قرآن پاک کلامُ اللہ ہے جسے اللہ پاک نے بنی نوع انسان کی ہدایت کے لیے نازل فرمایا ہے، قرآن پاک کا اسلوب اور اندازِ بیان اتنا دلنشین ہے کہ پڑھنے والے اور اس کو سمجھنے والے کے دل میں راسخ ہوجاتا ہے۔ قرآن پاک میں  اللہ پاک نے احکام بھی بیان فرمائے ہیں، دلائل بھی بیان فرمائے ہیں، مثالیں بھی بیان فرمائی ہیں، بشارتیں بھی عطا فرمائی ہیں اور عذابات سے بھی ڈرایا ہے تاکہ جس کی عقل جس درجے کی ہو وہ اس کے مطابق ہدایت حاصل کر سکے۔

ماہرینِ کلام کا بھی ایک یہ طریقہ ہوتا ہے کہ وہ اپنی بات کو اچھے انداز میں دوسروں کو ذہن نشین کروانے کےلیے مثالیں بیان کرتے ہیں،مثالوں کو بیان کرنے کی ایک حکمت یہ ہوتی ہے کہ سامعین اس بات کو اچھے سے سمجھ سکیں اور یاد رکھ سکیں، چونکہ قرآن پاک انسان کی ہدایت کے لیے نازل کیا ہے کہ انسان اس سے مکمل طور پر ہدایت حاصل کر سکے اس مقصد کی تکمیل کے لیے قرآن پاک کا ایک اسلوب یہ ہے کہ اللہ پاک نے قرآن پاک میں بہت سی مثالیں بیان فرمائی ہیں تاکہ انسان مثالوں کے ذریعے اس مضمون کو اچھے طریقے سے سمجھ سکے۔

مثالوں کو بیان کرنے کی دوسری حکمت یہ بھی ہوتی ہے کہ دلائل کے ذریعے کلام صرف عقل مند ہی سمجھ سکتے ہیں جبکہ مثال کے لیے ذریعے بے وقوف بھی کلام کو سمجھ لیتا ہے۔ اس حکمت کے تحت قرآن پاک میں اللہ پاک نے مثالیں بیان فرمائی ہیں۔

اسی طرح مثالوں کو بیان کرنے کی حکمت کے بارے میں خود اللہ پاک نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا: ترجمۂ ٔ کنز الایمان: اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔( ابراہیم: 25 ) یعنی اللہ تعالیٰ لوگوں کے لئے مثالیں اس لئے بیان فرماتا ہے تاکہ وہ نصیحت حاصل کریں اور ایمان لائیں کیونکہ مثالوں سے معنی اچھی طرح دل میں اتر جاتے ہیں۔ (تفسیر صراط الجنان)

ایک اور مقام پر اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمہ کنزالایمان:اور بے شک ہم نے لوگوں کے لیے اس قرآن میں ہر قسم کی مثال بیان فرمائی اور اگر تم ان کے پاس کوئی نشانی لاؤ تو ضرور کافر کہیں گے تم تو نہیں مگر باطل پر (الروم: 58)یعنی ہم نے ا س قرآن میں لوگوں کے لئے ہر طرح کی مثال بیان فرما دی جس کی انہیں دین اور دنیا میں حاجت ہے اور اس میں غورو فکر اور تَدَبُّر کرنے والا ہدایت اور نصیحت حاصل کر سکتا ہے اور مثالیں اس لئے بیان فرمائی گئیں کہ کافروں کو تنبیہ ہو اور انہیں عذاب سے ڈرانا اپنے کمال کو پہنچے،لیکن انہوں نے اپنی سیاہ باطنی اور سخت دلی کے باعث کچھ بھی فائدہ نہ اٹھایا بلکہ جب کوئی آیت ِقرآن آئی اس کو جھٹلا دیا اور اس کا انکار کر دیا۔ ( تفسیر صراط الجنان)

چونکہ مثالوں کا بیان حکمت کے تحت ہوتا ہے اسی لیے کسی عمدہ و اعلیٰ چیز کے بارے میں سمجھانا مقصود ہو تو اس کی مثال بھی کسی عمدہ و اعلیٰ شے سے دی جاتی ہے اور اگر کسی کم تر شے کے بارے میں بتانا مقصود ہو تو اس کی مثال بھی کسی ادنیٰ و کم تر شے سے دی جاتی ہے۔ اللہ پاک نے قرآن مجید میں بے شمار مثالیں بیان فرمائی ہیں جن میں سے چند مثالیں درج ذیل ہیں:

1۔وہ لوگ جنہوں نے اللہ تعالیٰ کو واحد معبود ماننے کی بجائے بتوں کو معبود بنا رکھا ہے اور ان کے ساتھ امیدیں وابستہ کی ہوئی ہیں تو ان بتوں کے عاجز اور بے اختیار ہونے کی مثال دیتے ہوئے اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: ترجمۂ ٔ کنزالایمان:ان کی مثال جنہوں نے الله کے سوا اور مالک بنالئے ہیں مکڑی کی طرح ہے اس نے جالے کا گھر بنایا اور بیشک سب گھروں میں کمزور گھر مکڑی کا گھر کیا اچھا ہوتا اگر جانتے۔ (العنکبوت: 41)

2۔راہِ خدا میں اپنا مال خرچ کرنے والوں کی فضیلت اور اجر و ثواب کو مثال کے ذریعے اللہ پاک نے اس انداز میں بیان فرمایا ہے: ترجمہ کنزالایمان:ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لئے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔ ( البقرۃ: 261)

3۔پیارے آقا ﷺ کافروں کو مسلسل دینِ حق کی دعوت دیتے رہتے۔ کافر سنتے تو تھے لیکن اس سے کچھ نفع حاصل نہ کرتے یعنی ایمان نہ لاتے۔ ان کافروں کی مثال کچھ اس انداز میں اللہ پاک نے بیان فرمائی: ترجمہ کنزالایمان: اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ پکار کے سوا کچھ نہ سنے، بہرے گونگے اندھے تو انہیں سمجھ نہیں۔ ( البقرۃ: 171)

4۔ریاکاری کے طور اپنا مال خرچ کرنے والوں کے بارے میں ارشادِ باری تعالیٰ ہے: ترجمہ کنزالایمان: کہاوت اس کی جو اس دنیا کی زندگی میں خرچ کرتے ہیں اس ہوا کی سی ہے جس میں پالا ہو وہ ایک ایسی قوم کی کھیتی پر پڑی جو اپنا ہی برا کرتے تھے تو اسے بالکل مارگئی اور اللہ نے ان پر ظلم نہ کیا ہاں وہ خود اپنی جان پر ظلم کرتے ہیں۔ (اٰل عمران:117)

5۔دنیا کی زندگی عارضی اور فنا ہونے والی ہے اس کو دوام نہیں اس کو مثال سے سمجھاتے ہوئے قرآن پاک میں کچھ اس طرح ارشادِ خداوندی ہے: ترجمہ کنزالایمان:اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتارا تو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔ ( الکہف: 45)

آخر میں اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں قرآنی مثالوں کو پڑھنے، سمجھنے، اس سے درس حاصل کرنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین ﷺ


پہلی مثال:الله عز وجل قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے۔ مَثَلُهُمْ كَمَثَلِ الَّذِی اسْتَوْقَدَ نَارًاۚ-فَلَمَّاۤ اَضَآءَتْ مَاحَوْلَهٗ ذَهَبَ اللّٰهُ بِنُوْرِهِمْ وَ تَرَكَهُمْ فِیْ ظُلُمٰتٍ لَّا یُبْصِرُوْنَ(۱۷) صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَرْجِعُوْنَۙ(۱۸) (البقرۃ: 18) ترجمہ کنز الایمان: ان کی کہاوت اس کی طرح ہے جس نے آگ روشن کی تو جب اس سے آس پاس سب جگمگا اٹھا اللہ ان کا نور لے گیا اور انہیں اندھیریوں میں چھوڑ دیا کہ کچھ نہیں سوجھتا بہرے گونگے اندھے تو وہ پھر آنے والے نہیں۔

اسکی تفسیر: اس میں ان لوگوں کی مثال ہے جنہیں الله تعالیٰ نے کچھ ہدایت دی یا اس پر قدرت بخشی پھر انہوں نے اسے ضائع کر دیا اور ابدی دولت کو حاصل نہ کیا، انکا انجام حسرت و افسوس اور حیرت و خوف ہے۔ اس میں وہ منافق بھی شامل ہیں جنہوں نے اظہارِ ایمان کیا اور دل میں کفر رکھ کر اقرار کی روشنی کو ضائع کر دیا۔ اور وہ مومن بھی جو ایمان لانے کے بعد مرتد ہو گئے۔ اور وہ جنہیں فطرتِ سلیمہ عطا ہوئی مگر روشنی ہونے کے با وجود فائدہ نہ اٹھایا گویا کہ یہ سب کچھ ہونے کے باوجود حق کو سننے ماننے کہنے اور دیکھنے سے محروم ہو گئے گویا سب کچھ بے کار ہے۔( صراط الجنان،1/22)

