سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر کافر ہے جس طرح سود لینا حرام ہے سود دینا بھی حرام ہے، قرآن و حدیث میں اس کے متعلق سخت وعیدیں بیان ہوئی ہیں۔

سود کی تعریف:سود کا لغوی معنی اضافہ کرنا ہے، جبکہ اصطلاحی معنی عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع، جو فائدہ حاصل ہو وہ سب سود ہے۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے پوچھا:یہ کون شخص ہے؟کہا یہ شخص جو نہر میں ہے سود خور ہے۔(بخاری،ص 543، حدیث:2085)

2۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔ (کتاب الکبائر،ص 69)

3۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

4۔ پیارے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہرسے دیکھے جا رہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔

5۔ سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سب سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(شعب الایمان،ص 394،حدیث:5560)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: مال کی حرص سود کا باعث بنتی ہے، فضول خرچی خاص طور پر شادی وغیرہ تقریبات میں فضول رسموں کی پابندی کہ ایسے افراد کم خرچ پر قناعت نہ کرنے کی وجہ سے سود پر قرض اٹھا لیتے ہیں، علم دین کی کمی، بعض اوقات سود سے بچنے کا ذہن بھی ہوتا ہے مگر معلومات نہ ہونے کی وجہ سے آدمی سود کے لین دین میں مبتلا ہو جاتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب: قناعت اختیار کیجیے، لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجیے، موت کو کثرت سے یاد کیجیے ان شاء اللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کا ذہن بنے گا، سود کے عذابات اور دنیوی نقصانات کو پڑھیے سنیے اور غور کیجیے کہ سود کس قدر تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔


کسی مسلمان کا برائیوں اور گناہوں میں مبتلا ہونا بلاشبہ برا ہے، لیکن کسی مسلمان کے ساتھ کسی بھی معاملے میں زیادتی کرنا جس سے اس کو نقصان ہو اس سے کہیں زیادہ برا ہے، ہمارے معاشرے میں جو بیماریاں ناسور کی طرح پھیل رہی ہیں ان میں سے ایک سود بھی ہے، سود، رشوت، شراب نوشی چوری وغیرہ جیسے امراض نے ہماری گھریلو، کاروباری، دفتری زندگی کاسکون برباد کر کے رکھ دیا ہے۔

سود کی تعریف: عقد معاوضہ یعنی لین دین کے معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل یعنی بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو سود ہے۔

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔ رسول کریم ﷺ نے سود دینے والے، لینے والے، اس کے کاغذات تیار کرنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص862، حدیث: 1598)

2۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 70)

3۔ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے حضرت جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا، انہوں نے عرض کی: یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے تھے۔(ابن ماجہ، 3/71حدیث: 2273)

4۔ اللہ تعالیٰ سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے، نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتے داروں سے حسن سلوک۔(قرطبی، البقرۃ، تحت الآیۃ: 276، 2/274)

5۔ فرمان مصطفیٰ: رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے، میں نے پوچھا: یہ کون شخص ہے؟ کہا: یہ شخص جو نہر میں ہے سود خوار (یعنی سود کھانے والا) ہے۔(بخاری، ص 543، حدیث: 2085)

سود کے چند معاشرتی نقصانات: لین دین کے معاملے میں سود کرنے سے دوسرے کے ساتھ نا انصافی ہوتی اس کی حق تلفی ہونے کی وجہ سے لوگ بھی اس سے نفرت کرتے ہیں، اس سے مال ضائع ہوتا ہے جس کو مال جاتا ہے اسے فائدہ ہوتا ہے اور دینے والے کو نقصان ہو جاتا ہے، بندے کے دل سے نرمی خیرخواہی اور رحم کے جذبات ختم ہو جاتے ہیں، کیونکہ سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خور اپنے مقروض کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے، اخلاقیات میں بگاڑ پیدا ہوتا ہے، دوسرے کے ساتھ نا انصافی ہوتی ہے اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی سود سے ممانعت عین حکمت ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب: سود جیسے کبیرہ گناہ سے بچنا بہت ضروری ہے اس سے بچنے کے لیے قناعت اختیار کیجیے، علم دین حاصل کیجیے، لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجیے اور موت کو کثرت سے یاد کیجیے ان شاء اللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کرنے کا ذہن بنے گا، سود کے عذابات اور اس کے دنیوی نقصانات کو پڑھیے، سنیے اور غور کیجیے کہ یہ کس قدر تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔ سود سے بچنے کے لیے بری صحبت سے بچتے رہیں اور نیک پرہیزگار عاشقان رسول کی صحبت اختیار کیجیے، مال کی حرص دل سے نکال دیجیے ہر وقت اپنی اخروی زندگی کے بارے میں سوچتے رہیں۔

حسد، وعدہ خلافی، جھوٹ، چغلی، غیبت و تہمت مجھے ان سب گناہوں سے ہو نفرت یا رسول اللہ


مسلمانوں پر سود کو حرام قرار دیا گیا ہے اور جو بد نصیب یہ جاننے کے بعد بھی سودی لین دین جاری رکھے تو گویا وہ اللہ پاک اور اس کے رسول سے جنگ کرنے والا ہے،سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،اس کی حرمت کا منکر (یعنی اس کے حرام ہونے سے انکار کرنے والا) کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی) (بہار شریعت)

سود کی تعریف:سود اس اضافہ کو کہتے ہیں جو دو فریق میں سے ایک فریق کو مشروط طور پر اس طرح ملے کہ وہ اضافہ عوض سے خالی ہو۔(ہدایہ)

سود کی اقسام:قرض کے بدلے حاصل ہونے والا اضافہ یا ادھار کی بعض صورتوں میں پایا جانے والا سود۔مخصوص اشیا کے تبادلے پر چند صورتوں میں پایا جانے والا سود۔

سود کی مثال:ایک شخص ایک لاکھ روپے قرض دے اور واپس ایک لاکھ دس ہزار وصول کرے تو یہ اضافی دس ہزار روپے کسی بھی عوض سے خالی ہیں لہٰذا سود ہے۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔جس نے سود کھایا اگر چہ ایک ہی درہم ہو تو گویا اس نے اسلام میں اپنی ماں سے زنا کیا۔(نیکیوں کی جزائیں،ص 46)

