فرمان مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : اللہ تعالی اس شخص کو تروتازہ رکھے، جو مجھ سے کوئی بات سنے اور اُسے اسی طرح آگے پہنچادے، جس طرح سُنا، بعض وہ لوگ جن تک حدیث پہنچائی جاتی ہے، سننے والے سے زیادہ یاد رکھنے والے ہوتے ہیں۔

صحابہ کرام علیہم الرضوان آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے حدیث سنا کرتے اور وہ علم کی مجلس ہوتی تھی، صحابہ کرام آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیثوں کو قلمبند کرتے اور جو صحابی اس مجلس میں حاضر نہ ہوتے، ان تک وہ حدیث پہنچاتے، آپس میں احادیث کا تبادلہ کرتے اور آقا کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے ہر فرمان کو، تمام احادیث اپنے پاس محفوظ رکھتے اور ذوق و شوق سے اس کا تذکرہ بھی فرماتے تھے۔ اب جن لوگوں کو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا زمانہ میسر نہ ہوا اور انہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے فیض یافتہ صحابہ کرام کو پایاتو انہوں نے ان سے حدیث لے کر ذخیرہ محفوظ کر لیا، صحابہ کرام علیہم الرضوان کے دور سے ہی حدیث کو قبول کرنے اور اس کو روایت کرنے میں احتیاط شروع ہوگئی تھی، پھر تابعین و تبع تابعین کے دور میں علم الجرح والتعدیل ظہور پذیر ہوا۔

پھر علماء نے اس میں وسعت پیدا کی، حتی کہ حدیث سے متعلق بہت سے علوم میں بحث ظاہر ہوئی، جو اس کے ضبط،حدیث لینے اور ادا کرنے کی کیفیت، ناسخ و منسوخ کی معرفت اور حدیث غریب کی پہچان وغیرہ سے متعلق تھی، لیکن علماء اسے زبانی طور پرحفظ کرتے تھے۔

امام بخاری، امام مسلم، اصحاب سنن کا زمانہ آیا، انہوں نے اس سلسلے میں وہ کام کیا جو ان کی مرتب کی ہوئی کتب صحاح کی شکل میں سندوں کے ساتھ اور اصول کو پرکھتے ہوئے کتابی شکل میں ہمارے سامنے موجود ہے، جس سے ہم آسانی سے مستفیض ہو سکتےہیں۔لیکن ان احادیث کو جمع کرنے اور کتابی شکل میں ہمارے سامنے پیش کرنے میں علماء کرام کو جو مشقتیں پیش آئیں، اس کا احاطہ بھی ناممکن ہے ۔

سب سے پہلا سفر:

حضرت سیدنا فضل بن زیاد علیہ الرحمہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدناامام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ کو فرماتے سنا:"جب تم حضرت سیدنا معمر رحمۃ اللہ علیہ سے کسی کا موازنہ کرو گے، تو انہیں اس سے بڑھ کر پاؤگے کیونکہ انہوں نے طلبِ حدیث کے لئے یمن کا سفر فرمایا اور وہ پہلے شخص ہیں جنہوں نےاس کام کے لئے سفر فرمایا۔"

علماء کی مشقت:

حضرت سیدنا حاجی ابو مسعود عبد الرحیم رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضرت سیدنا ابن ظاہر رحمۃ اللہ علیہ کو فرماتے سنا کہ میں طلب حدیث کے لئے سفر کرنے کی وجہ سے دو مرتبہ خون آلود ہوا۔

محمد ثین کی ہمیشہ مدد ہوتی رہے گی:

فرمان مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم ہےکہ" میری امت کا ایک گروہ ہمیشہ حق پر رہے گا، اور ان کی مخالفت کرنے والا انہیں نقصان نہ پہنچا سکے گا" علمائے کرام فرماتے ہیں:" کہ اس گروہ سے مراد محمد ثین ہیں۔"

اللہعزوجل سے دعا ہے کہ علماء کرام کی صحبت سے فیضیاب ہونے اور حدیث نبوی صلی اللہ علیہ وسلم پر اخلاص کے ساتھ عمل کی توفیق عطا فرمائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


"میانہ روی" طرفین کے بیچ مُعتدل موقف سے عبارت ہے،    جس میں افراط و تفریط نہ ہو ، غلو و زیادتی اورکمی و زیادتی، اور کمی و کوتاہی نہ ہو، یہ روحانیت و مادیّت، واقعیت و مقالیّت اور اِنفرادیت و اجتماعیت کے درمیان ایک دُرُست پیمانہ ہے اور جیسا کہ کہا گیا ہے :

" الوسط فضیلۃ بین رذیلتین " یعنی "دو کمتریوں کے بیچ ایک فضیلت و برتری اعتدال اور میانہ روی کہلاتا ہے ۔

اللہ سبحانہ و تعالی فرماتا ہے :وَ كَذٰلِكَ جَعَلْنٰكُمْ اُمَّةً وَّسَطًا لِّتَكُوْنُوْا شُهَدَآءَ عَلَى النَّاسِ وَ یَكُوْنَ الرَّسُوْلُ عَلَیْكُمْ شَهِیْدًاؕ-

ترجمہ کنز الایمان :" اور بات یوں ہی ہے کہ ہم نے تمہیں کیا سب امتوں میں افضل کہ تم لوگوں پر گواہ ہو اور یہ رسول تمہارے نگہبان و گواہ "۔(پارہ 2، البقرہ ،آیت 143)

پھرمزیدفرمایا: كُنْتُمْ خَیْرَ اُمَّةٍ اُخْرِجَتْ لِلنَّاسِ تَاْمُرُوْنَ بِالْمَعْرُوْفِ وَ تَنْهَوْنَ عَنِ الْمُنْكَرِ وَ تُؤْمِنُوْنَ بِاللّٰهِؕ-

ترجمہ کنزالایمان:"تُم بہتر ہو، ان سب امتوں میں جو لوگوں میں ظاہر ہوئیں بھلائی کا حکم دیتے ہو اور برائی سے منع کرتے ہو اور اللہ پر ایمان رکھتے ہو" ۔(پارہ 3، آل عمران ، آیت 110)