اللہ پاک قراٰنِ پاک میں ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)یہاں رکوع سے مراد نماز ہے یعنی نماز پڑھنے والوں کے ساتھ باجماعت نماز پڑھو!(تفسیر روح المعانی،البقرہ،تحت الآیۃ:43، 1/334، بتقدم وتاخر دار احیاء التراث العربی بیروت)

اس آیت میں باجماعت نماز ادا کرنے کی ترغیب بھی ہے اور احادیثِ مبارکہ میں با جماعت نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں، 5 فضائل پیش کئے جاتے ہیں:

(1) صحابی ابنِ صحابی حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

(2) امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب (یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309 ،حدیث:5112)

(3) حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن اُمِّ مَکْتوم رضی اللہ عنہ ے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ مدینۂ منورَہ میں موذی جانور بکثرت ہیں اور میں نابینا ہوں تو کیا مجھے رُخصت ہے کہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں ؟ فرمایا: ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح‘‘ سنتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں ! فرمایا: ’’تو (باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے) حاضر ہو۔ (نَسائی، ص148،حدیث:848)

(4)حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مدینے کے تاجدار، نبیوں کے سردارصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشادِخوشبودار ہے: جس نے کامل وضو کیا، پھر نمازِ فرض کے لیے چلا اور جماعت کے ساتھ نماز پڑھی تواس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (صحیح ابن خزیمہ،کتاب الامامۃ فی الصلاۃ،باب فضل المشی الی الجماعۃ متوضیاً۔۔۔ الخ،2/373، حدیث: 1489)

(5)حضرت سیدنا عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،سرکارِمدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمانِ رَحمت نشان ہے:جس نےباجماعت عِشاکی نمازپڑھی گویا آدھی رات قِیام کیا،اورجس نے فجر کی نمازِ باجماعت پڑھی گویا پوری رات قِیام کیا۔ (مسلم،ص258، حدیث: 1491)حضرتِ مفتی احمد یارخان رحمۃ اللہ علیہ اِس حدیثِ پاک کے تحت لکھتے ہیں:اِس کے دو مطلب ہوسکتے ہیں: ایک یہ کہ عِشاکی باجماعت نماز کا ثواب آدھی رات کی عبادت کے برابرہے اور فجر کی باجماعت نماز کا ثَواب باقی آدھی رات کی عبادت کے برابر،تو جو یہ دونوں نمازیں جماعت سے پڑھ لے اُسے ساری رات عِبَادت کا ثواب۔دوسرے یہ کہ عِشا کی جماعت کا ثَواب آدھی رات کے برابر ہے اور فجر کی جماعَت کا ثواب ساری رات کی عبادت کے برابر،کیونکہ یہ (یعنی فجر کی )جماعَت عِشا کی جماعت سے (نفس پر)زیادہ بھاری ہے،پہلے معنیٰ زیادہ قوی(یعنی مضبوط)ہیں۔ جماعَت سے مرادتکبیرِاُولیٰ پاناہے جیسا کہ بَعض علمانے فرمایا۔ (مراٰۃ المناجیح،1/396)


وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)اس آیتِ مبارکہ میں نماز و زکوٰة ادا کرنے کے ساتھ باجماعت نماز پڑھنے کا حکم ارشاد ہوا ہے۔ باجماعت نماز کا ایک فائدہ یہ ہے کہ گنہگار بندے جب جماعت میں شامل ہو کر عبادت کرتے ہیں تو جماعت میں موجود اللہ پاک کے محبوب بندوں کے صدقے انکی عبادت بھی قبول ہو جاتی ہے۔ باجماعت نماز کے فقہی حکم کے متعلق صدر الشریعہ مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ : عاقِل، بالغ، حر(آزاد)، قادر پر جماعت واجب ہے، بلاعذر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار اور مستحقِ سزا ہے اور کئی بار ترک کرے، تو فاسق مردود الشہادۃ اور اس کو سخت سزا دی جائے گی، اگر پڑوسیوں نے سکوت کیا تو وہ بھی گنہگار ہوئے۔ (بہارِ شریعت، 1/582)

