر دے، مثلاً اللہ پاک کے عذاب وغیرہ کا سُن کر اپنی مغفرت سے نااُمید ہو جانا، یہ بھی یاد رہے کہ ان سب میں بہتر درجہ معتدل ہے، کیونکہ خوف ایک ایسے تازیانے(کوڑے) کی مثل ہے، جو کسی جانور کو تیز چلانے کے لئے مارا جاتا ہے، لہٰذا اگر اس تازیانے کی ضرب(چوٹ) اتنی ضعیف(کمزور) ہو کہ جانور کی رفتار میں ذرہ بھر بھی اضافہ نہ ہو تو اس کا کوئی فائدہ نہیں اور اگر یہ اتنی قوی ہو کہ جانور اس کی تاب نہ لاس کے اور اتنا زخمی ہوجائے کہ اس کے لئے چلنا ہی ممکن نہ رہے تو یہ بھی نفع بخش نہیں اور اگر یہ معتدل ہو کہ جانور کی رفتار میں بھی خاطر خواہ اضافہ ہوجائے اور وہ زخمی بھی نہ ہو تو یہ ضرب بے حد مفید ہے۔(احیاء العلوم4/457، خوف خدا ،صفحہ 18) خوفِ خدا کی علامات:حضرت فقیہ ابواللیث سمرقندی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اللہ پاک کے خوف کی علامت آٹھ چیزوں میں ظاہر ہوتی ہے۔ 1۔انسان کی زبان میں:وہ اس طرح کہ ربّ کریم کا خوف اس کی زبان کو جھوٹ، غیبت، فضول گوئی سے روکے گا اور اُسے ربّ کریم کے ذکر، تلاوتِ قرآن اور علمی گفتگو میں مشغول رکھے گا۔2۔اس کے شکم میں: وہ اس طرح کہ وہ اپنے پیٹ میں حرام کو داخل نہ کرے گا اور حلال چیز بھی بقدرِ ضرورت کھائے گا۔3۔اس کی آنکھ میں:وہ اس طرح کہ وہ اسے حرام دیکھنے سے بچائے گا اور دنیا کی طرف رغبت سے نہیں، بلکہ حصولِ عبرت کے لئے دیکھے گا۔4۔اس کے ہاتھ میں:وہ اس طرح کہ وہ کبھی بھی اپنے ہاتھ کو حرام کی جانب نہیں بڑھائے گا، بلکہ ہمیشہ اطاعتِ الٰہی میں استعمال کرے گا۔5۔اس کے قدموں میں:وہ اس طرح کہ وہ انہیں ربّ کریم کی نافرمانی میں نہیں اٹھائے گا، بلکہ اس کے حکم کی اطاعت کے لئے اٹھائے گا۔6۔اس کے دل میں:وہ اس طرح کہ وہ اپنے دل سے بغض، کینہ اور مسلمان بھائیوں سے حَسد کرنے کو دور کر دے اور اس میں خیر خواہی اور مسلمانوں سے نرمی کا سلوک کرنے کا جذبہ بیدار کرے۔7۔اس کی اطاعت و فرمانبرداری میں:اس طرح کے وہ فقط ربِّ کریم کی رضا کے لئے عبادت کرے اور ریاو نفاق سے خائف رہے۔8۔اس کی سماعت میں:اس طرح کے وہ جائز بات کے علاوہ کچھ نہ سنے۔(تنبیہ الغافلین)


خوف سے مراد وہ قلبی کیفیت ہے جو کسی ناپسندیدہ امر کے پیش آنے کی توقع کے سبب پیدا ہومثلاً پھل کاٹتے ہوئے چھری سے ہاتھ کے زخمی ہوجانے کا ڈر۔جبکہ خوفِ خدا کامطلب یہ ہے کہ اللہ پاک کی بے نیازی ، اس کی ناراضی، اس کی گرفت اور اس کی طرف سے دی جانے والی سزاؤں کا سوچ کر انسان کا دل گھبراہٹ میں مبتلا ہوجائے۔سورۂ رحمن میں خوف خدا رکھنے والوں کے لئے دو جنتوں کی بشارت سنائی گئی ہے، چنانچہ ارشاد ہوتا ہے:وَ لِمَنْ خَافَ مَقَامَ رَبِّهٖ جَنَّتٰنِۚتر جمۂ کنز الایمان :  اور جو اپنے رب کے حضور کھڑے ہو نے سے ڈرے اس کے لیے دو جنتیں ہیں۔(پ27،رحمٰن:46) معلوم ہوا!اللہ کریم کا خوف رکھنے والی کس قدر خوش نصیب ہے۔جو اللہ کریم کہ خوف سے گناہوں سے بچتی ہے اور اللہ کریم کے خوف سے زیادہ سے زیادہ نیکیاں کرنے کی کوشش کرتی ہے اس کے لئے اللہ پاک نے دو جنتیں تیار کر رکھی ہیں ۔