کتابوں کا ادب

Sat, 22 May , 2021
2 years ago

کہا جاتا ہے کہ"علم کی پہلی سیڑھی ادب ہے" کہ جب بندہ اس سیڑھی  کو پا لیتا ہے تو اس کے لئے منزل کا حصول آسان ہو جاتا ہے۔

یعنی جس طرح اگر کوئی شخص کسی عمارت کی بلندیوں تک پہنچنے کا قصد کرتا ہے، تو اس کے لئے عمارت کی سیڑھیوں کو پانا بہت ضروری ہے، اسی طرح جب ایک طالب علم کسی بلندی کا حصول اور علم کی تجلیات سے اپنے ظاہر و باطن کو منوّر کرنا چاہتا ہے، اسے علم کی پہلی سیڑھی پر مضبوطی کے ساتھ اپنا قدم جمانا ضروری ہے۔

علم کی اس سیڑھی ادب کے ذریعے ہی ایک طالب علم کامیابی سے ہمکنار ہوتا ہے، یعنی جس نے ادب کو تھام لیا، اس نے منزل کی راہ کو پا لیا، لہذا یہ کہ ادب کیا ہے؟ اس کا حصول کس طرح ہو؟ کن کن چیزوں کا ادب ضروری ہے؟ تو ایک طالب علم کے لئے ان تمام کا جاننا نہایت ضروری ہے، "ادب وہ اخلاقی ملکہ ہے، جو انسان کو ناشائستہ باتوں سے روکتا ہے، انسان کو مہذب بناتا ہے" ہمارے معاشرے میں ادب کا فقدان پایا جاتا ہے، استاد ہو یا والدین، ہم مجلس ہویاہم درجہ، عموماً ہر موقع میں ادب و احترام میں کمی ہی دیکھی جاتی ہے، حالانکہ ایک طالب علم کےلئے حصول علم میں ادب وہی کردار ادا کرتا ہے، جو کردار کھانےمیں نمک ادا کرتا ہے کہ نمک کے بغیر کھانا تیار ہوجاتا ہے مگر نہ ہی اس کھانے میں لذّت ہوتی ہے اور نہ ہی اس کی اہمیت، اسی طرح ادب کے بغیر کوئی علم تو حاصل کر سکتا ہے، لیکن اس علم کی چاشنی سے مٹھاس حاصل نہیں کر سکتا۔

" طالب علم کو چاہئے کہ وہ علم، اہلِ علم اور جن اشیاء کے ذریعے علم کا حصول ممکن ہے، ان تمام کا ادب و احترام دل سے بجالائے۔

کسی نے کہا ہے کہ"ما وصل من وصل الا بالحرمۃ وما سقط من سقط الا بترک الحرمۃ"یعنی جس نے جو کچھ پایا، ادب و احترام کر نے کے سبب ہی پایا اور جس نے جو کچھ کھویا، وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"

تعظیمِ علم میں جس طرح اساتذہ کرام کا ادب شامل، بالکل اسی طرح ان کتابوں کا ادب بھی ضروری ہے، جن کے ذریعے ہم نے علم کے انمول خزانوں سے کچھ ذخیرہ کیا ہے، " طالب علم کے لئے کتابوں کا ادب ضروری ہے" کیونکہ کتاب ہر دور میں تعلیم و تربیت کا اہم ذریعہ رہی ہے، اس کی ہئیت خواہ کچھ بھی رہی ہو، مگر ایک زمانے سے دوسرے زمانے تک، ایک دماغ سے دوسرے دماغ تک، علم منتقل کرنے کے لئے انسان نے تحریر کا سہارا لیا، کبھی پتھروں پر تو کبھی درختوں کی چھال پر، لوگوں نے اپنے علموں کو تحریر کے ذریعے ہی محفوظ رکھا۔

انسانی ذہن کی ترقی کے ساتھ ساتھ طریقے بدلتے رہے، حتٰی کہ کاغذ ایجاد ہوا اور تحریر نے علامتوں، نشانوں کی منازل طے کر کے الفاظ کی شکل اختیار کر لی اور حصولِ علم کا موجودہ وسیلہ "کتاب" ہے، کتاب کی موجودہ شکل جزو جدید ہے، لیکن اس کا تصوّر قدیم ہی ہے۔

کتاب حصولِ علم میں مرکزی کردار ادا کرتا ہے، کتاب کی اہمیت و ضرورت بیان نہیں کی جاسکتی، پوری دنیا اس بات کی قائل ہے کہ کتاب کی اہمیت و ضرورت کے ضمن میں کچھ کہنا، سورج کو چراغ دکھانے کے مترادف ہے۔

کتابوں کی بدولت ہی طالب علم، علم کے سمندر میں غوطہ لگاتا ہے، اس کی بوندوں سے استفادہ حاصل کرتا، لہذا ہر طالب علم پر ضروری ہے کہ جس طرح طالب علم اپنے استاد کا ادب و احترام بجا لاتا ہے، اسی طرح اپنی کتابوں کا بھی احترام کرے، کیونکہ"باادب با نصیب، بے ادب بے نصیب"

آدابِ کتاب:

کتاب کی تعظیم و توقیر، اس کے ادب و احترام کی مختلف صورتیں ہیں، جن میں سے چند یہ ہیں: ٭کتاب کے ادب کی نیت سے کتابوں کو بغیر وُضو ہاتھ نہ لگائے۔

٭اپنی کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرے۔

٭ بیٹھتے وقت اس بات کا خاص خیال رکھے کہ کتابوں کو کسی اونچی جگہ پر رکھے۔

٭تفسیرو احادیث کی کتابوں پر دوسری کتابیں نہ رکھی جائیں۔

٭ بلاضرورت کتابوں پر لکھنے سے گریز کیا جائے۔

٭اپنی کتابوں کو گرنے سے، پھٹنے سے اور خراب ہونے سے محفوظ رکھا جائے۔

٭کتابوں پر ادوات، قلم وغیرہ نہ رکھے۔

٭ کتابوں پر اپناسر، ہاتھ، رومال وغیرہ رکھنے سے بچے۔

٭ کتابوں کو اچھی طرح مزیّن اور آراستہ رکھے۔

٭کتابوں کو ان تمام چیزوں سے محفوظ رکھے، جس سے کتاب کو نقصان ہو۔

یہ تمام باتیں کتابوں کے ادب و احترام میں شامل ہیں،

کتابوں کےآداب میں بزرگانِ دین کے احوال:

ہمارے سلف صالحین رحمۃ اللہ علیھم اجمعین کتابوں کے ادب کا بہت اہتمام فرماتے، چنانچہ

حضرت شیخ شمس الدّین حُلوانی قدس سرہ النورانی سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"کہ میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کرنے کے سبب حاصل کیا، وہ اس طرح کہ میں نے کبھی بھی " بغیر وضو" کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔

حضرت سیّدنا امام سرخسی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا پیٹ خراب ہو گیا، آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے، پس اس رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو سترہ بار وضو کرنا پڑا، کیونکہ آپ علیہ الرحمۃ بغیر وضو تکرار نہیں کیا کرتے تھے ۔(تعلیم المتعلم طریق التعلم)

الغرض:

"علم ایک ایسی عزت ہے کہ جس میں کوئی ذلت نہیں" اور اس لازوال نعمت کی اہم کنجی"ادب "ہے، اس لئے ہر طالب علم پر لازم ہے کہ وہ کتابوں کا ادب واحترام کرے اور اس عظیم نعمت سے زیادہ سے زیادہ فائدہ حاصل کرے۔

اللہ عزوجل ہمیں بھی باادب بنائے، کیونکہ کہا جاتا ہے: المرمۃُ خیر من الطاعۃ۔یعنی ادب و احترام کرنا اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔


کتابوں کا ادب

Sat, 22 May , 2021
2 years ago

کتابوں سے ہم مختلف علوم حاصل کرتے ہیں کتابیں انسان کی قیمتی دولت ہوتی ہیں، اور ہماری تنہائی کی بہترین ساتھی ہوتی ہیں۔ ایک اچھی اور بہترین کتاب ہمیں نیک، بااخلاق اور اچھا انسان بناتی ہے۔

ہمارے ہاں کتابوں اور بالخصوص دینی کتابوں سے دوستی کا اس قدر فقدان ہے کہ یہاں لوگ ہر قسم کی چیزوں پر بے بہا رقم خرچ کرتے ہیں مگر کتابیں نہیں خریدتے جس کی وجہ صرف مطالعے کے ذوق کی کمی ہے۔ وہیں کچھ لوگ مطالعہ تو کرتے ہیں لیکن یہ شکایت کرتے نظر آتے ہیں کہ پڑھتے ہوئے ہم بوریت کا شکار ہو جاتے ہیں یا ہم کچھ یاد نہیں رکھ پاتے وغیرہ وغیرہ، ان سب کے پیچھے دوسری بہت سی وجوہات کے ساتھ ایک اہم وجہ کتابوں کا ادب نا کرنا ہے کیونکہ کتابوں سے فوائد تبھی حاصل ہوتے ہیں جب ہم ان کا ادب کرتے ہیں۔ اور یہیں جب دینی کتابوں کی بات ہوتی ہے تو ادب کے تقاضے مزید بڑھ جاتے ہیں۔ ایک مشہور مقولہ ہے "باادب بانصیب بے ادب بد نصیب"

حضرت سیدنا شیخ شمس الائمہ حلوانی قدس سرہ سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمةاللہ تعالی علیہ نے فرمایا کہ: "میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کرنے کے سبب حاصل کیا وہ اس طرح کہ میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا" .. (راہ علم صفحہ ٣٣)

اگر آپ بھی زیادہ سے زیادہ علم حاصل کرنا چاہتے ہیں تو اپنی کتابوں کا ادب کیجیے۔

ان کو صاف ستھرا رکھیے۔ ان پر پلاسٹک شیٹ لگا کر ان کی حفاظت کریں۔ کتاب پر میلے ہاتھ نا لگاٸیں۔ اگر آپ کے ہاتھوں میں زیادہ پسینہ آتا ہو تو ٹشو پیپر کا استعمال کیجیے اس طرح آپ کی کتابیں خراب نہیں ہوں گی۔ کتاب میں نشانی رکھنے کے لیے صفحات کو فولڈ نہ کریں، ہمیشہ ربن یا کوئی دوسرا صفحہ رکھیں۔ کتاب پر اگر لکھنے کی ضرورت ہوتو پینسل استعمال کریں پین سے نہ لکھیں۔ کتابوں کی طرف پاؤں نہ پھیلائیں۔ کتابوں کو ہمیشہ اونچی جگہ رکھیں، کتابیں نیچے رکھی ہوں تو خود اونچی جگہ نا بیٹھیں۔ کتابوں پر قلم یا گلاس وغیرہ نہ رکھیں۔ کتاب ہمیشہ سیدھی رکھیں۔ کتابوں کو اٹھاتے اور رکھتے ہوئے احتیاط کریں کہ انکی جلد خراب نہ ہوں۔ کبھی بھی کسی کو کتاب پھینک کر یا کھسکا کر نا دیں بلکہ ہمیشہ ادب سے ہاتھ میں دیں۔

طلبائے علم دین چونکہ دینی کتابیں پڑھتے ہیں اس لیے ان کو خاص طور پر ادب کا خیال رکھنا چاہیے۔ ہمیشہ باوضو دوزانوں بیٹھ کر مطالعہ کریں۔ دینی کتابوں کو رکھتے ہوئے ان کی ترتیب کو ملحوظِ خاطر رکھیے یعنی سب سے اوپر سادہ قرآن پاک پھر کتب تفاسیر رکھیں اس کے بعد کتب احادیث رکھیں ان کے نیچے کتب فقہ اور ان کے بعد صرف و نحو اور دیگر کتب رکھیں، اپنی کتابوں کے ساتھ ٹیک نا لگائیں۔ کتابوں کو پھلانگ کر نہ گزریں کہ یہ ادب کے سخت خلاف ہے۔

اللہ پاک ہمیں کتابوں کا ادب کرنا نصیب فرمائے۔ آمین


کتابوں کا ادب

Mon, 3 May , 2021
3 years ago

طالب علم کے لئے ادب ایک ضروری چیز ہے،   جس کے بغیر علم کا حصول ناممکن ہے، علم کو حاصل کرنے اور اس سے نفع اٹھانے کا دارومدار ادب پر ہے، کسی نے کیا خوب کہا:"جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"

طالب علم کے لئے جہاں استاد کا ادب کرنا ضروری ہے، وہیں پر کتابوں کا ادب کرنا بھی اس پر لازم ہے، لہذا طالب علم کو چاہئے کہ کبھی بھی بغیر طہارت کے کتاب کو ہاتھ نہ لگائے، بلکہ ہو سکے تو باوضو ہو کر قبلہ کی جانب رُخ کرکے کتاب پڑھے کہ جتنا ادب زیادہ کرے گا، اتنی برکتیں زیادہ حاصل ہوں گی۔

چند واقعات:

حضرت شیخ سیّدنا شمس الائمہ حلوانی قدس سرہ النورانی سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کے سبب حاصل کیا، وہ اس طرح کے میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔"

شمس الائمہ امام سرخی رحمۃ اللہ علیہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ رحمۃ اللہ علیہ کا پیٹ خراب ہو گیا، آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مباحثہ کیا کرتے تھے، پس اس رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو سترہ بار وضو کرنا پڑا، کیونکہ آپ علیہ الرحمۃ بغیر وضو تکرار نہیں کیا کرتے تھے ۔

بزرگانِ دین کو وضو سے اس وجہ سے محبت تھی کہ علم نور ہے اور وضو بھی نور، پس وضو کرنے سے علم کی نورانیت بڑھ جاتی ہے۔

