1۔دوجہاں کے تاجور، سلطانِ بحر و بر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان عبرت نشان ہے :تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو، مدینے ہی میں مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(شعب الایمان، جلد 3، صفحہ 497، حدیث1482)

زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں لگادے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے(ذوق نعت)

حدیث کی تشریح:

اس حدیثِ پاک میں پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرما رہے ہیں کہ اگر تم سے ہوسکے کہ مدینہ میں مرو، یعنی کوئی مرضِ وفات میں مبتلا ہے تو اسے چاہئے کہ وہ اپنے آبائی وطن نہ لوٹے یا دفن کرنے والے آبائی وطن نہ لے آئیں، بلکہ اسے مدینے میں ہی دفن کریں کہ جو مدینہ میں مرے میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماس کی شفاعت فرمائیں گے اور ربّ کریم سے اس کے گناہ بھی بخشوائیں گے۔

مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتی ہیں ہم تو مرنے کی مدینے میں دعا کرتی ہیں (وسائل بخشش)

2۔دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہوسکتا:سرکارِ والا تبار،ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے، ناراستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(مسلم،ص 714، حدیث1274)

حدیث کی تشریح:

امام نووی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس روایت میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانہ مبارک میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثرت سے فرشتے حفاظت کرتے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔

(شرح صحیح مسلم للنووی، جلد 5، جز 9، صفحہ 148)

ملائک لگاتے ہیں آنکھوں میں اپنی شب و روز خاکِ مزارِ مدینہ(ذوق نعت)

3۔مدینہ لوگوں کو پاک صاف کرے گا :رسول ِنذیر،سراج منیر، محبوبِ ربِّ قدیر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ دلپذیر ہے:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 617، حدیث 1881)

4۔مدینہ کی سختیوں پر صبر کرنا:شہنشاہِ مدینہ، قرارِ قلب وسینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ با قرینہ ہے:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔

تجھ سے کیا کیا اے مرے طیبہ کے چاند ظلمت ِ غم کی شکایت کیجئے

تشریح حدیث:

حکیم الامت، مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کے تحت فرماتے ہیں:یعنی شفاعت خصوصی، حق یہ ہے کہ یہ وعدہ ساری امت کے لئے ہے کہ مدینے میں مرنے والے حضور انور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی اس شفاعت کے مستحق ہیں۔

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

5۔مدینہ منورہ بہتر ہے:نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سرور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ روح پرور ہے:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں چراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پالیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کواس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے، حالانکہ وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔(مسند امام احمد بن حنبل، جلد 5، صفحہ 106، حدیث1468)

ان کے در کی بھیک چھوڑیں سروری کے واسطے سے ان کے در کی بھیک اچھی سروری اچھی نہیں (ذوق نعت)

6۔امیر المؤمنین حضرت فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :مدینے میں چیزوں کے نرخ یعنی بھاؤ بڑھ گئے اور حالات سخت ہوگئے تو سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:صبر کرو اور خوش ہو جاؤ کہ میں نے تمہارے صاع اور مد کو بابرکت کر دیا اور اکٹھے ہوکر کھایا کرو، کیونکہ ایک کا کھانا دو کو اور دو کا کھانا چار کو اور چار کھانا 5 اور 6 کو کفایت کرتا ہے اور بے شک برکت جماعت میں ہے تو جس نے مدینہ کی تنگدستی اور سختی پر صبر کیا، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا اس کے حق میں گواہی دوں گا اور جو اس کے حالات سے منہ پھیر کر نکلا، اللہ پاک اس سے بہتر لوگوں کو اس میں بسا دے گا اور جس نے اہلِ مدینہ سے برائی کرنے کا ارادہ کیا، اللہ پاک اسے اس طرح پگھلا دے گا، جیسے نمک پانی میں پگھل جاتا ہے۔(مجمع الزوائد، جلد 3، صفحہ 651، حدیث)

شہ ِکونین نے جب صدقہ بانٹا زمانے بھر کو دم میں کر دیا خوش (ذوق نعت)

7۔ رسولِ اکرم،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو بالقصد(ارادتاً) میری زیارت کو آیا، وہ قیامت کے دن میری محافظت(حفاظت) میں رہے گا اور جو مدینہ میں سکونت یعنی رہائش اختیار کرے گا اور مدینے کی تکلیف پر صبر کرے گا، تو میں قیامت کے دن اس کی گواہی دوں گا اور اس کی شفاعت کروں گا اور جو حرمین(مکہ مدینہ) میں سے کسی ایک میں مرے، اللہ پاک اس کو اس حال میں قبر سے اٹھائے گا کہ وہ قیامت کے خوف سے امن میں رہے گا۔(مشکاۃ المصابیح، جلد 1، صفحہ1012، حدیث2755)

غم ِمصطفٰے جس کے سینے میں ہے گو کہیں بھی رہے وہ مدینے میں ہے

8۔حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،جب رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمغزوۂ تبوک سے واپس تشریف لا رہے تھے تو تبوک میں شامل ہو جانے سے رہ جانے والے صحابہ کرام علیہم الرضوان ملے، انہوں نے خاک اڑائی، ایک شخص نے اپنی ناک ڈھانپ لی، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کی ناک سے کپڑا ہٹایا اور ارشاد فرمایا:اس ذات کی قسم! جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے! مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول للجزری، جلد 9، صفحہ297، حدیث6962)

خاک ِمدینہ ہوتی میں خاکسار ہوتی ہوتی رہِ مدینہ میرا غبار ہوتا

9۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جس نے مسجد نبوی میں متواتر چالیس نمازیں ادا کیں، اس کے لئے جہنم اور نفاق سے نجات لکھ دی جاتی ہے۔(مسند امام احمد، جلد 4، صفحہ 311، حدیث12584)

عطار ہمارا ہے سرِ حشر اسے کاش! دستِ شہِ بطحٰی سے یہی چٹھی ملی ہو

10۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:میری اس مسجد(مسجد نبوی) کی ایک نماز پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔(ابن ماجہ، جلد 2، صفحہ 176، حدیث1413)

صد غیرتِ فردوس مدینے کی زمیں ہے باعث ہے یہی اس کا تو اس میں مکیں ہے

مدینہ منورہ کے بارے میں مختصر تمہید، فضیلت و اہمیت:

1۔روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں، جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارک نام اتنی کثرت سے ہوں،جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں، بعض علما نے سو تک تحریر کئے ہیں۔

2۔مدینہ منورہ ایسا شہر ہے، جس کی محبت اور ہجر و فرقت میں دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اورسب سے زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔

3۔اللہ پاک کے حبیب صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کی طرف ہجرت کی اور یہیں قیام پذیر رہے۔

4۔جب کوئی مسلمان زیارت کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے، تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔(جذب القلوب:211)

5۔سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ منورہ میں مرنے کی ترغیب ارشاد فرمائی۔

یثرب سے مدینہ:

فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 119 پر ہے:حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ اللمعات شرح المشکوۃ میں فرماتے ہیں:حضرت احمد مختار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں لوگوں کے رہنے سہنے اور جمع ہونے اور اس شہرسے محبت کی وجہ سے اس کا نام مدینہ رکھا اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے، اس لئے کہ یہ ثرَبٌ سے بنا ہے۔

یثرب کا معنی:

یثرب ثرَبٌ سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں :ہلاکت اور فساد اور تثریب بمعنی سرزنش اور ملامت یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت یا کسی جابر و سرکش بندے کا نام تھا۔ امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ اپنی تاریخ میں حدیث لائے ہیں کہ جو ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو اسے(کفارےمیں) دس مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔

قرآن میں یثرب کا نام:

قرآنِ مجید میں جو یٰاَہْلَ یَثْرِبَ(یعنی اے یثرب والو) آیا ہے، وہ دراصل منافقین کا قول ہے کہ یثرب کہہ کر وہ مدینہ منورہ کی توہین کا ارادہ رکھتے تھے۔ دوسری روایت میں ہے : یثرب کہنے والا اللہ پاک سے استغفار(توبہ) کرے اور معافی مانگے اور بعض نے فرمایا: جو مدینہ منورہ کویثرب کہے، اسے سزا دینی چاہئے، حیرت کی بات ہے کہ بعض بڑے لوگوں کی زبان سے اشعار میں لفظ یثرب صادر ہوا ہے اور اللہ پاک خوب جانتا ہے اور عظمت و شان والے کا علم بالکل پختہ اور ہر طرح سے مکمل ہے۔

زندگی کیا ہے مدینہ کے کسی کوچے میں موت موت پاک و ہند کے ظلمت کدے کی زندگی

غمِ مدینہ اور محبتِ مدینہ:

بلا لو ہم غریبوں کو بلا لو یا رسول اللہ پئے شبیر و شبّر فاطمہ حیدر مدینے میں

نہ ہو مایوس دیوانو پکارے جاؤ تم ان کو بلائیں گے تمہیں بھی ایک دن سرور مدینے میں

ہر مسلمان کی یہی خواہش ہوتی ہے کہ وہ سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مبارک شہر مدینہ منورہ میں جنت البقیع میں دفن ہو،آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے جلوؤں میں اس کا دم نکلے، قبر میں بھی سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے جلوؤں کا طلبگار رہتا ہے اور حشر میں بھی یہی خواہش ہوتی ہے کہ اے کاش! آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماپنے دامنِ رحمت میں چھپا لیں، ایسا تب ہوگا جب ہم ساری زندگی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی سنتوں پر عمل کریں گی، نزع میں تب ہی جلوہِ حبیب نظر آئے گا، جب ساری زندگی حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمپر درود پاک پڑھا ہوگا۔