دوسری مثال: قرآن پاک میں ارشاد ہوتا ہے: اَوْ كَصَیِّبٍ مِّنَ السَّمَآءِ فِیْهِ ظُلُمٰتٌ وَّ رَعْدٌ وَّ بَرْقٌۚ-یَجْعَلُوْنَ اَصَابِعَهُمْ فِیْۤ اٰذَانِهِمْ مِّنَ الصَّوَاعِقِ حَذَرَ الْمَوْتِؕ-وَ اللّٰهُ مُحِیْطٌۢ بِالْكٰفِرِیْنَ(۱۹) یَكَادُ الْبَرْقُ یَخْطَفُ اَبْصَارَهُمْؕ-كُلَّمَاۤ اَضَآءَ لَهُمْ مَّشَوْا فِیْهِۗۙ-وَ اِذَاۤ اَظْلَمَ عَلَیْهِمْ قَامُوْاؕ-وَ لَوْ شَآءَ اللّٰهُ لَذَهَبَ بِسَمْعِهِمْ وَ اَبْصَارِهِم (البقرۃ:19-20) ترجمہ کنز الایمان: یا جیسے آسمان سے اُترتا پانی کہ اس میں اندھیریاں ہیں اور گرج اور چمک اپنے کانوں میں انگلیاں ٹھونس رہے ہیں کڑک کے سبب موت کے ڈر سے اور اللہ کافروں کو گھیرے ہوئے ہے بجلی یوں معلوم ہوتی ہے کہ ان کی نگاہیں اُچک لے جائے گی جب کچھ چمک ہوئی اس میں چلنے لگے اور جب اندھیرا ہوا کھڑے رہ گئے اور اگر اللہ چاہتا تو ان کے کان اور آنکھیں لے جاتا۔

تفسیر: یہ دوسری مثال بیان کی گئی اور یہ منافقین کا حال ہے جو دل سے اسلام قبول کرنے اور نہ کرنے میں متردد رہتے ہیں جس طرح جب بادل اور بارش کی وجہ سے تاریکی ہوتی ہے تو مسافر متحیر ہو جاتا ہے جب بجلی چمکتی ہے تو کچھ چل لیتا ہے اور جب اندھیرا ہوتا ہے تو کھڑا رہ جاتا ہے، اسی طرح اسلام کے غلبہ اور معجزات کی روشنی اور آرام کے وقت منافق اسلام کی طرف راغب ہوتے ہیں اور جب کوئی مشکل یا مشقت آتی ہے تو کفر کی تاریکی میں کھڑے رہ جاتے ہیں اور اسلام سے ہٹنے لگتے ہیں۔

تیسری مثال: الله پاک ارشاد فرماتا ہے: اِنَّ اللّٰهَ لَا یَسْتَحْیٖۤ اَنْ یَّضْرِبَ مَثَلًا مَّا بَعُوْضَةً فَمَا فَوْقَهَاؕ-فَاَمَّا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا فَیَعْلَمُوْنَ اَنَّهُ الْحَقُّ مِنْ رَّبِّهِمْۚ-وَ اَمَّا الَّذِیْنَ كَفَرُوْا فَیَقُوْلُوْنَ مَا ذَاۤ اَرَادَ اللّٰهُ بِهٰذَا مَثَلًاۘ-یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶) (البقرۃ: 26) ترجمہ کنز الایمان: بےشک اللہ اس سے حیا نہیں فرماتا کہ مثال سمجھانے کو کیسی ہی چیز کا ذکر فرمائے، مچھر ہو یا اس سے بڑھ کر تو وہ جو ایمان لائے وہ تو جانتے ہیں کہ یہ ان کے رب کی طرف سے حق ہے، رہے کافر وہ کہتے ہیں ایسی کہاوت میں اللہ کا کیا مقصود ہے اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔

تفسیر:اس آیت میں کافروں کو جواب دیا گیا ہے کہ مثالیں بیان کرنے سے اللہ تعالیٰ کا کیا مقصود ہے۔نیز کافروں اور مومنوں کے مقولے اسکی دلیل ہیں کہ قرآنی مثالوں کے بیان سے بہت لوگ گمراہ ہوتے ہیں جن کی عقلوں پر جہالت کا غلبہ ہوتا ہے اور جنکی عادت صرف ضد، مقابلہ بازی، انکار و مخالفت ہوتی ہے اور کلام با لکل معقول مناسب اور موقع محل کے مطابق ہونے کے باوجود وہ اسکا انکار کرتے ہیں اور انہیں مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے ہیں اور انصاف کے خلاف بات نہیں کہتے اور مثالوں کے ذریعے وہ سمجھ جاتے ہیں۔

نوٹ: مثالوں کا بیان حکمت کے مطابق اور مضمون کو دل نشین کرنے والا ہوتا ہے اور مثالوں کے ذریعے سمجھانا ما ہرین کا طریقہ ہے۔(صراط الجنان، ص 92)

چو تھی مثال: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءًؕ-صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۱۷۱) (البقرۃ:171) ترجمہ کنز الایمان: اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ سنے، بہرے گونگے اندھے تو انہیں سمجھ نہیں۔

تفسیر: پیارے آقا ﷺ کا فروں کو مسلسل دین حق کی دعوت دیتے رہتے، کافر سنتے تو تھے لیکن اس سے نفع حاصل نہ کرتے تھے یعنی ایمان نہ لاتے، ان کے اس سننے کی مثال بیان کی گئی کہ جس طرح جانوروں کا ایک ریوڑ ہو اور انکا مالک انہیں آواز دے تو وہ محض ایک آواز تو سنتے ہیں لیکن مالک کے کلام کا مفہوم نہیں سمجھتے تو یہی کافروں کا حال ہے۔ اس اعتبار سے یہ تو بہرے گونگے اور اندھے ہیں اس میں ہمارے لئے بہت بڑا درس ہے کہ دعوت و تبلیغ، وعظ و نصیحت، قرآن و حدیث، اصلاح وتفہیم کے باوجود جو طرزِ عمل ہمارا ہے وہ بھی کچھ سوچنے کا تقاضہ کرتا ہے کہ اس اعتبار سے ہما رے آنکھ کان بھی کھلے ہوئے ہیں یا نہیں ؟؟؟

پانچویں مثال: الله عزوجل قرآن پاک میں فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ كَفَرُوْۤا اَعْمَالُهُمْ كَسَرَابٍۭ بِقِیْعَةٍ یَّحْسَبُهُ الظَّمْاٰنُ مَآءًؕ-حَتّٰۤى اِذَا جَآءَهٗ لَمْ یَجِدْهُ شَیْــٴًـا(پ 18،النور: 39) ترجمہ کنز الایمان: اور جو کافر ہوئے اُن کے کام ایسے ہیں جیسے دھوپ میں چمکتا ریتا کسی جنگل میں کہ پیاسا اسے پانی سمجھے یہاں تک جب اُس کے پاس آیا تو اُسے کچھ نہ پایا۔

تفسیر: اس میں کافروں کے اعمال کے متعلق فرمایا ہے، یعنی اس ریت کی چمک کو پانی سمجھ کر اسکی تلاش میں چلا جب وہاں پہنچا تو پانی کا نام ونشان نہ تھا تو ایسے ہی کافر اپنے خیال میں نیکیاں کرتا ہے اور سمجھتا ہے کہ اللہ تعالیٰ سے اس کا ثواب پائے گا جب قیامت کے میدان میں پہنچے گا تو ثواب نہ پائے گا بلکہ عذاب عظیم میں گرفتار ہوگا اور اس وقت اسکی حسرت اور اسکا اندوه و غم اس پیاس سے بدرجہا زیادہ ہوگا۔ (تفسیر خزائن العرفان،ص 776)

اللہ عزوجل نے قرآن پاک میں جگہ جگہ مثالوں سے ہم گناہ گاروں کو سمجھایا ہے تاکہ ہم اپنے گناہ سے باز آجائیں۔ اللہ پاک سے دعا ہے اللہ پاک عقلِ سلیم عطا فرمائے اور ہمیں ان مثالوں سے ہدایت لینے کی توفیق عطا فر مائے۔ آمین ثم آمین


الله پاک نے جہاں قرآن مجید میں احکامات اور واقعات بیان فرمائے ہیں وہیں کئی مضامین کو مثالوں کے ذریعے بھی بیان فرمایا ہے۔ مثالوں کے ذریعے ایک بات انسان کے ذہن نشین بھی ہو جاتی ہے، اس کلام کو سمجھنا بھی آسان ہوتا ہے اور بات میں دل چسپی بھی پیدا ہوتی ہے۔ مثال کا عام استعمال ضرب المثل کے معنی میں ہوتا ہے اور بطور استعارہ کسی حالت کو بیان کرنے کو بھی مثال کہتے ہیں، قرآن مجید میں جو مثالیں بیان کی گئی ہیں وہ وضاحت، نصیحت یا عبرت کیلئے ہوتی ہیں۔ آئیے یہاں 5 مثالوں کو ملاحظہ کرتے ہیں جو قرآن مجید فرقان حمید میں الله ربُّ العزت نے بیان فرمائی ہیں:

1۔ ہدایت سے محروم لوگوں کی مثال: پارہ 2 سورۂ بقرہ آیت نمبر 171 میں الله پاک ہدایت سے محروم لوگوں کی مثال بیان فرماتا ہے: وَ مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا كَمَثَلِ الَّذِیْ یَنْعِقُ بِمَا لَا یَسْمَعُ اِلَّا دُعَآءً وَّ نِدَآءًؕ-صُمٌّۢ بُكْمٌ عُمْیٌ فَهُمْ لَا یَعْقِلُوْنَ(۱۷۱) ترجمہ کنز الایمان: اور کافروں کی کہاوت اس کی سی ہے جو پکارے ایسے کو کہ خالی چیخ و پکار کے سوا کچھ نہ سنے، بہرے گونگے اندھے تو انہیں سمجھ نہیں۔اس آیتِ مبارکہ میں کافروں کے سننے کی مثال جانوروں کے ریوڑ سے کی گئی ہے کہ انکا مالک انھیں آواز دے تو صرف وہ آواز کو سنتے ہیں اس بات کے مفہوم کو نہیں سمجھتے تو ایسے آنکھ کان کا کیا فائدہ جس سے نفع نہیں اٹھا سکیں۔