2۔رسول اللہ ﷺ نے فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک ایسی قوم سے ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے تھے ان پیٹوں میں سانپ موجود تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے۔میں نے پوچھا:اے جبرائیل یہ کون ہیں؟ انہوں نے کہا:یہ سود خور ہیں۔(سیرت مصطفیٰ،ص 103)

3۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے تو گویا اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔

4۔سود اگرچہ ظاہری طور پر زیادہ ہی ہو آخر کار اس کا انجام کمی پر ہوتا ہے۔(مسلم،ص 64،حدیث:284)

5۔قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔

سود کے چند معاشرتی نقصانات:محشر کے دن جب سود خور اپنی قبروں سے اٹھیں گے تو مخبوط الحواس ہوں گے اور ان کی کیفیت ایسی ہوگی جیسے اس آسیب زدہ شخص کی ہوتی ہے جس کو شیطان نے چھو کر مجنون اور خبطی بنا دیا ہو۔اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔

نبی کریم ﷺ نے فرمایا:تم ایسے گناہوں سے بچو جس کی قیامت کے دن بخشش نہیں ہوگی ان میں سے ایک سود ہے،کیونکہ جو سود خوری کرے گا وہ روز قیامت مجنون بنا کر اٹھایا جائے گا،پھر آپ ﷺ نے مذکورہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا ۔۔۔(طبرانی،2/747)

سود سے بچنے کی ترغیب:آج ہم دیوانہ وار مال و دولت کی ہوس میں اندھے ہو گئے ہیں اپنے بیوی بچوں کا پیٹ پالنے کے لیے طرح طرح کے حیلے بہانے بناتے ہیں کہ میں بیوی بچوں کا پیٹ پال رہا ہوں،ان کے لیے کما رہا ہوں ،کیا کروں حرام روزی کمانے کے سوا کوئی چارہ بھی نہیں،لوگوں کو کیا ہو گیا کہ بیوی بچوں کا پیٹ پالنے اور ان کو عیش و عشرت کی زندگی دینے کے لیے حرام روزی کمانے میں مصروف ہو گئے اور ان کی دین اسلام کے سنہری اصولوں کے مطابق تربیت کرنے اور انہیں حلال لقمے کھلانے سے غافل ہو گئے،انہیں کیا معلوم کہ قیامت کے دن اپنے بیوی بچوں کو علم دین نہ سکھانے اور حرام روزی کھلانے کا کیسا وبال سامنے آئے گا،چنانچہ دعوتِ اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ 146 صفحات پر مشتمل کتاب "قرۃ العیون" صفحہ 93 پر ہے کہ مرد سے تعلق رکھنے والوں میں پہلے اس کی زوجہ اور اولاد ہے،یہ سب قیامت کے دن کھڑے ہو کر عرض کریں گے "اے ہمارے رب ہمیں اس شخص سے ہمارا حق لے کر دے،کیونکہ اس نے کبھی بھی ہمیں دینی امور کی ترغیب نہیں دی اور یہ ہمیں حرام کھلاتا تھا جس کا ہمیں علم نہ تھا" پھر اس شخص کو حرام کھلانے پر اس قدر مارا جائے گا کہ گویا اس کا گوشت جھڑ جائے گا اس کو میزان کے پاس لایا جائے گا ایک شخص بڑھ کر آئے گا اور کہے گا اس نے مجھے سود کھلایا تھا اس کی نیکیاں لے کر اس شخص کو دے دی جائیں گی پھر فرشتے اس سے کہیں گے:یہ وہ بد نصیب ہے جس کی نیکیاں اس کے گھر والے لے گئے اور یہ ان کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا۔

اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں سود جیسے مہلک مرض سے محفوظ فرمائے اور حلال روزی کمانے کی توفیق عطا فرمائے۔آمین


قرآن پاک میں اللہ پاک نے ارشاد فرمایا: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 278- 279)ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو پھر اگر ایسا نہ کرو تو یقین کر لو اللہ اور اللہ کے رسول سے لڑائی کا اور اگر تم توبہ کرو تو اپنا اصل مال لے لو نہ تم کسی کو نقصان پہنچاؤ نہ تمہیں نقصان ہو۔تفسیر خزائن العرفان میں ہے:معنیٰ یہ ہے کہ جس طرح آسیب ردہ سیدھا کھڑا نہیں ہو سکتا گرتا پڑتا چلتا ہے، قیامت کے روز سود خوار کا ایسا ہی حال ہوگا کہ سود سے اس کا پیٹ بوجھل ہو جائے گا اور وہ اس کے بوجھ سے گر پڑے گا۔

سود کی تعریف: حدیث پاک میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں:کل قرض جر منفعۃ فھو ربا قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے۔(سود اور اس کا علاج) ذیل میں سود کی مذمت پر 5 فرامین مصطفیٰ درج ہیں۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔ رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔

2۔سود کا ایک درہم جس کو جان کر کوئی کھائے وہ 36 مرتبہ زنا سے بھی سخت ہے۔

3۔سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(اسلاف کا انداز تجارت)

4۔سرکار مدینہ ﷺ نے فرمایا: شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں، میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟کہا: یہ سود خور ہیں۔

5۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔

سود کے چند معاشرتی نقصانات: سود ایک ایسی برائی ہے جس نے ہمیشہ معیشت کو تباہ کیا ہے، سود کا رواج تجارتوں کو خراب کرتا ہے کہ سود خوار کو بے محنت مال کا حاصل ہونا تجارت کی مشقتوں اور خطروں سے کہیں زیادہ آسان معلوم ہوتا ہے اور تجارتوں کی کمی انسانی معاشرت کو ضرر یعنی نقصان پہنچاتی ہے، سود کے رواج سے باہمی مؤدت (محبت) کے سلوک کو نقصان پہنچتا ہے کہ جب آدمی سود کا عادی ہو تو وہ کسی کو قرض حسن سے امداد پہنچانا گوارا نہیں کرتا، سود سے انسان کی طبیعت میں درندوں سے زیادہ بے رحمی پیدا ہوتی ہے اور سود خور اپنے مدیون (مقروض) کی تباہی و بربادی کا خواہش مند رہتا ہے، اس کے علاوہ بھی سود میں اور بڑے بڑے نقصان ہیں اور شریعت کی ممانعت عین حکمت ہے۔