واقعہ:

ایک بار کسی مرید نے پیر سے کہا :حضور اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی زیارت کا کوئی وظیفہ بتادیں، پیر نے کہا : پہلے تم ایسا کرو کہ دو کلو مچھلی لو اور پکا کر کھا لو، مگر پانی نہیں پینا، صبح میرے پاس آنا، مریض نے ایسے ہی کیا، مچھلی خریدی اور کھا لی، لیکن پانی نہ پیا، رات کو سویا تو نیند کہاں آنی تھی، لیکن جب بمشکل نیند آئی تو خود کو کبھی ندی پر پایا تو کبھی دریا پر پایا،صبح جب پیر کے پاس گیا تو کہا :تم نے ہر جگہ پانی پایا، لہٰذا جب تجھے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی سخت تڑپ ہوگی تو میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی کرم فرما دیں گے، جو انسان ہر وقت غمِ مدینہ میں تڑپتا ہے، میرے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی اس پر ضرور کرم فرماتے ہیں،جیسے اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ نے کیا خوب کہا ہے:

فریاد امتی جو کرے حالِ زارمیں ممکن نہیں کہ خیر بشر کو خبر نہ ہو

محبتِ مدینہ:

کسی نے بھی کیا خوب کہا ہے: مدینہ جانے کے لئے دولت کی ضرورت نہیں ہوتی، بلکہ بات صرف عشق کی ہوتی ہے،جو حقیقی عشقِ مدینہ سے رکھتی ہے، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی اسے ضرور مدینے بلواتے ہیں، بس بات صرف عشق کی ہے۔ لہٰذا ہمیں بھی چاہئے کہ ہم کثرت سے درودِ پاک پڑھیں اور ہر وقت زبان پر ذکرِ مدینہ کرتی رہیں۔اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں حقیقی عاشقہِ خیرالوریٰ بنائے، ہمیں ایسا دل عطا فرمائے، جو محبتِ مدینہ سے سرشار ہو، ہمیں ایسی آنکھ عطا فرمائے، جو عشقِ مدینہ میں آنسو بہاتی رہے اور ہمیں پیر و مرشد امیرِ اہلِ سنت بانیِ دعوتِ اسلامی کے ساتھ چل مدینہ کی سعادت عطا فرمائے۔آمین

نا یہ بات مال وزر کی ہے، قسم خدا کی یہ ہے حقیقت جسے بلایا ہے سرکار نے، وہی مدینے کو جا رہے ہیں

مدینہ میرا سینہ ہو میرا سینہ مدینہ ہو مدینہ دل کے اندر ہو دلِ مضطر مدینے میں


یوں تو مدینہ طیبہ کو دوسرے بلا دو امصار پر بے شمار خوبیوں کی وجہ سے فضیلت و برتری حاصل ہے، مگر اس کی عزت اور محبت کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ مدینۃالرسول ہے، ہجرت گاہِ شاہ ِسرورِ کونین ہے، اسے رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمسے نسبت حاصل ہے،اسی مقدس شہر میں تاجدارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمآرام فرما ہیں، وہ خطہ ارض جو سرکارِ ابد قرار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے روضہ اطہر سے مس ہے، عرش سے بھی اعلٰی و ارفع اور رشکِ جنت ہے۔مدینہ پاک ہی اسلام اور مسلمانانِ عالم کی عقیدت کا مرکز اور ایک عاشقِ رسول کی تمناؤں کا محور ہے، اس کی شان ور فعت کا یہ عالم ہے کہ اس کے آگے پشتِ فلک بھی ختم نظر آتی ہے۔تاجدارِ اہلِ سنت امام احمد رضا خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:

ختم ہو گئی پشتِ فلک اس طعنِ زمیں سے سن ہم پہ مدینہ ہے وہ رتبہ ہے ہمارا

1۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے یہ ارشاد فرمایا ہے:مدینہ(میں داخل ہونے) کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں، اس میں طاعون اور دجّال داخل نہیں ہو سکتے۔

2۔حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں،میں نے نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے:جو یہاں(مدینہ منورہ) کی مشکلات پر صبر کرے گا، میں قیامت کے دن اس کی شفاعت کروں گا یا شاید یہ فرمایا:میں اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(صحیح مسلم، صفحہ 700)

3۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:الہٰی !جو برکتیں تو نے مکہ مکرمہ کو دی ہیں، اس سے دوگنی برکتیں مدینہ منورہ میں دے۔(صحیح مسلم، صفحہ 701)

4۔حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے سامنے احد پہاڑ چمکا تو فرمایا:یہ پہاڑ ہم سے محبت کرتا ہے اور ہم اس سے محبت کرتے ہیں۔ یقیناً حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ معظمہ کو حرم بنایا اور میں مدینہ کے گوشوں کے درمیان کو حرم بناتا ہوں۔(بخاری، مسلم)

5۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبیِّ پاکصلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا یہ فرمان نقل کرتے ہیں: میرے گھر اور میرے منبر کے درمیان والی جگہ جنت کا ایک باغ ہے اور قیامت کے دن میرا منبر میرے حوض کے کنارے ہو گا۔(صحیح مسلم، ص702)

6۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایسی بستی کا حکم دیا گیا ہے، جو تمام بستیوں کو کھا جائے، لوگ اسے یثرب کہیں گے،حالانکہ وہ مدینہ ہے، لوگوں کو ایسے صاف کر دے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح مسلم، ص701)

7۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:ایمان مدینہ کی طرف اس طرح سمٹ کر آ جائے گا، جس طرح سانپ اپنے سوراخ کی طرف سمٹ کر آ جاتا ہے۔(صحیح بخاری،صحیح مسلم، ص701)

8۔حضرت ابنِ عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے،رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جس کو یہ توفیق نصیب ہو کہ مدینہ میں اس کو موت آئے تو وہ اس کو ترجیح دے، مدینہ میں مرنے والوں کی میں شفاعت کروں گا۔(صحیح مسلم، ص698)

9۔حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:جو کوئی بھی اہلِ مدینہ کے ساتھ دھوکہ دہی کرے گا، وہ اسی طرح ختم ہوگا، جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔

10۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو یہ فرماتے ہوئے سنا ہے :بے شک اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔

اللہ ربّ العزت ہم سب کو حجِ بیت اللہ اور بار بار روضۃ الرسول کی زیارت نصیب فرمائے، بروزِ محشر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی شفاعت نصیب فرمائے اور ہمیں آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی پکی سچی غلامی نصیب فرمائے۔آمین


الحمدللہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحتِ قلب وسینہ ہے، اللہ پاک نے اس کا نام طابہ رکھا، روئے زمین کا کوئی ایسا شہر نہیں، جس کے اسمائے گرامی یعنی مبارک نام اتنی کثرت کو پہنچے ہوں، جتنے مدینہ منورہ کے نام ہیں، مدینہ ایسا شہر ہے جس کی محبت و ہجر و فرقت کے متعلق دنیا کے اندر سب سے زیادہ زبانوں اور سب سے زیادہ تعداد میں قصیدے لکھے گئے، لکھے جارہے ہیں اور لکھے جاتے رہیں گے۔ الحمدللہ

یثرب کہنا کیوں منع ہے؟

فتاویٰ رضویہ، جلد 21 صفحہ 119 پر حضرت علامہ شیخ عبدالحق محدث دہلوی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: آنحضرت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ ثَرْبٌ سے بنا ہے، جس کے معنی ہلاکت و فساد ہے یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت یا کسی جابر و سرکش بندے کا نام ہے۔

فرمایا:مجھے ایک بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔(صحیح بخاری، جلد 1، صفحہ 317،ح1871)

یوں تو مدینہ منورہ میں بے شمار خوبیاں ہیں، مگر حصولِ برکت کے لئے دیارِ حبیب کے کچھ فضائل ملاحظہ فرما لیجئے، تاکہ دل میں مدینے کی محبت اور لگن مزید موجزن ہو۔

1۔دو جہاں کے تاجور، سلطانِ بحروبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ روح پرور ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے میں مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔( شعب الایمان، جلد 3، صفحہ497،ح1482)

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہر شفاعت نگر کی ہے

2۔رسولِ اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے دعا فرمائی: یا اللہ پاک!جتنی برکت تو نے مکہ میں رکھی ہے، اس سے دوگنی مدینے میں رکھ دے۔(بخاری،ج1،ص620،ح1885)

3۔نبی اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ِمعظم ہے:اس ذات کی قسم! جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے!مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے، نہ کوئی راستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔( مسلم، ص714،ح1374)

امام نووی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں: اس روایت میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی، کثرت سے فرشتے حفاظت کرتے تھے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکارِ مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔

(شرح مسلم النووی،ج5،جزء9)

ملائک لگاتے ہیں آنکھوں سے اپنی شب و روز خا کِ مزارِ مدینہ

4۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے کی تکلیف و شدّت پر میری امت میں سے جو کوئی صبر کرے، قیامت کے دن میں اس کا شفیع ہوں گا۔(بہارشریعت، ج1،حصہ6،ص535)

5۔رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یااللہ پاک! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنا دے، جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے، بلکہ اس سے زیادہ، اس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اس کے صاع و مد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کرکے جحفہ میں بھیج دے۔(بہارشریعت، ج1،حصہ6،ص536)

6۔سرکارِ والا تبار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا ارشادِ خوشگوار ہے: مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔(بخاری، ج1، ص619، ح1880)

