ماں باپ وہ ہستیاں ہیں جو ایک انسان کو وجود میں لانے کا سبب ہیں اور پھر اس کی پرورش اور خوراک کا ذمہ بھی ان ہی کے پاس ہے، لیکن اس کے ساتھ ساتھ انسان کو زندگی کے مختلف ادوار میں بہت کچھ سیکھنا پڑتا ہے آگے بڑھنے اور اللہ پاک کی دی ہوئی صلا حیتوں کو پرکھنے، نکھارنے اور انھیں پروان چڑھانے کے لیے ایک اور ہستی بہت ہی اہم ہے جسے روحانی ماں باپ کا نام دیا جاتا ہے اور وہ ہے "استاد"۔تو ہر انسان پر کچھ نہ کچھ ذمہ داریاں عائد ہوتی ہیں چاہے وہ کوئی رشتہ ہی کیوں نہ ہویا پھر زندگی کے مختلف شعبوں میں سے کوئی شعبہ،اگر ہر کوئی اپنی ذمہ داریاں بحسن و خوبی نبھاتا رہے تو معاشرے میں آنے والی خرا بیاں نہ صرف ختم ہو سکتی ہیں بلکہ ایک صحت مند، خوبصورت اور باوقار معاشرہ بھی تشکیل پا سکتا ہے۔

بہر حال ماں باپ کے بعد ایک بچے کے لیےاستاد اہم ہستی ہوتی ہے جس کے ساتھ بچہ سے بڑا ہونے تک کا کافی ساتھ رہتا ہے،دوسرے لفظوں میں استاد کی صحبت بچے کو زیادہ میسر ہوتی ہے۔ سوال یہ ہے کہ استاد کی ذمہ داریاں کیا ہیں اور وہ ان کو کیسے نبھائے اور ان ذمہ داریوں کو پوراکرنے یا وہ چیز یا علم جو وہ دوسروں تک منتقل کرنا چاہتا ہے اس میں استاد کا خود کا عمل و کردار کیسا ہونا چاہیے۔ اس کے لیے استاد اور شاگردکا رشتہ جب مضبوط ہوگا تب ہی وہ اپنا علم آگے بڑھا سکے گا۔ تو آئیے اس کے لیے بھی قرآن وحدیث سے رہنمائی لیتے ہیں۔

1-متقی و پرہیزگار -2 سنتوں پر عمل کرنے والا 3- شفیق و مہربان4- عدل و درگزر کرنے والا5- با عمل ہونا 6- مؤثر اندازِ بیان7- آسان طریقوں سے حکمت کی بات سمجھائے 8- اپنے طالب علموں کی دل چسپی کو برقرار رکھنے والا۔

(1) متقی و پرہیز گار:اللہ پاک قرآن پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ لْتَنْظُرْ نَفْسٌ مَّا قَدَّمَتْ لِغَدٍۚ (پ28، الحشر: 18)ترجمہ کنز الایمان: اور ہر جان دیکھے کہ کل کے لیے کیا آ گے بھیجا۔

خوفِ خدا رکھنے والا استاد ہی اپنے شاگردوں کے مابین الله کی پہچان، محبت اور ذکر اللہ سے محبت راسخ کر سکتا ہے اور خوفِ خدا پیدا کر سکتا ہے اور اصل یہی چیز ہے جو طالب علم و استاد کے تعلق کو مضبو ط کرتی ہے۔

(2)سنتوں پر عمل:استاد کے کردار سے جب سنتوں کا ظہور اور گفتگو سے عشق رسول کے پھول جھڑتے ہوں گے تو طالب ِ علم اسی مہک سے اپنے استاد کے اور قریب ہو جائیں گے جس سے وہ نہ صرف عاشقِ رسول بنیں گے بلکہ محبتِ آل رسول واہلبیت و اصحاب سے بھی مالا مال ہوں گے۔

(3) شفیق و مہربان:نرم مزاج ونرم گفتگو یہ استاد کی طبیعت کا لازمی جز ہے استاد کی اسی صفت کے ساتھ شاگرد قلبی طور پر استاد سے جڑ جاتے ہیں اور اپنے مسائل بھی استاد سےشیئر کرتے ہیں۔

(4) عدل ودرگزر کرنے والا:استاد کو عادل ہونا بھی لازمی ہے، شاگرد کی غلطیوں، کوتاہیوں سے درگزر کر کے احسن انداز میں ان کو زجر و توبیخ کرنا سب سے اعلیٰ صفت ہے اور تمام شاگردوں کے درمیاں یکساں تعلق وانداز تدریس ہی وہ اہم بات ہے جو ہر طالبِ علم اپنے استاد کے بارے میں یہی سمجھتا ہے کہ وہ استاد محترم مجھ پر شفقت فرماتے ہیں۔

(5)با عمل اور مؤثر انداز بیاں: طالبِ علم و استاد کے تعلق کو مزید گہرا کرنے والی چیز استادکا اپنے کہے ہوئے پر عمل ہے اور ساتھ ہی جو وہ بیان کر رہا ہے اس کو اس انداز سے پیش کرنا ہے کہ سننے والے کے دل میں باآسانی اترجائے، ایسے استاد ہردل عزیز ہوتے ہیں۔

(6)حکمتِ عملی اور دلچسپی برقرار رکھنا:استاد و شاگرد کے درمیان مضبوط ربط کے لیے ایک اہم جز یہ ہے کہ استاد بہترین حکمتِ عملی اختیار کرنے والا ہو اور ہر شاگرد کی نفسیات کو بہتر پر کھنے والا ہو، جبھی وہ اس کی اصلاح کر سکتا ہے، مزید تعلیمی معیار اور امور میں طالب علموں کی دلچسپی بڑھانے اور برقرار رکھنے کے گُرو ہنر سے مزین ہونا یہ استاد و شاگرد دونوں کو بہترین ماحول عطا کرتا ہے۔استاد اپنے شاگردوں پر بھر پور توجہ رکھے اور شاگرد ادب کے ساتھ استاد کے دیے گئے علم کو حاصل کریں اور عمل کے ساتھ آگے بڑھائیں تو یقیناً یہ دین کی بھلائیوں میں سے ہے۔ 


استاد درحقیقت ایک معمار کی حیثیت رکھتا ہے اور معمار سے مراد تعمیر کرنےوالا ہے۔ استاد اور شاگرد کا تعلق ایسا ہونا چاہیے کہ شاگرد استاد کو اپنے لیے مشعلِ راہ بنائے۔ زندگی کے ہر شعبے میں کامیاب کس طرح ہونا ہے یہ اُستاد اپنے شاگرد کو سکھائے۔ اُستاد اور شاگرد کا تعلق فقط کتاب و نصاب کا نہ ہو بلکہ شاگرد کی شخصیت کو بدل دینے والا ہو۔ کسی شاعر نے کیا خوب کہا ہے کہ:

جن کے کردار سے آتی ہو صداقت کی مہک

ان کی تدریس سے پتھر بھی پگھل جاتے ہیں

رہبر بھی یہ ہمدم بھی یہ غم خوار ہمارے

استاد یہ قوموں کے ہیں معمار ہمارے

چو نکہ استاد تزکیۂ نفس کرنے والا ہوتا ہے، اسی لئے اُن کو والدین سے بڑھ کر درجہ دیا گیا، لہٰذا استاد اور شاگرد کے درمیان والدین اور اولاد والا تعلق ہونا چاہیے۔جس طرح والدین اپنی اولاد کے لئے شفیق اور تعمیرِ اخلاق میں فکر مند ہوتے ہیں ایسے ہی استاد کو اپنے طلبہ و طالبات کی فکر ہونی چا ہیے۔ تعلیم ایک ذریعہ ہے، اسکا مقصد اچھی سیرت سازی اور تربیت ہے۔ علم ایک روشن چراغ ہے جو انسان کو عمل کی منزل تک پہنچاتا ہے۔ اس لحاظ سے تعلیم و تربیت شیوۂ پیغمبری ہے۔ استاد اور شاگرد تعلیمی نظام کے دو نہایت اہم عنصر ہیں۔ معلم کی ذمہ داری صرف سکھانا ہی نہیں سکھانے کے ساتھ ساتھ تربیت دینا بھی ہے۔

اللہ کریم نے قرآن پاک میں اپنے پیارے نبی ﷺ کے بارے میں فرمایا:

وَ یُعَلِّمُهُمُ الْكِتٰبَ وَ الْحِكْمَةَ وَ یُزَكِّیْهِمْؕ (پ1، البقرۃ:129) ترجمہ کنز الایمان: اور انہیں تیری کتاب اور پختہ علم سکھائے اور انہیں خوب ستھرا فرمادے۔