ایک بزرگ کی عادت تھی کہ وہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے تو ان کے شیخ نے ان سے فرمایا:"تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔" حالانکہ قاضی خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے تھے:"کتابوں پر دوات وغیرہ رکھنا، اگر تحقیرِ علم کی نیت سے نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے، مگر بہتر ہے کہ اس سے بچا جائے۔"

ان حکایات سے معلوم ہوتا ہے کہ ہمارے بزرگانِ دین رحمھم اللہ المبین کتابوں کا کتنا ادب فرمایا کرتے تھے، اللہ ان کے صدقے ہمیں بھی باادب بنا دے اور بے ادبی سے محفوظ فرمائے، ہمیں چند چیزوں کو کتاب پڑھتے وقت ملحوظِ خاطر رکھنا چاہئے۔

1۔ باوضو ہوں، 2۔ قبلہ رو ہوں، 3۔ خوشبودار پاکیزہ ماحول ہو۔ 4۔ کتاب کے اوپر کوئی چیز نہ رکھی جائے۔ 5۔ کتاب کی طرف پاؤں نہ پھیلائے جائیں، 6۔کتاب کو اونچے مقام پر رکھا جائے، 7۔ کتاب پر بغیر ضرورت نہ لکھا جائے، 8۔ کتابوں کو ترتیب کے ساتھ رکھا جائے، 9۔ سب سے اوپر تفسیر ، پھرحدیث، پھر فقہ اور پھر دیگر کتابیں رکھی جائیں۔

اللہ تعالی ہمیں کتابوں کا ادب کرنے اور بے ادبی کرنے سے بچنے کی توفیق عطا فرمائے اور علمِ نافع سے مالا مال فرمائے۔آمین یا ربّ العالمین


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

علم معرفت خدا وند کا ذریعہ ہے۔ علم انبیاء کرام علیہمُ السّلامکی وراثت ہے۔ علم نور الہٰی ہے، علم کے ذریعہ انسان پر رشد و ضلال کی حقیقتیں واضح ہوتی جاتی ہیں، اس لئے علم دین کی عظمت و محبت ایک سچے مسلمان کی فطرت ہوتی ہے۔ علم کا ادب یہ ہے کہ اس سے متعلق تمام چیزوں کی توقیر کی جائے اور ان کا ادب کیا جائے۔ اسی وجہ سے علماء کرام کا ادب بجالانے کا حکم ہے، کیونکہ انہوں نے وراثت انبیاء یعنی علم دین کو اپنے سینوں میں محفوظ کرلیا ہے۔ اسی طرح ان اوراق اور کتابوں کے ادب کا بھی حکم ہے، جس میں علمی باتیں یا اسمائے مقدسہ لکھے ہوئے ہوں۔

حضرت بشر حافی جو کہ ولایت سے پہلے ایک شرابی تھے ایک روز ننگے پیر شراب کے نشے میں چور کہیں جا رہے تھے کہ راستے میں ایک ورق پر نظر پڑی، جس پر اللہ تعالیٰ کا نام یعنی بسم اللہ الرحمن الرحیم لکھا ہوا تھا۔ یہ دیکھ کر آپ تڑپ اُٹھے کہ ’’جس ورق پر میرے اللہ کا اسم مبارک ہے، وہ زمین پر پڑا ہوا ہے‘‘۔ آپ نے فوراً اُس کاغذ کو اُٹھایا، بوسہ دیا اور اُسے اونچی جگہ پر رکھ دیا۔ اسم مبارک کے ادب کی وجہ سے اللہ تعالیٰ نے آپ کو شرابیوں کی صف سے نکال کر اپنے ولیوں کی صف میں پہنچا دیا اور پھر وہ مقام عطا ہوا کہ حضرت امام احمد بن حنبل رحمۃُ اللہِ علیہ جیسی شخصیت آپ کی صحبت بافیض میں بیٹھنے کو باعثِ سعادت تصور کرتی تھی اور جب تک آپ رحمۃُ اللہِ علیہ حیات رہے جانور بھی آپ کی تعظیم کی خاطر راستے میں گوبر نہ کرتے کیونکہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہننگے پاؤں ہوا کرتے تھے۔

کوئی شخص اس وقت تک علم کی روح نہیں پاسکتا اور نہ ہی علم سے نفع اٹھاسکتا ہےجب تک علم ، اہلِ علم اور آلاتِ علم کا ادب و احترام نہیں کرتا۔ دین سراسر اَدب ہے، علم بھی اَدب ہی سے نصیب ہوتا ہے اور علم کا اَدب آلاتِ علم کے اَدب سے ہوتا ہے، اور کتاب آلہ علم ہےاس لیے کتاب کا اَدب نہایت ضروری ہے۔

کہا جاتا ہے کہ: مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلّاَ بِالْحُرْمَۃِ وَ مَا سَقَطَ مَنْ سَقَظَ اِلَّا بِتِرْکِ الْحُرْمَۃِ۔ یعنی جس نے جو پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی سے پایا اور جس نے جو کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔

(تعلیم المتعلم طریق التعلم، ترجمہ بنام راہ علم ، ص31)

چنانچہ شیخ شمس الائمہ حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہسے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمۃُ اللہِ علیہنے فرمایا کہ میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم وتکریم کرنے کے سبب حاصل کیا، وہ اس طرح کہ میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔

(راہ علم)

کتاب کے چند آداب:

· باوضو کتاب کا مطالعہ کرنا۔کیو ں کہ علم ایک نور ہے اور وضو بھی ایک نور ہے پس وضو کرنے سے علم کی نورانیت مزید بڑھ جاتی ہے ۔

· کتابوں کی طر ف پاؤں نہ کیا جائے۔

· کتا ب کو ہمیشہ اونچی جگہ ادب کے ساتھ رکھا جائے۔

· کتب تفاسیر کو تعظیماً تما م کتب کے اوپر رکھے اورکتاب کے اوپر کوئی دوسری چیز ہرگز نہ رکھی جائے ۔ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کوکتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے تو کسی نے ان سے کہا : ''برنیابی ''یعنی تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے ۔ امام اجل فخر الاسلام عرف قاضی خان رحمۃُ اللہِ علیہ فرمایا کرتے تھے کہ کتابوں پر دوات وغیرہ رکھتے وقت اگر تحقیر علم کی نیت نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے مگر اولیٰ یہ ہے کہ اس سے بچا جائے ۔

(راہ علم)