7۔ حضور اکرم، نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ِمعظم ہے:حضرت ابراہیم علیہ السلام نے مکہ کو حرام قرار دیا اور میں مدینہ منورہ کو حرام قرار دیتا ہوں، ان دو پتھریلے کناروں کے درمیان نہ کوئی درخت کاٹا جائے گا اورنہ شکار کیا جائے گا۔(مسلم، ص566،ح3315،جزاول)

8۔ طبرانی نے معجم کبیر میں امام مسلم کی سند کے ساتھ حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کیا ہے، کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو یہ فرماتے سنا :اللہ پاک نے مجھے حکم دیا کہ میں مدینہ کا نام طیبہ رکھوں، ایک روایت میں طابہ ہے۔مدینہ کو طابہ اس لئے فرمایا: یہ شرک کی آلودگی سے پاک ہے اور اس میں زندگی پاکیزہ ہوتی ہے، اسی لئے اسے طیبہ اور طابہ نام دیا گیا۔

9۔نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے ارشاد فرمایا:ایمان مدینہ طیبہ میں یوں سمٹ کر داخل ہو گا، جیسے سانپ سمٹ کر اپنی بل میں داخل ہوتا ہے۔(بخاری و مسلم)

10۔میرے مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلممدینہ کا گردوغبار اپنے چہرہ انور سے صاف نہ فرماتے اور صحابہ کرام علیہم الرضوان کو بھی اس سے منع فرماتے اور ارشاد فرماتے:خاکِ مدینہ میں شفا ہے۔(جذب القلوب، صفحہ 22)

الحمدللہ!عُشاقِ مدینہ مدینے کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، جسے ایک بار دیدار ہو جاتا ہے، وہ اپنے آپ کو بخت بیدار سمجھتا ہے اور مدینے میں گزرے لمحات کو ہمیشہ کے لئے یادگار قرار دیتا ہے، ایک بار دیدار ہو جائے تو تڑپ اور بڑھ جاتی ہے، کسی صورت دُور رہ کر سکون حاصل نہیں ہوتا، جو دیدار نہ کر سکے، وہ تصاویر دیکھ کر دل بہلاتے، آنسو بہاتے ہیں کہ کاش !ہم بھی اس دَرکو جائیں، یہاں کی برکات حاصل کریں، زائرینِ مدینہ سے اپنا سلام کہلواتے اور اپنی حاضری کی دعائیں کرواتے ہیں، مدینے میں مرنے کی تمنا تو ہر عاشقِ مدینہ کے دل کو تڑپا کر رکھی ہے، ہر ایک کی خواہش ہوتی ہے کہ آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں میں جان نکلے اور وہیں جنت البقیع میں مدفن بنے۔کیا خوب شعر ہے:

مال و دولت کی دعا ہم نہ خدا کرتی ہیں ہم تو مرنے کی مدینے میں دعا کرتی ہیں

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں


مدینہ طیبہ کی بلند عظمت کے فضائل پر واضح دلیل مدینہ طیبہ کا اللہ پاک اور اس کے رسول صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا حرم ہونا ہے، مدینہ پاک ایسا بابرکت و عظمتوں والا مقام ہے کہ جو وہاں جاتا ہے، اس کا واپس آنے کا جی نہیں چاہتا، کیونکہ مدینہ طیبہ میں ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا روضہ مبارک ہے، مدینہ طیبہ میں ایسا دلی سکون ملتا ہے کہ جو دنیا کے کسی شہر اور کسی خوبصورت مقام پر بھی نہیں ملتا، اگر کبھی مدینہ میں کوئی پریشانی آ جائے یا مدینہ طیبہ میں کوئی تکلیف آئے تو صبر کرے،سعادت سمجھ کر قبول کر لینا چاہئے، وہاں پر تکلیف برداشت کرنے والوں کے لئے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اپنی شفاعت کی بشارت دی ہے۔

اعلیٰ حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اس شعر میں فرماتے ہیں:

طیبہ نہ سہی افضل مکّہ ہی بڑا زاہد ہم عشق کے بندے ہیں کیوں بات بڑھائی ہے

یثرب سے مدینہ بننے کی مختصر وضاحت:

نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مدینہ منورہ تشریف لانے سے پہلے لوگ یثرب کہا کرتے تھے، منافق مدینہ منورہ کو یثرب کہتے تھے، آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس کا نام المدینہ، طیبہ، طابہ رکھا۔

حدیثِ مبارکہ کی روشنی میں دس فضائلِ شہرِ نبوی :

1۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہے:جس نے میری قبر کی زیارت کی، اس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔

وضاحت:

سبحان اللہ! ذرا سوچئے تو سہی! وہ کیسا عظمتوں اور برکتوں والا مقام ہے، جس کی زیارت کریں تو شفاعت کی خیرات، وہاں رہیں تو برکتیں اور اگر وہیں دم نکل جائے تو شفاعت کا وعدہ ہے۔(دارقطنی، کتاب الحج، جلد 6، صفحہ 351، حدیث نمبر 29)امام عشقِ و محبت ،اعلی ٰحضرت رحمۃ اللہ علیہ لکھتے ہیں:

طیبہ میں مر کے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے

2۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:میری قبر اور منبر کی درمیانی جگہ جنت کی کیاریوں میں سے ایک کیاری ہے۔(رواۃ البخاری، جلد 1، حدیث1195)

یہ پیاری پیاری کیاری تیرے خانہ باغ کی سرد اس کی آب و تاب سے آتش سَقَر کی ہے

3۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہے:مسجد قبا میں نماز پڑھنا عمرے کے برابر ثواب ہے۔(ترمذی شریف، جلد 1، صفحہ 347، حدیث 34)

4۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہے:جس نے اپنے گھر میں وضو کیا، پھر مسجد قبا جاکر نماز پڑھی تو اسے عمرہ کا ثواب ملے گا۔(رواہ، جلد 2، صفحہ 712)

5۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہے:مدینہ منورہ کے چاروں طرف فرشتے مقرر ہیں، اس میں نہ طاعون آئے گا، نہ دجال داخل ہوگا۔(رواہ البخاری، جلد 1، صفحہ 252)

6۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکہ میں نازل کی ہیں، اس سے دگنی برکتیں مدینہ میں نازل فرما۔(رواہ البخاری، جلد 1، صفحہ 653)

7۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:جو کوئی مدینہ کی تکلیف و مشقت پر صبر کرے گا تو میں قیامت کے روز اس کاشفیع اور گواہ ہوں گا۔ (رواہ مسلم، جلد 1، صفحہ 443)

8۔فرمانِ مصطفٰے صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہے:مدینہ منورہ ان لوگوں کے لئے بہتر ہے، اگر وہ جانتے ہوں۔(رواہ مسلم، جلد 1، صفحہ 495)

9۔ ایک مقام پر آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:قیامت میں جب سب کو قبروں سے اٹھایا جائے گا، سب سے پہلے میری، پھر ابو بکر و عمر رضی اللہُ عنہما کی قبر شق ہو گی، پھر میں جنت البقیع والوں کے پاس جاؤں گا، تو وہ میرے ساتھ اکٹھے ہوں گے، حتی کہ حرمین شریفین کے درمیان انہیں کو بھی اپنے ساتھ لے لوں گا۔

عاشقِ مدینہ،امیرِ اہلِ سنت دامت برکاتہم العالیہ مدینہ پاک میں مرنے اور بقیعِ پاک میں دفن ہونے کے جذبات کا اظہار کرتے ہوئے فرماتے ہیں:

عطا کر دو عطا کر دو بقیعِ پاک میں مدفن میری بن جائے تربت یا شہ ِکوثر مدینہ میں

10۔فرمانِ مصطفٰےٰ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمہے:میں مدینہ میں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی، کتاب المناقب، باب فی فضل المدینہ، جلد 5، صفحہ 483)

آئیے! ایک زبردست عاشقِ رسول بزرگ کی مدینے سے محبت کے بارے میں ایک واقعہ پڑھئے،چنانچہ، مالکیوں کے عظیم پیشوا، حضرت حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ زبر دست عاشقِ رسول اور مدینہ منورہ کا بے حد ادب کرنے والے تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ مدینہ میں رہنے کے باوجود قضائے حاجت کے لئے حرمِ مدینہ سے باہر تشریف لے جاتے اور وہ حدودِ حرم سے باہر جاکر اپنی طبعی حاجت سے فارغ ہوتے۔(بشان المحدثین، صفحہ 19)

یاد ِطیبہ میں گم رہوں ہر دم تیرا ہر دم رہے خیال آقا

(وسائل بخشش، صفحہ 175)

آئیے !ہم بھی اپنے دلوں کو محبتِ مدینہ سے معطر کرنے کے لئے پیارے پیارے مہکے مہکے دینی ماحول دعوت ِاسلامی سے وابستہ ہوجائیں۔


مدینہ منورہ کا نام سنتے ہی عشاقِ کاملین کے دل روشن ہو جاتے ہیں، آنکھوں میں روشنی نظر آنے لگتی ہے، خیالات میں عجب تازگی و سُرور پیدا ہو جاتا ہے، مدینہ طیبہ کے کثیر فضائل قرآن و حدیث اور دیگر کتب میں وارد ہوئے ہیں،مدینہ منورہ کے فضائل میں سے ایک فضیلت یہ بھی ہے کہ ہمارے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ کے لئے دعا بھی فرمائی :اے اللہ پاک!جتنی برکت تو نے مکہ میں عطا فرمائی،مدینہ میں اس سے دوگنا عطا فرما۔(بخاری1/620، حدیث 1885)