اسی بنا پر یہ نہایت اہم اور مقدس رشتہ ہے۔استاد اور شاگرد کا رشتہ معنی و مفہوم کے اعتبار سے انسانی زندگی کا ستون ہے۔ وہ ستون جو زندگی کو معنی و مفہوم کے حسین رنگوں سے نکھار دیتا ہے۔ ایک بہترین استاد طالبعلم کو اچھے اخلاق اور اعتماد کی بلندیوں تک لے جاتا ہے۔ وہ شاگرد کی نفسیات اور نفس و کردار کو اخلاقی کردار، اخلاقی عمل کی بلندیوں تک پہنچانے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ استاد اور شاگرد ایک گاڑی کے دو پہیے ہوتے ہیں ان میں ایک بھی کمزور ہو تو دوسرا آگے نہیں بڑھ سکتا۔ اُستاد اور شاگرد کو ہر دم اپنی درس و تدریس کی نیتوں کی تجدید کرتے رہنا چاہیے تاکہ دونوں اپنے مقصد سے نہ ہٹ سکیں۔ استاد کو چاہیے کہ وہ طالبعلم کی کمزوریوں اور کوتاہیوں پر کلاس روم میں اسکو ملامت نہ کرے بلکہ شاگرد کی کوتاہیوں اور غلطیوں کو درستگی کی جانب لانے کیلئے کوشاں رہے۔ اپنا ہدف فقط ذہین شاگرد نہ رکھے بلکہ کمزور شاگردوں کو اپنا ہدف بنائے کہ مجھے ان کو ممتاز کیفیت پر لانا ہے۔ ایسے ہی شاگرد اپنے اُستاد کی تنبیہ کو اپنے لیے باعثِ رحمت جانے کہ میرے استاد میری ہی بہتری کیلئے تنبیہ کر رہے ہیں، مجھ سے ہی کوتاہی نہیں ہونی چاہیے تھی، جو استاد کو تکلیف اٹھانا پڑی۔

استاد کا فرض:استاد کا فرض ہے کہ وہ علم دینے کے ساتھ ساتھ محبت و شفقت کا اظہار کرے اور طالبعلم کی ذمہ داری ہے کہ علم کے ساتھ ساتھ استاد کا دلی طور پر احترام کرے۔ اُستاد کی ہر ہدایت و نصیحت پر عمل پیرا ہو اور تعلیم میں دلچسپی کا اظہار کرتا رہے۔ اِن اُصولوں کی بناء پر تعلیمی سرگرمی میں خوشگوار اور صحت مند تخلیقی ماحول پیدا ہو سکتا ہے، تعلیم کی ترقی دونوں کے کردار اور خوشگوار تعلقات سے منسلک ہے۔ سب سے اول اور اہم بات یہ ہے کہ طالب علم نبیِ کریم ﷺ کے اس ارشاد مبارک کو مدِّ نظر رکھے۔

لَیْسَ مِنَّا مَنْ لَّمْ یَرْحَمْ صَغِیْرَنَا وَلَمْ یُؤَقِّرْ کَبِیْرَنَا (جامع ترمذی، حدیث: 1919)

وہ ہم میں سے نہیں جو ہما رے چھوٹوں پر شفقت نہ کرے اور ہمارے بڑوں کی توقیر و احترام نہ کرے۔

اس لیے شاگرد پر لازم ہے کہ وہ استاد کاادب و احترام کرے اور اُس کی ادنیٰ سی بے ادبی سے بھی خود کو بچائے۔ استاد معلم اورمربی ہونے کے لحاظ سے باپ کے درجے میں ہوتا ہے۔جیسا کہ حدیث مبارک ہے کہ:اِنَّمَا أَنَا لَكُمْ بِمَنْزِلَۃِ الْوَالِدِ أُعَلِّمُكُمْ (سنن ابوداؤد)میں تمہارے لیے بمنزلۂ والد ہوں، تمہیں تعلیم دیتا ہوں۔

چنانچہ استاد سے آمرانہ اسلوبِ گفتار سے پرہیز کریں، طالبعلم کو تکبر اور بڑائی سے دور رہنا چاہیے۔ حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: علم حاصل کرو اس لئے کہ سکینت و وقار بھی سیکھو، جن سے علم حاصل کرتے ہو اور جنہیں سکھاتے ہو اُن کے لیے تواضع اور عاجزی اختیار کرو، جبر کرنے والے علماء مت بنو۔(کتاب جامع بيان العلم و فضلہ)

پس جب طالبعلم اپنے استاد کا حد درجہ احترام کرے گا تب ہی اسے علم کی بیش قیمت دولت حاصل ہوگی۔ اگر طالبعلم بدخواہ اور بے ادب ہے تو علم سے محروم رہے گا۔معلم اور طبیب کی جب تک توقیر و تعظیم نہ کی جائے خیرخواہی حاصل نہیں ہوتی۔ بیمار نے اگر طبیب کی توہین کر دی تو وہ اپنی بیماری پر صبر کرے اور اگر شاگرد نے اپنے اُستاد کے ساتھ بد تمیزی کی ہے تو وہ ہمیشہ جاہل ہی رہے گا۔ استاد چونکہ طالبعلموں کیلئے نمونہ ہوتا ہے تو اسے چاہیے کہ اپنی گفتگو کو متوازن اور محتاط رکھے۔ بے اعتدالی کے الفاظ استعمال نہ کرے۔ بعض اوقات بے توجہی میں زبان سے کوئی ایسا کلمۂ شرادا ہو جاتا ہے کہ نتیجۃً اس جملے کے سبب جو تباہ کاری ہوتی ہے اسکا اندازہ بھی نہیں ہوتا۔

اکابر تجربہ کار اساتذہ کا کہنا ہے:وہ طالبعلم اوروه استاد علم دینے اور علم لینے کا حق ادا نہیں کرتے جو ان تین اسکلز کو اپنے شاگردوں کے اندر پیدا نہ کرسکیں۔

1-( Confidence)

2-(Creativity)

3- (Character)

طالبعلم کو بھی چاہیے کہ وہ ان 3اسکلز کو اپنے اندر پیدا کرے اور استاد کو بھی چاہیے کہ وہ اپنے شاگردوں میں ان تین صلاحیتوں کو پیدا کرے تاکہ وہ معاشرے میں ایک کامیاب انسان بن کر اُبھریں اور دین کا پیغام احسن انداز میں عام کر سکیں۔کیونکہ کتنے ہی شاگرد دیکھے ہیں جن میں یہ صلاحیتیں نہیں ہوتیں اگرچہ وہ اپنے وقت کے( Topper) ہوتے ہیں مگر ایک کامیاب بہترین معلم نہیں بنتے ہیں جتنا کہ با صلاحیت شاگرد بہترین اُستاد و راہنما بن سکتا ہے۔


استاد اور طالب علم کا رشتہ انتہائی مقدس ہوتا ہے، حضور ﷺ نےفرمایا:جسے خواہش ہے کہ وہ جہنم سے آزاد شدہ لوگوں کو دنیا میں دیکھے تو اسے چاہیے کہ وہ طلبائے اسلام کی زیارت کرے۔ بخدا ہر وہ طالب علم جو اپنے استاد گرامی کے ہاں درس گاہ یا ان کے گھر پر حاضری دیتا ہے تو اسے ایک سال کی عبادت کا ثواب نصیب ہوتا ہے اور اسکے ایک ایک قدم کے بدلے بہشت میں اس کے لیے ایک شہر تیار ہوگا اور وہ زمین پر چلتا ہے تو زمین اسے دعائیں دیتی ہیں اور ہر شام و سحراس کی مغفرت کا اعلان ہوتا ہے اورفرشتے گواہی دیتے ہیں کہ یہ طلبائے  اسلام دوزخ سے آزاد ہیں۔ (روح البیان، پ11)

استاد کا مقام ہر اعتبار سے عزت اور قدر و منزلت کا مستحق ہے۔ طلبہ کی تعلیم وتربیت کی ذمہ داری بڑی اہم ذمہ داری ہے اور جو شخص اس فرض کو دیانت داری، نیت، خلوص اور احساسِ فرض کے ساتھ سرانجام دیتا ہے وہ قوم کی صحیح معنوں میں بہت بڑی خدمت کرتا ہے،استاد کے اوصاف اور اطوار ایسے ہونے چاہئیں کہ وہ نیکی و پرہیزگاری کا مکمل ومجسم نمونہ ہو اور اسکی زیارت ہی سے تعلیم کے مقدس فیض کا عکس شاگرد کے دل میں اتر جائے،عصرِ حاضر کے تناظر میں بات کی جائے تو واضح رہنا چاہیے کہ استاد کا کام طالب علم کو محض اسباق یا کتب پڑھادینا نہیں ہے بلکہ اس کا اصل کام اپنے طلباء میں علم کا شوق پیدا کرناہے۔مزید جاننےکی لگن پیدا کرنا اور تحقیق و جستجو کیلئے ان کی استعداد میں اضافہ کرنا ہے۔