سود سے بچنے کی صورتیں: سود کی نحوست سے محفوظ رہنے کے لیے سب سے پہلے لمبی امیدوں سے اپنے دامن کو پاک رکھنے کی ضرورت ہے۔یاد رکھیے! لمبی امیدوں کا بنیادی سبب دنیا کی محبت ہے اور یہ مال اور دنیا کی محبت ہی بندے کو موت سے غافل کر دیتی ہے جس کے سبب وہ دنیا کا عیش و آرام حاصل کرنے کے لیے ہر دم مصروف رہتا ہے۔ سرکار والا تبار ﷺ کے کثیر ارشادات میں سبب اور علاج دونوں موجود ہیں، چنانچہ حضرت حسن بصری رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ ﷺ نے صحابہ کرام سے دریافت فرمایا: کیا تم سب جنت میں جانا چاہتے ہو؟ انہوں نے عرض کی: جی ہاں یا رسول اللہ ﷺ تو آپ نے فرمایا: امیدیں کم رکھو اپنی موت کو آنکھوں کے سامنے رکھو اور اللہ سے اس طرح حیا کرو جس طرح حیا کرنے کا حق ہے۔

سود سے بچنے کا دوسرا علاج قناعت ہے، حضرت عبد اللہ بن عمر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ سرکار ﷺ نے ارشاد فرمایا: کامیاب ہو گیا جو مسلمان ہوا اور بقدر کفایت رزق دیا گیا اور اللہ نے اسے دیئے ہوئے پر قناعت دی اور حضرت مولائے کائنات علی المرتضی کرم اللہ وجہہ الکریم فرماتے ہیں کہ جس نے قناعت اختیار کی اس نے عزت پائی اور جس نے لالچ کیا ذلیل ہوا۔

اللہ پاک ہمیں سود اور دیگر گناہوں سے بچنے کی توفیق دے۔


رب تعالیٰ ارشادفرماتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ- (پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط کر دیا ہو۔

سود کی تعریف: عقد معاوضہ یعنی لین دین کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل یعنی بدلے میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔

احادیث میں سود کی مذمت:احادیث میں بکثرت سود کی مذمت بیان ہوئی ہے جن میں سے چند درج ذیل ہیں:

1۔بے شک سود ستر گناہوں کا مجموعہ ہے ان میں سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(ابن ماجہ،3/72،حدیث:2274)

2۔حضور اکرم ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث: 1599)

3۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان،4/395، حدیث: 5523)

4۔سود سے بظاہر اگرچہ مال زیادہ ہو مگر نتیجہ یہ ہے کہ مال کم ہوگا۔(مسند امام احمد، 2/50،حدیث: 3754)

سود سے بچنا ضروری ہے لہٰذا سود کے قریب بھی نہ جایا جائے۔


عقد معاوضہ (لین دین) کے کسی معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل (یعنی بدلے) میں دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے۔(بہار شریعت،2/769،حصہ:11)اسی طرح قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع جو فائدہ حاصل ہو وہ بھی سود ہے۔

حکم:سود حرام قطعی ہے اس کی حرمت کا منکر (یعنی حرام ہونے کا انکار کرنے والا) کافر ہے۔جس طرح سود لینا حرام ہے اس طرح سود دینا بھی حرام ہے۔(بہار شریعت،2/776،حصہ:11 بتغیر قلیل)

آیت مبارکہ: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-(پ 3،البقرۃ:275)ترجمہ:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط (پاگل) بنا دیا ہو۔

فرامین مصطفیٰ:

1۔فرمایا:رات میں نے دیکھا کہ میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس یعنی بیت المقدس میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے،یہاں ایک شخص کنارے پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے،یہ کنارے کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ پر مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتا ہے کنارے والا منہ پر پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے پوچھا:یہ کون شخص ہے؟کہا:یہ شخص جو نہر میں ہے سود خوار ہے۔(بخاری،ص 548،حدیث:2035)

2۔ رسول اللہ ﷺ نے سود کھانے والے،کھلانے والے،لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(صراط الجنان،2/51)

3۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سے سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(صراط الجنان،2/51)

4۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(صراط الجنان،2/51)

5۔فرمایا:معراج کی رات میرا گزر ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے،میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت فرمایا تو انہوں نے عرض کی:یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے ہیں۔ (صراط الجنان،2/51)

اسبابِ سود:مال کی حرص،فضول خرچی خاص طور پر شادی وغیرہ تقریبات میں فضول رسموں کی پابندی کہ ایسے افراد کم خرچ پر قناعت نہ کرنے کی وجہ سے سود پر قرض اٹھالیتے ہیں،علم دین کی کمی کے سبب بعض اوقات سود سے بچنے کا ذہن تو ہوتا ہے مگر معلومات نہ ہونے کی وجہ سے آدمی اس کے لین دین میں مبتلا ہو جاتا ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات)

سودی لین دین سے بچنے کے لیے علاج:قناعت اختیار کیجیے،لمبی امیدوں سے کنارہ کشی کیجیے اور موت کو کثرت سے یاد کیجیے،ان شاء اللہ دل سے دنیا کی محبت نکلے گی اور آخرت کی تیاری کرنے کا ذہن بنے گا۔

سود کے عذابات اور اس کے دنیوی نقصانات کو پڑھئے سنئے اور غور کیجیے کہ یہ کس قدر تباہی و بربادی کا سبب بنتا ہے۔(ظاہری گناہوں کی معلومات،ص58)

نوٹ:سود کے بارے میں تفصیلی معلومات کے لیے مکتبۃ المدینہ کے رسالہ "سود اور اس کا علاج" کا مطالعہ کیجیے۔


بلاشبہ سود اسلام میں قطعی حرام ہے، کیونکہ یہ ایسی لعنت ہے جس سے نہ صرف معاشی استحصال،مفت خوری،حرص و طمع،خود غرضی،تنگ دستی،سنگ دلی،مفاد پرستی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں،بلکہ معاشی و اقتصادی تباہ کاریوں کا ذریعہ بھی ہے۔آج کل معاشرے میں سود کی مختلف صورتیں مختلف ناموں سے رائج ہیں، شرعی احکام سے ناواقف آدمی کسی نہ کسی درجہ میں ان میں مبتلا ہو جاتا ہے اور جو لوگ ممانعت کے با وجود بھی سود جیسا قبیح عمل کرتے ہیں تو ان کے لیے اس عمل پر قہر و غضب کے اظہار کے لیے اللہ اور اس کے رسول نے اعلان جنگ کیا ہے۔