2۔ الله پاک کی راہ میں خرچ کرنے والوں کی مثال: پارہ 3 سورۂ بقرہ آیت نمبر 261 میں ارشاد ہوتا ہے: مَثَلُ الَّذِیْنَ یُنْفِقُوْنَ اَمْوَالَهُمْ فِیْ سَبِیْلِ اللّٰهِ كَمَثَلِ حَبَّةٍ اَنْۢبَتَتْ سَبْعَ سَنَابِلَ فِیْ كُلِّ سُنْۢبُلَةٍ مِّائَةُ حَبَّةٍؕ-وَ اللّٰهُ یُضٰعِفُ لِمَنْ یَّشَآءُؕ-وَ اللّٰهُ وَاسِعٌ عَلِیْمٌ(۲۶۱) ترجمہ کنز الایمان: ان کی کہاوت جو اپنے مال اللہ کی راہ میں خرچ کرتے ہیں اُس دانہ کی طرح جس نے اوگائیں سات بالیں، ہر بال میں سو دانے اور اللہ اس سے بھی زیادہ بڑھائے جس کے لیے چاہے اور اللہ وسعت والا علم والا ہے۔یہاں راہِ خدا میں خرچ کرنے والوں کی فضیلت ایک مثال کے ذریعے بیان کی گئی ہے یعنی کوئی آدمی جب ایک دانہ بوتا ہے تو اس سے سات بالیاں اگ جاتی ہیں سب میں سو سو دانے ہوتے ہیں تو اسی طرح صدقہ کرنے والوں کو بھی الله عزوجل ان کے اخلاص کے مطابق اجروثواب دگنا بلکہ 700 گنا بڑھا کر عطا فر ماتا ہے۔

3۔ کافروں کے اعمال کی مثال: پارہ 13 سورۂ ابراہیم کی آیت نمبر 18 میں ارشاد ربانی ہے: مَثَلُ الَّذِیْنَ كَفَرُوْا بِرَبِّهِمْ اَعْمَالُهُمْ كَرَ مَادِ ﹰ اشْتَدَّتْ بِهِ الرِّیْحُ فِیْ یَوْمٍ عَاصِفٍؕ-لَا یَقْدِرُوْنَ مِمَّا كَسَبُوْا عَلٰى شَیْءٍؕ-ذٰلِكَ هُوَ الضَّلٰلُ الْبَعِیْدُ(۱۸) ترجمہ کنز الایمان: اپنے رب سے منکروں کا حال ایسا ہے کہ ان کے کام ہیں جیسے راکھ کہ اس پر ہوا کا سخت جھونکا آ یا آندھی کے دن میں ساری کمائی میں سے کچھ ہاتھ نہ لگا یہی ہے دُور کی گمراہی۔اس آیت میں کافروں کے اعمال کے بارے میں بتایا گیا کہ قیامت کے دن ان کے اعمال کچھ بھی نہ ہوں گے اور اس وقت اس کا نقصان مکمل طور پر واضح ہو جائے گا دنیا میں جو نیک اعمال کئے ہوں گے قیامت میں گویا راکھ کی طرح کچھ فائدہ نہ پہنچائیں گے۔

4۔ جھوٹے معبودوں کو پوجنے کی مثال: پارہ 13 سورۂ رعد کی آیت نمبر 14 میں ارشاد ہوتا ہے: لَهٗ دَعْوَةُ الْحَقِّؕ-وَ الَّذِیْنَ یَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِهٖ لَا یَسْتَجِیْبُوْنَ لَهُمْ بِشَیْءٍ اِلَّا كَبَاسِطِ كَفَّیْهِ اِلَى الْمَآءِ لِیَبْلُغَ فَاهُ وَ مَا هُوَ بِبَالِغِهٖؕ-وَ مَا دُعَآءُ الْكٰفِرِیْنَ اِلَّا فِیْ ضَلٰلٍ(۱۴) ترجمہ کنز الایمان: اسی کا پکارنا سچا ہے اور اس کے سوا جن کو پکارتے ہیں وہ ان کی کچھ بھی نہیں سنتے مگر اس کی طرح جو پانی کے سامنے اپنی ہتھیلیاں پھیلائے بیٹھا ہے کہ اس کے منہ میں پہنچ جائے اور وہ ہرگز نہ پہنچے گااور کافروں کی ہر دعا بھٹکتی پھرتی ہے۔اس آیتِ مبارکہ میں غیر خدا سے مانگنے کی مثال بیان کی کہ جس طرح پانی خود ان کے منہ میں نہیں جائے گا اس طرح ان کی دعا بھی قبول نہ ہوگی۔

5۔ شرک کا رد کرنے کے لئے مثال:پارہ 14سورۂ نحل کی آیت نمبر 75 میں رب تعالیٰ فرماتا ہے: ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا عَبْدًا مَّمْلُوْكًا لَّا یَقْدِرُ عَلٰى شَیْءٍ وَّ مَنْ رَّزَقْنٰهُ مِنَّا رِزْقًا حَسَنًا فَهُوَ یُنْفِقُ مِنْهُ سِرًّا وَّ جَهْرًاؕ-هَلْ یَسْتَوٗنَؕ-اَلْحَمْدُ لِلّٰهِؕ-بَلْ اَكْثَرُهُمْ لَا یَعْلَمُوْنَ(۷۵) ترجمہ کنز الایمان: اللہ نے ایک کہاوت بیان فرمائی ایک بندہ ہے دوسرے کی مِلک آپ کچھ مَقْدُور(طاقت) نہیں رکھتا اور ایک وہ جسے ہم نے اپنی طرف سے اچھی روزی عطا فرمائی تو وہ اس میں سے خرچ کرتا ہے چھپے اور ظاہر کیا وہ برابر ہوجائیں گے سب خوبیاں اللہ کو ہیں بلکہ ان میں اکثر کو خبر نہیں۔اس آیت میں دو شخصوں کی مثال بیان کر کے شرک کا رد کیا ہے یعنی ایک بندہ غلام ہے دوسرا شخص اچھی روزی کمانے والا ہے آزاد اور مالک ہے تو جب یہ دو شخص برابر نہیں ہو سکتے تو وہ قادر مطلق رب ہے اس کے برابر کوئی بھی کیسے ہو سکتا ہے۔

اسی طرح جگہ بہ جگہ مثالیں بیان فرما کر لوگوں کیلئے ہدایت حاصل کرنے کا سامان کیا گیا ہے۔ الله عز وجل ہمیں بھی ہدایت یافتگان میں شامل فرمائے۔


قرآن عظیم خاتمُ المرسلین ﷺ پر نازل ہونے والی وہ کتاب مبین ہے جو اسرار و رموز سے بھر پور،اپنے قارئین کو دعوتِ فکر دیتی ہے۔ کہیں تو یہ عظیم المرتبت کتاب فلاح دارین کے احکام و مسائل بیان فرما رہی ہے تو کہیں ثواب و عتاب کو،کہیں اس کی آیات مفصلات سابقہ امم کے حالات بیان کرتی ہیں تو کہیں قصص ِ انبیاء کو موضوعِ سخن بناتی ہیں،علاوہ ازیں سب سے بڑھ کر یہ کہ قرآن مجید صاحبِ قرآن ﷺ کی نعت سے بھر پور ہے۔

قرآن مجید نے کئی ایک مقامات پر اپنا مدعا مثالوں کے ذریعے سمجھایا، یہاں سوال یہ اٹھتا ہے کہ قرآن میں مثالیں ذکر فرمانے کا کیا مقصد ہے ؟ تو آئیے اس کا جواب بھی قرآن ہی سے معلوم کرتے ہیں۔

یُضِلُّ بِهٖ كَثِیْرًاۙ-وَّ یَهْدِیْ بِهٖ كَثِیْرًاؕ-وَ مَا یُضِلُّ بِهٖۤ اِلَّا الْفٰسِقِیْنَۙ(۲۶) (پ 1،البقرة: 26) ترجمہ کنز الایمان: اللہ بہتیروں کو اس سے گمراہ کرتا ہے اور بہتیروں کو ہدایت فرماتا ہے اور اس سے انہیں گمراہ کرتا ہے جو بے حکم ہیں۔

مثالیں بیان کرنے میں کئی ایک حکمتیں پوشیدہ ہیں:

1۔ قرآنی مثالوں کے ذریعے وہ لوگ جن کی عقل پر جہالت کا پردہ ہے اپنی بد بختی کے باعث گمراہ ہوتے ہیں۔

2۔انہی مثالوں کے ذریعے اللہ تعالیٰ بہت سے لوگوں کو ہدایت دیتا ہے جو غور و تحقیق کے عادی ہوتے ہیں۔

3۔ مثالوں سے قرآن مجید کا اندازِ بیان مزید دل نشین ہو جاتا ہے۔

4۔قرآنی مثالوں کے ذریعے مدعا اچھی طرح سے سمجھ میں آجاتا ہے۔

ذیل میں قرآن کریم سے 5 مثالیں ذکر کی جاتی ہیں:

سورۂ ابراہیم آیت نمبر 24-25 میں کلمۂ ایمان کی یوں مثال بیان کی گئی ہے: اَلَمْ تَرَ كَیْفَ ضَرَبَ اللّٰهُ مَثَلًا كَلِمَةً طَیِّبَةً كَشَجَرَةٍ طَیِّبَةٍ اَصْلُهَا ثَابِتٌ وَّ فَرْعُهَا فِی السَّمَآءِۙ(۲۴)تُؤْتِیْۤ اُكُلَهَا كُلَّ حِیْنٍۭ بِاِذْنِ رَبِّهَاؕ-وَ یَضْرِبُ اللّٰهُ الْاَمْثَالَ لِلنَّاسِ لَعَلَّهُمْ یَتَذَكَّرُوْنَ(۲۵) ترجمہ کنز الایمان: کیا تم نے نہ دیکھا اللہ نے کیسی مثال بیان فرمائی پاکیزہ بات کی، جیسے پاکیزہ درخت جس کی جڑ قائم اور شاخیں آسمان میں ہر وقت اپناپھل دیتا ہے اپنے رب کے حکم سے اور اللہ لوگوں کے لیے مثالیں بیان فرماتا ہے کہ کہیں وہ سمجھیں۔

مذکورہ مثال میں سمجھایا گیا کہ جس طرح کھجور کے درخت کی جڑیں زمین کی گہرائی میں موجود ہوتی ہیں اور اس کی شاخیں آسمان میں پھیلی ہوتی ہیں اور وہ اللہ تعالیٰ کے حکم سے ہمیشہ پھل دیتا ہے اسی طرح کلمۂ ایمان ہے کہ اس کی جڑ مومن کے دل کی زمین میں ثابت ہوتی ہے اور اس کی شاخیں یعنی عمل آسمان میں پہنچتے ہیں اور اس کے ثمرات یعنی برکت و ثواب ہر وقت حاصل ہوتے ہیں۔ یہاں مثالیں بیان کرنے سے قرآن مجید کے مقصد کو مزید واضح کیا گیا جو انسان کی تفہیم ہے۔

سورۂ ابراہیم پارہ 13 ہی کی آیت نمبر 26 میں خبیث کلمے کی مثال یوں بیان کی گئی ہے: وَ مَثَلُ كَلِمَةٍ خَبِیْثَةٍ كَشَجَرَةٍ خَبِیْثَةِ ﹰ اجْتُثَّتْ مِنْ فَوْقِ الْاَرْضِ مَا لَهَا مِنْ قَرَارٍ(۲۶)ترجمہ کنز الایمان: اور گندی بات کی مثال جیسے ایک گندہ پیڑ کہ زمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا اب اسے کوئی قیام نہیں۔

قرآن مجید کا دل نشین انداز بیان یہ بھی ہے کہ اس میں متقابلات کو بیان کیا جاتا ہے، لہذا مذکورہ آیت مبارکہ میں بیان کردہ مثال کو پچھلی مثال کے مقابل رکھ کر قرآن کا مدعا سمجھنا مزید آسان ہو جاتا ہے، یہاں فرمایا گیا کہ گندی بات یعنی کفریہ کلمے کی مثال اندرائین جیسے کڑوے مزے اور ناگوار بو والے پھل کے درخت کی طرح ہے جو زمین کے اوپر سے کاٹ دیا گیا ہو تو اب اسے کوئی قرار نہیں کیونکہ اس کی جڑیں زمین میں مستحکم نہیں اور نہ ہی اس کی شاخیں بلند ہوتی ہیں، یہی حال کفریہ کلام کا ہے کہ اس کی کوئی اصل ثابت نہیں اور وہ کوئی دلیل اور حجت نہیں رکھتا جس سے اسے کوئی استحکام ملے اور نہ ہی کوئی خیر و برکت رکھتا ہے کہ قبولیت حاصل کرے۔

دنیاوی زندگی کی ناپائیداری کو پارہ 15 سورةالکہف آیت 45 میں بہت ہی دل نشین انداز میں بیان کیا گیا: وَ اضْرِبْ لَهُمْ مَّثَلَ الْحَیٰوةِ الدُّنْیَا كَمَآءٍ اَنْزَلْنٰهُ مِنَ السَّمَآءِ فَاخْتَلَطَ بِهٖ نَبَاتُ الْاَرْضِ فَاَصْبَحَ هَشِیْمًا تَذْرُوْهُ الرِّیٰحُؕ-وَ كَانَ اللّٰهُ عَلٰى كُلِّ شَیْءٍ مُّقْتَدِرًا(۴۵) ترجمہ کنز الایمان: اور ان کے سامنے زندگانی دنیا کی کہاوت بیان کرو جیسے ایک پانی ہم نے آسمان سے اتاراتو اس کے سبب زمین کا سبزہ گھنا ہوکر نکلا کہ سوکھی گھاس ہوگیا جسے ہوائیں اڑائیں اور اللہ ہر چیز پر قابو والا ہے۔

دنیاوی زندگی کی بے ثباتی کی مثال ایسے ہی ہے جیسے زمین پر خوش نما سبزہ ہوتا ہے جو بارش کی بدولت خوب لہلہانے لگتا ہے پھر جلد ہی یہ سبزه فنا کے گھاٹ اتر جاتا ہے اور اس سوکھی گھاس کو ہوائیں اڑائے پھرتی ہیں یہی حال دنیا کا ہے۔ اعتبار حیات کا ہے کہ اس فنا ہو جانے والےسبزے کی طرح یہ بھی بے وقعت ہے اور یہ سب فنا و بقا اللہ تعالیٰ کی قدرت سے ہے۔

پارہ 17 سورۃُ الحج آیت نمبر 73 میں کفار کے باطل معبودوں کے عاجز ہونے کو ایک مثال کے ذریعے بیان کیا گیا: یٰۤاَیُّهَا النَّاسُ ضُرِبَ مَثَلٌ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗؕ-اِنَّ الَّذِیْنَ تَدْعُوْنَ مِنْ دُوْنِ اللّٰهِ لَنْ یَّخْلُقُوْا ذُبَابًا وَّ لَوِ اجْتَمَعُوْا لَهٗؕ-وَ اِنْ یَّسْلُبْهُمُ الذُّبَابُ شَیْــٴًـا لَّا یَسْتَنْقِذُوْهُ مِنْهُؕ-ضَعُفَ الطَّالِبُ وَ الْمَطْلُوْبُ(۷۳)ترجمہ کنز الایمان: اے لوگو! ایک کہاوت فرمائی جاتی ہے اسے کان لگا کر سنو وہ جنہیں اللہ کے سوا تم پوجتے ہو ایک مکھی نہ بناسکیں گے اگرچہ سب اس پر اکٹھے ہوجائیں اور اگر مکھی ان سے کچھ چھین کرلے جائے تو اس سے چھڑا نہ سکیں کتنا کمزور چاہنے والا اور وہ جس کو چاہا۔

مذکور مثال میں بتوں کے عاجز اور بے قدرت ہونے کا بیان ہے کہ مشرکین الله کو چھوڑ کر جن بتوں کی عبادت کرتے ہیں وہ تو ایک مکھی بھی پیدا نہیں کر سکتے۔ اس مثال سے مدعا یہ ہے کہ ایسے کو معبود بنانا کس قدر جہالت ہے، کیونکہ اگر مکھی ان بتوں سے وہ شہد و زعفران چھین لے جائے جو مشرکین ان بتوں پر ملتے ہیں اور ان پر مکھیاں بیٹھتی ہیں تو یہ بت ان سے اس شہد کو بھی نہیں چھڑا سکتے۔

پارہ 18 سورۂ نور آیت نمبر 35 میں اللہ تعالیٰ کے نور کی انتہائی خوبصورت مثال بیان کی گئی: اَللّٰهُ نُوْرُ السَّمٰوٰتِ وَ الْاَرْضِؕ-مَثَلُ نُوْرِهٖ كَمِشْكٰوةٍ فِیْهَا مِصْبَاحٌؕ-اَلْمِصْبَاحُ فِیْ زُجَاجَةٍؕ-اَلزُّجَاجَةُ كَاَنَّهَا كَوْكَبٌ دُرِّیٌّ یُّوْقَدُ مِنْ شَجَرَةٍ مُّبٰرَكَةٍ زَیْتُوْنَةٍ لَّا شَرْقِیَّةٍ وَّ لَا غَرْبِیَّةٍۙ-یَّكَادُ زَیْتُهَا یُضِیْٓءُ وَ لَوْ لَمْ تَمْسَسْهُ نَارٌؕ-نُوْرٌ عَلٰى نُوْرٍ ترجمہ کنز الایمان: اللہ نور ہے آسمانوں اور زمین کا، اس کے نور کی مثال ایسی جیسے ایک طاق کہ اس میں چراغ ہے، وہ چراغ ایک فانوس میں ہے، وہ فانوس گویا ایک ستارہ ہے موتی سا چمکتا، روشن ہوتا ہے برکت والے پیڑ زیتون سے جو نہ پورب(مشرق) کا نہ پچھّم(مغرب)کا، قریب ہے کہ اس کا تیل بھڑک اُٹھے اگرچہ اُسے آگ نہ چھوئے، نور پر نور ہے۔

مندرجہ بالا آیتِ مبارکہ کے تحت نور کی مثال کے مختلف معانی بیان کیے گئے۔ اللہ تعالیٰ کے نور سے مراد اس کی طرف سے ہدایت ہے۔ عالمِ محسوسات میں اس کی تشبیہ ایسے روشن دان سے ہو سکتی ہے جس میں صاف شفاف فانوس ہو،فانوس میں ایسا چراغ ہو جو نہایت ہی پاک صاف زیتون سے روشن ہو تاکہ اس کی روشنی اعلیٰ ترین ہو۔دوسرے یہ کہ یہ مثال سید المرسلین ﷺ کے نور کی ہے،طاق آپ کا سینہ شریف،فانوس قلب مبارک اور چراغ نبوت ہے جو شجرِ نبوت سے روشن ہے اور اس پر کمال یہ کہ اگر آپ اپنے نبی ہونے کا اعلان نہ بھی فرمائیں جب بھی نورِ محمدی از خود گواہ ہے۔