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

بے شک کتابیں علم کا آلہ ہیں تو طالب علم کو چاہئے کہ وہ کتابوں کو اٹھانے، پڑھنے اور رکھنے وغیرہ میں کتابوں کے ادب کو ملحوظِ خاطر رکھے، جبھی ان کتابوں سے روحانیت، علم اور تقوی و پرہیزگاری کا فیضان نصیب ہوگا، کیوں کہ جب تک علم کے آلات کا ادب نہ کیا جائے تو ان سے روحانی اور ابدی فیض حاصل نہ ہوگا، جیسے استاد صاحب کا حددرجہ ادب نہ کیا جائے تو طالب علم کو کامل علم کا نور نصیب نہیں ہو سکتا، اسی طرح کتابوں کا ادب بھی درجہ بدرجہ لازم و ضروری ہے، تو طالب علم کتاب کے ساتھ حسنِ ادب سے پیش آئے اور کتاب سے حسنِ استفادہ کرنے کے لئے آداب کا خاص خیال رکھے۔

1۔ کتاب کی تعظیم میں علم کی تعظیم ہے، طالب علم کو چاہئے کہ وہ جب بھی کتاب کو لے تو طہارت یعنی پاکیزگی کے ساتھ لے۔(الی طالب العلم، صفحہ140، مطبوعہ دارابنِ کثیر بیروت)

2۔ کتاب کو کھولتے وقت کتاب کی سلامتی کا خیال رکھے، اس کو تلف ہونے پر پیش نہ کرے اور کتاب کو فضول کھولے بھی نہیں تاکہ اس کی جِلد پھٹ نہ جائے۔(من ادب المحدثین فی التربیۃ والتعلیم، صفحہ 232، مطبوعہ دار البحوث للدار استاد الاسلامیہ واحیا التراث)

3۔ اور کتاب کو قدموں کی جگہ پر یا قدموں کی طرف نہ رکھے اور کتاب کو زمین پر بھی رکھنے سے ڈرے، بلکہ اس کو کرسی یا لکڑی کے بنے تختے پر رکھے تاکہ نہ اس کی طرف سے جلدی بوسیدگی آئے اور نہ ہی رطوبت کے عمل سے تلف یعنی ضائع ہو۔

(الی طالب العلم، صفحہ 141، دار ابنِ کثیر بیروت)

4۔ اور کتاب کو کھلا چھوڑ یا اُلٹا رکھ کر نہ چلا جائے کہ وہ زیادہ دیر رکھنے سے، اس کو پھاڑنے اور انساخ پر پیش کرنا ہے۔(الی طالب العلم، صفحہ 141، دار ابن کثیر بیروت)

5۔ اور کتاب کو الماری میں بھی ادب کی رعایت کرے اور کتابوں کی الماری میں ترتیب ان کے علوم، شرف، مصنف اور ان کتابوں کی جلالت کے اعتبار سے رکھے۔(آدابِ طالب العلم ویلیہ، ترجمہ الامام عاصم و رابیہ، مکتبہ اتقان للتحقیق والدراسات العلمیہ، صفحہ 28)

6۔ اورنہ کتاب کو تکیہ بنائے اور نہ پنکھا اور نہ مارنے کا آلہ ا ورنہ کھٹمل مارنے کا آلہ بنائے، وغیرہ۔

(الی طالب العلم، صفحہ 141)


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

حضرت حسن بصری رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ”جو بے ادب ہو ، وہ علم سے فائدہ اٹھا نہیں سکتا“ ۔ لہذا علم چاہے دینی ہو کہ دنیوی، مکمل فائدہ تب ہی حاصل ہوگا جب علم حاصل کرنے کا ذریعہ بننے والی ہر شہ کا ادب کیا جائے ۔ خصوصاً کتابوں کا خواہ جس بھی علم کے متعلق ہوں۔

اگر کتب ایک دوسرے کے اوپر رکھنی پڑیں تو ترتیب کچھ یوں ہو کہ سب سے اوپر قرآن مجید پھر تفاسیر ، پھر کتبِ حدیث، پھر فقہ اورپھر دیگر کتب۔ قرآن مجید کا ادب تو اس قدر ضروری ہے کہ بے وضو کو قرآن مجید یا اس کی کسی آیت کو چھونا حرام ہے۔

(بہارِ شریعت ،ج ٢ ، ص ٣٢٦)

اسی طرح دیگر کتب خواہ دینی یا دنیوی علوم سے متعلق ہوں بے وضو نہ چھوئیں جائیں کہ شیخ امام حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کرنے کے سبب حاصل کیا وہ اس طرح کے میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا ۔

(تعلیم المتعلم طریق التعلم ،ص ٥٢)

اسی طرح ایک مرتبہ شیخ شمس الائمہ امام سرخسی رحمۃُ اللہِ علیہ کا پیٹ خراب ہوگیا ۔ آپ کی عادت تھی کہ رات کتابوں کی تکرار اور و مباحثہ کیا کرتے تھے ۔ایک رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو ١٧ بار وضو کرنا پڑا کیونکہ آپ بغیر وضو تکرار نہیں کیا کرتے تھے۔

(تعلیم المتعلم طریق التعلم ،ص ٥٢)

اللہ اكبر ! ایک رات میں ١٧ بار وضو اور ایک ہم ہیں کہ اگر وضو ٹوٹ جائے تو جب تک لازمِ وضوعمل درپیش نہ ہو تو وضو کرتے ہی نہیں ۔ اللہ پاک ہمیں اسے سمجھنے اور باادب بننے کی توفیق عطا فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

اے عاشقانِ علم و علماء ! بزرگانِ دین فرماتے ہیں ”باادب بانصیب“ اس مقولے کو ہر وقت ذہن میں رکھا جائے اور ہر کتاب کا احترام کیا جائے یہاں تک کہ بلا ضرورت کتب پر کوئی غیر ضروری شہ بھی نہ رکھی جائے اور نہ ہی انھیں زمین پر رکھا جائے بلکہ اونچی جگہ رکھا جائے اور علما فرماتے ہیں کہ کتاب کے اداب میں سے ہے کہ جب پڑھنے کے لئے سامنے رکھی جائے تو ناف سے اوپر رکھی جائے ۔ نہ صرف کتب کا بلکہ سادہ کاغذ بھی ہوتو اسکا بھی ادب کیا جائے کہ یہ بھی قرآن و حدیث اور اسلامی باتیں لکھنے کے کام آتا ہے کہ

حضرت سیدنا شیخ احمد سرھندی المعروف مجدّدالف ثانی رحمۃُ اللہِ علیہ سادہ کاغذ کا بھی احترام فرماتے تھے چنانچہ ایک روز اپنے بچھونے پر تشریف فرما تھے کہ یکا یک بے قرار ہو کر نیچے اتر آئے اور فرمانے لگے ، معلوم ہوتا ہے ، اس بچھونے کے نیچے کوئی کاغذ ہے۔

(زبدة المقامات، ص ١٩٢)

اللہ پاک ہمیں اسلاف کے نقشِ قدم پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم 


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

علم اور ادب کا بہت بڑا ساتھ ہے، یوں سمجھئے کہ جہاں ادب نہیں وہاں علم کا کوئی فائدہ نہیں،  کوئی بھی طالبِ علم نہ تو اس وقت تک علم حاصل کرسکتا ہے اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ ان ذرائع کا ادب نہ کرے جن کے ذریعے علم کے حصول میں مدد ملتی ہے اُنھیں ذرائع میں سے ایک ذریعہ کتاب بھی ہے ۔

پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ تَعَلِّمُوا العِلْمَ وَ تَعَلَّمُوْا لِلْعِلْمِ السَّكِيْنَةَ علم سیکھو اور علم کے لیے ادب و احترام سیکھو ۔ ( والدین، زوجین اور اساتذہ کے حقوق، صفحہ 95، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

بظاہر تو ہو سکتا ہے کہ اس کو کالے حروف سمجھ میں بھی آ جائیں، وہ ان کو یاد بھی کر لے اور امتحان میں کامیاب بھی ہو جائے، لیکن جو علم کی نورانیت و روحانیت ہے وہ اس کو کبھی نہ پا سکے گا آپ ہمارے بزرگانِ دین کو ہی دیکھ لیجیے کہ بظاہر تو قرآن و حدیث میں یوں مسائل مذکور نہیں ہیں جس طرح آج ہماری کتابوں میں موجود ہیں اور ہمیں سکھائے جاتے ہیں یہ کیا ہے؟ یہ اُن كا ادب ہی ہے کہ اُن نُفُوسِ قُدسیہ میں اپنی کتابوں کا ادب ہی اس قدر تھا کہ کتاب ان کو خود بتاتی تھی کہ بھئ! میرے اندر یہ بات بھی چُھپی ہوئی ہے ۔ جس نے بھی کہا ہے بے مثال کہا ہے. "مَا وَصَلَ مَنْ وَصَلَ اِلَّا بِالْحُرْمَةِ وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرْكِ الْحُرمَةِ یعنی جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کے سبب ہی پایا اور جس نے جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا ۔

( راہِ علم، صفحہ 29، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

کتابوں کا ادب کس طرح کیا جائے:

1) کتابوں کو اونچی جگہ رکھا جائے۔

2) کبھی بھی کوئی کتاب لیٹ کر یا ٹیک لگا کر نہ پڑھی جائے ۔

3) بغیر وضو کے کتاب کو نہ پڑھا جائے۔

4) کتابوں کی طرف پاؤں نہ پھیلائے جائیں۔

کتابوں کے ادب کے چند واقعات:

1) شمسُ الائمہ حضرت سیدنا امام سرخسی رحمۃ اللّٰه علیہ کا واقعہ ہے کہ ایک مرتبہ آپ کا پیٹ خراب ہو گیا ، آپ کی عادت تھی کہ رات کے وقت کتابوں کی تکرار اور بحث و مُباحثہ کیا کرتے تھے پس اُس رات پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے آپ کو 17 بار وضو کرنا پڑا کیونکہ آپ  بغیر وضو تکرار نہیں کیا کرتے تھے ۔ ( راہِ علم، صفحہ 33، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

2) حافظِ ملّت شاہ عبد العزیز مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ جب کسی طالبِ علم کو دیکھتے کہ کتاب ہاتھ میں لٹکا کر چل رہا ہے تو فرماتے: " کتاب جب سینے سے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی اور جب کتاب کو سینے سے دور رکھا جائے گا تو کتاب بھی سینے سے دور ہو گی ۔

( شانِ حافظِ ملّت رحمۃُ اللہِ علیہ ، صفحہ 6، مطبوعہ مکتبۃ المدینہ)

دین سراپاسوختن اندر طلب

انتہایش عشق و آغازش ادب

طلبِ محبوب میں تڑپنے کا نام دین ہے، ادب سے شروع ہوتا ہے عشق پہ ختم ہو جاتا ہے۔ 

کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

کیا کتابوں کا ادب ضروری ہے  :

علم حاصل کرنے کے ذرائع میں سے ایک ذریعہ کتابیں بھی ہیں جس طرح teacher اور علم کا ادب ضروری ہے اسی طرح جن کتابوں کے ذریعہ علم حاصل کیا جاتا ہے انکا ادب بھی ضروری ہے ۔ بعض اوقات ادب سے وہ مقام بہت جلد مل جاتا ہے جو دوسری کسی چیز سے اتنی جلدی نہیں ملتا ۔

اب المیہ یہ ہے کہ دنیاوی کتابوں کا ادب تو دور کی بات مقدس کتابوں تک کا ادب نہیں رھا ۔ اب دور حاضر میں یہ بات بھی دیکھنے ،سننے کو ملی ہے کہ مقدس کتابیں حتی کہ افضل ترین کتاب قرآن پاک اگر پڑھنے کے قابل نہیں رہتا تو انہین ایسی جگہوں کی نظر کردیا جاتا ہے جہاں ادب کا الف تک نہیں ہوتا۔

آئیے دیکھتے ہیں کہ مقدس تحریرات کے حوالے سے ہمارے بزرگان دین کتنے حساس ہوا کرتے تھے ۔ملاحظہ فرمائیں ۔

1 ۔شرابی کی بخشش کا راز :

نزہۃ المجالس کتاب کے ایک طویل واقعے کا کچھ اسطرح کا مضمون ہےکہ ۔

ایک شخص نے اپنے شرابی بھائی کو بعد وفات خواب میں دیکھا کہ وہ جنت میں ہے اس نے اپنے مرحوم بھائی سے پوچھا کہ تجھے جنت کیسے نصیب ہوگئی حالانکہ تو تو شرابی تھا ، مرحوم بھائی نے جواب دیا کہ ایک مرتبہ میں شراب پینے کی وجہ سے آپ سے مار کھا کر جا رہا تھا راستے میں ایک کاغذ کا ٹکڑا دیکھا جس پر ” بسم اللہ الرحمن الرحیم “لکھا تھا ، میں اسے اٹھا کر نگل گیا تھا جب قبر میں پہنچا تو منکر نکیر کے سوالات پر میں نے عرض کی کیا آپ مجھ سے سوالات فرما رہے ہیں حالانکہ میرے پرور دگار کا نام میرے پیٹ میں ہے ، ایک منادی نے نداء دی : صدق عبدی قد عفرت لہ یعنی میرا بندہ سچ کہتا ہے بے شک میں نے اسے بخش دیا ۔ (نزہۃ المجالس ، جلد 1 ، ص 41 )

( مقدس تحریرات کے بارے میں سوال جواب )

2 ۔حافظ ملت کا ادب قرآن :

ایک مرتبہ چھٹی کے بعد کئی طلبہ دار العلوم اہلسنت اشرفیہ کی سیڑھیوں کے پاس حافظ ملت رحمۃُ اللہِ علیہ کی زیارت و ملاقات کے لئے منتظر کھڑے تھے آپ تشریف لائے تو سب طلبہ پاس ادب ( ادب کا خیال ) رکھتے ہوئے آپکے پیچھے پیچھے چل پڑے ۔اچانک آپ رحمۃُ اللہِ علیہ نے ایک طالب علم سے فرمایا آپ آگے آگے چلیں یہ سن کر وہ طالب علم جھجکے تو فرمایا : آپکے پاس قرآن شریف ہے اس لئے آگے چلنے کا کہ رہا ہوں ۔ (حیات حافظ ملت ، ص 66)