سود کی تعریف: سود کو عربی زبان میں "ربا" کہتے ہیں جس کا لغوی معنی ہے بڑھانا،اضافہ ہونا،بلند ہونا۔ اور شرعی اصطلاح میں سود کی تعریف یہ ہےکہ قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کیلی (ناپ کر بیچی جانے والی) یا وزنی (تول کر بیچی جانے والی) چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو اور عقد میں مشروط ہو،مثلا رقم کے عوض رقم لینا،جیسے سو روپے کسی کو قرض دیا اور دیتے وقت یہ شرط لگائی کہ سو سے زائد مثلا دو سو روپے دینے ہوں گے یا قرض دے کر اس سے مزید کوئی فائدہ لینا۔

احادیث مبارکہ:

1۔ جب کسی بستی میں زنا اور سودپھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69)

2۔ حضور سید المرسلین ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، سود لکھنے والے اور اس کی گواہی دینے والے پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب اس گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم، ص 862، حدیث: 1599)

3۔سود کا ایک درہم جو آدمی کو ملتا ہے اس کے 36 بار زنا کرنے سے زیادہ برا ہے۔(شعب الایمان، 4/395، حدیث: 5523)

4۔ سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سے سب سے چھوٹا گناہ یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث: 2306)

5۔ ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند بڑے تھے اور ان میں سانپ تھے جو باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرائیل سے ان لوگوں کے بارے میں دریافت کیا تو انہوں نے عرض کی یہ وہ لوگ ہیں جو سود کھاتے ہیں۔(ابن ماجہ،3/71، حدیث: 2273)

سود کے معاشرتی نقصانات: یہ سود ہی کی نحوست ہے کہ ملک سے تجارت کا دیوالیہ نکل جاتا ہے، ظاہر ہے کہ دولت چند اداروں ہی میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور تجارت جس دولت کے ذریعے ہوتی ہے جب چند اداروں ہی تک محدود ہو جائے گی تو معیشت کی گاڑی کا پہیہ بھی رک جائے گا۔ سود کی نحوست سے جب انڈسٹری برباد ہو جاتی ہے تو تجارت ختم ہو جاتی ہے اور اس طرح بے روزگاری بڑھتی ہے جب بے روزگاری بڑھتی ہے تو جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے، کارخانے تو بند ہو جاتے ہیں مگر لوگوں کی ضرورتیں بند نہیں ہوتیں بلکہ وہ اب بھی ان سے لگی ہوتی ہیں۔ سود خور کو لوگ برا جانتے ہیں اسے فاسق و فاجر کہتے ہیں، اس کے پاس اپنی امانتیں نہیں رکھواتے، سود خور کے ہاتھوں جو غربا و فقرا برباد ہوتے ہیں اور جن سے سود وصول کرنے میں یہ سختی کرتا ہے یقینا ان کی بد دعاؤں کا شکار ہو جاتا ہے، سود خور گھر کے گھر تباہ و برباد کرتا ہے، سب کو اجاڑ کر اپنا گھر بناتا ہے اور مال کی محبت میں دیوانہ وار گھومتا ہے، صدقہ و خیرات کرنا بھی گوارا نہیں کرتا تاکہ کہیں مال کم نہ ہو جائے۔

سود سے بچنے کی ترغیب: قرآنی آیات اور بے شمار احادیث میں سود کے متعلق وعیدیں بیان کی گئی ہیں۔ اے کاش! ہمارے پیش نظر موت کا تصور ہو جائے اور اس دنیا کی عارضی زندگی میں ہمیں مدنی سوچ نصیب ہو جائے۔ اے کاش مال جمع کرنے کی ہوس ہم سب کے دلوں سے نکل جائے، اس مال و دنیا کی محبت نے ہمیں تباہ و برباد کر کے رکھ دیا اور ہمارا معاشرہ اس مال کی محبت میں سود جیسی لعنت میں مبتلا ہو گیا ہے اور اس میں یقیناً نقصان ہی نقصان ہے، جہاں تک ہو سکے سودی کاروبار سے اپنے آپ کو محفوظ رکھنے کی کوشش کریں۔ سود کا یہی بڑا علاج ہے کہ موت کو ہر دم یاد رکھا جائے۔

ایک دن مرنا ہے آخر موت ہے کر لے جو کرنا ہے آخر موت ہے

یاد رکھ ہر آن آخر موت ہے بن تو مت انجان آخر موت ہے

مرتے جاتے ہیں ہزاروں آدمی عاقل و نادان آخر موت ہے


آج کل جس طرح حرام روزی اور سود کا ارتکاب کیا جاتا ہے کسی پر پوشیدہ نہیں، سود قطعی حرام اور کبیرہ گناہ ہے۔ یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) (البقرۃ: 276) ترجمہ کنز الایمان: اللہ پاک ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار۔

تفسیر: اللہ پاک سود کو مٹاتا ہے اور سود خور کو برکت سے محروم کرتا ہے، حضرت عبد اللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا کہ اللہ تعالیٰ سود خور کا نہ صدقہ قبول کرے نہ حج، نہ جہاد، نہ رشتے داروں سے حسنِ سلوک۔(صراط الجنان، البقرۃ، تحت الآیۃ: 276)

سود کی تعریف: سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کا لغوی معنی زیادہ ہونا اور شرعی اصطلاح میں ربا یعنی سود کی تعریف یہ ہے کہ کسی کو اس شرط کے ساتھ رقم ادھار دینا کہ واپسی کے وقت وہ کچھ رقم زیادہ لے گا۔

حدیث مبارکہ میں ہے رسول اللہ ﷺ فرماتے ہیں: قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔

سود کا حکم: سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے، اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے (یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جاتی)

احادیث مبارکہ میں سود کی حرمت:

کثیر احادیث مبارکہ میں سود کی بھرپور مذمت فرمائی گئی ہے، چنانچہ

1۔سود سے ساری بستی ہلاک ہو جاتی ہے: حضرت عبد اللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 15)

2۔ سودی کاروبار میں شرکت باعث لعنت ہے: حضرت جابر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ اللہ کے محبوب ﷺ نے سود کھانے والے، کھلانے والے، اس کی تحریر لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت کی اور فرمایا کہ یہ (گناہ میں) برابر ہیں۔(سود اور اس کا علاج،ص 17)

3۔ سود خوری سے پاگل پن پھیلتا ہے: نبی پاک ﷺ نے فرمایا: جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔(سود اور اس کا علاج، ص 16)