استاد اور شاگرد کے رشتے سے زیادہ جاذبیت رکھنے والا کوئی رشتہ نہیں لیکن افسوس جتنا یہ رشتہ اُس دور سابق میں اہمیت رکھتا تھا ہمارے دورمیں اس کی اس سے بڑھ کربے قدری ہے کیونکہ آج اس کی اہمیت کے بجائے بے قدری زیادہ ہے۔ اپنی مرضی پر چلنے والے طلبا تو بکثرت ملیں گے لیکن اپنی رضا کا مرکز اپنے استاد صاحب کو بنانے والے بہت تھوڑے ہیں، سابق دور میں ہر مشیت سے رضائے استاد کو ترجیح دی جاتی تھی۔شاگرد کا فرض ہے کہ انتہائی انکسا ری و تواضع اختیار کرے اور اپنی اطاعت گزاری سے استاد کی سختی کو بھی نرمی میں بدل دے تاکہ استاد کے فیض حاصل کرسکے۔امیر اہلِ سنت د امت برکاتہم العالیہ فرماتے ہیں: شاگردوں کو چاہیے کہ وہ اپنے استاد کا ہر صورت میں ادب کریں، چاہے استاد کی طرف سے ناروا سلوک ہوتا ہو، چونکہ اس سے علمِ دین حاصل کررہے ہیں تو اپنے مفاد پورے حاصل کریں۔مزید فرماتے ہیں: استاد تو آپ کودین سکھاتا ہے آپ کی آخرت بہتربناتا ہے تو آپ کم از کم کتے سے ہی اخلاق سیکھ لیں کہ مالک کتے کوٹکڑا ڈالتا ہے وہ مالک کا دروازہ نہیں چھوڑتا، یہاں تک کہ مالک اس کو بھگائے مارے تو تھوڑا بھاگے گا پھردُم ہلاتا ہوا واپس پاؤں چاٹنا شروع کردے گا، تو ہم عمر بھر کھائیں اور ایک بارسختی کرے تو مخالف ہو جائیں تو کتے کے اخلاق سے بھی گرگئے،لیکن دورِ حاضر میں جہاں شاگردوں کی بے مروتی اور مذمت کی جارہی ہے، وہیں بعض اساتذہ کی کیفیت شاگردوں سے بھی زبوں تر ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ مدرس اپنے منصب کے لحاظ سے ولی الله ہے بشرطیکہ وہ اکابر کے نقشِ قدم پر چلے، الله پاک ہمیں اکابرین کی تعلیمات کے مطابق تعلیم وتعلم کی عادت سے بہرہ مند فرمائے آمین۔


اپنے دور ِ تعلیم میں 3 اُمور کو علم کی جان پایا ان میں سے ایک دل و جان سے اُستاد کا ادب و احترام بھی ہے۔ دورِ حاضر میں تو اس رشتہ کی کوئی اہمیت نہیں ہاں استاد اور شاگر دیا معلم و متعلم کے الفاظ سنتے ہی اسلاف کے ذہنوں میں رشتوں کا وہ تقدس تعلقات کی وہ پاکیزگی  اور احترام و محبت کے جذبات کی وہ اعلی تصویر بنتی ہے جس کی سزاوار کوئی اور رشتہ یا ہستی نہیں ہوسکتی، جہاں اس رشتہ میں آجکل گرہیں پڑ گئی ہیں، بگاڑ پیدا ہوا ہے اِس کی کچھ وجوہات ہیں۔ جیسے ہماری اخلاقی اور روحانی قدریں کم ہو گئیں۔اسلاف میں رشتۂ محبت اور تعظیم کا رشتہ انتہائی مقدس تھا، لیکن اب یہ کوئی اور شکل اختیار کرگیا ہے، لہذا طالب علم کو چاہیے کہ درج ذیل امور پیشِ نظر رکھے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ کتب معتبرہ کے حوالے سے نقل فرماتے ہیں:عالم کا جاہل پر اور اُستاد کا شاگرد پر ایک سا حق ہے اور وہ یہ ہے کہ شاگرد استاد سے پہلے گفتگو شروع نہ کرے۔ اس کی جگہ پر اس کی غیر موجودگی میں بھی نہ بیٹھے، چلتے وقت اس سے آگے نہ بڑھے۔استاد کے آگے نہ بیٹھے، اپنے مال میں کسی چیز سے استاد کے حق میں بخل سے کام نہ لے، یعنی جو کچھ اسے درکار ہو بخوشی حاضر کردے، استاد کے قبول کر لینے میں اُس کا احسان او راپنی سعادت تصور کرے۔استاد کے حق کو اپنے والدین اور تمام مسلمانوں کے حق سے مقدم جانے اگر چہ اس سے ایک ہی حرف پڑھا ہو، اس کے سامنے عاجزی کااظہار کرے، طالب علم کو چاہیے کہ اپنے استاد کے سامنے سچ ہی بولےاور دیگر مسلمانوں کے سامنے بالعموم سچ ہی بولے، دیگر اساتذہ کا بھی احترام ملحوظِ خاطر رکھے، ایسا نہ ہو کہ صرف انہی اساتذہ کا احترام کرے جن سے پڑھتا ہو۔(کامیاب طالبعلم کون، ص58-59)

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: میں نے جس سے صرف ایک بھی حدیث لکھی تو میں اس کا زندگی بھر غلام ہوں جس نے بھی مجھے ایک حرف پڑھایا میں اس کا غلام ہوں، اگر چاہے تو بیچ دے چاہے تو آزاد کردے۔(فتاوی رضویہ،10 /20)اور مزید یہ بھی ہے کہ وہ اگر گھر کے اندر ہو باہر سے دروازہ نہ بجائے بلکہ خود اس کے باہر آنےکا انتظار کرے،طالبعلم کو کوئی چیز معلوم نہ ہو یا کچھ سمجھ نہ آتا ہو تو وہ استا د سے ضرور پوچھے، پوچھنے میں کوئی عاریا شرم نہ محسوس کرے کہ رب تعالیٰ فرماتا ہے۔

فَسْــٴَـلُوْۤا اَهْلَ الذِّكْرِ اِنْ كُنْتُمْ لَا تَعْلَمُوْنَ(۷) (پ17، الانبیاء: 7) ترجمہ کنز الایمان: تو اے لوگو علم والوں سے پوچھو اگر تمہیں علم نہ ہو۔

حضرت مجاہد ملت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:شرمیلا اور متکبر شخص علم حاصل نہیں کر سکتا۔(کامیاب طالب علم، ص 104-105 )

حضرت علی رضی اللہ عنہ کا فرمان ہے: اُستا دجب اٹھ جائے تو کپڑا مت پکڑو، استا د صاحب جب تھک جائیں تو اصرارمت کرو،استاد کے بھید مت ظاہر کرو، استاد کی لغز ش نہ پکڑو اور اگر لغزش کرے تو اس کا عذر قبول کرو۔(کامیاب طالبعلم، ص89)

اُستاد کے سامنے شاگرد کو ایسا ہونا چاہیے کہ جیسے زمین پر بہت سی بارش برسے اور وہ سب پی لے۔امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ کا قول ہے جو اُستاد کو نہیں سمجھتا وہ کبھی کا میاب نہیں ہو سکتا۔حضرت مغیرہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: ہم اپنے استاد ابراہیم سے ایسے ڈرتے تھے، جیسے بادشاہ سے لوگ ڈرتے ہیں۔امام ربیعہ رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اپنے استاد کے سامنے مجھے کبھی پانی پینے کی ہمت نہیں ہوئی۔امام احمد بن حنبل رحمۃ اللہ علیہ اپنے استاد کا نام نہیں لیتے تھے بلکہ ان کا ذ کران کی کنیت کے ساتھ کرتے تھے۔ (کامیاب طالبعلم، ص 70) کسی سے دریافت کیا کہ آپ اُستاد کو باپ پر کیوں ترجیح دیتے ہیں؟ جواب دیا:میرا باپ تو مجھے آسمان سے زمین پر لایا اور استاد نے مجھے زمین سے آسمان پر پہنچایا اور میرا استاد سبب حیات جاودانی ہے اور والد صاحب سبب حیات فانی ہیں۔

آقا ﷺ نے فرمایا:تمہارے 3 باپ ہیں۔ ایک وہ جو تمہاری پیدائش کا سبب ہے، دوسرا وہ جس نے تمہیں اپنی لڑکی دی، تیسرا وہ جس سے تم نے دولتِ علم حاصل کی۔ ان میں بہترین باپ تمہارا استاد ہے۔(کامیاب طالب علم،ص 70)

معلوم ہوا استاد بمنزلۂ باپ کے ہے اس کی تعظیم و تکریم ازحد ضروری ہے، نیز طالبعلم علم پر تکبر نہ کرے، اُستاد پر حکم نہ چلائے، بلکہ اپنے تمام معاملات کی لگام مکمل طور پر استاد کے ہاتھ میں دے دے اور اس کی نصیحت کو ایسے قبول کرے جیسے جاہل بیمارشفیق طبیب کی نصیحت کو مانتا ہے۔

جس سے اس کے استاد کو کسی قسم کی اذیت ہو، وہ علم کی برکات سے محروم رہے گا۔تنبیہ الغافلین میں ہے کہ اگر انسان حکمران بھی بن جائے تو یہ باتیں نہ چھوڑے، ماں باپ کی آمد پر مجلس میں کھڑا ہونا، اُستاد کی خدمت کرنا،استاد بہت بڑا محسن ہے، اس کے احسانات کا بدلہ کسی صورت میں بھی چکا یا نہیں جا سکتا، ایسی شخصیت کے لئے مکافات ضروری ہے،اس کا بہترین طریقہ یہ ہے کہ استاد کے لئے شاگرد دعا کرے۔