3 ۔توبہ کی توفیق ملنے کا راز :

حضرت سیدنا منصور بن عمار رحمۃُ اللہِ علیہکی توبہ کا سبب یہ ہوا کہ ایک مرتبہ انکو راہ میں کاغذ کا پرزہ ملا جس پر ”بسم اللہ الرحمن الرحیم “ لکھا تھا انہوں نے ادب سے رکھنے کی کوئی مناسب جگہ نا پائی تو اسے نگل لیا رات خواب دیکھا کوئی کہ رہا ہے کہ اس مقدس کاغذ کے احترام کی برکت سے اللہ رب العزت جل جلالہ نے تجھ پر حکمت کے دروازے کھول دیئے ۔

( الرسالۃ القشیریہ ،ص 48 ، مقدس تحریرات کے بارے میں سوال جواب )

ماہنامہ فیضان مدینہ کے محترم قارئین کرام دیکھا آپ نے ہمارے بزرگان دین کا ادب کتاب، وہ کتابوں کا ادب تو کرتے ہی تھے لیکن کتاب کے ہر ہر جزء کا ادب کرتے تھے اور ایک ہمارا ادب ہے الامان و الحفیظ ۔۔ ایک مشہور محوارہ جو موضوع اعتبار سے بہترین سمجھ آتا ہے کہ ” با ادب با نصیب بے ادب بے نصیب “ ۔ 


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

دین اسلام میں ادب کو بہت زیادہ مقام و مرتبہ حاصل ہے۔قرآن و حدیث میں جا بجا طور پر ادب کی تاکید و اہمیت بیان کی گئی ہے۔علم کے حصول کی پہلی سیڑھی ادب ہے ۔ ادب کی برکت سے بہت سے کند ذہن لوگوں نے وہ علمی مقام و مرتبہ حاصل کیا کہ بڑے بڑے عقلاء بھی حیران رہ گئے۔ ایک طالب علم پر جن چیزوں کا ادب ضروری ہے ان میں کتاب کا ادب بھی شامل ہے۔امت مسلمہ میں کتاب کے ادب کے حوالے سے بےشمار واقعات موجود ہیں ۔ذوق طبع کیلئے چند واقعات ذیل میں مذکور ہیں:  

1: شمس الائمه حلوانی رحمۃُ اللہِ علیہ سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمۃ اللّٰہ علیہ نے فرمایا:"میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کے سبب حاصل کیا وُہ اس طرح کہ میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔"(راہ علم صفحہ 33)

2:حافظ ملت مولانا شاہ عبدالعزیز محدث مرادآبادی رحمۃ اللّٰہ تعالیٰ علیہ قیام گاہ پر ہوتے یا درس گاہ میں،کبھی کوئی کتاب لیٹ کر یا ٹیک لگا کر نہ پڑھتے نہ پڑھاتے،قیام گاہ سے مدرسے یا مدرسے سے قیام گاہ کوئی کتب لے جانی ہوتی تو داہنے ہاتھ میں لے کر سینے سے لگا لیتے ۔ آپ علیہ الرحمۃ کا ارشاد ہے : کتاب جب سینے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی اور جب کتاب کو سینے سے دور رکھا جائے گا تو کتاب بھی سینے سے دور ہوگی۔ (فیضان حافظ ملت ، صفحہ 6 بتغیر)

3: امیر اہل سنت دامت برکاتہم العالیہ کی دینی کتب سے محبت اور ان کے ادب کا اندازہ اس بات سے لگائیے کہ ایک مرتبہ کا واقعہ ہے کہ کسی نے دوران گفتگو حدیث مبارکہ کی کتاب "مشکوۃ شریف" کو اس طرح اوپر سے میز پر رکھا کہ اچھی خاصی "دهمک" پیدا ہوئی۔ آپ فرماتے ہیں مجھے اس بات کا اس قدر صدمہ ہوا کہ کافی عرصہ گزر جانے کے باوجود جب بھی وہ واقعہ یاد آتا ہے تو اس "دھمک" کا صدمہ محسوس ہوتا ہے۔ (شوق علم دین صفحہ 35 بتغیر )

معزز قارئین! علم کے حصول میں ادب کا بہت بڑا کردار ہے ادب کی اہمیت کے متعلق امام زرنوجی رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:طالب علم اس وقت تک نہ تو علم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے جب تک کہ وہ علم، اہل علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو۔ "جس نے جو کچھ پایا ادب و احترام کرنے کے سبب ہی پایا اور جو کچھ کھویا وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا"۔(راہ علم صفحہ 29)

کتاب کے چند آداب یہ بھی ہیں:کتاب کو باوضو ہی چھونا چاہیے۔ کتاب کی طرف پاؤں پھیلانا ، ٹیک لگانا کتاب کو پیٹھ کرنا ، پاؤں کے پاس یا زمین پر رکھنا اس پر سر رکھ کر سونا ان سب باتوں سے بچا جائے۔کتاب کو لاپرواہی کے ساتھ اِدھر اُدھر رکھنے کے بجائے ادب کے ساتھ کسی ادب والی جگہ پر رکھا جائے۔یونہی بلا ضرورت کتاب پر قلم دوات وغیرہ کچھ بھی نہ رکھا جائے۔

اللہ تعالیٰ سے دعا ہے کہ ہمیں با ادب بنائے اور بے ادبوں کے سائے سے محفوظ فرمائے ۔ اٰمِیْن بِجَاہِ النّبیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم

علم پڑھیا تے ادب نہ سکھیا

کی لینا علم نوں پڑھ کے ھو 


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

علم ایک  نور ہے یہ نور جہاں صحرائے ظلمات کی تاریکیاں کافور کرتا ہے وہیں تہذیب و تمدن کا جوہر بھی عطا کرتا ہے۔ علم ادب سکھاتا ہے باہمی روابط کے گر سے آشنا کرتا ہے ،خالق کی معرفت و مخلوق کی خدمت کے جذبہ ٔ جاویداں سے فکر انسانی کو سرشار رکھتا ہے ۔

اب ہمیں دیکھنا یہ ہے کہ حصول علم کے ذرائع کیا کیا ہوسکتے ہیں ?