4۔ سود کھانا اپنی ماں سے زنا کرنا: آقا ﷺ کا فرمان ہے: بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔ ایک روایت میں سرکار دو عالم ﷺ کا فرمان عبرت نشان ہے: سود کے 70 دروازے ہیں ان میں سے کم تر ایسا ہے جیسے کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔(سود اور اس کا علاج، ص 17-18)

5۔سود خور کے پیٹ میں سانپ: حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میرے آقا ﷺ فرماتے ہیں کہ شب معراج میں ایک ایسی قوم کے پاس سے گزرا جن کے پیٹ کمروں کی طرح (بڑے بڑے) تھے جن میں سانپ پیٹوں کے باہر سے دیکھے جارہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا: یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے عرض کی: یہ سود خور ہیں۔(سود اور اس کا علاج، ص 16)

یہ سود ہی کی نحوست ہے کہ ملک سے تجارت کا دیوالیہ نکل جاتا ہے، ظاہر ہے کہ دولت چند اداروں ہی میں محدود ہو کر رہ جاتی ہے اور تجارت جس دولت کے ذریعے ہوتی ہے جب چند اداروں ہی تک محدود ہو جائے گی تو معیشت کی گاڑی کا پہیہ بھی رک جائے گا۔

جرائم کا اضافہ: سود کی نحوست سے انڈسٹری ختم ہو جاتی ہے اور اس طرح بے روزگاری بڑھتی ہے، جب بے روزگاری بڑھتی ہے تو جرائم میں اضافہ ہو جاتا ہے، کارخانے تو بند ہو جاتے ہیں مگر لوگوں کی ضرورتیں بند نہیں ہوتی، بلکہ وہ اب بھی ان سے لگی ہوتی ہے۔ یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) (پ 3، البقرۃ: 278) ترجمہ کنز الایمان: اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو۔

اللہ سے ڈرو: اس آیت میں ایمان والے کہہ کر مخاطب کیا اور ایمان کے ایک اہم تقاضے یعنی تقویٰ کا حکم دیا پھر تقویٰ کی روح یعنی حرام سے بچنے کا فرمایا اور حرام سے بچنے میں ایک کبیرہ گناہ سود کا تذکرہ کیا۔(تفسیر صراط الجنان)


آج کل سود عام ہوگیا ہے،سودی قرضہ لینے دینے کا رواج آج کل عام ہوگیا ہے گویا کہ یہ لوگوں کے درمیان ایک عام سی چیز بن گئی ہے،حالانکہ اس میں دنیاوی و اخروی نقصان ہوتا ہے۔

سود کی تعریف:عقد معاوضہ یعنی لین دین کے معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے مقابل (یعنی بدلے میں) دوسری طرف کچھ نہ ہو یہ سود ہے اسی طرح قرض دینے والے کو جو قرض پر نفع اور فائدہ شامل ہو وہ سب بھی سود ہے۔

سود کا حکم:سود حرام قطعی اور گناہ کبیرہ ہے اس کی حرمت کا انکار کرنے والا کافر ہے،جس طرح سود لینا حرام ہے اسی طرح سود دینا بھی حرام ہے،اللہ پاک قرآن کریم میں ارشاد فرماتا ہے:ترجمہ کنز الایمان:وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط یعنی پاگل بنا دیا ہو۔(پ 3،البقرۃ:275)اس کے بارے میں تفسیر صراط الجنان میں ہے کہ سود خور قیامت میں ایسے مخبوط الحواس ہوں گے اور ایسے گرتے پڑتے کھڑے ہوں گے جیسے دنیا میں وہ شخص جس پر بھوت سوار ہو کیونکہ سود خور دنیا میں لوگوں کے لیے بھوت بنا ہوا تھا،آج کل سودی قرضہ لینے دینے کا ابتدائی انداز تو بڑا مہذب ہے، اچھے اچھے ناموں سے اور خوش کن ترغیبات سے دیا جاتا ہے لیکن کچھ ہی عرصہ کے بعد قرض دینے والوں کی خوش اخلاقی اور ملنساری اور چہرے کی مسکراہٹ سب رخصت ہو جاتی ہے اور اصل چہرہ بے نقاب ہو جاتا ہے کہ وہ گالیاں دے رہا ہے،دکان،مکان،فیکٹری سب پر قبضہ کر کے فقیر و کنگال اور محتاج کر کے بے گھر اور بے زر کر دیا ہوتا ہے۔(صراط الجنان، 1/413)

احادیث مبارکہ میں بھی سود کی مذمت بیان کی گئی ہے،آئیے اس کے بارے میں فرامین مصطفیٰ ملاحظہ کیجیے،

5 فرامین مصطفیٰ:

1۔حضور اقدس ﷺ نے فرمایا:آج رات میرے پاس دو شخص آئے اور مجھے زمین مقدس (یعنی بیت المقدس) میں لے گئے پھر ہم چلے یہاں تک کہ خون کے دریا پر پہنچے یہاں ایک شخص کنارہ پر کھڑا ہے جس کے سامنے پتھر پڑے ہوئے ہیں اور ایک شخص بیچ دریا میں ہے،یہ کنارہ کی طرف بڑھا اور نکلنا چاہتا تھا کہ کنارے والے شخص نے ایک پتھر ایسے زور سے اس کے منہ میں مارا کہ جہاں تھا وہیں پہنچا دیا گیا پھر جتنی بار وہ نکلنا چاہتاہے کنارہ والا منہ میں پتھر مار کر وہیں لوٹا دیتا ہے،میں نے اپنے ساتھیوں سے پوچھا یہ شخص کون ہے؟کہا:یہ شخص جو نہر میں ہے سود خور ہے۔(بخاری،2/14-15،حدیث:2085)

2۔رسول اللہ ﷺ نے سود لینے والے اور سود دینے والے اور سود لکھنے والے اور اس کے گواہوں پر لعنت فرمائی اور یہ فرمایا کہ وہ سب برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1597)

3۔سود کا گناہ ستر حصہ ہے ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ،3/72،حدیث: 2274)

4۔فرمایا:شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جس کے پیٹ گھر کی طرح بڑے بڑے ہیں، ان پیٹوں میں سانپ ہیں جو باہر سے دکھائی دیتے ہیں، میں نے پوچھا: اے جبرائیل یہ کون لوگ ہیں؟انہوں نے کہا: یہ سود خور ہیں۔(سنن ابن ماجہ،3/76،حدیث: 2273)