اللہ یاک میرے والدین، پیر و مرشد، اساتذہ کرام کو در ازیٔ عمر با لخیر عطا فرمائے، بلا حساب مغفرت فرمائے اُن کے علم میں، زہد و تقوی میں برکتیں عطا فرمائے۔آمین


استاد اور شاگرد کا تعلق معنی اور مفہوم کے اعتبار سے انسانی زندگی کا اہم ستون ہے،وہ ستون ہے جو زندگی کے مفہوم کو حسین رنگوں میں نکھارتا ہے، استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق درس و تدریس کے عمل میں بہت اہمیت کا حامل ہے، تعلیمی اداروں اور تعلیمی میدان میں ترقی اور کامیابی کا انحصار استاد اور شاگرد دونوں کے خوشگوار تعلقات پر ہوتا ہے۔

زندگی کے دوسرے شعبوں اور اداروں میں کام کرنے والے ایک دوسرے سے اتنا متاثر نہیں ہوتے اور ناہی ایک دوسرے پر اتنا انحصار کرتے ہیں جتنا کہ استاد اور شاگرد۔دفاتر میں کام کرنے والے بے جان فائلز سے تعلق رکھتے ہیں لیکن استاد اور شاگر د کا معاملہ ان سے مختلف ہے یہاں دونوں احساسات رکھتے ہیں۔ اس لیے ہمیں استاد اور شاگرد کے مابین تعلق کو سمجھنا ضروری ہے۔

دورِ حاضر میں اس رشتہ کی خاص اہمیت نظر نہیں آتی لیکن ہمارے اسلاف کرام رحمہ الله کے ذہنوں میں رشتوں کا وہ تقدس، تعلقات کی وہ پاکیزگی اور احترام ومحبت کے جذبات کی اعلی تصویر جو استاد اور شاگرد، معلم یا متعلم کے رشتوں میں نظر آتی ہے وہ کسی اور رشتہ میں نظر نہیں آتی،لہذا طالبعلموں کو یہ نہیں بھولنا چاہیے کہ وہ استاد سے فیض حاصل کرتے ہیں۔ وہ ان کے محسن ہیں۔ انسانیت کا تقاضا یہ ہے کہ انسان جس سے فیض حاصل کرتا ہے اس کے سامنے دل و جان سے جھکا رہے۔

اور استاد کا یہ سمجھنا کہ تعلیمی اوقات کے علاوہ شاگر د میرے دروازے پر حاضر نہیں ہو سکتا، یہ رویہ نامناسب ہے۔شاگرد روحانی اور معنوی اولاد ہے۔ لہذا شاگرد طالب علمی کے دور میں ہی بلکہ تاحیات یہ حق رکھتا ہے کہ اس کو زندگی میں جب الجھنیں پیش آئیں تو استاد کی چوکھٹ پہ حاضر ہو اور استاد کو بھی چاہیے کہ اس کو مفید مشورہ دے، درست رہنمائی کرے اور ایسے ہی اس کا خیر مقدم کرے جیسے اپنی اولاد آگئی ہے۔

شاگرد کو بھی چاہیے کہ اپنے محسن کا احسان مند رہے، استاد کی تعظیم اور اطاعت کو شعار بنالے، تاریخ گواہ ہے جس نے استاد کے مقام کو پہچانا، اور آداب بجالائے، وہ دنیائے عزت و شہرت میں چاند کی طرح چمکا۔

چنانچہ ایک بار امام اعظم ابو حنیفہ رحمۃ اللہ علیہ بیٹھے ہوئے تھے، اچانک خیال آیا فرمانے لگے، اونٹ لایا جائے اونٹ لایا گیا، شاگردوں سے کہا اس کو چھت پر چڑھاؤ طلبہ حیران لیکن کچھ نہ کہا، فوراً دو شاگردوں نے اطاعت شروع کردی، اور اونٹ کو اوپر چڑھانے کی کوشش کرنے لگے،آپ نے فرمایا:بس رک جاؤ، اصل مقصود اس کو اوپر چڑھانا نہ تھا بلکہ تمہارا امتحان مقصود تھا کہ کیا تم حکم کی تعمیل کرتے ہو، شاباش ہے تمہاری ہمت پر، اللہ پاک تمہیں علم و عزت عطا فرمائے، استاد کی دعا قبول ہوئی اور آج دنیا ان دو شاگردوں کو امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ اور امام محمد رحمۃ اللہ علیہ کے نام سے جانتی ہے۔ (آداب استاد شاگرد، ص9)


استاد  ہونا بہت بڑی سعادت کی بات ہے کہ ہمارے پیارے مدنی آقا ﷺ نے اس منصب کی نسبت اپنی ذاتِ اقدس کی طرف کر کے اسے عزت و حرمت کا تاج عطا فرمایا چنانچہ آپ ﷺ نے ارشاد فرمایا: اِنَّما بُعِثْتُ مُعَلِّماً یعنی مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ (سنن ابن ماجہ، 1 / 150)

استاد کا کردار:با عمل مسلمانوں پر مشتمل معاشرے کی تشکیل میں استاد کا کردار ایک باغبان کی مثل ہے جس طرح کسی باغ کے پودوں کی افزائش و حفاظت باغبان کی توجہ اور کوشش کے بغیر نہیں ہو سکتی اسی طرح طلبا کی دینی تربیت کے لئے استاد کی توجہ و کوشش بے حد اہمیت کی حامل ہے۔استاد کا کام طلبا کے ظاہر و باطن کو پاک کر کے اوصافِ حمیدہ سے مزین کرنا اور انہیں معاشرے کا ایک ایسا باکردار مسلمان بنانا ہے جو عمر بھر کے لیے اپنی اور ساری دنیا کے لوگوں کی اصلاح کی کوشش میں مصروف ہو جائے۔

استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق:استاد اور شاگرد کا آپس میں تعلق شریعتِ مطہرہ کے مطابق صاف و شفاف، پیار بھرا، مشفقانہ ہو۔ استاد کا ادب شاگرد کے لئے اولین ہو اور استاد اپنے شاگردوں کے لئے عفو و درگزر کا پیکر ہو لہٰذا استاد کی ذات میں پائے جانے والے اوصاف غیر محسوس طور پر اس کے طلبا میں منتقل ہو جاتے ہیں۔اگر استاد خوش اخلاق ہے تو اس کے طلبا بھی حسنِ اخلاق والے ہوں گے۔طالبِ علم کا استاد کے ساتھ انتہائی مقدسں رشتہ ہوتا ہے لہٰذا طالبِ علم کو چاہیے کہ استاد کو اپنے حق میں حقیقی باپ سے بڑھ کر خاص جانےکیونکہ والدین اسے دنیا کی آگ اور مصائب سے بچاتے ہیں جبکہ استاد اسے نارِ دوزخ اور مصائبِ آخرت سے بچاتا ہے اگرچہ کسی استاد سے ایک ہی حرف پڑھا ہو ا س کی ہی تعظیم بجالائے کہ حدیثِ پاک میں ہے:سید عالم ﷺ نے فرمایا: جس نے کسی آدمی کو قرآنِ کریم کی ایک آیت پڑ ھائی وہ اس کا آقا ہے۔(معجم كبير،8/112،حديث:7528)

استاد کے آداب: استاد کے آداب بجالانے والے طالبِ علم ایک وقت میں عمدہ کامیابی سے سرفراز ہوتے ہیں۔ طلبہ کو چاہیے کہ کسی منصب پر فائز ہو جائیں اپنے استاد کے آداب بجالائیں مثلاً استاد کی غیر موجودگی میں بھی ان کا ادب کر یں، ان کی جگہ پر نہ بیٹھیں۔استاد سے جھوٹ بولنا باعثِ محرومی ہے لہٰذا استاد سے ہمیشہ سچ بولئے، ان سے نگاہ نہ ملائیے، نگاہ نیچی رکھیے۔اسی طرح ہر نماز کے بعد استاد اور والدین کو اپنی دعاؤں میں یاد رکھئے۔الله پاک ہمیں بیان کردہ مدنی پھولوں کو اپنے دل کے گلدستے میں سجانے اور اس کی خوشبو سے اپنے معاشرے کو معطر کرنے کی سعادت عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامین ﷺ


بچپن سے سنتے آئے ہیں، ماں باپ ذریعہ بنتے ہیں، آسمان سے زمین پر لانے کا، اور استاد ذریعہ بنتا ہے زمین سے آسمان تک پہنچانے کا، پہلے کے دور میں جب والدین بچوں کو درسگاہ میں بٹھا نے جاتےتو کہتے تھے ! ہماری ہڈی تمہاری کھال۔ یہ مثال بہت بعد میں سمجھ میں آئی۔جو طالب علم اپنے استاد کے ساتھ اطاعت و فرما نبر داری کا تعلق رکھتا ہے،وہ دنیا و آخرت میں کامیاب ہو جاتا ہے اور جو سختیاں اور مشقتیں نہیں برداشت کرتا، وہ تعلیم حاصل نہیں کرپاتا۔ استاد شاگرد کا باہمی تعلق بھروسے و اعتماد کا ہوتا ہے، استاد چاہے اسکول، کالج، یو نیور سٹی مدرسہ کسی بھی تعلیمی ادارے کا ہو اس کا اپنے شاگرد سے تعلق تعلیم کے لیے ہو نہ کہ اپنے ذاتی کام اور مفاد کے لیے۔