مدینہ کی اہمیت و فضیلت کا اندازہ اس روایت سے بھی ہوتا ہے کہ ایک صحابی سے روایت ہے، ہمارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:میری مسجد(نبوی) کی ایک نماز بیت اللہ کے علاوہ دوسری تمام مسجدوں کی ایک ہزار نمازوں سے زیادہ ہے۔(بخاری،1870 فضائل المدینہ باب حرم المدینہ، المسلم1370، الحج باب فضل المدینہ)

ابو القاسم الزجاجی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں :مدینہ طیبہ میں پہلے پہل آباد ہونے والا شخص یثرب بن قافیہ تھا، اسی کی نسبت سے یثرب کے نام سے مشہور ہوا، ہجرت کے موقع پر ہمارے پیارے نبی صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس کا نام یثرب سے بدل کر مدینہ رکھ دیا۔ فضائلِ مدینہ پر مبنی دس احادیث ملاحظہ فرمائیں:

1۔جب کوئی مسلمان زیارت کی نیت سے مدینہ طیبہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سے اس کا استقبال کرتے ہیں۔(جذب القلوب، صفحہ 211)

2۔ایمان کی پناہ گاہ مدینہ منورہ ہے۔(ترمذی5/282،حدیث3465)

3۔ جو مدینے میں مر سکے وہ وہیں مرے،کیوں کہ میں مدینہ میں مرنے والوں کی شفاعت کروں گا۔

(ترمذی5/483،حدیث3943)

4۔اس کی ذات کی قسم!جس کے قبضہ قدرت میں میری جان ہے!مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔(جامع الاصول9/297،حدیث6962)

5۔ایک موقع پر پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے یوں دعا فرمائی:اے اللہ پاک! ہمارے لئے ہمارے مدینہ میں برکت دے، ہمارے مد اور صاع میں برکت دے۔(ترمذی5/282،حدیث3465)

6۔پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:میرے گھر اور منبر کے درمیانی جگہ جنت کے باغوں میں سے ایک باغ ہے۔(بخاری1/402،حدیث1195)

7۔ایک روایت میں ہے:مدینہ گناہوں کے میل کو ایسے چھڑاتا ہے،جیسے بھٹی لوہے کا زنگ دور کرتی ہے۔

( مسلم، کتاب الحج، حدیث1381)

8۔ایمان سمٹ کر مدینہ میں اس طرح داخل ہو جائے گا، جس طرح سانپ بل میں داخل ہوتا ہے۔

(ابن ماجہ، باب فضائل المدینہ)

9۔جو اس شہر والوں کے ساتھ برائی کا ارادہ کرے گا،اللہ پاک اسے دوزخ میں اس طرح پگھلائے گا، جیسا کہ نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔(مسلم، کتاب الحج)

10۔مدینہ منورہ کے راستوں پر فرشتے پہرا دیتے ہیں،اس میں نہ دجّال آئے گا اور نہ طاعون آئے گا۔

(بخاری اور مسلم)

غمِ مدینہ کی بھی کیا شان ہے کہ جسے بھی حقیقی غم مل گیا، وہ دنیاوی غموں سے سبکدوش ہو گئی، گویا دنیاوی پریشانیاں اور مشکلات اس کے لئے کوئی اہمیت نہیں رکھتی، غمِ مدینہ کا سب سے بڑا ذریعہ محبتِ مدینہ ہے، جی ہاں! جس دل میں مدینے کی محبت ہوگی وہ دل غمِ مدینہ میں خود ہی مبتلا ہوجائے گی۔اللہ کریم سے دعا ہے کہ ہمیں مدینے کی سچی اور پکی محبت اور غم نصیب فرمائے۔آمین

عطا ہو مجھ کو غمِ مدینہ، تپاں جگر چاک سینہ بڑھے محبت کی خوب شدت، نبی ِّرحمت شفیعِ امت (وسائل بخشش)


امیر المؤمنین حضرت  عمر فاروقِ اعظم رضی اللہ عنہ نے فرمایا:دعا آسمان و زمین کے درمیان معلق رہتی ہے، اس میں سے کچھ بھی اوپر نہیں چڑھتا،(یعنی دعا قبول نہیں ہوتی) جب تک تو اپنے نبی پر درود نہ بھیجے۔

(جامع ترمذی، جلد 2، صفحہ 28، حدیث 486، فیضان سنت، فیضان تراویح، صفحہ 261)

الحمدللہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحتِ قلب و سینہ ہے، عشاقِ مدینہ اس کی فرقت میں تڑپتےاور زیارت کے بے حد مشتاق رہتے ہیں، دنیا کی جتنی زبانوں میں جس قدر قصیدے مدینۃ المنورہ کے ہجرو فراق اور اس کے دیدار کی تمنا میں پڑھے گئے یا پڑھے جاتے ہیں،اتنے کسی اور شہر یا خطّے کے لئے نہیں پڑھے گئے۔

1۔مدینہ پاک میں مرنے کی فضیلت:

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے میں مرے، کیوں کہ جو مدینے میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔

زمیں تھوڑی سی دیدے بہرِ مدفن اپنے کوچے میں لگادے میرے پیارے میری مٹی بھی ٹھکانے سے

2۔دجال مدینہ میں داخل نہیں ہو سکتا ہے:

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینے میں داخل ہونے کے راستوں پر فرشتے مقرر ہیں، اس میں طاعون اور دجّال داخل نہ ہوں گے۔

3۔مدینہ منورہ ہر آفت سے محفوظ:

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے، مدینہ منورہ میں نہ کوئی گھاٹی ہے اور نہ کوئی راستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں، جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔

امام نووی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:اس روایت میں مدینہ منورہ کی فضیلت کا بیان ہے اور آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے زمانے میں اس کی حفاظت کی جاتی تھی،کثرت سے فرشتے حفاظت کرتے تھے اور انہوں نے تمام گھاٹیوں کو سرکار مدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عزت افزائی کے لئے گھیرا ہوا ہے۔

ملائک لگاتے ہیں آنکھوں سے اپنی شب و روز خا کِ مزارِ مدینہ

4۔مدینہ لوگوں کو پاک و صاف کرے گا:

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا، جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، یہ بستی لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی، جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔

مدینہ کو یثرب کہنا گناہ ہے:

اس روایت میں مدینہ کو یثرب کہنے کی ممانعت ہے۔ فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ 116 پر ہے:مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہ گار ہے۔

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمفرماتے ہیں:جو مدینہ کو یثرب کہے تو اس پر توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔

علامہ مناوی رحمۃُ اللہِ علیہ شرحِ جامعِ صغیر میں فرماتے ہیں:اس حدیث سے معلوم ہوا! مدینہ طیبہ کا یثرب نام رکھنا حرام ہے، ایسا کہنے سے توبہ کا حکم فرمایا اور توبہ گناہ ہی سے ہوتی ہے۔

یثرب کہنا کیوں منع ہے؟

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے وہاں(مدینہ) لوگوں کے رہنے سہنے اور جمع ہونے اور اس شہر سے محبت کی وجہ سے اس کا نام مدینہ رکھا اور آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اسے یثرب کہنے سے منع فرمایا، اس لئے کہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ثَرْبٌ سے بنا ہے، جس کے معنی ہلاکت و فساد ہے اور تثریب بمعنی سرزنش اور ملامت ہے۔یا اس وجہ سے کہ یثرب کسی بت یا کسی جابر و سرکش بندے کا نام ہے۔

5۔ میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کاشفیع(شفاعت کرنے والا) ہوں گا ۔

6۔جو وضو کر کے آئے اور مسجدِ نبوی شریف میں نماز ادا کرے، اسے حج کا ثواب ملتا ہے۔

7۔مسجدِ نبوی شریف میں ایک نماز پڑھنا پچاس ہزار نمازوں کے برابر ہے۔

8۔یہاں کا قبرستان جنت البقیع دنیا کے تمام قبرستانوں سے افضل ہے۔

9۔یہاں کی زمین کا وہ حصّہ جس پر رسولِ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا جسم ِ منور ہے، وہ ہر مقام حتی کہ خانہ کعبہ، بیت المعمور، عرش و کرسی اور جنت سے بھی افضل ہے۔

10۔جب کوئی مسلمان ظہر کی نیت سے مدینہ منورہ آتا ہے تو فرشتے رحمت کے تحفوں سےاس کا استقبال کرتے ہیں۔(عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں)

یہ فضائلِ مدینہ بیان کئے گئے، دیکھا آپ نے! مدینہ پاک کی کیسی برکتیں ہیں، جو یہاں مرے اسے ہمارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی شفاعت نصیب ہو گی۔

عاشقانِ رسول کو چاہئے کہ اپنے دلوں میں غمِ مدینہ اور عشقِ مدینہ پیدا کریں، تاکہ مدینہ سے زیادہ لگاؤ پیدا ہو، اس کے لئے چاہئے کہ زیادہ سے زیادہ عشقِ رسول پر مبنی نعتیں سنی جائیں اور رسالوں اور کتابوں کا مطالعہ کیا جائے، عشقِ مصطفٰےبڑھانے کا ایک بہترین ذریعہ بزرگانِ دین کے حالاتِ زندگی کا مطالعہ کرنا ہے۔