5۔سود کو چھوڑو اور جس میں سود کا شبہ ہو اسے بھی چھوڑ دو۔(سنن ابن ماجہ،3/73،حدیث:2276)

قرآن کریم اور احادیث مبارکہ میں اللہ پاک اور اس کے پیارے حبیب ﷺ نے سود لینے اور دینے کی سخت مذمت بیان کی اگر ہم ان وعیدوں سےبچنا چاہتے ہیں تو ہمیں چاہیے کہ ہم قرآن و حدیث پر عمل پیرا ہوں،اللہ ہمیں اپنے پیارے حبیب ﷺ کے صدقے دین اسلام کےاحکام پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں سود جیسے حرام اور کبیرہ گناہ سے محفوظ فرمائے۔آمین


بلاشبہ اسلام میں سود حرام قطعی ہے اسے حلال جاننے والا کافر ہے،سود بدترین تجارتی و معاشرتی برائی ہے اور اخلاقی پستی کی ذمہ دار ہے، کیونکہ یہ ایک ایسی لعنت ہے جس سے معاشرہ میں مختلف طریقوں سے بگاڑ پیدا ہوتا ہے،معاشی استحصال، مفت خوری،حرص و طمع،خود غرضی، سنگ دلی، مفاد پرستی جیسی اخلاقی قباحتیں جنم لیتی ہیں اسی وجہ سے قرآن مجید میں سود سے منع کیا گیا ہے: یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا لَا تَاْكُلُوا الرِّبٰۤوا اَضْعَافًا مُّضٰعَفَةً۪- وَّ اتَّقُوا اللّٰهَ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُوْنَۚ(۱۳۰) (پ 4، اٰل عمران:130) ترجمہ:اے ایمان والو! دونا دون (یعنی دگنا دگنا) سود مت کھاؤ اور اللہ سے ڈرو تا کہ فلاح پاؤ۔

سود کی تعریف:سود کو عربی زبان میں ربا کہتے ہیں جس کے لغوی معنی ہے زیادتی، بڑھنا،اضافہ ہونا،بلند ہونا، شرعی اصطلاح میں ربا (سود) کی تعریف یہ ہے کہ قرض دے کر اس پر مشروط اضافہ یا نفع لینا یا کسی چیز کے تبادلے میں دونوں فریقوں میں سے کسی ایک کو ایسی زیادتی کا ملنا جو عوض سے خالی ہو،مثلا رقم کے عوض رقم زیادہ لینا جیسے سو روپے دے کر شرط لگانا کہ دو سو روپے دینے ہوں گے یا قرض دے کر اس سے مزید کوئی فائدہ لینا۔

سود اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ جنگ ہے، جو لوگ سود کی ممانعت کے باوجود بھی سود جیسے قبیح عمل میں مصروف رہتے ہیں ان کے اس عمل پر قہر و غضب کے اظہار کے لیے اللہ پاک نے اس عمل کو اللہ اور اس کے رسول کے ساتھ اعلان جنگ قرار دیا ہے، قرآن مجید میں ارشاد ہے: فَاِنْ لَّمْ تَفْعَلُوْا فَاْذَنُوْا بِحَرْبٍ مِّنَ اللّٰهِ وَ رَسُوْلِهٖۚ-وَ اِنْ تُبْتُمْ فَلَكُمْ رُءُوْسُ اَمْوَالِكُمْۚ-لَا تَظْلِمُوْنَ وَ لَا تُظْلَمُوْنَ(۲۷۹) (پ 3، البقرۃ: 279) ترجمہ: اور اگر تم نے ایسا نہ کیا تو تم کو اللہ اور رسول کی طرف سے لڑائی کا اعلان ہے اور اگر تم توبہ کر لو تو تمہیں تمہارا اصل مال ملے گا نہ دوسروں پر تم ظلم کرو اور نہ دوسرا تم پر ظلم کرے۔

جہاں قرآن پاک میں اللہ پاک نے سود کی ممانعت فرمائی ہے وہیں سرور کائنات ﷺ نے بھی سود کی مذمت فرمائی ہے، چنانچہ

فرامین مصطفیٰ:

1۔سود کا گناہ 73 درجے ہے ان میں سب سے چھوٹا یہ ہے کہ آدمی اپنی ماں سے زنا کرے۔(مستدرک، 2/338، حدیث:2356)

اس حدیث مبارکہ میں ماں سے زنا کو تشبیہ دے کر سود کو غلیظ ترین عمل کہا گیا ہے یقیناً ایک ذی شعور اور غیور شخص کبھی بھی یہ فعل بد انجام نہیں دے گا۔

2۔جب کسی بستی میں بدکاری اور سود پھیل جائے تو اللہ پاک اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔(کتاب الکبائر للذہبی،ص 69) اس حدیث پاک سے معلوم ہوا کہ بدکاری کے ساتھ ساتھ سود بھی گناہ کبیرہ اور اللہ کی سخت ناراضی کا باعث ہے، یہ دونوں گناہ انسان کو انتہائی پستی میں پھینک دیتے ہیں اور انسان کی سوچنے سمجھنے کی صلاحیت کو مفلوج کر دیتے ہیں۔

3۔ نبی اکرم ﷺ نے ارشاد فرمایا: معراج کی رات میرا گزر ایک ایسی قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھروں کی مانند کشادہ اور بڑے تھے جس میں سانپ تھے جو پیٹ کے باہر سے نظر آرہے تھے، میں نے جبرائیل سے پوچھا یہ کون لوگ ہیں؟ انہوں نے بتایا: سود کھانے والے ہیں۔(سنن ابن ماجہ،حدیث: 2273)

4۔ سود کا ایک درہم یہ جاننے کے باوجود کہ یہ سود ہے کھانا 36 بار زنا کرنے سے زیادہ بڑا گناہ ہے۔(مسند امام احمد،8/223،حدیث: 22016)

5۔ جس قوم میں سود پھیلتا ہے اللہ پاک اس قوم پر پاگل پن مسلط کر دیتا ہے۔(موسوعۃ ابن ابی الدنیا، 4/437)