باجاعت نماز پڑھنے کے بارے میں کُتُبِ احادیث میں بہت سارے فرامینِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم موجود ہیں، جن میں سے 5 فرامینِ حبیبِ کبریا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش کیے جاتے ہیں ہیں :

(1) سینہ عبادت سے بھرنا : جس نے باجماعت نماز پڑھی بے شک اس نے اپنے سینے کو عبادت سے بھر دیا۔ (صحیح مسلم، کتاب المساجد....الخ، باب فضل صلاة العشاء......الخ، ص329،حديث : 260)

(2) نفاق اور آگ سے آزادی کا پروانہ : حضور نبی پاک صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے 40 دن با جماعت نماز اس طرح پڑھی کہ اس کی تکبیر تحریمہ بھی فوت نہ ہوئی تو اللہ پاک اس کے لئے دو پروانے لکھے گا ایک پروانہ نفاق سے آزادی کا اور دوسرا آگ سے آزادی کا۔ (سنن الترمذی، کتاب الصلاة، باب ماجاء في فضل التكبيرة الاولى،1/274، حديث: 241)

(3) ستائیس درجے افضل : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جماعت کی نماز ، اکیلی نماز پر ستائیس درجے افضل ہے۔ (صحیح البخاری، کتاب الأذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،1/232، حدیث :645)

(4) شیطان کا غالب آنا اور نگاہِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم سے محرومی : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جس بستی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور ان میں نماز کی جماعت نہ کی جائے تو ان پر شیطان غالب آ جا تا ہے ۔ تم پر جماعت لازم ہے بھیڑیا دور والے جانور ہی کو کھا تا ہے۔ (مشکوٰة المصابیح، باب الجماعة و فضلھا، حدیث: 1000 حکیم الامّت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں کہ : جماعت کا تارک جناب مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کی نگاہ کرم سے محروم ہو جاتا ہے۔ (مراةالمناجیح، 2/157)

(5)دو بندوں پر بھی جماعت لازم : رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا کہ دو اور دو سے زیادہ جماعت ہیں۔ (سنن ابن ماجہ ، کتاب إقامۃ الصلوٰت ۔۔۔ إلخ، باب الاثنان جماعۃ،1/517،حدیث :972)

اس حدیثِ پاک سے معلوم ہوتا ہے کہ اگر کسی مقام پر دو شخص بھی ہوں اور نماز کا وقت آ جائے تو ان دونوں پر بھی جماعت لازم ہے اگرچہ یہ حقیقی جماعت نہیں ہے لیکن جماعت کے حکم میں ہے۔ جیسا کہ حکیم الامّت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیثِ پاک کی شرح میں فرماتے ہیں : ”یعنی اگر کہیں دو مسلمان بھی ہوں تو ایک امام بن جائے اور ایک مقتدی، جماعت کا ثواب پائیں گے کیونکہ یہ حکماً جماعت ہے یا یہ مطلب ہے کہ اگر امام کے سوا دو آدمی ہوں تو امام آگے کھڑا ہو کیونکہ یہ جماعت کے حکم میں ہیں بہر حال یہاں جماعت مراد ہے نہ کہ حقیقی۔“ (مراةالمناجیح، 2/163)

بزرگانِ دین نمازِ باجماعت کی بہت زیادہ خیال رکھا کرتے تھے جیسا کہ حضرت سیدنا سعید بن مسیب رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں : 20 سال سے میرا یہ معمول ہے کہ مؤذن کے اذان دینے سے پہلے ہی مسجد میں ہوتا ہوں۔ (مصنف لابن ابي شيبة، كتاب الصلاة، من كان يشهد الصلاة، 1/386،حديث : 4) اور کبھی جماعت چھوٹ جاتی تو بہت افسوس کیا کرتے۔ منقول ہے کہ اسلاف کرام رحمہم اللہ السلام میں سے کسی کی تکبیر اولیٰ فوت ہو جاتی تو تین دن افسوس کرتے اور اگر جماعت فوت ہو جاتی تو سات دن افسوس کرتے۔ (احیاء علوم الدین، کتاب اسرارالصلاۃ ومہماتھا، الباب الاول فی فضائل الصلاۃ والسجود۔۔۔ الخ، 1 / 203)