حضرت امام مالک رحمۃ اللہ علیہ زبردست عاشقِ رسول تھے، مدینے کی گلیوں میں ننگے پیر چلا کرتے تھے، آپ رحمۃ اللہ علیہ کو یہ شرف حاصل ہوا کہ آپ فرماتے ہیں:کوئی رات ایسی نہیں گزری، جس میں مجھے تاجدارِ رسالت صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی زیارت نہ ہوئی ہو۔

اللہ پاک ان کے صدقے ہمیں بھی عشقِ مصطفٰے کا ذوق بڑھانے کی توفیق عطا فرمائے اور ہمیں مدینے میں مدفن عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


مدینہ کا لفظ یا تو دین سے بنا ہے،جس کے معانی ہیں اطاعت یعنی فرمانبرداری کرنا، اس کو مدینہ اس لئے کہتے ہیں کہ یہ اطاعتِ الہٰی کا سب سے پہلا مرکز ہے یا یہ لفظ مدن سے بنا ہے اور مدن کے معنی اجتماعیت کے ہیں اور مدینہ مسلمانوں کی اجتماعیت یعنی جمع ہونے کا سب سے پہلا مرکز ہے، مدینہ کا معنی خوشبو ،پاکیزگی اور راحت کے ساتھ رہنے کے ہیں۔(شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 738)

الحمدللہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحت و سکون ہے، مدینہ کے عاشق ان کی جدائی میں تڑپتے ہیں، زیارت کے لئے منتظر رہتے ہیں اور کیوں نہ ہو مدینہ تو وہ ہے، جہاں بے سہاروں کی بگڑیاں بنتیں، حاجت مندوں کی حاجت پوری ہوتیں، غم کے ماروں کی غمخواری ہوتی ہے، وہ بابرکت مقام ہے، جہاں جھولیاں بھر تی، دل کی مرادیں پوری ہوتی،الغرض جانے والا اپنے آپ کو خوش قسمت سمجھتا ہے، قرآن میں بھی مدینہ کا ذکر متعدد مقامات پر ہوا۔چنانچہ پارہ 18، سورۃ المنافقون آیت نمبر 8 میں ہے:یَقُوْلُوْنَ لَىٕنْ رَّجَعْنَاۤ اِلَى الْمَدِیْنَۃ لَیُخْرِجَنَّ الْاَعَزُّ مِنْهَا الْاَذَلَّ ؕ وَ لِلّٰهِ الْعِزَّۃ وَ لِرَسُوْلِهٖ وَ لِلْمُؤْمِنِیْنَ وَ لٰكِنَّ الْمُنٰفِقِیْنَ لَا یَعْلَمُوْنَ0۔ترجمہ:کہتے ہیں ہم مدینہ پھر کر گئے تو ضرور جو بڑی عزت والا ہے، وہ اس میں نکال دے گا،اسے جو نہایت ذلت والا ہے اور عزت تو اللہ اور اس کے رسول اور مسلمانوں ہی کے لئے ہے،مگر منافقوں کو خبر نہیں۔

(بحوالہ پارہ28، منافقون: 8، عاشقان رسول کی حکایات، صفحہ 283)

یہاں ہم دس احادیثِ طیبہ شہرِ نبی کے متعلق عرض کرتی ہیں:

1۔دو جہاں کے تاجور،سلطانِ بحروبر صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمان ہے:تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھتا ہو، مدینے ہی میں مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(عاشقان رسول کی حکایات، صفحہ 249)

2۔سرکارِ والا تبار،ہم بے کسوں کے مددگار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکاارشادہے: تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے، وہ مدینے میں مرے کہ جو مدینے میں مرے گا، میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔(عاشقان رسول کی حکایات، صفحہ 250)

3۔ نبیِّ مکرم،نورِ مجسم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ معظم ہے:اس ذات کی قسم!جس کے دستِ قدرت میں میری جان ہے،مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے، نہ کوئی راستہ، مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔(عاشقان رسول کی حکایات، صفحہ 250)

ملائک لگاتے ہیں آنکھوں سے اپنی شب و روز خا کِ مزارِ مدینہ

4۔نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ با قرینہ ہے:میرا کوئی امتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا، مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع(شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔(عاشقان رسول کی حکایات، صفحہ 254)

5۔نور کے پیکر،تمام نبیوں کے سرور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا فرمانِ روح پرو رہے:اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چرا گاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پا لیں گے تو لوٹ کر آئیں گے، پھر جب وہ خوشخالی پا لیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کشادگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے، حالانکہ اگر وہ جان لیں تو مدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔

6۔سہیل بن حنیف رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں:رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے مدینہ کی طرف ہاتھ سے اشارہ کر کے فرمایا:یہ حرم ہے اور امن کی جگہ ہے۔(شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ726، حدیث3237)

7۔حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اللہ پاک نے مدینہ کا نام طابہ رکھا ہے۔(شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 734)

8۔حضرت زید بن ثابت رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مدینہ طیبہ ہے اور میل کچیل کو اس طرح دور کرتا ہے جس طرح چاندی کے میل کو آگ دور کرتی ہے۔

(شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 734)

9۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان فرماتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو اہلِ مدینہ کے ساتھ برائی کاارادہ کرے،اللہ پاک اس کو اس طرح گھلا دےگا، جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔

(شرح صحیح مسلم، صفحہ 739،حدیث3255)

10۔حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں،رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:مجھے اس بستی کی طرف ہجرت کا حکم دیا گیا جو تمام بستیوں کو کھا جاتی ہے، لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے اور وہ بُرے لوگوں کو اس طرح دور کرتا ہے، جیسے بھٹی لوہے کے میل کچیل کو دور کرتی ہے۔(شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 733،حدیث3249)

اس روایت میں مدینہ منورہ کو یثرب کہنے کی ممانعت کی گئی ہے، اس لئے کہ یہ زمانہ جاہلیت کا نام ہے یا اس لئے کہ یہ ثرَبٌ سے بنا ہے، جس کے معنی ہیں ہلاکت اور فساد اور تثریب بمعنی سرزنش اور ملامت یا اس وجہ سے کی یثرب کسی بت یا کسی جابر و سرکش بندے کا نام تھا۔امام بخاری رحمۃ اللہ علیہ نے اپنی تاریخ میں حدیث لائے ہیں کہ جو ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو اسے(کفارےمیں) دس مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔

(شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 253)

فتاویٰ رضویہ، جلد 21، صفحہ116 پر ہے:مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔

رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مدینہ کویثرب کہے، اس پر توبہ واجب ہے، مدینہ طابہ ہے، مدینہ طابہ ہے۔

علامہ سعید احمد کاظمی قدس سرہ العزیز نے فرمایا:مدینہ کو یثرب اس وجہ سے کہتے تھے جو مدینہ جاتا، بیمار ہو جاتا اور لوگ اس کو ملامت کرتے، تو گیا کیوں تھا، جو بیمار ہو گیا، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی ہجرت کے بعد جو جگہ دار الوباء تھی، وہ دارالشفا بن گئی، وہاں صحت مند جاتے تو بیمار ہوجاتے، اب بیمار جاتے تو صحتیابی پاتے، پہلے لوگ جانے پر کوستے، ملامت کرتے،اب کوئی حج کے لئے جائے مدینہ نہ جائے تو ملامت کرتے ہیں کہ کیوں نہ گیا۔(شرح صحیح مسلم، کتاب الحج، صفحہ 738،سطر4)

امیر ِاہلِ سنت دامت برکاتہمُ العالیہ لکھتے ہیں :

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے دلبر مدینے میں

( وسائل بخشش، صفحہ 204)

پھر کیوں نہ ہو مدینہ کو یاد کریں، کیوں نہ مدینہ سے محبت کریں، بے قرار ہے وہ دل جس میں یادِ مدینہ نہیں، آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم سے محبت کا تقاضا یہ بھی ہے کہ ہم دل و جان سے مدینہ پر قربان رہیں، اس کا ذکرِ خیر کریں، اس کی حاضری کے لئے دعائیں مانگیں، یقین جانئے دنیا کی محبت ایک طرف اور مدینہ کی محبت ایک طرف، اگر آپ کو مدینہ کا نام سن کر دل میں ہلچل نہیں ہوتی تو آپ کے اندر خرابی ہے، اس کا علاج کیجئے، نعتیں سنئے، مدینے کا ذکر کرنے والیوں، اس کے لئے تڑپنے والیوں، رونے والیوں کی صحبت اختیار کیجئے، ان شاءاللہ آپ بھی مدینہ مدینہ کرنے والے بن جائیں گی۔اللہ پاک ہمیں آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے قدموں میں مدینہ منورہ میں موت نصیب فرمائے۔آمین


مدینہ منورہ  جیسے ہادیِ سُبُل،مولائے کل صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکا دارالہجرت اور پھر روضۃ الرسول بننے کا اعزاز حاصل ہے، جس کی خاکِ پاک کو خود پر بجا طور پر خود پر فخر کرنے کا حق حاصل ہے کہ سرور ِکائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے اس شہر کو اپنی دائمی سکونت کے لئے منتخب فرمایا، اس شہرِ مدینہ کے دلربا تذکرے سے ایمان میں تازگی، روح کو فرحت و مسرت، دل کو شادمانی نصیب ہوتی ہے۔آئیے !شہرِ مدینہ کے فضائل، مدینہ کو مدینہ کہنے کی وجہ اور دیگر تذکرہ ٔمدینہ کرتی ہیں اور اپنے دل کو ذکرِ مدینہ سے منور کرتی ہیں۔

یثرب سے مدینہ تک:

اس پاکیزہ شہر کا قدیم نام یثرب تھا، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مبارک قدموں کی برکت سے یہ شہرِ مدینہ کے نام سے موسوم ہوا، مدینہ سے یثرب کیسے ہوا؟ اس کے لئے ہم یثرب کے معنی اور علما کے اقوال جانتی ہیں:

یثرب بنا ہے ثُرابٌ سے یا تَثْرِیْبٌ سے، جس کے معنی ہیں ملامت کرنا، گناہ پر عار دلانا، لعن طعن کرنا، امام زین المراغی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں:یثرب دراصل اسی شہر کے غربی حصے میں ایک بستی کا نام تھا، یہی نام پوری بستی کیلئے استعمال ہونے لگا، چونکہ اس شہر کو صفحہ ہستی پر آباد کرنے والے کا نام اولادِ نوح میں سے یثرب تھا، تو اسی کی مناسبت سے یہ یثرب کہا جانے لگا، جب رحمت ِعالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلماس شہر میں رونق افروز ہوئے تو اسے مدینۃالنبی کہا جانے لگا اور پھر مختصر طور پر مدینہ کہا جانے لگا۔

امام شہاب الدین احمد بن محمد قسطلانی رحمۃُ اللہِ علیہ لکھتے ہیں:یثرب تثریب سے ہے، جس کے معنی توبیخ و ملامت ہےیا ثرب ہے،جس کے معنی فساد کے ہیں، چونکہ دونوں نام قبیح تھے حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکی عادتِ مبارکہ برے ناموں کو اچھے ناموں سے بدل دیتے تھے، اسی وجہ سے آپ نے یثرب کی جگہ اس کا نام طابہ رکھا۔ پھر جب اس مبارک شہر کا نام طابہ اور مدینہ قرار پایا تو اس مبارک شہر کو یثرب کہنا اور اس کے قدیم نام سے پکارنا بھی ممنوع قرار پایا اور سرکار ِمدینہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اب جو مدینہ کو یثرب کہے اس کے نامہ اعمال میں ایک گناہ لکھا جائے گا۔آئیے !اب مدینہ منورہ کے فضائل جانتی ہیں:

1۔نامِ مدینہ خود اللہ پاک نے عطا فرمایا۔ربّ کریم نے نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکے مبارک شہر کا نام مدینہ خود رکھا، قرآنِ پاک میں ہے:ما کان لاھل المدینہ۔ نبیِّ پاک صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:اللہ پاک نے مجھے حکم دیا کہ میں اس شہر کا نام مدینہ طیبہ رکھوں۔(مسند ابی داؤد طہالسی، جلد2، صفحہ 204)

2۔محبتِ مدینہ کی دعا:جب مسلمان مکہ سے ہجرت کر کے مدینہ آئے تو انہیں شہرِ مکہ فطری طور پر محبوب تھا کہ وہ ان کا وطن تھا تو پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے محبتِ مدینہ کی دعا فرمائی، پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یا اللہ پاک! مدینہ کی محبت ہمارے دلوں میں جاگزیں فرما، جیسے ہمیں مکہ محبوب تھا یا اس سے بھی زیادہ مدینہ کی محبت عطا فرما۔(بخاری شریف، جلد 1، صفحہ 253)

3۔مدینہ میں فوت ہونے کے لئے شفاعتِ مصطفٰے کی بشارت ہے، جیسا کہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں :نبی اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:جو مدینے میں مرنے کی طاقت رکھے تو اسے چاہئے، مدینے ہی میں مرے کہ بروزِ قیامت میری شفاعت و شہادت با سعادت سے مشرف ہو گا۔(مسلم شریف،ج1، 444)

4۔مدینے کے باشندوں سے بد خواہی پر وعید:جو اہلیانِ مدینہ سے بدخواہی کرے گا، وہ ایسا گھل جائے گا، جیسے نمک گھل جاتا ہے۔

5۔خاکِ مدینہ خاکِ شفا ہے:ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں: تاجدارِ دو عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمان الفاظ کے ساتھ بیمار کو جھاڑ پھونک فرماتے تھے، اللہ پاک کے نام کے ساتھ ہمارے ملک کی مٹی ہمارے بعض کے تھوک کے ساتھ ہمارا مریض اللہ پاک کے حکم سے شفایاب ہو جائے گا۔

6،7۔مدینہ کے پھلوں اور رزق میں برکت کی دعا:نبیِّ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:یااللہ پاک!تو ہمارے پھلوں میں برکت عطا فرما، ہمارے شہروں کو بابرکت بنا اور ہمارے صاع اور مد میں بھی برکت عطا فرما۔ ایک اور جگہ فرمایا:اے اللہ پاک! ہمیں اطمینانِ قلب اور عمدہ رزق عطا فرما۔

8۔ایمان کا پہلا اور آخری مرکز مدینہ:نبیِّ اکرم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:ایمان بالآخر سمٹ کر مدینہ منورہ میں رہ جائے گا، جیسا کہ سانپ اپنے بل سمٹ آتا ہے۔

9۔مدینے میں تدفین کی آرزوئے مصطفٰے:حضرت یحییٰ بن سعید رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں :ایک مرتبہ جنت البقیع میں قبر کھودی جارہی تھی،جہاں سرورِ کائنات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمبھی تشریف فرما تھے، اسی دوران ایک صاحب آئے اور کہنے لگے:مومن کے لئے یہ کیسی بری جگہ ہے، آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمکو ان کی بات ناگوار گزری، آپ نے فرمایا:تم نے کیسی بری بات کہی ہے، وہ صاحب کہنے لگے:یا رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم ! میرے کہنے کا مقصد یہ تھا کہ ان کی موت اپنے گھر میں ہوئی ہے، انہیں اللہ پاک کی راہ میں شہید ہونا چاہئے تھا، حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا:شہادت کے برابر تو کوئی چیز نہیں ہو سکتی، لیکن ساری روئے زمین پر کوئی ایسی جگہ نہیں، جہاں مجھے اپنی قبر بنانا پسند ہو،سوا اس جگہ کے اور یہ الفاظ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے تین بار ارشاد فرمائے۔

(مؤطا امام مالک، جلد 2، صفحہ 550)

10۔ہزار نمازوں سے افضل نماز:مدینہ منورہ میں مسجدِ نبوی میں ایک نماز عام مساجد میں ہزاروں نمازوں سے افضل ہے،چنانچہ حضرت عبد اللہ بن زبیر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے، رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلمنے فرمایا: میری امت میں ایک نماز باقی مساجد کے مقابلے میں ہزاروں نماز سے افضل ہے، مگر مسجد حرام میں ایک نماز میری مسجد سے بھی ایک سو گناہ زیادہ فضیلت رکھتی ہے۔

پیاری پیاری بہنوں! حاصل یہ ہےکہ اس متبرک اور مقدس شہر کے بے شمار فضائل ہیں، جن کا احاطہ ہمارا علم، قلم اور وقت نہیں کر سکتے، بس ہر مومن و مومنہ کے دل کی آرزو، آنکھوں کی ٹھنڈک مدینہ منورہ ہونی چاہئے کہ ایک عاشقِ رسول مدینے میں مرنے کی، مدینے میں جینے کی دعا کرتا ہے، اسی آرزو میں شب و روز گزرتے ہیں :

اسی آرزو میں گزرتے رہیں دن کہ پہنچے دیارِ نبی ہم بھی لیکن

نہیں ہے کوئی انتظام ان سے کہنا مدینے کے زائر سلام ان سے کہنا

پیاری اسلامی بہنو! حقیقی محبتِ مدینہ اور مدینے والے مدنی آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی محبت کا تقاضا یہ ہے کہ پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی سنتوں پر عمل کرنے والی بن جائیں،نہ صرف خود سنتوں کی پیکر ہوں، بلکہ سنتوں پر عمل کی دعوت عام کرنے والی بن جائیں۔ربّ کریم حقیقی اور سچی عاشقہِ مدینہ بنائے اور مدینے والے کا عشق عطا فرمائے۔آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


مدینہ منورہ کی فضیلت و اہمیت کے کیا کہنے! اس مبارک شہر کا تو ذرہ ذرہ نورانیت سے معمور ہے۔ مسلمان اس مقدس شہر پر دل و جان سے فدا ہیں۔ عشاقِ مدینہ اس کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بےحد مشتاق رہتے ہیں۔جسے ایک بار بھی مدینے کا دیدار ہوجاتا ہے وہ اپنے آپ کو نہایت خوش قسمت سمجھتا اور مدینے میں گزرے ہوئے حسین لمحات کو ہمیشہ کیلئے یادگار قرار دیتا ہے۔

وہاں اک سانس مل جائے یہی ہے زیست کا حاصل وہ قسمت کا دھنی ہے جو گیا دم بھر مدینے میں

مدینہ منورہ سے محبت کیوں نہ ہو کہ ہمارے پیارے پیارے آقا صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اس شہر کی طرف ہجرت فرمائی، اس سے محبت فرمائی، اس کے فضائل بیان فرمائے اور یہیں آپ کا مزارِ فائض الانوار ہے۔

مدینہ اس لئے عطار جان و دل سے ہے پیارا کہ رہتے ہیں میرے آقا میرے سرور مدینے میں

یاد رہے !حضور جانِ عالم صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی تشریف آوری سے پہلے یہ شہر یثرب (بیماریوں کا گھر) کہلاتا تھا، جو وہاں جاتا بیمار ہوجاتا اور لوگ اس کو ملامت کرتے کہ تو وہاں کیوں گیا جو بیمار ہوگیا! رسول اللہ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ہجرت کے بعد جو جگہ دار الوباء تھی وہ دار الشفاء بن گئی۔ پہلے وہاں صحت مند جاتے تھے تو بیمار ہوجاتے تھے اب بیمار جاتے ہیں تو صحت مند ہوجاتے ہیں۔ پہلے لوگ جانے پر ملامت کرتے تھے اور اب اگر کوئی حج کیلئے جائے اور مدینہ جائے بغیر لوٹ آئے تو لوگ نہ جانے پر ملامت کرتے ہیں۔ (شرح صحیح مسلم ،3/738)