مذکورہ احادیث میں بیان کردہ وعیدیں اور عذابات آج ہمارے معاشرے کا ناسور ہیں غور یہ کرنا ہے کہ کہیں یہ سب سود کی وجہ سے تو نہیں؟ سود اجتماعی خیر خواہی کا قاتل ہے اس میں سارا نقصان سود لینے والے کو برداشت کرنا پڑتا ہے،سودی معاملات کرنے والے کا دل سخت ہو جاتا ہے اور اس کے دل میں برے خیالات جنم لے کر اس کو برے کاموں پر ابھارتے ہیں، سود سے بچنے کے لیے حلال کمائیں اور اچھی نیتوں کے ساتھ روزگار حاصل کریں، کیونکہ حلال میں برکت ہے، کفایت شعاری سے کا م لیں، فضول خرچوں سے بچیں تاکہ قرضہ لینے کی ضرورت نہ پڑے، کیونکہ سود کی ابتدا قرض سے ہی ہوتی ہے۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں پیارے حبیب ﷺ کے صدقے میں سود جیسے موذی مرض سے تا قیامت نجات دے۔آمین


فی زمانہ جہاں ہمارا معاشرہ بے شمار برائیوں میں مبتلا ہے وہیں ایک اہم ترین برائی ہمارے معاشرے میں بڑی تیزی سے پروان چڑھ رہی ہے وہ سود ہے۔فتاویٰ رضویہ میں اعلیٰ حضرت رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:قرض دینے والے کو قرض پر جو نفع و فائدہ حاصل ہو وہ سب سود اور نرا حرام ہے۔ حدیث میں ہے رسول اللہ ﷺ نے فرمایا: کل قرض جر منفعۃ فھو ربا قرض سے جو فائدہ حاصل کیا جائے وہ سود ہے۔

سود قطعی حرام اور جہنم میں لے جانے والا کام ہے،اس کی حرمت کا منکر کافر اور جو حرام سمجھ کر اس بیماری میں مبتلا ہو وہ فاسق اور مردود الشہادہ ہے یعنی اس کی گواہی قبول نہیں کی جائے گی۔اللہ پاک نے قرآن کریم میں اس کی بھرپور مذمت فرمائی،چنانچہ سورۃ البقرۃ کی آیت نمبر 275 تا 278 میں ارشاد ہوتا ہے: اَلَّذِیْنَ یَاْكُلُوْنَ الرِّبٰوا لَا یَقُوْمُوْنَ اِلَّا كَمَا یَقُوْمُ الَّذِیْ یَتَخَبَّطُهُ الشَّیْطٰنُ مِنَ الْمَسِّؕ-ذٰلِكَ بِاَنَّهُمْ قَالُوْۤا اِنَّمَا الْبَیْعُ مِثْلُ الرِّبٰواۘ-وَ اَحَلَّ اللّٰهُ الْبَیْعَ وَ حَرَّمَ الرِّبٰواؕ-فَمَنْ جَآءَهٗ مَوْعِظَةٌ مِّنْ رَّبِّهٖ فَانْتَهٰى فَلَهٗ مَا سَلَفَؕ-وَ اَمْرُهٗۤ اِلَى اللّٰهِؕ-وَ مَنْ عَادَ فَاُولٰٓىٕكَ اَصْحٰبُ النَّارِۚ-هُمْ فِیْهَا خٰلِدُوْنَ(۲۷۵) یَمْحَقُ اللّٰهُ الرِّبٰوا وَ یُرْبِی الصَّدَقٰتِؕ-وَ اللّٰهُ لَا یُحِبُّ كُلَّ كَفَّارٍ اَثِیْمٍ(۲۷۶) اِنَّ الَّذِیْنَ اٰمَنُوْا وَ عَمِلُوا الصّٰلِحٰتِ وَ اَقَامُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتَوُا الزَّكٰوةَ لَهُمْ اَجْرُهُمْ عِنْدَ رَبِّهِمْۚ-وَ لَا خَوْفٌ عَلَیْهِمْ وَ لَا هُمْ یَحْزَنُوْنَ(۲۷۷) یٰۤاَیُّهَا الَّذِیْنَ اٰمَنُوا اتَّقُوا اللّٰهَ وَ ذَرُوْا مَا بَقِیَ مِنَ الرِّبٰۤوا اِنْ كُنْتُمْ مُّؤْمِنِیْنَ(۲۷۸) ترجمہ کنز الایمان: وہ جو سود کھاتے ہیں قیامت کے دن نہ کھڑے ہوں گے مگر جیسے کھڑا ہوتا ہے وہ جسے آسیب نے چھو کر مخبوط بنا دیا ہو یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا بیع بھی تو سود کی مانند ہے اور اللہ نے حلال کیا بیع اور حرام کیا سود تو جسے اس کے رب کے پاس سے نصیحت آئی اور وہ باز رہا تو اسے حلال ہے جو پہلے لے چکا اور اس کا کام خدا کے سپرد ہے اور جو اب ایسی حرکت کرے گا تو وہ دوزخی ہے وہ اس میں مدتوں رہیں گے،اللہ ہلاک کرتا ہے سود کو اور بڑھاتا ہے خیرات کو اور اللہ کو پسند نہیں آتا کوئی ناشکرا بڑا گنہگار،بے شک وہ جو ایمان لائے اور اچھے کام کیے اور نماز قائم کی اور زکوٰۃ دی ان کا نیگ ان کے رب کے پاس ہے اور نہ انہیں کچھ اندیشہ ہو اور نہ کچھ غم،اے ایمان والو! اللہ سے ڈرو اور چھوڑ دو جو باقی رہ گیا ہے سود اگر مسلمان ہو۔

صدر الافاضل سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ خزائن العرفان میں اس آیت کریمہ کے شان نزول کے بارے میں کچھ یوں فرماتے ہیں:یہ آیت ان اصحاب کے حق میں نازل ہوئی جو سود کی حرمت نازل ہونے سے پہلے سودی لین دین کرتے تھے اور ان کی گراں قدر سودی رقمیں دوسروں کے ذمے باقی تھیں۔

سود کے متعلق چند فرامین مصطفیٰ:

1۔بے شک سود کے 72 دروازے ہیں ان میں سے کمترین ایسے ہے جو کوئی مرد اپنی ماں سے زنا کرے۔

2۔جس قوم میں سود پھیلتا ہے اس قوم میں پاگل پن پھیلتا ہے۔

3۔جب کسی بستی میں زنا اور سود پھیل جائے تو اللہ اس بستی والوں کو ہلاک کرنے کی اجازت دے دیتا ہے۔