حضرت سیدنا حاتم اصم رحمۃُ اللہِ علیہ فرماتے ہیں : ایک بار (کسی عذر کے باعث) میں باجماعت نماز کے لیے حاضر نہ ہو سکا تو اکیلے ابو اسحاق بخاری نے مجھ سے تعزیت کی اور اگر میرا بیٹا فوت ہو جا تا تو دس ہزار سے زیادہ لوگ ان تعزیت کرتے کیونکہ لوگوں کے نزدیک دین کی مصیبت دنیا کی مصیبت سے زیادہ آسان ہے۔(احیاء علوم الدین، کتاب اسرارالصلاۃ ومہماتھا، الباب الاول فی فضائل الصلاۃ والسجود۔۔۔ الخ، 1 / 203)

اللہ پاک ہم سب مسلمانوں کو پانچ وقت کی نمازِ باجماعت، تکبیرِ اولٰی کے ساتھ ادا کرنے کی توفیق مرحمت فرمائے۔اٰمین


پیارے پیارے اسلامی بھائیو! اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بے شمار انعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمدللہ نماز بھی ان میں سے ایک عظیم الشّان انعام ہے اور اسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں ہے اللہ پاک کے فضل و کرم سے یہ بھی ہمارے لئے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ آئیے نمازِ باجماعت کی فضیلت پر چند احادیث مبارکہ سنتے ہیں:۔

حدیث نمبر (1) اسلام کے دوسرے خلیفہ حضرت سیدنا فاروق اعظم رضی الله عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دوجہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سُنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو اپنا محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل ،2/ 309 ،حدیث: 5112)

حدیث نمبر (2) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)

حدیث نمبر (3) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے،نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،1/232، حدیث: 645)

حدیث نمبر (4)سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے ظہر کی نمازِ باجماعت پڑھی اس کے لیے اس جیسی پچیس (25) نمازوں کا ثواب اور جنت الفردوس میں 70درجات (Ranks) کی بلندی ہے۔ (شعب الایمان، 7/138،حدیث:9762)

حدیث نمبر (5) حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیوں نمازِ باجماعت کا ذہن پانے اور دوسروں کو اس کی ترغیب دلانے کے لئے دعوت اسلامی کے دینی ماحول سے ہر دم وابستہ رہئے اور بارہ دینی کاموں میں بڑھ چڑھ حصہ لیجیئے ان شاء الله الکریم اس کی برکت سے آپ خود نمازِ باجماعت پڑھنے کے ساتھ ساتھ دوسروں کو بھی نمازِ باجماعت کا پابند بنانے والے بن جائیں گے ۔


اے عاشقان رسول! اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بےشمار انعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمد‌للہ ان میں سےنماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہے اور اسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کےفضل وکرم سےیہ بھی ہمارے لیے بےشمار‌ نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ کریم سورۃ البقرہ آیت 43 میں ارشادفرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس ( یعنی اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نما ز تنہا نماز پرستائیس درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، 1/330)

فرض نماز جماعت سے ادا کرنے میں اللہ پاک اور رسولِ کریم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر عمل ہے۔ چنا نچہ نمازِ باجماعت کے حوالے سے چند فرامینِ مصطفٰی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم درج ذیل ہیں: حضرت سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے عشاء کی نمازِ باجماعت پڑھی گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی ، گویا پوری قیام کیا۔(صحیح مسلم کتاب المساجد ،حدیث: 656)

امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309 ،حدیث:5112)

حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

حضرت سیِّدُنا اَنس رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِرشاد فرماتے ہیں : جو کوئی اللہ پاک کے لیے چالیس دن ’’تکبیر اُولیٰ‘‘ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے اُس کے لیے دو آزادیاں لکھی جائیں گی، ایک نار سے دوسری نفاق سے ۔ (ترمذی،1/274، حديث: 241)