گذشتہ ادوار ہوں یا عہدِ رواں ذرائع مختلف ہوتے رہتے ہیں، طلبہ کے مزاج تنوع پذیر ہوتے رہتے ہیں لیکن ایک ایسا عظیم المرتبت ذریعہ آج بھی جوں کا توں باقی ہے جیسا زمانہ ماضی میں تھا ۔

وہ ذریعہ ہے "کتاب" بے شک مقتضائے حالات کے ساتھ ساتھ دیگر ذرائع بدلے اور بدلنے بھی چاہیے لیکن ایک کتاب ہی وہ واحد و یگانہ ذریعہ ہے جو گردش ایام کے ساتھ تبدیل نہیں ہوا بلکہ اس کی مقدار میں مزید اضافہ ہوا ۔

یہاں سے اس کی اہمیت و افادیت اجاگر ہوتی ہے کہ دیگر وسائل تغیر پذیر ہوئے لیکن یہ نہیں بدلا تو یقینا یہ ایک اہم ذریعہ ہے ہمیں چاہیے کہ اس کا ادب کریں اس کی قدر کو پہچانیں ،اس کا بھی ایک حق ہے اس حق کی ادائیگی میں بالکل کوتاہی نہ برتیں ۔ہمارے اسلاف نے اس گوشہ کو بہت ہی حساسیت سے لیا اتنی احتیاط برتی کہ پڑھ سن کر ہی قوت فکر تاباں ہوجائے ۔

مکمل کتاب کا ادب تو ایک امر عظیم ہے ہمارا دین تو ہمیں حروف تہجی کے آداب سے بھی آشنا کرتا ہے کہ جہاں الف ، با وغیرہ مرقوم ہوں اس جگہ کی قدر کرو راہ چلتے کہیں بوسیدہ ورق مل جائے معطر کرکے پلکوں پہ رکھ لو پھر اگر یہ وسوسہ لاحق ہو کہ اس طرح کے ادب کا صلہ کیا ملے گا تو حضرت بشر حافی رضی اللہ تعالی عنہ کی زندگی کا مطالعہ کرلو آپ کا شمار اولیائے کبار میں ہوتا ہے آپ کی ولایت کا سبب ادب ِ تسمیہ شریف ہے ۔

آپ کی توبہ کا واقعہ کچھ یوں ہے کہ آپ بالکل عنفوان شباب پر ہیں میخانے کا رخ کیے ہوئے تشریف لیے جارہے ہیں راستے میں ایک بوسیدہ کاغذ پر ”بسم اللہ الرحمن الرحیم “ مسطور پایا جذباتی ہوگئے کہ میرے رب کا نام اس حالت میں! بلا تاخیر اس پرچہ کو وہاں سے اٹھایا میخانے کا عزم منسوخ کیا گھر تشریف لائے عطرسے معطر کیا گھر کی محفوظ و بلند جگہ پر رکھا ، دوسرے ہی دن حضرت ذو النون مصری رضی اللہ تعالی عنہ پیغام ولایت لے کر پہنچ گئے اور گویا یوں ہوئے کہ اے مرد قلندر ! تمہارے ادب نے اپنا رنگ دکھا دیا آج تم ایک عام انسان نہیں رہے محبوبان خدا کی صف میں شامل ہوچکے ہو ۔

مدعا یہ کہ آپ نے تسمیہ شریف کا احترام کیا تو ولایت نصیب ہوگئی ہم بھی اگر اپنے تٔیں ان کی روش پہ چلیں توبادشاہت نہیں کم از کم ان کی رقیت تو نصیب ہوہی جائے گی ۔ ان شا اللہ تعالٰی عزوجل

اسی طرح بیان کیا جاتا ہے کہ جب امام احمد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ دوسری بار حج کے لیے بیت اللہ شریف و مدینہ المنورہ تشریف لے گئے تو آپ کے شہزادے حضرت علامہ مولانا حامد رضا رحمۃُ اللہِ علیہ بھی آپ کے ساتھ تھے آپ کو وہاں کتابوں کی ضرورت پڑ تی تھی اس لیے کبھی کبھار حرم کی لائبریری میں تشریف لے جاتے لائبریری میں ایک دن بعد عصر مفتی حرم تصنیفی کام انجام دے رہے ہیں اعلی حضرت رحمۃُ اللہِ علیہ اور آپ کے شہزادے چند حوالہ جات کی تصحیح کے لیے وہاں تشریف لے جاتے ہیں مجدد اعظم تو سیدھا لائبریری میں داخل ہوجاتے ہیں مگر آپ انہیں مفتی صاحب کے پاس تشریف لے گئے جو مفتی حرم تھے قریب گئے تو دیکھا کہ مفتی حرم اپنے کام میں مشغول ہیں اور نسیان سے سیاہی کی دوات کتاب پر رکھی ہوئی ہے آپ نے دھیرے سے اس دوات کو وہاں سے ہٹایا اور اپنی انگلی مبارک کو وہاں رکھ دیا تاکہ ہوا کی وجہ سے کتاب کے اوراق منتشر نہ ہونے پائیں جب مفتی صاحب قبلہ نے اس چیز کو محسوس کیا تو آپ کی طرف متوجہ ہوئے اور فرمایا کہ آپ نے ایسا کیوں کیا آپ نے فرمایا : فقہ کی کتابوں میں اس کو خلاف اولی لکھا ہے انہوں نے کہا میں مفتی ہوں میں نے کبھی نہیں پڑھا تم جوان بچے ہو کہاں سے پڑھ لیا آپ نے فرمایا اسی کتاب سے جس کی مدد سے آپ کچھ تحریر فرمارہے ہیں وہ کتاب فتح القدیر تھی مفتی صاحب نے تعجب خیز نگاہوں سے دیکھا کہ دکھاو کہاں ہے آپ نے فوراً کتاب کو لیا اور ایک جزٔیہ کی روشنی میں یہ ثابت کردیا کہ یہ امر خلاف اولی ہے تب مفتی صاحب کو یہ سمجھ آگیا کہ واقعی یہ امر خلاف اولی ہے حالانکہ وہ بھی اس نوعیت کے ادب کے قائل تھے ۔

اب ہمیں خوب اچھے طور سے پتہ چل گیا کہ دینی کتابوں کا نیز دیگر دینی ذخائر کا کس قدر ادب ہونا چاہیے ، کتاب کا ادب یقینا علم کا فیضان نصیب کرتا ہے لہذا ہمیں چاہیے کہ کتابوں کا خاص طور سے ادب کریں اور علمی فیضان سے اپنے آپ کو منور کریں ۔ 


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

ادب انسان کو دنیا وآخرت میں کامیابی اوربارگاہِ الٰہی میں سرخروئی اور بلندمقام تک پہنچاتا ہے ۔ ادب ہی انسان کوممتاز بناتا ہے۔علم بہت سے طریقوں سے حاصل کیاجاسکتا ہے،ان میں ایک طریقہ مطالعۂ کتب بھی ہے۔کتاب کامطالعہ کرنے والا مصنف کی صحبت میں ہوتا ہے۔کتاب کاادب کرنے والامصنف کاادب کرنے والا ہوتا ہے،ان سے فیض پائے گا۔کتاب کے آداب میں سے چند یہ ہیں:

1:باوضو مطالعہ :