استاد شاگرد کا باہمی تعلق ایسا بھی نہیں ہونا چا ہیے کہ استاد اپنے فیورٹ اور مخصوص طالب علم کو مال و دولت، خوبصورتی اور دلی رجحان کے لحاظ سے پسند ر کھے۔ بلکہ اپنے شاگرد کے تعلیمی معیار، ذہانت، فر مانبر داری اور محنت کو سراہےاور اپنے شاگردوں سے مساوی سلوک رکھے۔ کسی بھی طالب علم کو اس کی نفسیات کے مطابق سمجھانا استاد کا شاگرد سے باہمی تعلق ہی ہے۔ ہراستاد کو اپنے شاگرد سے تعلق دینی قواعد و ضوابط کی بنیاد پر رکھنا چاہیے۔استاد کا اپنے شاگرد سے تعلق انتہائی نرمی و شفقت والا ہوگا تو وہی مزاج اس کے شاگرد میں بھی منتقل ہوگا۔

ہے فلاح و کامرانی نرمی و آسانی میں

ہر بنا کام بگڑ جا تا ہے نادانی میں


سب سے پہلے یہ جاننا ضروری ہے کہ ایک شاگرد اور استاد کو کیسا ہونا چاہیے احیاء العلوم جلد اول میں امام غزالی رحمۃ الله علیہ نے استاد اور شاگرد کے متعلق تفصیلاً بیان فرمایا ہے، طالب علم اپنی دنیوی مشغولیات کو کم کرے،اپنے گھر والوں اور وطن سے دور رہے، کیونکہ یہ تعلقات اسے مشغول رکھتے اور طلب علم سے بھر دیتے ہیں۔ کیونکہ ارشادِ خداوندی ہے: الله پاک نے کسی آدمی کے پہلو میں دو دل نہیں بنائے،کیونکہ جب خیالات منتشر ہو جائیں تو حقائق جاننے میں کمی  آجاتی ہے، اسی لیے کہا جاتا ہے، علم تجھے اپنا بعض اس وقت تک نہ دے گا جب تک تم اس کو اپنا سب کچھ نہ دے دو،طالب علم کے متعلق تو جان لیا اس کا مقصد کیا ہونا چاہیے، اب استاد کے متعلق بھی امام غزالی کے کچھ اقوال جان لیتی ہیں کہ ایک استاد کو کیسا ہونا چاہیے پھر ان شاء اللہ ہم استاد اور شاگرد کے مابین باہمی تعلق کیسا ہونا چاہیے اس کے متعلق جانیں گی، استاد شاگردوں پر شفقت کرے اور انہیں اپنے بیٹوں جیسا سمجھے کیونکہ حضور ﷺ کا ارشاد ہے۔ میں تمھارے لیے ایسا ہوں جیسے والد اپنی اولاد کے لیے ہوتا ہے۔

ميد انى تحقيق: استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق کیسا ہونا چاہیے؟ اس پر میدانی تحقیق کے مطابق ہر شخص کی رائے مختلف ہے،درج ذیل میں چند لوگوں کی سوچ کا تذکرہ کرتی ہوں۔

(1) ایک شخص کا کہنا ہے کہ استاد اور شاگرد کا تعلق ایسا ہونا چاہیے جیسا کہ لو ہار کا تعلق لوہے کے ساتھ، اور سنار کا تعلق سونے کے ساتھ ہوتا ہے یعنی ایسا مضبوط تعلق ہونا چاہیے کہ جیسےسنار سونے کے بارے میں جیسا سوچتا ہے ویسی اس سے چیزیں بناتا ہے، اس طرح ایک اُستاد بھی اپنے شاگرد کے متعلق جیسی سوچ رکھتا ہے ویسا اُن کو بنادے۔

(2) ایک شخص کا کہنا ہے،استاد اور شاگرد کا باہمی تعلق ایسا ہو کہ اس میں گیپ Gape نہ ہو یعنی کہ شاگرد اپنے استاد سے ہر بات بلاجھجھک کہہ سکے،کوئی بھی مسئلہ ہوا ہے اپنی آنے والی زندگی میں، کوئی فیصلہ کرنا ہو وہ اپنے استاد سے پوچھ سکے، یعنی میں کیا کر سکتا ہوں۔ میرے لیے کیا بہتر ہے یعنی استاد ایسا شفیق ہو کہ شاگرد اس سے مشورہ کر سکے۔

(3) استاد اور شاگرد کا تعلق باپ اور بیٹے کی طرح ہونا چاہیے۔ مختلف اوقات میں جس طرح والدین کا رویہ مختلف ہوتا ہے ان کا بھی ایسا ہو، جہاں نرمی سے کام ہو وہاں نرمی سے اور جہاں سختی کرنی پڑے توسختی کر سکتا ہو۔جیسے اولاد والدین کی سختی پر اس کو بطورِ نصیحت سمجھتے ہیں، استاد بھی اپنے شاگردوں سے ایسا ربط میں ہو کہ شاگرد بھی استاد کی سختی کو نصیحت سمجھے اور یہ ذہن میں نہ لائے کہ میری Insult ہوگئی۔

(4) استاد اور شاگرد کے درمیان حساس رشتہ ہونا چاہیے کیونکہ کہا گیا ہے کہ اگر تم بادشاہ ہو تو پھر بھی استاد اور والدین کی تعظیم کے لئے کھڑے ہو جاؤ یعنی دونوں کے درمیان شفقت وتعظیم ہونی چاہیے، استاد شفقت و احساس کرنے والا ہے تو شاگرد بھی تعظیم کرنےو الا ہوگا۔باادب با نصیب

(5) استاد کا اپنے شاگرد کے ساتھ اتنا نرم لہجہ بھی نہ ہو کہ استاد کو شاگرد استادہی نہ سمجھے بلکہ اعتدال ہو، ایک حد تک شاگردوں سے محبت ہو کہ استاد استاد ہی رہے، استاد سے شاگرد اپنی ہر بات شیئر کرسکتا ہو ایسا رویہ ہو کہ شاگرد استاد سے متنفر نہ ہو۔

(6) استاد کا اپنے شاگرد کے ساتھ تعلق ایسا ہونا چا ہیے کہ دونوں میں سے کوئی بھی پریشان ہو تو دونوں ایک دوسرے کے ہمدردبنیں،استاد کو شاگرد کا اور شاگرد کو استاد کا راز دار ہونا چاہیے۔

(7) استاد کو شاگرد کا روحانی باپ کا درجہ حاصل ہے تو اس لحاظ سے دونوں کے مابین ایسا تعلق ہو کہ استاد شاگرد کی اولاد کی طرح تربیت کرے،شاگردغلطیاں بھی کرے تو استاد اصلاح کرنا نہ چھوڑے، اُستاد اگر غلطی پر ہو تو شاگرد کے ساتھ اس کا تعلق ایسا ہو کہ وہ اصلاح کرسکے، دونوں یعنی استاد اور شاگرد خامیوں کو جہاں سے دیکھیں فل کرنے کی کوشش کریں۔

یہ تھی مختلف لوگوں کی اُستاد اور شاگرد کے مابین باہمی تعلق کے متعلق سوچ،اب ہم امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ کے اقوال نقل کرتے ہیں کہ شاگرد اور استاد کے تعلقات کیسے ہونے چاہیے۔

لا ئبریری تحقیق:امام غزالی رحمۃ الله علیہ نے احیاء العلوم جلد 1 صفحہ 191 پر فرمایا: استاد شاگردوں پر شفقت کرے استاد کا مقصود ہو کہ وہ شاگردوں کو آخرت کے عذاب سے بچائے گا،جس طرح ایک باپ کی اولاد کا فرض بنتا ہے کہ وہ باہم ایک دوسرے سے محبت کریں اور تمام مقاصد میں ایک دوسر ے سے تعاون کریں ایسے ہی استاد کے شاگردوں کا حق بنتا ہےکہ آپس میں پیار محبت سے رہیں، یہ اسی صورت میں ہو سکتا ہےکہ جب ان کا مقصد آخرت ہو،جب عام شہروں کی طرف جانے والے مسافروں کے درمیان نرمی ایک دوسرے سے محبت کا ذریعہ ہے تو پھر فردوسِ اعلیٰ کی طرف سفر اور اس راستے میں نرمی کتنی ہونی چاہیے۔ استاد اور شاگرد کے درمیان نرمی کا معاملہ ہوتا کہ استاد جو شاگرد کو دینا چاہے وہ دے سکے۔