اعلیٰ حضرت امام احمد رضا خان رحمۃ الله علیہ ایک شعر کے پیرائے میں اس مثال کو یوں سموتے ہیں؛

شمع دل، مشكاة تن، سینہ زجاجہ نور کا

تیری صورت کے لیے آیا ہے سورہ نور کا

حاصلِ کلام یہ کہ قرآن مجید طرح طرح کی مثالیں بیان فرما کر بنی نوع انسان کو دعوتِ فکر دیتا ہے۔ قرآن مجید کے مخاطب یوں تو سب انسان ہیں لیکن ایک مسلمان جس کو قرآن اور صاحبِ قرآن ﷺ کی بدولت ایمان کی بیش قیمت دولت ملی اس بات کا مکلّف ہے کہ قرآن عظیم کو سمجھ کر اپنی عملی زندگی کا نصبُ العین بنا لے تو آئیے تمام قارئین نیت کیجئے کہ دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے وابستہ ہو کر قرآن مجید سیکھنے سکھانے میں مشغول ہو جائیں۔


ہمیں روزمرّہ زندگی میں گفتگو کرنے کی ضرورت پڑتی رہتی ہے لیکن ہم جب بھی گفتگو کریں  تو اس کا کوئی صحیح مقصد ضرور ہونا چاہیئے ورنہ بے مقصد بات کہنے سے خاموش رہنا افضل ہے اور اچھی و بامقصد گفتگو کرنا خاموش رہنے سے افضل ہے جبکہ بری بات کہنا تو ہر وقت برا ہی برا ہے ۔ زبان کی حفاظت کرنا،اسے بے ضرورت بولنے سے روکنا بہت ضروری ہے کیونکہ تمام اعضاء سےزیادہ فساد اور دشمنی اسی کی وجہ سے ہوتی ہے۔

حضرت سفیان بن عبداللہ سے روایت ہے:میں نے بارگاہِ رسالت ﷺمیں عرض کی آپ کو مجھ پر سب سے زیادہ کس چیز کا خوف ہے؟آپ نے اپنی زبان اقدس پکڑ کر ارشاد فرمایا :اس کا۔(ترمذی)

حضرت ابو سعید خدری سے مروی ہے:انسان جب صبح کرتا ہے تو تمام اعضاء زبان سے کہتے ہیں :ہم تجھے خدا کا واسطہ دیتے ہیں کہ تو سیدھی رہا کر کیونکہ اگر تو سیدھی رہی تو ہم بھی سیدھے رہیں گے اور اگر تو ٹیڑھی ہو گئی تو ہم بھی ٹیڑھے ہو جائیں گے۔(ترمذی)

افسوس! ہم آج کل جس طرح چلا چلا کر اپنے دوستوں سے باتیں کرتے ہیں اس طرح ہمارے آقا ﷺ گفتگو نہیں فرماتے تھے آپﷺ کا لہجہ درمیانی ہوتا،آپ کی گفتگو شریف میں اعتدال ہوتا یعنی نہ زیادہ بلند آواز ہوتی نہ ہی اتنی پست کہ مخاطب سن نہ سکے بیان بالکل سادہ ،عام فہم اور واضح ہوتا کہ ہر سننے والا سمجھ لیتا۔

ام المومنین حضرت عائشہ صدیقہ فرماتی ہیں:سرکارِ دو عالم ﷺ کا کلام بڑا واضح ہوتا تھا ہر سننے والا اس کو سمجھ لیتا تھا۔ (ابو داؤد)

حضرت انس سے مروی ہے:حضور ﷺ جب کوئی بات فرماتے اس کو تین مرتبہ دہراتے تاکہ اس کی سمجھ آ جائے۔ (بخار ی )

حضرت علی سے روایت ہے:حضور نبی اکرم ﷺ نے فرمایا: جنت میں بالا خانے ہیں جن کے بیرونی حصّے اندر سے اور اندرونی حصّے باہر سے نظر آتے ہیں ۔ایک اعرابی نے عرض کیا یارسول اللہﷺ! یہ کس کے لیے ہوں گے؟ حضور ﷺ نے فرمایا: جو اچھی گفتگو کرے۔ (ترمذی)

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے حضور ﷺ ے فرمایا:اچھی بات صدقہ ہے۔ (بخاری و مسلم)

بلا ضرورت بولنے کا انجام بہت برا ہوتا ہے بعض اوقات ایسی باتیں زبان سے نکل جاتی ہیں جس سے بہت بڑے بڑ ے فتنے و فساد برپا ہو جاتے ہیں اسی لیے حضور ﷺ نے فرمایا: اللہ تعالیٰ کو یہ ناپسند ہے کہ فضول اقوال آدمی کی زبان سے نکلیں۔

نبی پاک ﷺ نے فرمایا:بندہ اللہ تعالیٰ کی خوشنودی کی بات بولتا ہے اور اس کی طرف توجہ بھی نہیں کرتا یعنی یہ خیال بھی نہیں کرتا کہ اللہ تعالیٰ اتنا خوش ہو گا اللہ تعالیٰ اس کو درجوں بلند کرتا ہے اور بندہ اللہ تعالیٰ کی ناخوشی کی بات بولتا ہے اور اس کی طرف دھیان نہیں دھرتا یعنی اس کے ذہن میں یہ بات نہیں ہوتی کہ اللہ تعالیٰ اس سے اتنا ناراض ہو گا اس کلمہ کی وجہ سے جہنم میں گرتا ہے۔(صحیح بخاری)

اُخروی آفات اور ان کے انجام کو یاد کرنے سے زبان کی حفاظت نصیب ہوتی ہے اور زبان کی حفاظت میں ہی دنیاوی آفات سے سلامتی ہے زبان کی حفاظت میں ہی نیک اعمال کی حفاظت ہےکہ جو بہت بولتا ہے وہ لامحالہ لوگوں کی غیبت میں پڑجاتا ہے۔

صرف ایک نکتہ ذہن نشین کرلیں کہ جو بات ہم کریں گے وہ یا تو ناجائزہ و حرام ہوگی یا پھر جائز مگرفضول و بے کار ،اگر ناجائز بات ہوئی تو اس پر عذاب الٰہی کا سامنا کرنا پڑ سکتا ہے جسے برداشت کرنے کی ہم میں طاقت نہیں اور اگر جائز ہوبھی تواس وجہ سے ترک کردینی چاہیئے کہ قیامت کے دن فضول باتوں پر اعمال نامہ اللہ رب العالمین کے سامنے پڑھنا ہو گا ۔

اللہ تعالیٰ ہمیں گفتگو کے آداب پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ ( آمین)


گفتگو کے آداب قرآن و حدیث کی روشنی میں:

اللہ تعالیٰ نے قرآن میں مجید میں ارشاد فرمایا:

وَ اِذَا حُيِّيْتُمْ بِتَحِيَّةٍ فَحَيُّوْا بِاَحْسَنَ مِنْهَاۤ اَوْ رُدُّوْهَا١ؕ اِنَّ اللّٰهَ كَانَ عَلٰى كُلِّ شَيْءٍ حَسِيْبًا0(پ5، النساء:86)

حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ سرورِ دوعالم ﷺ نے فرمایا :کیا تم کو ایسی بات نہ بتاؤں کہ جب تم اس پر عمل کرو تو تمہارے درمیان محبت بڑھے؟ اور وہ یہ ہے کہ آپس میں سلام کو رواج دو۔(مسلم، کتاب الایمان، صفحہ 47)

حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:کیا میں تمہیں اس شخص کے بارے میں خبر دوں، جس پر جہنم حرام ہے؟جہنم نرم خو، نرم دل اور آسان خو شخص پر حرام ہے۔(ترمذی، کتاب صفۃ القیامۃ، ج 4، صفحہ 225)

بعض صورتوں میں نفع بخش اور بعض میں نقصان دہ کلام:

اس طرح کا کلام وہی کرے، جو اس کی باریکیوں کو سمجھتا ہو، وگرنہ خاموش رہنے میں ہی عافیت ہے، حضرت امام شافعی فرماتے ہیں:جب تم کوئی بات کرنے لگو تو پہلے اس پر غور کر لو، اگر تمہیں فائدہ نظر آئے تو کہہ ڈالو، اگر تم شش و پنج میں پڑ جاؤ تو خاموش رہو، یہاں تک کہ تم پر اس کی افادیت کھل جائے۔(المستطرف فی کل فن مستطرف، الباب الثالث عشر، جلد 1، صفحہ 145)

حضرت ابراہیم تیمی علیہ الرحمہ فرماتے ہیں:کہ جب مؤمن بات کرنا چاہتا ہے تو دیکھتا ہے اگر کوئی فائدہ محسوس ہو تو بات کرتا ہے، ورنہ خاموش رہتا ہے۔(احیاء العلوم، کتاب آفات اللسان، جلد 3، صفحہ 142)

حضرت علی رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:خاموش رہنے سے انسان کے رعب میں اضافہ ہوتا ہے۔

بات چیت کرنے کے آداب:

٭مسکرا کر اور خندہ پیشانی سے بات چیت کیجئے۔

٭چلا چلا کر بات کرنا سنت نہیں۔

٭جب تک دوسرا بات کر رہا ہو، اطمینان سے سنئے۔

٭فرمانِ مصطفی ﷺ :جو چپ رہا، اس نے نجات پائی۔

٭بد زبانی اور بے حیائی سے بات کرنے سے پرہیز کریں۔

اللہ تعالیٰ ہمیں اپنی زبان نرم گفتگو کرنے میں استعمال کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