جب سے قدم پڑے ہیں رسالت مآب کے جنت بنا ہوا ہے مدینہ حضورکا

مدینہ منورہ کے فضائل سے متعلق 10 احادیثِ مبارکہ پڑھئے اور اپنی عقیدت و محبت میں مزید اضافہ کیجئے۔

1:مزارِ مبارک افضل المخلوقات، سید السادات صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم:

”زمین کا کوئی حصہ ایسا نہیں جہاں مجھے اپنی قبر کا ہونا اس جگہ(مدینہ منورہ) سے زیادہ پیارا ہو۔“ (تین بار فرمایا)

(مشکوة المصابیح ،1/419،حدیث:2757)

شہا تم نے مدینہ اپنایا، واہ کیا بات ہے مدینے کی اپنا روضہ اسی میں بنوایا، واہ کیا بات ہے مدینے کی

تمام علمائے کرام کا اس بات پر اتفاق ہے کہ آپ صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کے جسمِ انور سے زمین کا جو حصہ لگا ہوا ہے، وہ کعبہ شریف سے بلکہ عرش و کرسی سے بھی افضل ہے۔ (در مختار مع رد المحتار ،4/62)

عرشِ علیٰ سے اعلیٰ میٹھے نبی کا روضہ ہے ہر مکاں سے بالا میٹھے نبی کا روضہ

2:دار الہجرت:

”مجھے ایک ایسی بستی کی طرف(ہجرت) کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی(سب پر غالب آئے گی) لوگ اسے یَثْرِب کہتے ہیں حالانکہ وہ مدینہ ہے، (یہ بستی) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو۔“ (بخاری، 1/617، حدیث:1871)

اس روایت میں مدینہ منورہ کو یثرب کہنے سے منع کیا گیا ہے۔ مدینہ طیبہ کو یثرب کہنا ناجائز و ممنوع و گناہ ہے اور کہنے والا گنہگار۔(فتاویٰ رضویہ،21،/116) جو مدینے کو یثرب کہے اس پر توبہ واجب ہے۔(عاشقان رسول کی 130 حکایات مع مکے مدینے کی زیارتیں،ص252)

امام بخاری رحمۃُ اللہِ علیہ سے روایت ہے:جو کوئی ایک مرتبہ یثرب کہہ دے تو اسے (کفارے میں) دس مرتبہ مدینہ کہنا چاہئے۔(عاشقانِ رسول کی130حکایات، ص 253)

نعتیہ اشعار وغیرہ میں بھی لفظ یثرب نہیں پڑھ سکتے، ایسے شعر پڑھنا چاہیں تو اس لفظ کی جگہ طیبہ پڑھیں کہ یہ نام حضور (صلی اﷲ تعالیٰ علیہ وسلم) نے رکھا ہے۔

3:طابہ:

”اللہ کریم نے مدینے کا نام طابہ رکھا ہے۔“ (مشکوة المصابیح ،1 /416،حدیث:2738)

طابہ کے معنی ہیں پاک و صاف اور خوشبودار جگہ۔ (مراة المناجیح،4/238)

باغِ طیبہ میں رہتی ہے ہر دم بہار آکے دیکھو یہاں کا سماں خوشگوار

سب فضا اس کی خوشبو سے بھرپور ہے میرے میٹھے مدینے کی کیا بات ہے

4:حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مدینہ منورہ سے محبت:

حضرت انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکار صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم جب سفر سے آتے اور مدینہ پاک کی دیواروں کو دیکھتے تو اپنی سواری کو تیز فرمادیتے، اگر گھوڑے پر ہوتے تو اسے ایڑھ لگاتے اس(مدینہ پاک) کی محبت کی وجہ سے۔ (مشکوة المصابیح،1/417،حدیث:2744)

اے خاکِ مدینہ ترا کہنا کیا ہے تجھے قربِ شاہِ مدینہ ملا ہے

5:دعائے مصطفٰے:

”اے اللہ پاک!جتنی برکتیں مکے میں نازل کی ہیں،اس سے دگنی برکتیں مدینے میں نازل فرما۔“

(بخاری، 1/620، حدیث: 1885)

وہ دعا جس کا جوبن بہارِ قبول اس نسیم ِاجابت پہ لاکھوں سلام

6:خاکِ طیبہ، خاکِ شفا:

مدینے کی خاک میں ہر بیماری سے شفا ہے۔ (جامع الاصول للجزری ،9/297،حدیث:6962)

خاکِ طیبہ میں رکھی ہے رب نے شفا ساری بیماریوں کی ہے اس میں دوا

اس کی برکت سے ہر اک مرض دور ہے میرے میٹھے مدینے کی کیا بات ہے

7:حرم:

حضور صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے دست ِاَقدس سے مدینہ منورہ کی طرف اشارہ کر کے فرمایا: ”بے شک یہ قابلِ احترام اور امن کا گہوارہ ہے۔“(معجم کبیر،6/92،حدیث:5611)

جدھر دیکھوں مدینے کا حرم ہو کرم ایسا شہنشاہِ امم ہو

8:فرشتوں کا مدینہ منورہ کی حفاظت کرنا:

”اس ذات کی قسم! جس کے دست ِقدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کررہے ہیں۔“ (مسلم، ص713،حدیث:1374)

اللہ نے یہ شان بڑھائی ترے در کی بخشی ہے ملائک کو گدائی ترے در کی

9:دجال اور طاعون سے محفوظ:

”مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں،اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔“ (بخاری،1 /619،حدیث:1880)

ورد یاں بولتے ہیں ہرکارے پہرہ دیتے سوار پھرتے ہیں

10:مدینہ منورہ میں مرنے کی ترغیب و فضیلت:

”تم میں سے جو مدینے میں مرنے کی استطاعت رکھے وہ مدینے ہی میں مرے کیونکہ جو مدینے میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق میں گواہی دوں گا۔“ (شعب الایمان،3/497،حدیث:1482)

طیبہ میں مرکے ٹھنڈے چلے جاؤ آنکھیں بند سیدھی سڑک یہ شہرِ شفاعت نگر کی ہے

اللہ کریم ہمیں مدینہ منورہ کی باادب با ذوق حاضری سے مشرف فرمائے اور بقیعِ پاک میں دفن ہونے کی سعادت نصیب فرمائے۔ آمین بجاہ خاتم النبیین صلی اللہُ علیہ واٰلہٖ وسلم


جس طرح نبی تمام مخلوق میں افضل ہوتے ہیں اسی طرح کچھ شہر بھی فضیلت رکھتے ہیں۔جس طرح نبیوں میں ہمارے پیارے نبی مکی مدنی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سب سے افضل ہے اسی طرح شہروں میں مدینہ اور مکہ سب شہروں سے زیادہ افضل ہے۔ یہاں میں مدینہ شریف کی چند فضیلتوں کا ذکر کروں گا۔

(1) ابن عمر رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس سے ہو سکے کہ مدینہ میں مرے تو مدینہ ہی میں مرے کہ جو شخص مدینہ میں مرے گا میں اس کی شفاعت فرماؤں گا۔ وجہِ تسمیہ: مدینہ پاک کو مدینہ اس لئے کہتے ہیں کہ مدینہ لغت میں ایسے مقام کو کہتے ہیں جو مکانات اور کثرت عمارات میں قریہ کی حد سے تجاوز کر گیا ہو اور شہر کے درجہ کو پہنچ گیا ہو، جو تمام گاؤں سے بڑا ہے۔علم لغت والو نے شہر اور مدینہ کو ایک درجہ میں رکھا ہے۔ اب مدینہ جو ہے وہ مدینہ رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ہو گیا ہے۔

(2) حدیث پاک میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے: یا طیبۃ ، یا سید البلدان۔ مدینہ کے فضائل کا بیان جس جگہ ہے وہاں پر یہ معنی واضح ہو جائیں گے۔(3) سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے : اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے! مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے نہ کوئی راستہ مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (4) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا:یا اللہ ! تو مدینہ کو ہمارا محبوب بنادے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اُس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اُس کے صاع و مُد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کرکے جحفہ میں بھیج دے۔

(5)متعدد احادیث صحیحہ میں آیا ہے کہ مسجد نبوی میں ادا کی ہوئی ایک نماز کا ثواب ہزاروں نمازوں کے برابر ہے۔(6) حدیث پاک میں آیا ہے کہ جو شخص رسولُ اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی مسجد کا قصد کرے اس لئے کہ اگر اس میں دو رکعت نماز ادا کے تو مکمل حج کا اس شخص کو ثواب دیا جاتا ہے۔(7) حاکم نے اپنی مستدرک میں روایت کیا ہے کہ جب حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ہجرت کا ارادہ کیا تو فرمایا:ے اللہ اگر تو مجھ کو اس جگہ سے جو میرے نزدیک محبوب ترین مقامات میں ہے باہر لاتا ہے تو میری سکونت ایسی جگہ میں کر، جو تیرے نزدیک تمام مقامات میں محبوب ترین ہو۔چنانچہ اس دعا کے ہو جانے کے بعد یہ مقام اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے نزدیک محبوب ترین مقامات میں سے ہو گیا۔