استاد نبیِ کریمﷺ کی پیروی کرے،خالصتا اللہ کی رضاکے لیے اس کا قرب حاصل کرنے کے لیے علم سکھائے۔ شاگرد کے ساتھ استاد کا تعلق ایسا ہو کہ نصیحت کرنے میں کوئی کسر نہ چھوڑے۔ جس قدر ممکن ہو اس کے دل میں اس چیز کی خرابی کا تصور پختہ کرے کیو نکہ بد عمل عالم کا فساد اس کی اصلاح سےزیادہ ہوتا ہے، استاد اور شاگرد کے درمیان تعلق ایساہو کہ وہ ان میں خوفِ خدا اور عشقِ مصطفی پیدا کرسکے۔

استاد اورشاگرد کے مابین تعلق ایسا ہوکہ استاد اپنے حقوق کو اورشاگرد اپنے حقوق کو سمجھے،استاد کی ذمہ داری ہے کہ جس قدر ممکن ہو شاگرد کو برے اخلاق سے اشارۃً منع کرے، صراحتاً نہ روکے، پیار محبت سے منع کرے، جھڑک کر منع نہ کرے، کیونکہ واضح لفظوں میں ملامت کرنے سے ہیبت کا پردہ چاک ہوجاتا ہےاور مخالفت کی جرأت پیدا ہوجاتی ہے، اور وہ منع کردہ بات پر اصرار کرنے کا حریص بن جاتا ہے، کیونکہ نبی کریم ﷺ نے فرمایا: اگر لوگوں کو مینگنی توڑنے سے روکا جائے تو وہ اس کو توڑیں گےاور کہیں گے کہ ہمیں منع کیا گیا ہے ضرور اس میں کوئی بات ہوگی۔استاد اور شاگرد کی مثال ایسی ہے جیسے نقش اور مٹی، لکڑی اور سائے کی، کہ اس چیز سے مٹی میں کیسے نقش بنے گا جس میں خود نقش نہیں ہے، اور جب لکڑی ہی ٹیڑھی ہوگی تو اس کا سایہ سیدھا کیسا ہوگا؟ یعنی استاد اپنی اصلاح بھی کرے اور شاگرد کی بھی، یعنی دونوں ایک دوسرے کی اصلاح کر سکیں۔یعنی استاد کا تعلق شاگرد کے ساتھ ایسا ہوکہ وہ بھی آسانی سے استاد کی اصلاح کرسکے۔ اللہ پاک ہم سب کو اپنے حقوق اچھے طریقے سے ادا کرنے کی توفیق عطافرمائے۔


ا ستاد ہونا بلاشبہ  ایک سعادت ہے کہ حضورﷺ نے فرمایا:مجھے معلم بنا کر بھیجا گیا۔ اسی طرح شاگرد ہونا بھی تحفۂ ربّ لم یزل ہے کہ حدیثِ پاک میں ہے:اللہ پاک جس کے ساتھ بھلائی کا ارادہ فرماتا ہے اسے دین کی سمجھ بوجھ عطافر ماتا ہے۔ استاد شاگرد کو عرصۂ دراز تک ایک ساتھ ایک ادارے میں مخصوص مقاصد کے تحت رہنا ہو تا ہے اور استادو شاگرد دونوں ہی ایک مقدس رشتے کے بندھن میں بندھے ہوتے ہیں، لہذا ضروری ہے کہ ان کا باہمی تعلق اس نوعیت کا ہو کہ وہ ادارہ تو چھوڑ جائیں لیکن ایک دوسرے کو نہ چھوڑ سکیں، ان کا باہمی تعلق اتنا مضبوط ہو کہ وہ تاحیات ساتھ رہیں، جب بھی شاگرد کو استاد کا خیال آئے تو دل ادب و احترام سے بھر جائے، اور اس استاد کا شاگرد ہونے کو سعادت خیال کرے۔استاد کی مثال اس باغبان جیسی ہے کہ جس کے کندھے پرننھے پودوں کے مستقبل کی لہلہاوٹ منحصر ہوتی ہے، دور جدید میں استاد کی مثال اس ناخدا جیسی ہے جسے اپنی ناؤ کو ساحل پر لنگر انداز کرنا ہوتا ہے، لہذا استاد کو چاہیے کہ شاگرد کے باطن کو خصائل رذیلہ سے پاک کرکے اوصاف حمیدہ کا حامل بنانے کے لئے تمام تر سُستیوں کو بالائے طاق رکھ کر اپنی تمام صلاحیتوں کو بروئے کار لائے، تاکہ وہ اپنے شاگرد کو معاشرے کا ایک مثالی فرد اور اسلام کا درخشندہ ستارہ بنا سکے، اس کے لئے ضروری ہے کہ استاد و شاگرد باہم نہایت مخلص ہوں اور باہم کسی قسم کے طنز و تنقید اور مقابلے کو روا نہ رکھیں، اس کے لئے ضروری ہےکہ مندرجہ ذیل امور کو زیرِ نظر رکھیں۔

طلبا کی نفسیات سے واقفیت: ہر انسان جداگانہ فطرت کا حامل ہے، ایک ہی درجے میں موجود طلبا کی نفسیات مختلف ہوتی ہیں، بعض اوقات اساتذہ کو شکایت ہوتی ہےکہ فلاں طالبعلم کو بہت سمجھایا پیار سے بھی سمجھایا، غصے سے بھی سمجھایا، لیکن اسکی کمزوری دور نہیں ہوتی، اساتذہ شاید اس بات کو نظر انداز کردیتے ہیں کہ شاگرد آپ کی بات کو اسی وقت تسلیم کرے گا کہ جب آپ اسے اس کی نفسیات کے مطابق سمجھائیں گے۔لہذا اساتذہ غور کریں کہ انہوں نے طلبا کو سمجھایا یا شرمندہ کیا۔بچے کی فطرت کو نہیں بدل سکتے لیکن اپنا انداز بدل سکتے ہیں۔بہترین استاد وہ ہے جو اپنے شاگرد کی عزت نفس کو مجروح نہ ہونے دے، استاد و شاگرد کا باہمی تعلق نہایت خوشگوار اور دوستانہ رکھنے کے لئے نفسیات سے واقفیت نہایت ضروری ہے۔ تاکہ شاگرد بلاخوف و خطر آپ سے اپنے خیالات کا تبادلہ اور مسائل کا حل طلب کرسکے۔ بروز قیامت ما تحت کے بارے میں سوال ہوگا۔ استاد کے ساتھ ساتھ شاگرد کو بھی چاہیے کہ اپنے دل میں استاد کی محبت کو پروان چڑھائے، استاد کا دل میں احترام ہر وقت ملحوظ رہے، اور اس کے لئے ادب کرنا بہت ضروری ہے۔ادب پہلا قرینہ ہے محبت کے قرینوں میں۔دوران درجہ شاگرد کو چاہیے کہ نہایت مؤدبانہ انداز اختیار کرے۔اور استاد کی موجودگی میں کسی سوال کا جواب نہ دے، بلکہ استاد ہی سے سوال کرنے کا مشورہ دے، نیز استاد سے اگر کبھی سبقت لسانی یا بھول کی وجہ سے کوئی غلطی ہوجائے، تو فورا لقمہ دینے کے بجائے لکھ کر یا الگ سے استاد کو اچھے اندا ز میں بتادے، تاکہ استاد بروقت اپنی غلطی کا ازالہ کرسکے،اور اس کی عزت نفس کو ٹھیس بھی نہ پہنچے۔ شاگرد ہمیشہ یہ بات مستحضر رکھے کہ میرا استاد کامل ہے، اگر بتقاضائے بشریت کچھ غلطی ہوجائے تو یہ سوچے کہ استاد نے ایسا کیا نہیں بلکہ اس سے خطا کے طور پر ایسا ہوگیا۔

ماوصل من وصل الا بالحرمۃ

وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ

جس نےجو پایا ادب سے پایا، اور جس نے جو کھویا ادب نہ کرنے کی وجہ سے کھویا۔

استاد و شاگرد کے درمیان گیپ نہ ہو:چاہیے کہ استاد ایک شریف باپ اور شاگرد ایک باادب بیٹے کا سا طریقہ اپنائے، تاکہ تحصیلِ علم میں طالبِ علم کو کوئی مشکل پیش نہ آئے، تاکہ وہ بلاجھجھک اپنی علمی الجھنیں استاد کے سامنے رکھ کر تشفی بخش جواب سے انہیں دور کرسکے۔شاگرد اور استاد کے درمیان اتنا فاصلہ نہ ہوکہ مفروضات تو دور شاگرد اسباق سے متعلق حقیقی سوال بھی نہ کرسکے، بلکہ اساتذہ شاگرد کے ساتھ بااخلاق رویہ رکھیں، کہ شاگرد بے فکر ہوکر سوالات پوچھے، ایسانہ ہوکہ سوالات پوچھنے سے پہلے شاگرد یہ سوچے کہ پتانہیں اب جواب ملے گا یا الٹا سوال کریں گے۔