زبان الله پاک کی ایک عظیم نعمت ہے، جس کے ذریعے ہم ایک دوسرے سے گفتگو کرنے پر بھی قادر ہوتے ہیں، گفتگو ایک فن ہے، کیونکہ بسا اوقات انسان اتنی خوبصورت گفتگو کرتا ہے کہ جس سے سامنے والے کا دل جیت لیتا ہے اور کبھی ایسی بات کہہ دیتا ہے، جس سے مخاطب کے دل کو گھائل کر دیتا ہے، ایک عربی شاعر نے کیا خوب کہا ہے:

جراحات السنان لها التيام ولا يلتام ما جرح اللسان

یعنی نیزوں کے زخم بھر جاتے ہیں، زبان کے گھاؤ نہیں بھرتے۔

لہٰذا ہمیں چاہئے کہ ہم گفتگو کے آداب سیکھیں، تاکہ ہر ایک سے اچھی گفتگو کر کے لوگوں کے درمیان محبت وخلوص کی فضا قائم کر سکیں، احادیث کریمہ میں بھی جگہ بہ جگہ گفتگو کے آداب ملتے ہیں، اچھے انداز میں بات کرنا ہمارے پیارے نبی ﷺ کی بھی سنت ہے، آئیے چند احادیث ملاحظہ کیجئے۔

1۔بات کرتے ہوئے مسکرانا:

حضرت ام درداء، حضرت ابو درداء کے حوالے سے فرماتی ہیں کہ وہ بات کرتے ہوئے مسکرایا کرتے تھے، میں نے ان سے اس بارے میں پوچھا تو انھوں نے جواب دیا کہ میں نے پیارے نبی ﷺ کو دیکھا کہ وہ گفتگو کرتے ہوئے مسکراتے رہتے تھے۔( مسند امام احمد، مسند الانصار، حديث ابي الدرداء ،ج 9، ص45، حدیث 22362 ملتقظاً)

2۔تین بار دہراتے:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، حضور اکرم ﷺ جب کوئی بات فرماتے تو اس کو تین مرتبہ دہراتے تھے، تاکہ سمجھ آ جائے۔( بخاری، کتاب العلم، باب من اعاد الحديث ثلاثا ليفهم عنہ، ص 99، حدیث 95)

3۔جلدی نہ فرماتے:

ام المؤمنین حضرت سیدتنا عائشہ صدیقہ رضی الله عنها فرماتی ہیں کہ اللہ عزوجل کے آخری نبی ﷺ تمہاری اس جلدی کی طرح کلام میں جلدی نہ فرماتے، لیکن ایسے کلام کرتے تھے، جس کے درمیان فاصلہ ہوتا تھا، جو آپکی خدمت میں بیٹھتا، وہ حفظ کر لیتا تھا۔(ترمذى، ابواب المناقب عن رسول الله، باب في كلام النبی، ص 832، حدیث 3648)

میں نثار تیرے کلام پر ملی یوں تو کس کو زباں نہیں

وہ سخن ہے جس میں سخن نہ ہو وہ بیان ہے جس کا بیان نہیں(حدائق بخشش، ص 107 )

احادیث سے حاصل ہونے والے گفتگو کے آداب:

چند امور یہاں ذکر کئے جاتے ہیں، جن کے ذریعے ہم اپنی گفتگو کو بہتر بنا سکتے ہیں۔

٭ گفتگو کرتے وقت خندہ پیشانی کا مظاہرہ کیا جائے۔

٭سکون اور اطمینان سے گفتگو کرنی چاہیئے، عجلت اور جلد بازی سے پرہیز کیا جائے۔

٭جب بھی گفتگو کرے تو ہمیشہ حق بات کرے۔

٭گفتگو میں نرمی اختیار کرے، بے جا سختی سے بچے۔

٭جب ضرورت ہو تب ہی گفتگو کرے، فضول و بے محل باتوں سے انسان کا وقار بھی ختم ہوتا ہے۔

٭کبھی بھی ایسی گفتگو نہ کی جائے، جو گناہ میں ملوث ہونے کا سبب بنے، طنز اور باعثِ اختلاف گفتگو سے پرہیز کیا جائے۔

٭جس بات کے بارے میں مکمل نہ جانتا ہو، اس بات کو آگے بیان نہ کرے۔

٭مختصر اور مفید گفتگو کیجئے۔

گفتگو میٹھی کرو ہر ایک سے جھک کر ملو

دشمنوں کے واسطے بھی دلربا ہو جاؤ گے

گفتگوکی قسمیں: امام غزالی علیہ الرحمہ نے گفتگو کی چار قسمیں بیان کی ہیں،

1۔مکمل نقصان دہ بات (اس سے بچنا ضروری ہے)،

2۔مکمل فائدہ مند بات (یہ بھی حسبِ ضرورت اور احتیاط کے ساتھ کرے)،

3۔ایسی بات جو فائدہ مند بھی ہو اور نقصان دہ بھی(اس میں نفع والی بات کی پہچان اور احتیاط ضروری ہے)

4۔ایسی بات جس میں نہ فائدہ ہو، نہ نقصان (اس سے بچنا بہتر ہے کہ وقت کا ضیاع ہے)۔(ملخص ازا حیاء العلوم، ج 3، ص 138 )

ہمیں چاہئے کہ دنیا و آخرت کی کا میا بیاں سمیٹنے کے لئے وہی گفتگو کریں، جو مفید ہو، لہٰذا اپنی گفتگو میں حضور اکرم ﷺ کااندازِ گفتگو بھی شامل کیا جائے، نرم گفتگو کرکے لوگوں میں محبت قائم کرنے کی کوشش کی جائے۔

اللہ کرے ہمیں گفتگو کے آداب بجا لاتے ہوئے صحيح بولنا آجائے۔(آمین)


گفتگو ہی ایسا ذریعہ ہے، جس کے ذریعے کسی کے ذہنی معیار، قابلیت اور شخصیت کا اندازہ ہو سکتا ہے اور جب انسان کسی سے ملتا ہے، جو گفتگو سے ہی اپنے آپ کو متعارف کرواتا ہے، اگر گفتگو کا انداز شائستہ اور مہذبانہ ہوگا تو انسان کی شخصیت کو عظیم سمجھا جائے گا اور اگر زبان میں شائستگی اور مٹھاس نہیں، تو کوئی بھی ایسے شخص کے متعلق اچھی رائے قائم نہیں کرے گا، دورانِ گفتگو دوسروں کی تنقید کو حوصلے سے سننا اور اس کا مدلّل یعنی دلیل سے جواب دینا اعلیٰ ظرفی کا ثبوت ہے، ہر شخص چھوٹا ہو گا تو اس سے اندازِ گفتگو مشفقا نہ ہو، بوڑھا ہے تو ادب کا لحاظ رکھیں اور اگر ہم عمر ہے تو بُردبانہ انداز ہو۔

احادیث مبارکہ میں گفتگو کے آداب: اس طرح بہت سی احادیث میں بھی گفتگو کے آداب بیان کئے گئے ہیں۔

جو بات کہوں منہ سے اچھی ہو بھلی ہو

کھٹی نہ ہو کڑوی نہ ہو، مصری کی ڈلی ہو

رسول کریم ﷺ نے ارشاد فرمایا:اے عائشہ! ٹھہرو، نرمی لازم کرو اور سختی اور فحش سے بچو، مسلم کی ایک روایت میں ہے، فرمایا:تم فحش گو نہ بنو کیونکہ اللہ تعالیٰ فحش گو اور فحش کرنے والے کو پسند نہیں کرتا۔(مراۃ المناجیح، جلد 6، صفحہ 233)

امام بخاری روایت کرتے ہیں کہ ہمیں الحسن بن صباح نے حدیث بیان کی، انہوں نے کہا:ہمیں سفیان نے حدیث بیان کی، اززھری از عروہ از حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا بیان کرتی ہیں کہ نبی کریم ﷺ اس طرح ٹھہر ٹھہر کر باتیں کرتے تھے کہ اگر کوئی شخص آپ کے الفاظ کو گننا چاہتا، تو گن سکتا تھا۔(نعمۃ الباری، جلد 6، صفحہ 627)

حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: جو سلام سے ابتداء نہ کرے، اسے اجازت نہ دو۔(رواہ البہیقی فی شعب الایمان)

روایت ہے کہ حضرت ابو ہریرہ سے، وہ نبی کریم ﷺ سے راوی کہ فرمایا:جب تم سے کوئی شخص مجلس تک پہنچے تو سلام کرے، پھر اگر بیٹھنا چاہے تو بیٹھ جائے، جب کھڑا ہو، پھر سلام کرے، کیونکہ پہلا سلام دوسرے سے زیادہ حقدار نہیں۔(رواہ ترمذی و ابو داؤد، مشکاۃ المصابیح کی شرح مراۃ المناجیح، ج6، صفحہ 342)

ان تمام روایات سے معلوم ہوا کہ جب کسی سے گفتگو کریں تو اس کو سلام کرنا چاہئے، نرم الفاظ میں گفتگو کرنی چاہئے، فحش کلامی سے بچنا چاہئے اور گفتگو آہستہ آہستہ آواز میں کرنی چاہئے کہ سامنے والا سمجھ سکے، کسی کی بات نہیں کاٹنی چاہئے، مختصر اور جامع الفاظ میں گفتگو ہونی چاہئے، کیونکہ گفتگو کا طویل کرنا نامناسب ہے۔


قرآن کریم ہمارے رب عظیم عزوجل کا بے مثل کلام ہے  جو اس نے اپنے حبیب بے مثال ﷺ پر نازل فرمایا۔ جس طرح بے شمار آیاتِ قرآنیہ و احادیث مبارکہ قرآن کی عظمت و شان پر شاہد ہیں اسی طرح تلاوت قرآن کے فضائل و فوائد پر بھی دال ہیں یہاں چند فضائل و فوائد ذکر کیے جاتے ہیں تاکہ تلاوت قرآن کا شوق بڑھے اور تلاوت کرنا ہمارے معمولات میں شامل ہو جائے ۔