دعوت اسلامی کے اشاعتی ادارے مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب بہار شریعت میں صدر الشریعہ مفتی امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں: شریعت مطہرہ نے جس طرح سود لینا حرام فرمایا سود دینا بھی حرام کیا ہے۔

حدیثوں میں دونوں پر لعنت فرمائی ہے اور فرمایا کہ دونوں برابر ہیں، جو مرد حضرات دنیا کی آسائشوں کے لیے سود لیتے ہیں یا دیتے ہیں وہ پڑھیں، مکتبۃ المدینہ کی مطبوعہ کتاب قرۃ العیون میں ہے:مرد سے تعلق رکھنے والوں میں پہلے اس کی زوجہ اور اس کی اولاد ہے،یہ سب یعنی بیوی بچے قیامت میں اللہ کے سامنے کھڑے ہو کر عرض کریں گے:اے ہمارے رب! ہمیں اس شخص سے ہمارا حق لے کے دے،کیونکہ اس نے کبھی ہمیں دینی امور کی تعلیم نہیں دی اور یہ ہمیں حرام کھلاتا تھا جس کا ہمیں علم نہ تھا، پھر اس شخص کو حرام کھانے پر اس قدر مارا جائے گا کہ اس کا گوشت جھڑ جائے گا پھر اس کو میزان کے پاس لایا جائے گا فرشتے پہاڑ کے برابر اس کی نیکیاں لائیں گے اور اس کے عیال میں سے ایک شخص آکر کہے گا میری نیکیاں کم ہیں تو وہ اس کی نیکیوں میں سے لے لے گا، اسی طرح گھر والے اس کی سب نیکیاں لے جائیں گے اور وہ اپنے اہل و عیال کی طرف حسرت و یاس سے دیکھ کر کہے گا"اب میری گردن پر وہ گناہ و مظالم رہ گئے جو میں نے تمہارے لیے کئے تھے" اس وقت فرشتے کہیں گے یہ وہ بد نصیب شخص ہے جس کی نیکیاں اس کے گھر والے لے گئے اور یہ ان کی وجہ سے جہنم میں چلا گیا۔

کیا اب بھی ہم حرام روزی سے باز نہیں آئیں گے! اللہ پاک کو ناراض کرکے کہاں جائیں گے؟ دنیا فانی ہے،دنیا کی وقتی لذتوں کو حاصل کرنے کے لیے اللہ پاک کو ناراض کر کے ہم جہنم سے کیسے بچ پائیں گے! سود لینے اور دینے والا دنیا میں بھی پریشان رہتا ہے،ہمارے معاشرے میں اس وجہ سے کتنے ہی لوگ بربادی کا شکار ہیں اس کی وجہ علم دین سے دوری ہے،دعوت اسلامی کا مشکبار مدنی ماحول ہمیں رب سے قریب کرتا ہے،رب کو ناراض کرنے والے کاموں سے بچنے کا ذہن دیتا ہے،عشق رسول کے جام گھول گھول کر پلائے جاتے ہیں، اللہ پاک ہمیں اور ہماری نسلوں کو سدا مدنی ماحول سے وابستہ فرمائے اور ہمیں بے حساب بخش دے۔آمین


سود حرام قطعی ہے اس کا انکار کرنے والا کافر ہے،اس کا لین دین حرام ہے،قرآن پاک میں اللہ پاک نے فرمایا:ترجمہ:یہ اس لیے کہ انہوں نے کہا کہ بیع بھی تو سود کی طرح ہے اللہ نے حلال کیا بیع کو حرام کیا سود کو۔

تعریف:لین دین کے معاملے میں جب دونوں طرف مال ہو اور ایک طرف زیادتی ہو کہ اس کے بدلے دوسری طرف کچھ نہ ہو سود ہے۔ سود کی مختلف صورتیں ہیں جس قدر ممکن ہو اس سے بچا جائے،سود میں زیادتی لی جاتی ہے یہ نا انصافی سود میں ہماری دنیا اور آخرت کو برباد کر دیتی ہے،اس کے متعلق ہمیں ضروری احکام سیکھنے سکھانے چاہئیں تاکہ بچا جا سکے،آئیے اس کی مذمت پر حدیث مبارکہ پڑھیے،

فرامین مصطفیٰ:

1۔حضور اکرم ﷺ نے سود کھانے،سود کھلانے والے،سود کی تحریر لکھنے والے گواہوں پر لعنت فرمائی اور فرمایا کہ یہ سب گناہ میں برابر ہیں۔(مسلم،ص 862،حدیث:1598)

2۔سودکا گناہ 70 حصے ہے ان میں سب سے کم درجہ یہ ہے کہ کوئی شخص اپنی ماں سے زنا کرے۔(سنن ابن ماجہ،3/82،حدیث: 2284)

3۔جس شخص نے حلال مال کمایا پھر اس کی کمائی سے لباس پہنا اور اپنے علاوہ اللہ کی مخلوق کو کھلایا اور پہنایا تو اس کا یہ عمل اس کے لیے برکت پاکیزگی ہے۔(ابن ماجہ،4/218،حدیث:4222)

4۔حضور اکرم ﷺ کا ارشاد ہے کہ شب معراج میرا گزر ایک قوم پر ہوا جن کے پیٹ گھر کی طرح بڑے تھے ان پیٹوں میں سانپ تھے جو باہر سے دکھائی دیتے تھے،میں نے پوچھا: اے جبرائیل! یہ کون لوگ ہیں؟جواب دیا:یہ سود خور ہیں۔(ابن ماجہ، 3/82،حدیث:2283)

5۔جو گوشت سے اُگا ہے وہ جنت میں داخل نہیں ہوگا کہ اس کے لیے آگ زیادہ بہتر ہے۔(ابن ماجہ، 5/64،حدیث:4448)

نقصان:سود کے بہت سے معاشرتی اور اخروی نقصان ہیں،سود خور معاشرے میں ذلیل خوار ہوتا ہے اور ایسا شخص حاسد بن جاتا ہے،ہر وقت مال کی حرص میں لگا رہتا ہے اور آخرت میں بھی سزا کا مستحق ہوتا ہے۔

سود سے بچنے کی ترغیب:ہر وقت اپنی موت کو یاد رکھیے،جو مال پاس موجود ہو اسی پر اللہ کا شکر ادا کیجیے،سود کے دنیاوی اور اخروی نقصان کو سامنے رکھیے،ان شاء اللہ سود سے بچنے کی سعادت ملے گی۔