شاگرد کے سوال کا جواب ہوسکے تو دیں لیکن اس وقت جواب معلوم نہ ہونے پر وقت طلب کرلیں، یہ نہ کہیں کہ تمہارا اس سوال سے کیا کام؟ یہ پوچھ کر تم کیا کرو گے؟ اگر شاگرد کوئی غلط سوال کر بھی لے تو اسے بتائیں کہ وہ غلطی پر ہے اس کا سوال غلط ہے، تاکہ وہ اپنی غلطی سدھار لے، شاگرد کو بھی چاہیے کہ صرف علمی سوالات کرے، مفروضات نہ پوچھے، کہ اگر اس صورت میں یہ ہوگیا تو کیا ہوگا؟اس طرح درجے کا ماحول بھی متاثر ہوتا ہے، دیگر طلبا کو بھی ناگوار لگتا ہے، اگر تمنا حصولِ علم کی ہے تو استاد کا ادب کر، نہیں ملتا یہ گوہر بادشاہوں کے خزانوں میں۔

ذاتی معاملات میں مداخلت:استاد کو چاہیے کہ بلاوجہ اور ذاتی طور پر شاگرد کے معاملات میں دخل نہ دیں، بلکہ آپ کا کردار اور اعتماد شاگرد کی نظروں میں اتنا مضبوط ہو کہ وہ آپ سے خود علمی مسائل کے علاوہ دیگر مسائل کے بھی حل طلب کریں، شاگرد کو جب استاد سے عزت نفس کے تحفظ کا یقین ہوگا تو وہ خود بلا تردد تمام مسائل استاد سے شیئر بھی کرے گا، اور اپنی غلطی کی نشاندہی پر اسے تسلیم بھی کرے گا۔شاگرد چونکہ ایک مدت تک استاد کی نگاہوں میں رہتا ہے، چنانچہ زیرک اساتذہ مختلف طلبا میں پائی جانے والی مختلف صلاحیتوں کو بھی پہچان لیتے ہیں۔ لہذا شاگرد کو چاہیےکہ فارغ التحصیل ہوتے وقت اپنے اساتذہ سے مستقبل کے بارے میں مشورہ ضرور کرے، تاکہ وہ جگہ جگہ خود کو آزما کر وقت ضائع کرنے کے بجائے، اپنی متعلقہ فیلڈ میں خداداد صلاحیتوں کو استعمال کرسکے۔

المختصر یہ کہ استاد روحانی باپ کا درجہ رکھتا ہے، لہذا اسے چاہیے کہ اس طرح طلبا پر شفقت کرے کہ جیسے کوئی باپ اپنی حقیقی اولاد پر کرتا ہے، ان سے اندازِ تخاطب، ان کے مسائل میں معاونت، اور دلجوئی کا بھی خیال رکھے،استاد کی کسی بھی قسم کی بے ادبی اور دلی آزردگی کرنے سے بچے، اور یاد رکھے کہ

میدان علم و فن میں ہیں شاہسوار جتنے

ہر ایک کی ہے ہمت استاد کی بدولت

شاگرد کی ہے عزت استاد کی بدولت


کائنات بہت بڑی ہے یہ سبھی کو پتا ہے،مگر اس کی ایک حد تو ضرور ہے، زمین بہت کشادہ ہے یہ سبھی کو معلوم ہے مگر اسکی ایک حد تو ضرور ہے، سمندر بہت بڑا ہےیہ سبھی کو پتا ہےمگر اس کے کنارے اور گہرائی کی ایک حد تو ضرور ہے،ستاروں کی تعداد بہت زیادہ ہے، یہ تو سبھی کو پتا ہے مگر ان کی ایک حد تو ضرور ہے، مخلوقِ خدا کی تعداد بہت زیادہ ہے یہ سبھی کو پتا ہے، مگر اس کی ایک حد ضرور ہے۔

مگر ایک بات ذہن نشین رکھئے! رحمتِ عالَم ﷺ کی اپنی اُمت سے شفقت و  محبت ایک ایسے سمُندر کی طرح ہے جس کی گہرائی اور کنارےکا ہم میں سے کسی کو بھی عِلْم نہیں۔آپﷺ کی اپنی اُمّت سے مَحَبَّت و شفقت کا بیان قرآنِ کریم میں بھی موجود ہے،

چنانچہ پارہ11سورۂ توبہ کی آیت نمبر 128میں اللہ  پاک ارشادفرماتاہے: لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)ترجمہ کنز الایمان:بےشک تمہارے پاس تشریف لائے تم میں سے وہ رسول جن پر تمہارا مشقت میں پڑنا گراں ہے تمہاری بھلائی کے نہایت چاہنے والے مسلمانوں پر کمال مہربان مہربان۔ بیان کردہ آیتِ مقدّسہ کے تحت”تفسیرصِراطُ الجنان“میں لکھا ہے:یہ تو قرآنِ مجید سے آپﷺ  کی مسلمانوں پر رحمت و شفقت کا بیان ہوا،اب مسلمانوں پر آپﷺ کی رحمت و شفقت کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:

رات کے نوافل فرض نہ ہوں:رات کے نوافل پر ہمیشگی نہ فرمائی تاکہ یہ اُمّت پر فرض نہ ہو جائیں۔(فتاویٰ رضویہ،7/400)

مسلسل روزے رکھنے سے منع فرمانا:اُمّت کے مَشَقَّت( تکلیف)میں پڑ جانے کی وجہ سے انہیں صومِ وصال کے روزے رکھنے سے منع کر دیا۔(بغیر اِفطار کئے اگلا روزہ رکھ لینا اور یوں مسلسل روزے رکھنا صومِ وصال کہلاتا ہے۔)

اگر میں کہتا تو ہرسال حج فرض ہوجاتا:جب اللہ  پاک نے اپنے بندوں پر حج فرض فرمایا اور رحمتِ عالَم ﷺ نے خُطبہ میں حج کی فَرْضِیَّت کا اِعلان کرتے ہوئے فرمایا:یااَيُّهَا النَّاسُ قَدْفَرَضَ اللہُ عَلَيْكُمُ الْحَجَّ فَحُجُّوا یعنی اے لوگو! اللہ پاک نے تم پر حج کو فرض فرما دِیا ہے،لہٰذا حج کِیا کرو۔تو ایک صحابیِ رسول(حضرت اَقْرَع بن حابِس)نے عَرْض کی:یارَسُولَ اللہﷺ کیا ہر سال حج کرنا فرض ہے؟3 مرتبہ اُنہوں نے یہی سوال کِیا، مگر ہر مرتبہ رسولوں کے سالار امت پر شفقت فرمانے والے آقا و مولا ﷺ نے خاموشی ہی اِخْتِیار فرمائی،پھر ارشاد فرمایا:لَوْ قُلْتُ:نَعَمْ لَوَجَبَتْ اگر میں نے ”ہاں“کہہ دِیا ہوتا تو ہرسال حج کرنا فرض ہوجاتا۔ (مسلم، ص 698، حدیث:1337)

نہایت ہی شفیق آقا و مولا ﷺ کی اپنی امت پر شفقت کے تین (3)فرامین مبارکہ:

1۔مسواک کو فرض نہ ٹھہرایا:لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰى اُمَّتِيْ لَفَـرَضْتُ عَلَيْہِمُ السِّوَاكَ كَمَا فَـرَضْتُ عَلَيْہِمُ الْوُضُوء اگر مجھے اپنی اُمَّت کی دُشواری کا خیال نہ ہوتا تو میں ضرور اُن پر مِسواک کو اُسی طرح فرض کردیتاجس طرح میں نے اُن پر وضو فرض کِیا ہے۔(مسنداحمد، 1/459،حدیث: 1835)

2۔نمازِ عشاء کو مؤخر نہ فرمایا:لَوْلَا اَنْ اَشُقَّ عَلٰى اُمَّتِيْ لَاَمَرْتُهُمْ اَنْ يُّـؤَخِّـرُوا الْعِشَاءَ اِلٰى ثُلُثِ اللَّيْلِ اَوْ نِصفِہٖ اگر مجھے اپنی اُمَّت کی مَشَقَّت کا خیال نہ ہوتا تو میں عشاء کی نماز کو تہائی یا آدھی رات تک مؤخَّر کرنے کا ضرور حکم دیتا۔(ترمذی، 1/214،حدیث:147)

وَلَوْلاَ ضَعْفُ الضَّعِيفِ وَسُقْمُ السَّقِيمِ لَاَخَّرْتُ هٰذِهِ الصَّلَاةَ اِلٰى شَطْرِ اللَّيْلِ اگر بوڑھوں کی کمزوری اورمریضوں کی بیماری کا خیال نہ ہوتا تو اِس نماز(یعنی نمازِ عشاء )کو آدھی رات تک ضرور مؤخَّر کردیتا۔(ابوداؤد،1/185،حدیث:422)