آیات قرآنیہ:

اور مسلمانوں کے لیے ہدایت اور رحمت اور بشارت ہے (نحل:89)

یہ لوگوں کے لیے ایک بیان اور رہنمائی ہے اور پرہیزگاروں کے لیے نصیحت ہے (آل عمران:138)

فرامینِ مصطفی ﷺ :

افضل عبادۃ امتی تلاوۃ القرآن۔ ( شعب الایمان،حدیث:354)

قرآن پڑھو کیونکہ وہ قیامت کے دن اپنے اصحاب کے لیے شفیع ہو کر آئے گا (مسلم:حدیث:252)

تلاوت قرآن کا معمول کیسے بنائیں؟

تلاوت قرآن کا معمول بنانے کے لیے تلاوتِ قرآن کے فضائل و فوائد پر مشتمل آیات و احادیث کا وقتاً فوقتاً مطالعہ کرتے رہیں تاکہ تلاوتِ قرآن کا جذبہ کم نہ ہو نیز اس کے متعلق بزرگان دین کے اقوال ،ان کی تلاوتِ قرآن سے محبت کے واقعات کا مطالعہ بھی بے حد مفید رہے گا ۔اگر اپنے یومیہ کاموں کا جدول بنا لیں اور جدول میں صبح و شام ایک وقت تلاوت قرآن کے لیے مختص کر لیں تو تلاوتِ قرآن کی عادت ہو جائے گی۔

حضرت عمرو بن میمون ( رحمہ اللہ ) فرماتے ہیں جس نے نماز فجر کے بعد قرآن کھولااور 100آیات تلاوت کیں اللہ عزوجل اسے تمام اہل دنیا کے عمل کی مثل بلندی عطافرمائے گا۔

تلاوت قرآن پاک کا معمول بنانے کے لیے کوشش کریں کہ فجر کے بعد ہرگز نہ سوئیں بلکہ اس وقت تلاوت قرآن کیجئے تاکہ دن کا آغاز اس با برکت کلام سے ہو ۔

قرآن مجید فرقان ِ حمید مینارہ نور ہے۔ یہ روشنی ہے۔اس میں سینے کی بیماریوں سے شفا ہے۔یہ مضبوط رسی،واضح نور ،پختہ گرہ اور مکمل طور پر محفوظ پناہ گاہ ہے۔ یہ قلیل و کثیر اور چھوٹے بڑے کو گھیرے ہوئے ہے۔اس کے عجائب و غرائب ختم نہیں ہوتے ۔اہل علم کے نزدیک کوئی چیز اس کے فوائد کا احاطہ نہیں کر سکتی۔ اس نے اولین و آخرین کی رہنمائی فرمائی۔ اس پر ایمان لانے والا توفیق یافتہ ہو جاتا ہے۔اسے مضبوطی سے تھامنے والا ہدایت یافتہ ہو جاتا ہے۔ اس پر عمل کرنے والا فلاح والا ہو جاتا ہے ۔یہ نہایت عمدہ خزانوں کی چابی ہے۔ یہ وہ آب حیات ہے کہ جس نے پیا وہ حیا ت ابدی سے متصف ہو گیا ۔۔یہ ایسی دوا ہے کہ جس نے اس کو نوش کیا کبھی بیمار نہ ہوا۔

تلاوتِ قرآن کرنے سے قلبی سکون حاصل ہوتا ہے۔یہ قرب الٰہی کا ذریعہ ہے۔یہ انسان کو برائیوں سے بچانے کا ذریعہ ہے۔ تلاوت قرآن کرنے والا بروزِقیامت قرآن لکھنے والے معزز فرشتوں کے ساتھ ہو گا۔ اٹک اٹک کر مشقت سے پڑھنے والے کو دوہرا ثواب ملتا ہے ۔تلاوت قرآن کرنے والے کا ذکر اللہ تعالیٰ فرشتوں کے سامنے فرماتا ہے۔ قرآن پڑھنے والے کے والدین کے سرپر نورانی تاج سجایا جائے گا۔ قیامت کے دن تلاوت کی جانے والی آیت تلاوت کرنے والے کے لیے نور ہو گی۔

مگریاد رہے کہ تلاوت کے یہ تمام فضائل و برکات حاصل کرنے کے لیے ضروری ہے کہ قرآن شریف کو درست تلفظ ،تجوید و مخارج کے ساتھ پڑھا جائے۔

اے اللہ! ہم سب کو خوش الحانی و عمدگی کے ساتھ تلاوت قرآن کی توفیق عطا فرما۔ (آمین )

یہی ہے آرزو تعلیم قرآن عام ہو جائے

تلاوت کرنا میرا کام صبح و شام ہو جائے


تلاوت قرآن کے فضائل و فوائد مع  تلاوت قرآن کا معمول کیسے بنائیں حضرتِ ثابِت بُنانی قُدِّسَ سرُّہُ النُّورانی روزانہ ایک بار ختمِ قرآن پاک فرماتے تھے۔ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ ہمیشہ دن کوروزہ رکھتے اورساری رات قِیا م (عبادت) فرماتے ، جس مسجِد سے گزرتے اس میں دو رَکعت (تحیۃ المسجد) ضَرور پڑھتے۔ تحدیثِ نعمت کے طور پر فرماتے ہیں :میں نے جامِع مسجِد کے ہرسُتُون کے پاس قرآن پاک کا ختم اور بارگاہ ِ الہٰی عَزَّوَجَلَّ میں گِریہ کیا ہے۔ نَماز اور تِلاوتِ قرآن کے ساتھ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کو خُصوصی مَحَبَّت تھی، آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ پر ایسا کرم ہوا کہ رشک آتا ہے چُنانچِہ وفات کے بعددورانِ تدفین اچانک ایک اینٹ سَرَک کر اندر چلی گئی، لوگ اینٹ اٹھانے کے لئے جب جھکے تو یہ دیکھ کر حیران رَہ گئے کہ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ قَبْر میں کھڑے ہو کرنَماز پڑھ رہے ہیں ! آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے گھر والوں سے جب معلوم کیا گیا تو شہزادی صاحِبہ نے بتایا : والدِ محترم علیہ رَحْمَۃُ اللّٰہِ الاکرم روزانہ دُعا کیا کرتے تھے:یا اللہ! اگرتُو کسی کو وفات کے بعد قَبْر میں نَماز پڑھنے کی سعادت عطا فرمائے تو مجھے بھی مُشرّف فرمانا۔ منقول ہے: جب بھی لوگ آپ رحمۃ اللہ تعالیٰ علیہ کے مزارِ پُراَنوارکے قریب سے گزرتے تو قَبْرِ انور سے تِلاوتِ قرآن کی آواز آرہی ہوتی۔(حِلیۃُ الاولیا ء ج 2 ص 362۔366 مُلتَقطاً دار الکتب العلمیۃ) اللہ پاک کی اُن پر رَحمت ہو اور ان کے صَدقے ہماری مغفِرت ہو۔

دَہَن مَیلا نہیں ہو تا بدن مَیلا نہیں ہو تا

خدا کے اولیا کا توکفن مَیلا نہیں ہوتا

ایک حَرف کی دس نیکیا ں: قرآن مجید، فُرقانِ حمیداللہ ربُّ الانام کامبارَک کلام ہے ، اِس کا پڑھنا ، پڑھانااور سننا سنانا سب ثواب کا کام ہے۔ قرآن پاک کا ایک حَرف پڑھنے پر 10نیکیوں کا ثواب ملتا ہے ،چُنانچِہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، شفیعُ الْمُذْنِبیْن،رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین ﷺ کا فرمانِ دِلنشین ہے:جو شخص کتابُ اﷲ کا ایک حَرف پڑھے گا، اُس کو ایک نیکی ملے گی جو دس کے برابر ہوگی۔ میں یہ نہیں کہتا الٓمّٓ ایک حَرف ہے، بلکہ اَلِف ایک حَرف ، لام ایک حَرف اور میم ایک حَرف ہے۔(سُنَنُ التِّرْمِذِی ج 4 ص 417 حدیث 2919)

تلاوت کی توفیق دیدے الہٰی

گناہوں کی ہو دور دل سے سیا ہی

بہترین شخص: نبیِّ مُکرَّم ، نُورِ مُجسَّم،رسولِ اکرم ،شَہَنشاہِ بنی آدم ﷺ کا فرمانِ معظَّم ہے:خَیْرُ کُمْ مَنْ تَعَلَّمَ الْقرآن و َعَلَّمَہٗ یعنی تم میں بہترین شخص وہ ہے جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا ۔ (صَحِیحُ البُخارِی ج ص 410 حدیث 5027) حضرتِ ابو عبد الرحمن سُلَمی رضی اللہ تعالیٰ عنہ مسجِدمیں قرآن پاک پڑھایا کرتے اور فرماتے: اِسی حدیثِ مبارک نے مجھے یہاں بٹھا رکھا ہے۔(فَیضُ القَدیر ج۳ ص۶۱۸ تحتَ الحدیث۳۹۸۳)