ایک اور جگہ اللہ کریم نے اپنے خوف سے ڈرنے والوں کے بارے میں ارشاد فرمایا ہے :وَ مَنْ یُّطِعِ اللہَ وَ رَسُوْلَهٗ وَ یَخْشَ اللہَ وَ یَتَّقْهِ فَاُولٰٓىٕكَ هُمُ الْفَآىٕزُوْنَتر جمۂ کنزالایمان : اور جو حکم مانے اللہ اور اس کے رسول کا اوراللہ سے ڈرے اور پرہیز گا ری کرے تو یہی لوگ کا میاب ہیں ۔(پ18،النور: 52 )ہر کوئی کامیابی کا خواہشمند ہوتا ہے ہر کوئی کسی نہ کسی field میں کامیاب ہونا چاہتا ہے۔۔حقیقی کا میاب تو وہ ہی ہوتا ہے جو اللہ پاک اور اس کے رسول کو راضی کر لےتو اللہ کریم نہ آخرت میں کامیاب ہونے کے لیے بتا دیا کہ خوف خدا کو ہمیشہ اپنے دلوں میں بسا لو ۔ فرشتہ جو کہ گناہوں سے پاک ہوتے ہیں اور دن رات اللہ کریم کی حمد کرتے ہیں وہ بھی اللہ پاک کی خفیہ تدبیر سے ڈرتے چنانچہ نبی محترم، شفیع معظم  صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ایک مرتبہ حضرت جبرائیل کو دیکھا کہ وہ رو رہے ہیں تو آپ نے دریافت فرمایا: اے جبرائیل!تم کیوں روتے ہو حالانکہ تم بلندترین مقام پر فائز ہو؟انہوں نے عرض کی، میں کیوں نہ روؤں کہ میں رونے کا زیادہ حق دار ہوں کہ کہیں میں اللہ پاک کے علم میں اپنے موجودہ حال کے علاوہ کسی دوسرے حال میں نہ ہوں اور میں نہیں جانتا کہ کہیں ابلیس کی طرح مجھ پر ابتلا نہ آجائے کہ وہ بھی فرشتوں میں رہتا تھا ۔یہ سن کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم بھی رونے لگے۔یہ دونوں روتے رہے یہاں تک کہ ندا دی گئی:اے جبرائیل!اور اے محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم!اللہ پاک نے تم دونوں کو نافرمانی سے محفوظ فرمادیا ہے ۔پھر حضرت جبرائیل علیہ السلامچلے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم باہر تشریف لے آئے ۔(مکاشفۃ القلوب،ص317)سبحان اللہ!اللہ کریم اپنا ڈر رکھنے والوں کو کیسے نوازتا ہے!یہ مبارک ہستیاں تو پہلے ہی بخشی ہوئی ہیں۔مگر ان کا خوف خدا کا عالم کیسا تھا!ذریعۂ نجات:رب کریم کا خوف ذریعہ ٔنجات ہے ۔چنانچہ ارشاد فرمایا:وَ مَنْ یَّتَّقِ اللہ یَجْعَلْ لَّهٗ مَخْرَجًاۙ(2) وَّ یَرْزُقْهُ مِنْ حَیْثُ لَا یَحْتَسِبُؕتر جمۂ کنزالایمان: اور جواللہ سے ڈرےاللہ اس کے لیے نجات کی راہ نکا ل دے گا اور اسے وہاں سے روزی دے گا جہاں اس کا گمان نہ ہو۔(پ28، الطلاق:2،3) خوفِ خدا سے رونے والا: حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:جب یہ آیت نازل ہوئی:اَفَمِنْ هٰذَا حدیث: تَعْجَبُوْنَۙ(59) وَ تَضْحَكُوْنَ وَ لَا تَبْكُوْنَۙ ترجمہ کنزالایمان :تو کیا اس بات سے تم تعجب کرتے ہو ، اور ہنستے ہو اور روتے نہیں ۔( پ27، النجم:59، 60) تو اصحابِ صُفَّہ رَضیَ اللہُ عنہم اس قدر روئے کہ ان کے رخسار آنسوؤں سے تر ہو گئے ۔ انہیں روتا دیکھ کر رسول اکرم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم  بھی رونے لگے ۔آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلمکے بہتے ہوئے آنسو دیکھ کر وہ اور بھی زیادہ رونے لگے۔پھر آپ  نے ارشاد فرمایا:وہ جہنم میں داخل نہیں ہوگا جو اللہ پاک کے ڈر سے رویا ہو ۔ (شعب الایمان،،ج1، ص489، حدیث: 798)سبحان اللہ!اللہ کریم کا خوف رکھنے والااور اس کے خوف سے رونے والے کے لیے کیسے فضائل ہیں! وہ جہنم میں داخل ہی نہیں ہوگا۔اللہ پاک ہمیں اپنے خوف سے رونے والی آنکھ نصیب فرماے۔آمین۔