اللہ پاک کا کروڑہا کروڑ کرم ہے کہ ہمیں ایسے مہربان، شفیق، رحمت والے، برکتوں والے، ہم نکموں کی بگڑی بنانے والے نبی، نبئ رحمت، شفیعِ اُمم، رسولِ محتشم جیسے آقا و مولا عطا فرمائے۔ اے اللہ پاک! سدا مجھے آقا و مولا ﷺ کی نظرِرحمت میں اور ان کی شفقتوں کے سائے میں رکھنا، آمین ثم آمین۔ اے اللہ پاک! ہمیں اپنے آقا و مولا ﷺ کی لازوال محبت عطا فرما اور ہمیں صلوٰۃ و سُنّت کا پابند بنا، والدین کا مطیع و فرمانبردار بنا، امیرِاہلسُنّت کی غلامی دعوتِ اسلامی میں استقامت نصیب فرما، مکۂ مکرمہ و  مدینۂ منورہ کی باادب باذوق مرشدِ پاک اور والدین کے ہمراہ حاضری کی سعادت نصیب فرما۔


ہمارے پیارے نبی ﷺ بہت ہی مہربان اور امت پر شفقت کرنے والے ہیں۔ آپ ﷺ  تو اتنے شفیق ورحیم ہیں کہ آپ نے اپنے دشمنوں کو بھی معاف فرمادیا اور ان پر بھی شفقت و مہربانی کی ایک اعلیٰ مثال قائم کی۔ جب دشمنوں پراتنے رحم دل ہیں تو امت پر کیوں نہ آپ ﷺ کا لطف وکرم ہوگا۔ آپ ﷺ اپنی امت پر بھی بہت ہی زیادہ شفیق ورحیم ہیں۔ وہ مسائل جن میں آقاﷺ نے امت پر شفقت فرمائی، درج ذیل ہیں۔

تراویح اور نماز: نبی کریم ﷺ نے تین رات نماز تراویح اپنے اصحاب کو پڑھائی، چوتھی رات بکثرت صحابۂ کرام جمع ہوگئے اور انتظار کرتے رہے لیکن آپ تشریف نہ لائے،صبح کی نماز کے بعد آپ نے یوں فرمایا: تمہارا مسجد میں جمع ہونا مجھ پر پوشیدہ نہ تھا لیکن مجھے ڈر تھا کہ کہیں تم پر یہ نماز فرض نہ ہوجائے اور تم اس کے ادا کرنے سے عاجز آجاؤ۔

شب معراج میں پہلے 50 نمازیں فرض ہوئیں، اللہ پاک کی بارگاہ سے واپس آتے ہوئے چھٹے آسمان پر حضرت موسی ٰعلیہ السلام سے آپ کی ملاقات ہوئی، انہوں نے آپ سے دریافت کیا، کیا حکم ملا؟ آپ نے فرمایا:50 نمازوں کا حکم ملا ہے، حضرت موسی نے کہا: آپ کی امت ہر روز 50 نمازیں نہیں پڑھ سکے گی، آپ اپنی امت سے بوجھ ہلکا کروائیں چنانچہ آپ بارگاہ الٰہی میں دوبارہ حاضر ہوئے اور تخفیف کراتے رہے یہاں تک کہ 5 نمازیں رہ گئیں اور آپ اس پر راضی ہوگئے۔(سیرت رسول عربی،ص 232 تا 233)

عورتوں پر شفقت: اسلام سے پہلے عورت صنفِ نازک ذلت میں گری ہوئی تھی اور مردوں کے استبداد کا تختہ مشق بنی ہوئی تھی، عرب میں ازدواج کی کوئی حد نہ تھی چنانچہ حضرت غیلان ایمان لائے توان کے تحت دس عورتیں تھیں،جب شوہر مر جاتا تو اس کا بیٹا اپنی سوتیلی ماں کو وراثت میں پاتا۔ وہ خود اس سے شادی کرلیتا یا اپنے بھائی یاقریبی کو شادی کے لیے دے دیتا ورنہ عورت کو نکاح ثانی سے منع کرتا تھا۔ہندوستان میں تو یہ بھی رائج تھا کہ شوہر مر جاتا توعورت سے بھی اس کے جینے کا حق چھین لیا جاتا تھا۔ نبی کریم ﷺ نے عورتوں کے حقوق کو اہمیت دی اور عورت کے ساتھ حسن معاشرت کی تاکید فرمائی۔

فرمان مصطفی ﷺ:نبیِ کریم ﷺ نے فرمایا: تم میں سب سے اچھا وہ ہے جو اپنے اہل کے لیے سب سے اچھا ہو اور میں اپنے اہل کے لیے تم میں سب سے اچھا ہوں۔

عورتوں پر حضور ﷺ کی شفقت اس قدر تھی کہ اگر آپ نماز کی حالت میں کسی بچے کی آواز سنتے تو اس کی ماں کی مشقت کے خیال سے نماز میں تخفیف فرماتے۔ (سیرت رسول عربی، ص 231-235)

یہ آپ ﷺ کی شفقت ہی کا باعث ہے کہ دین و دنیا میں امت کے لیے تخفیف و آسانی ہی مد نظر رہی۔ چنانچہ جب آپ ﷺ کو دو امروں میں اختیار دیا جاتا تو آپ ﷺان میں سے آسان کو اختیار فرماتے بشرطیکہ وہ آسان موجبِ گناہ نہ ہو اور اگر ایسا ہوتا تو آپ ﷺ سب سے بڑھ کر اس سے دور رہنے والے تھے۔ (سیرت رسول عربی،ص232)

دعا: اللہ پاک ہمیں بھی آقا کریم کے صدقے آقا کی امت پر شفقت و مہربانی کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔ آمین بجاہ النبی الامینﷺ


شفقت ایک ایسا وصف ہے جو انسان کو آراستہ و پیراستہ کر کے ہر دل عزیز بنا دیتا ہے۔ پھر نبی ِکریم ﷺکی شفقت کا کیا کہنا کہ آپ کا اپنی امت پر شفیق و مہربان ہونا روزِ روشن کی طرح عیاں ہے۔ جیسا کہ قرآنِ پاک میں ہے۔

لَقَدْ جَآءَكُمْ رَسُوْلٌ مِّنْ اَنْفُسِكُمْ عَزِیْزٌ عَلَیْهِ مَا عَنِتُّمْ حَرِیْصٌ عَلَیْكُمْ بِالْمُؤْمِنِیْنَ رَءُوْفٌ رَّحِیْمٌ(۱۲۸)

آپ علیہ السلام اپنی ولادت سے لیکروصال ظاہر ی تک اور مابعد وصال تا قیامت امت پر شفقت و مہربانی کے دریا بہا رہے ہیں۔

مؤمن ہوں مومنوں پہ رؤف و رحیم ہو

سائل ہوں سائلوں کو خوشی لا نھر کی ہے۔

اس شفقت کا اندازہ اس بات سے لگایا جا سکتا ہے کہ شریعت کے کئی احکام آپ ﷺ نے امت پر آسان فرما دئے، جن میں سے چند یہ ہیں:

1 -حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے نبی کریم ﷺنے فرمایا: اگر یہ بات نہ ہوتی کہ میری امت پر شاق ہوگا تو میں انہیں ہر وضو کے ساتھ مسواک کرنے کا حکم دیتا۔(ترمذی، 1/101)

2-حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِ کریمﷺ نے فرمایا کہ میں نماز شروع کرتا ہوں اور اسے دراز کرنا چاہتا ہوں کہ بچے کے رونے کی آواز سنتا ہوں تو نماز میں اختصار کرتا ہوں کیونکہ اسکے رونےسے اس کی ماں کی سخت گھبراہٹ جان لیتا ہوں۔(مراٰۃ المناجیح، 2/196)

3 -حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں، رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: اگر میری امت پر مشقت نہ ہوتی تو میں ان پر ہر وضو کے ساتھ مسواک فرض کر دیتا اور نماز عشاء کو نصف رات تک مؤخر کر دیتا۔(ترمذی، 1/102)

4 -حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے رسول اللہ ﷺنے ہمیں خطبہ دیا اور فرمایا: اے لوگو! تم پر حج فرض ہو گیا پسں حج کیا کرو۔ ایک شخص نے عرض کی ! یا رسو ل اللہ! کیا حج ہر سال فرض ہے ؟ آپ خاموش رہے حتی کہ اس نے تین بار عرض کیا۔ پھرآپ ﷺنے فرمایا: اگر میں ہاں کہہ دیتا تو حج ہر سال فرض ہو جاتا اور تم اس کی ادائیگی کی طاقت نہ رکھتے، جن چیزوں کا بیان میں چھوڑ دیا کروں تم ان کا سوال مت کیا کرو۔ (مسلم، 1/432)

5-حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے رسول اکرم ﷺنے فرمایا: وصال کے روزے نہ رکھو، صحابہ نے عرض کیا: یا رسول اللہ! آپ وصال کے روزے رکھتے ہیں، آپ ﷺ نے فرمایا تم اس معاملے میں مجھ جیسے نہیں۔ میں اس حال میں رات گزارتا ہوں کہ میرا رب مجھے کھلاتا پلاتا ہے تم وہ کام کیا کرو جو آسانی سے کر سکو۔(مسلم، 1/432)

صومِ وصال کا معنی یہ ہے کہ روزے کے بعد روزہ رکھا جائے اور ان روزوں کے درمیان کھانا پینا نہ ہو،اس طرح جتنے روزے رکھے جائیں وہ سب صومِ وصال ہونگے۔ (شرح صحیح مسلم، 3/647)