اللہ مجھے حافظِ قرآن بنا دے

قرآن کے اَحکام پہ بھی مجھ کو چلا دے

قرآن شَفاعت کر کے جنَّت میں لے جائے گا: حضرتِ اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ رسولِ اکرم، رحمتِ عالَم ، نُورِ مُجَسَّم ، شاہِ بنی آدم ، رسولِ مُحتَشَم ﷺ کافرمانِ معظَّم ہے: جس شخص نے قرآن پاک سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے اس پر عمل کیا ، قرآن شریف اس کی شفاعت کرے گااور جنّت میں لے جائے گا۔(تاریخ دمشق لابن عساکِر ج 41 ص 3،اَلْمُعْجَمُ الْکبِیْرلِلطَّبَرانِیّ ج 10 ص 198 حدیث 10450)۳

ایک آیت سکھانے والے کے لئے قیا مت تک ثواب! ذُوالنُّورین، جامع القرآن حضرتِ عثمان ابنِ عفّان رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ تا جدارِ مدینۂ منوّرہ، سلطانِ مکّۂ مکرّمہ ﷺ نے اِرشاد فرمایا : جس نے قرآن مُبین کی ایک آیت سکھائی اس کے لیے سیکھنے والے سے دُگنا ثواب ہے۔

ایک اور حدیثِ پاک میں حضرتِ اَنَس رضی اللہ تعالیٰ عنہ سے رِوایت ہے کہ خاتَمُ الْمُرْسَلین، شفیعُ الْمُذْنِبیْن، رَحمَۃٌ لِّلْعٰلمین ﷺ فرماتے ہیں : جس نے قرآن عظیم کی ایک آیت سکھائی جب تک اس آیت کی تلاوت ہوتی رہے گی اس کے لیے ثواب جاری رہے گا۔(جَمْعُ الْجَوامِع ج 7 ص 282 حدیث 22455۔22456 )

تلاوت کا جذبہ عطا کر الہٰی

مُعاف فرما میری خطا ہَر الہٰی

معزز خواتین و حضرات تلاوت قرآن کی تو بے شمار برکتیں و فوائد ہیں ہمیں روزانہ تلاوت قرآن کر کے اس کے فضائل و برکات حاصل کرنے چاہیئے اور اپنے سینوں کو قرآن کے نور سے منور کرنا چاہیئے اس کا معمول بنائے اگر ہم تلاوت قرآن کو اپنے روزانہ کے کاموں کو مینیج کر تے ہوئے اپنے معمول میں شامل کرلیں تو بہت ساری برکتیں حاصل کرنے میں کامیاب ہو سکتے ہیں۔تو آج ہی ابھی سے نیت کر لیتے ہیں کہ اپنی اتنی مصروف ترین زندگی میں سے قرآن پاک کی تلاوت کا وقت نکال کر اپنی زندگی کا معمول بنائیں گے ان شاءاللہ عزجل اللہ پاک ہمیں قرآن کے نور سے فیضیاب فرمائے آمین


قرآن مجید فرقانِ حمید اللہ ربّ العزت عزوجل کا مبارک کلام ہے، اس کا پڑھنا پڑھانا، سننا سنانا سب ثواب کا کام ہے، قرآن کریم کا ایک حرف پڑھنے پر دس نیکیوں کا ثواب ملتا ہے، قرآن مجید وہ واحد کتاب ہے، جس کا ذمّہ رب تعالیٰ نے اپنے ذمّہ لیا ہے، ربّ  تعالیٰ نے قرآن مجید اپنے آخری نبی، محمد مصطفی ﷺ پر نازل فرمایا، قرآن مجید میں ہر علم بھی موجود ہے، بے شک اس کی تلاوت دلوں کے زنگ کو دور کرنے والی ہے، بے چین دلوں کا چین ہے، تلاوت قرآن کے جتنے فضائل بیان کئے جائیں کم ہیں، بہرحال کچھ فضائل ذکر کئے جاتے ہیں:

میرے آقا اعلی حضرت رحمۃ اللہ علیہ فتاوی رضویہ، جلد 23، صفحہ 352 پر فرماتے ہیں:قرآن مجید پڑھا جائے تو اسے کان لگا کر غور سے سننا اور خاموش رہنا فرض ہے۔

قرآن مجید میں ارشاد ہوتا ہے: وَ اِذَا قُرِئَ الْقُرْاٰنُ فَاسْتَمِعُوْا لَهٗ وَ اَنْصِتُوْا لَعَلَّكُمْ تُرْحَمُوْنَ0(پ9، الاعراف: آیت 204)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:خیرکم من تعلم القرآن وعلمہتم میں بہتر وہ ہے، جس نے قرآن سیکھا اور دوسروں کو سکھایا۔(صحیح بخاری، جلد 3، صفحہ 410، حدیث5027) حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ ﷺ کا فرمانِ معظم ہے:جس شخص نے قرآن سیکھا اور سکھایا اور جو کچھ قرآن پاک میں ہے، اس پر عمل کیا تو قرآن پاک اس کی شفاعت کرے گا اور جنت میں لے جائے گا۔(المعجم الکبیر، جلد 10، صفحہ 197)

الٰہی شرف دے شوق قرآن کی تلاوت کا

شرف دے گنبد خضرا کے سائے میں شہادت کا

تلاوت قرآن مجید کا معمول بنانے کے لئے روزانہ امیراہلسنت کے دیئے گئے نیک اعمال میں سے نیک اعمال نمبر پر عمل کیجئے کہ کیا آج آپ نے قرآن مجید کی تین آیت مبارکہ مع ترجمہ و تفسیر تلاوت کی؟ اس پر استقامت کے ساتھ عمل کرنے سے قرآن کی تلاوت کا معمول بن جائے گا، ان شاءاللہ۔۔نیز تلاوت قرآن کے فضائل سنیں اور اس کی برکتیں پڑھے، جتنا اس بارے میں مطالعہ کیا جائے، اتنا ہی تلاوت کرنے کا ذوق پیدا ہوگا۔

کنزالایمان اے خدا میں کاش روزانہ پڑھوں

پڑھ کر تفسیر اس کی پھر اس پر عمل کرتا رہوں

ربّ تعالیٰ ہمیں قرآن مجید کا ذوق وشوق عطا فرمائے اور تلاوت قرآن کرنے پر استقامت عطا فرمائے۔آمین بجاہ خاتم النبیین 


قرآن کریم اللہ پاک کی بہت بڑی نعمت ہے، قرآن کریم سب سے افضل کتاب ہے جو سب سے افضل رسول، حضور پر نور، احمد مجتبیٰ، محمد مصطفی  ﷺ پر نازل ہوئی۔(بہار شریعت، جلد1/29، حصہ اول)

قرآن کریم وہ مقدس کتاب ہے، جس میں تمام مسائل کا حل موجود ہے، یہ وہ مقدس کتاب ہے، جو ہمیں نیکیوں کی طرف ابھارتی ہے، یہی ہمیں اطاعتِ الٰہی ، اتباعِ رسول ﷺ کا حکم دیتی ہے، جس کو پڑھنا عبادت ہے، جس کو دیکھنا عبادت ہے، جس کی تعلیمات پر عمل کرنا عبادت ہے،یہی وہ کتاب ہے، جس میں ہمارے لئے دینی و دنیاوی، معاشی وسماجی، معاشرتی و فلاحی، الغرض تمام پہلوؤں کے بارے میں رہنمائی موجود ہے، آئیے ترغیب کے لئے کچھ قرآن پاک کی تلاوت کے فضائل سنتے ہیں۔

قرآن مجید فرقانِ حمید اللہ ربّ العزت کا مبارک کلام ہے، اس کا پڑھنا پڑھانا، سننا سنانا، سب ثواب ہے، آخری نبی، محمد عربی ﷺ کا فرمانِ عالی شان ہے:جو شخص کتاب اللہ کا ایک حرف پڑھے گا، اس کو ایک نیکی ملے گی، جو دس نیکیوں کے برابر ہوگی، میں یہ نہیں کہتا الم ایک حرف ہے، بلکہ الف ایک حرف، لام ایک حرف، اور میم ایک حرف۔(ترمذی، ج4، صفحہ 417، ح2919)

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:اپنے گھروں کو قبرستان نہ بناؤ،(یعنی اپنے گھروں میں عبادت کیا کرو) تو شیطان اس گھر سے بھاگتا ہے، جس میں سورہ بقرہ کی تلاوت کی جاتی ہے۔(مسلم، کتاب صلاۃ المسافرین و قصرما باب استحباب صلاۃ الناضکۃ، ص306، حدیث 864) قرآن کریم کے مطابق، نبی کریم ﷺ کا ارشاد ہے: فضل القرآن علی سائرالکلام کفضل الرحمن علی۔۔۔قرآن کی فضیلت تمام کلاموں پر ایسی ہے، جیسی اللہ عزوجل کی اس کی مخلوق پر۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 501)

قرآن کریم عقائد کی رہنمائی کرتا ہے، قرآن کریم نور ہے، قرآن کریم قیامت میں پل صراط کا نور ہے، قرآن کریم کو ایسی مضبوطی سے تھامنا ہے کہ زندگی اس کے سائے میں گزرے، موت اس کے سایہ میں آئے، تو ہمیں بھی قرآن کریم سے مضبوط تعلق رکھنا چاہئے، اس کے لئے ہمیں تلاوتِ قرآن کی عادت بنانی ہوگی، روزانہ کی بنیاد پر وقت مقرر کرکے اسے پڑھنا ہوگا، یوں اس کی لذت و شیرینی بھی ملے گی۔

تلاوتِ قرآن کی عادت کے لئے اس کے فضائل و برکات کو مدِّنظر رکھنا ہوگا، یوں عادت پختہ ہوتی چلی جائے گی، پھر تو یہ عالم ہوگا کہ ہمارا کوئی دن تلاوت ِقرآن کے بغیر نہیں گزرے گا۔

تلاوت کروں ہر گھڑی یا الٰہی

بکوں نہ کبھی بھی میں واہی تباہی