مدینہ منورہ وہ شہرِ عظیم ،جو اسلام کا مظہر بھی ہے اور اسلام کا سر چشمہ بھی اور آپ اس کی فضیلت کا اندازہ اس بات سے لگا سکتے ہیں کہ جملہ کمالات ظاہر و باطن جو عالم قوت و استعداد میں امانت رکھے گئے تھے ان سب کو اللہ پاک نے اس شہر میں ظاہر فرمایا اور اس شہر کو تمام فتوحات کا مبدأ اور برکات کے خزانوں کی کنجی بنا دیا۔ اور سب سے بڑھ کر اس کے خاکِ پاک کو آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے گوہرِ عنصر شریف کے لئے صدف بنایا کہ قیامت تک اس زمین کا ٹکڑا آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے وجودِ پاک سے مشرف ہو کر فیض بخش ملک و ملکوت رہے۔ بہر حال جو شہر امام الانبیاء کے آرام و قیام گاہو، اس کی فضیلت بیان کرنا انسان کی بس کی بات نہیں ۔تاہم چند احادیث کی روشنی میں چند فضائل تحریر کرتے ہیں:۔

(1) آقائے کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: اللَّهُمَّ اجْعَلْ بالمَدِينَةِ ضِعْفَيْ ما جَعَلْتَ بمَكَّةَ مِنَ البَرَكَةِ. یعنی اے اللہ! جتنی برکت تو نے مکۂ مکرمہ میں رکھی ہے اس سے دُگنی برکت مدینۂ منورہ میں رکھ دے۔( بخاری ،1/620،حدیث: 1885)(2) رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: عَلٰی اَنْقَابِ الْمَدِینَۃِ مَلَائِکَۃٌ لَّا یَدْخُلُہَا الطَّاعُونُ وَلَا الدَّجَّالُ ترجمہ:مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فِرِشتے ہیں، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے۔( بخاری ،1/619،حدیث: 1880)(3) خاتم النبیین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: تم میں سے جس سے ہو سکے کہ وہ مدینے میں مرے تو مدینے ہی میں مرے ، فاِنّي اَشْفعُ لمنْ يَموْت بها کیونکہ میں مدینے میں مرنے والے کی شفاعت کروں گا۔(ترمذی ،6/203، حدیث: 3917)

(4) سرورِ دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: من أرادَها بِسُوءٍ أذابَهُ اللَّهُ كَما يَذُوبُ المِلْحُ فِي الماءِ ترجمہ: جس نے اہل مدینہ سے برائی کا قصد کیا اللہ پاک اس کو ایسے پگھلادے گا جس طرح نمک پانی میں گھل جاتا ہے۔ (ابن ماجہ،4/546،حدیث:3114)(5) آپ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یشک ایمان مدینہ منورہ کی طرف لوٹ آئے گا جس طرح سانپ اپنے بل کی طرف لوٹ آتا ہے۔(صحیح البخاری کتاب فضائل المدینۃ، حدیث: 1876)(6) آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ایک نماز میری اس مسجد میں بہتر ہے، دوسری مسجدوں میں ادا کی ہوئی ہزار نمازوں سے سوائے مسجد حرام کے۔ (مسلم،4/125،حدیث:1395)(7) خاتم المرسلین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: یقیناً مدینہ مثلِ بھٹّی کے ہے کے خرابی(خباثت) کو دور کرتا ہے اور بھلائی کو خالص کرتا ہے۔(بخاری)

(8) مختارِ کل صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اللہ پاک نے جو کچھ مدینہ کے دو پتھروں کے درمیان ہے، میری زبان پر حرم بنا دیا ہے۔(بخاری،3/20، حدیث:1869)(9) سیّد الانس و جان صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص مدینہ کی تنگی پر صبر کرے، میں قیامت کے دن اس کا شفیع یا گواہ ہوں گا۔(مسلم،4/119،حدیث:1377)(10) آقائے دو عالم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: ہر نبی کے لئے ایک جگہ حرم ہے، اور میرا حرم مدینہ ہے۔ (مسند احمد)فائدہ:اس حدیث پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ بلاشبہ جس طرح ہر نبی پر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فضیلت حاصل ہے۔ اسی طرح اوروں کے حرم پر بھی حرَمِ خاتم النبیین کو فضیلت حاصل ہے۔(فضائلِ مدینہ،ص 18)


بلاشبہ ذکرِ مدینہ عاشقانِ رسول کے لئے باعثِ راحتِ قلب و سینہ ہے۔ عشاق مدینہ اس کی فرقت میں تڑپتے اور زیارت کے بےحد مشتاق رہتے ہیں۔ جسے ایک باربھی مدینے کا دیدار ہوجاتاہے وہ اپنے آپ کو بَخت بیدارسمجھتا اورمدینے میں   گزرے ہوئے حَسین لمحات کو ہمیشہ کیلئے یاد گار قرار دیتا ہے۔ اللہ ہمارے بھی عشقِ مدینہ میں اضافہ عطا فرمائے۔ مزید اس میں اضافے کے لئے چند فضائلِ مدینہ ملاحظہ ہوں۔

(1)مدینہ منورہ میں مرنے کی فضیلت: حضور نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان روح پرور ہے: جو شخص مدینے پاک میں مرنے کی استطاعت رکھے وہ مدینے میں ہی مرے کیونکہ جو مدینے میں مرے گا میں اس کی شفاعت کروں گا اور اس کے حق گواہی دوں گا۔(شعب الایمان ،3/497،حدیث:1482)(2)دجال مدینہ منورہ میں داخل نہیں ہو سکتا: حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مدینے میں داخل ہونے کے تمام راستوں پر فرشتے ہیں ، اس میں طاعون اور دجال داخل نہ ہوں گے ۔ (بخاری ، 1/ 619 ،حدیث ، 1880 )

(3) مدینہ ہر آفت سے محفوظ: نبی مکرم، نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان معظم نشان ہے اس ذات کی قسم جس کے دست قدرت میں میری جان ہے مدینے میں نہ کوئی گھاٹی ہے اور نہ کوئی راستہ مگر اس پر دو فرشتے ہیں جو اس کی حفاظت کر رہے ہیں۔ (مسلم، ص 714،حدیث: 1374)(4) مدینہ لوگوں کو پاک و صاف کرے گا: سرکار مدینہ منورہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : مجھے ایک ایسی بستی کی طرف ہجرت کا حکم ہوا جو تمام بستیوں کو کھا جائے گی (سب پر غالب آئے گی ) لوگ اسے یثرب کہتے ہیں اور وہ مدینہ ہے، (یہ بستی ) لوگوں کو اس طرح پاک و صاف کرے گی جیسے بھٹی لوہے کے میل کو ۔(صحیح البخاری،1/617، حدیث: 1871)

(5)مدینے کی سختیوں پر صبر کرنے والے کے لئے شفاعت: سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : میرا کوئی امّتی مدینے کی تکلیف اور سختی پر صبر نہ کرے گا مگر میں قیامت کے دن اس کا شفیع (یعنی شفاعت کرنے والا) ہوں گا۔(مسلم، ص716 ،حدیث :1378)(6)مدینہ منورہ بہتر ہے: نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان ہے: اہلِ مدینہ پر ایک زمانہ ایسا ضَرور آئے گا کہ لوگ خوشحالی کی تلاش میں یہاں سے چَراگاہوں کی طرف نکل جائیں گے، پھر جب وہ خوشحالی پالیں گے تو لوٹ کر آئیں گے اور اہلِ مدینہ کو اس کُشادَگی کی طرف جانے پر آمادہ کریں گے حالانکہ اگر وہ جان لیں تومدینہ ان کے لئے بہتر ہے۔(مسنداحمدبن حنبل ،5/106،حدیث:14686)

(7) اللہ کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم آرام پذیر: مدینہ منورہ کو سب سے بڑی فضیلت یہ حاصل ہے کہ حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم وہاں تشریف فرما ہیں اور آپ نے فرمایا: جس نے میری قبر کی زیارت کی اُس کے لئے میری شفاعت واجب ہو گئی۔(8)اللہ پاک خوف میں ڈالے گا:نبی کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اہلِ مدینہ کو ڈرائے گا اللہ پاک اسے خوف میں ڈالے گا۔ (ابن حبان، کتاب الحج، باب فضل المدینۃ ، 4 / 20، حدیث: 3730، الجزء السادس)

(9) مدینہ منورہ میں فوت ہونے والے سے حساب نہ ہوگا: حضورِ اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس شخص کی حج یا عمرہ کرنے کی نیت تھی اور اسی حالت میں اسے حَرَمین یعنی مکے یامدینے میں موت آگئی تو اللہ پاک اسے بروزِ قیامت اِس طرح اٹھائے گا کہ اُس پر نہ حساب ہو گا نہ عذاب۔(مصنف عبدالرزاق ،9/174، حدیث:17479)(10)مدینہ کے لئے خاص دعا: رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: اےاللہ ! مدینہ کو ہمارا محبوب بنادے جیسے ہم کو مکہ محبوب ہے بلکہ اس سے زیادہ اور اُس کی آب و ہوا کو ہمارے لئے درست فرما دے اور اُس کے صاع و مُد میں برکت عطا فرما اور یہاں کے بخار کو منتقل کرکےجحفہ میں بھیج دے۔(صحیح مسلم،کتاب الحج،باب الترغیب فی سکنی المدینۃ ...الخ،ص715،حدیث:1376)