شمس الدین امام سرخسی رحمۃُ اللہِ علیہ ہمیشہ باوضو کتب کا تکرار کرتے تھے۔ایک مرتبہ پیٹ خراب ہونے کی وجہ سے 17بار وضو کرناپڑا لیکن بغیر تکرار نہ کیا ۔ ( راہِ علم،(تعلیم المتعلم طریق التعلم)،(ّبتغیر) صفحہ 33،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ،کراچی)

2:بغیر ٹیک لگائے پڑھنا :

حافظ ملت مولاناعبدالعزیز محدث مراد آبادی رحمۃُ اللہِ علیہ قیام گاہ میں ہوتے یادرس گاہ میں کبھی کوئی کتاب لیٹ کر یا ٹیک لگاکر نہ پڑھتے بلکہ تکیہ یاڈیسک پر رکھ لیتے۔ (شان حافظِ ملت،صفحہ 6،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی )

3: چلنے میں کتاب کاادب :

آپ رحمۃُ اللہِ علیہ قیام گاہ سے مدرسہ یامدرسے سے قیام گاہ کبھی کوئی کتاب لے جانی ہوتی توداہنے ہاتھ میں کے کرسینے سے لگا لیتے کسی طالب علم کودیکھتے کہ کتاب ہاتھ میں لٹکا کرچل رہا ہے تو فرماتے : "کتاب جب سینے سے لگائی جائے گی تو سینے میں اترے گی اور جب کتاب کوسینے سے دور رکھاجائے گاتو کتاب بھی سینے سے دور ہوگی۔" (ایضاً)

4:کتاب پر کوئی چیز نہ رکھی جائے:

محدثِ اعظم پاکستان مولانا سرداراحمد قادری رحمۃُ اللہِ علیہ کے شاگرد نے ایک مرتبہ بخاری شریف پرگلاب رکھا تو آپ نے فرمایا: ’’پھول اگرچہ بڑی نازک چیز ہے،بہرحال بخاری شریف سے افضل نہیں‘‘۔(فیضان محدث اعظم پاکستان،صفحہ 20،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

5:قبلہ رو مطالعہ:

دو طالب علم تعلیم کے لیے گئے،دونوں ایک درجہ میں تھے،جب علم کی تکمیل کی توایک فقیہ بن چکے تھے اور دوسرا کورے کا کوراتھا۔دونوں کے اندازِ مطالعہ اوررہن سہن کے بارے میں تحقیق کی گئی توپتہ چلاکہ جوفقیہ بن کرلوٹے وہ قبلہ رو بیٹھا کرتے۔جبکہ جو کورے کا کورا لوٹے وہ قبلہ کوپیٹھ کرکے بیٹھا کرتے تھے۔ (راہِ علم،(بتغیر)صفحہ 83،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

6: حفظِ مراتب :

کتابوں کواوپر نیچے رکھنا ہوتو ترتیب کچھ یوں ہونی چاہیے،سب سے اوپر قرآن حکیم،اس کے نیچے تفاسیر،پھر کتبِ حدیث،پھر کتبِ فقہ،پھر دیگر کتبِ صرف ونحو وغیرہ۔ (نماز کے احکام،صفحہ124،مطبوعہ مکتبۃ المدینہ کراچی)

کتابوں کاادب بہت ضروری ہے،ہمارے اسلاف کتابوں کابہت زیادہ ادب کیاکرتے تھے۔یہاں تک کہ سادہ کاغذ کابھی ادب کیاکرتے تھے؛کیونکہ اس پرقرآن وحدیث اوردیگر اسلامی باتیں بھی لکھی جاتی ہیں۔

اللہ عزّوجلّ سے دعا ہے کہ ہمیں کتابوں کاادب کرنے کی توفیق عطا فرمائے۔اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


کتابوں کا ادب

Fri, 30 Apr , 2021
3 years ago

طالب علم اس وقت تک نہ تو علم حاصل کر سکتا ہے اور نہ ہی اس سے نفع اٹھا سکتا ہے، جب تک کہ وہ علم اہلِ علم اور اپنے استاد کی تعظیم و توقیر نہ کرتا ہو، کسی نے کہا ہے کہ"ما وَصَل مَنْ وَصَلَ اِلَّا بِالْحُرْمَۃِ وَمَا سَقَطَ مَنْ سَقَطَ اِلَّا بِتَرْکِ الحُرْمَۃِ۔ یعنی"جس نے جو کچھ پایا، ادب و احترام کرنے کے سبب ہی پایا اور جس نے جو کچھ کھویا، وہ ادب و احترام نہ کرنے کے سبب ہی کھویا۔"

کہا جاتا ہے: اَلْحُرْمَۃُ خَیْرُ مِنَ الطَّاعَۃِ۔ کہ ادب و احترام کرنا، اطاعت کرنے سے زیادہ بہتر ہے۔ آپ دیکھ لیجئے، انسان گناہ کرنے کی وجہ سے کافر نہیں ہوتا، بلکہ اسے ہلکا سمجھنے کی وجہ سے کافر ہو جاتا ہے۔

تعظیمِ علم، اہل علم و اساتذہ کے ساتھ ساتھ کتابوں کا ادب و احترام کرنا بھی بہت ضروری ہے، تعظیمِ علم میں کتابوں کا ادب کرنا بھی شامل ہے، لہذا طالب علم کو چاہئے کہ کبھی بھی بغیر طہارت کے کتاب کو ہاتھ نہ لگائے۔

حضرت سیّدنا شمس الائمہ حلوانی قدس سرہ النورانی سے حکایت نقل کی جاتی ہے کہ آپ رحمۃ اللہ علیہ نے فرمایا:"میں نے علم کے خزانوں کو تعظیم و تکریم کے سبب حاصل کیا، وہ اس طرح کے میں نے کبھی بھی بغیر وضو کاغذ کو ہاتھ نہیں لگایا۔"

طالب علم کے لئے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ کتابوں کی طرف پاؤں نہ کرے، کتبِ تفاسیر کو تعظیماً تمام کتب کے اوپر رکھے اور کتاب کے اوپر کوئی دوسری چیز ہرگز نہ رکھی جائے۔

ہمارے استادِ محترم شیخ الاسلام حضرت سیّدنا امام برہان الدّین علیہ رحمۃ الرحمن اپنے مشائخ میں سے کسی بزرگ رحمۃ اللہ علیہ سے حکایت بیان کرتے تھے کہ ایک فقیہ کی عادت تھی کہ دوات کو کتاب کے اوپر ہی رکھ دیا کرتے تھے تو شیخ نے ان سے فارسی میں فرمایا"ہرنیابی" یعنی تم اپنے علم سے فائدہ نہیں اٹھا سکتے۔

ہمارے استادِ محترم امامِ اجل فخر الاسلام حضرت سیّدنا قاضی خان علیہ رحمۃ الرحمن فرمایاکرتے تھے:"کتابوں پر دوات وغیرہ رکھتے وقت اگر تحقیرِ علم کی نیت نہ ہو تو ایسا کرنا جائز ہے، مگر اولٰی یہ ہے کہ اس سے بچا جائے۔