حضرت سیدنا ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ سرکار مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: اگر لوگ جانتے کہ اذان اور صفِ اوّل میں کیا ہے تو پھر بغیر قرعہ ڈالے اسے نہ پاسکتے تو قرعہ ہی ڈالتے۔( صحیح بخاری ،جلد 1 حدیث: 615) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہ علیہ حدیث پاک کے اس حصے ( اگر لوگ جانتے کہ اذان اور صف اول میں کیا ہے ) کے تحت لکھتے ہیں: (یعنی) اگرچہ ہم نے ان دونوں (یعنی پہلی صف اور اذان ) کے فضائل بہت بیان کر دیے لیکن اس کے باوجود کَماحَقُّہٗ (یعنی جیسا کہ ان کا حق ہے ) بیان نہیں ہو سکے، وہ تو دیکھ کر ہی معلوم ہوں گے، پتا لگا کہ فِی سبِیلِ اللہ (بغیر اجرت) اذان و تکبیر کہنا اور نماز کی صفِ اوّل میں خصوصاً امام کے پیچھے کھڑا ہونا بہت بہتر ہے۔ جس کی بزرگی (یعنی فضیلت) بیان نہیں ہوسکتی۔ حدیث پاک کے اس حصے (تو پھر بغیر قرعہ ڈالے اسے نہ پاسکتے تو قرعہ ہی ڈالتے) کے تحت لکھا ہے: یعنی ہر شخص چاہے کہ یہ دونوں کام میں کروں تو ان میں جھگڑا یعنی اختلاف پیدا ہو جس کا فیصلہ قرعہ اندازی (مثلاً نام کی پرچی نکالنے) سے ہو، معلوم ہوا کہ نیکیوں میں (ایسا) جھگڑنا (یعنی اختلاف کرنا جس میں کسی قسم کی شرعی خرابی مثلاً بد اخلاقی و ناحق دل آزاری وغیرہ نہ ہو وہ) بھی عبادت ہے اور قرعے سے جھگڑا چکانا محبوب (یعنی پسندیدہ)۔ (مرأۃالمناجیح ، 1 / 385)

اے عاشقانِ نماز! اس حدیث پاک (زندگی کو موت سے پہلے غنیمت جانو) کے مطابق اپنی زندگی سے پورا پورا فائدہ اٹھاکر جتنا ہو سکے باجماعت نمازیں ادا کر کے ہمیں زیادہ سے زیادہ ثواب کا ذخیرہ کر لینا چاہیئے۔ ورنہ یاد رکھئے مرنے کے بعد جماعت کا ثواب پانے کا موقع نہیں مل سکے گا اور اپنی غفلت بھری زندگی پر بے حد ندامت ہوگی ۔ اللہ پاک سے دعا ہے کہ وہ ہمیں تمام نمازیں مسجد کی پہلی صف میں تکبیرِ اولیٰ کے ساتھ ادا کرنے کی سعادت و توفیق عطا فرمائے ۔ (اٰمین)


اسلام ایک ایسا آفاقی مذہب ہے جس کے تمام احکامات میں اللہ پاک نے دینی و دنیاوی بے شمار فوائد اور حکمتیں مخفی (یعنی پوشیدہ) رکھی ہیں۔ اور پھر ان احکام پر عمل کرنے کے جذبے کو بڑھانے کے لیے بے شمار فضائل بیان فرمائے انہیں احکام میں سے فضائل سے مالا مال عمل باجماعت نماز پڑھنا بھی ہے۔

باجماعت نماز کے فضائل پر پانچ فرامین مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیش خدمت ہیں۔

(1) کامل مؤمن کی حیثیت سے اللہ سے ملاقات: امام الانبیاء صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ارشاد فرماتے ہیں: جس کو یہ پسند ہو کہ وہ حالت اسلام میں کل (قیامت کے دن) اللہ سے کامل مؤمن کی حیثیت سے ملاقات کرے، اسے چاہیے کہ جس جگہ اذان دی جاتی ہے وہاں ان نمازوں کی حفاظت کرے (یعنی وہ نمازِ پنجگانہ باجماعت ادا کرے)۔( صحيح مسلم، کتاب المساجد و مواضع الصلاة، باب صلاة الجماعۃ من سنن الهدی،1/ 452، حدیث: 254)

(2)باجماعت نماز گناہوں کی بخشش کا ذریعہ: حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)

(3) باجماعت نماز دعا کی قبولیت کا ذریعہ:حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)

اے عاشقان نماز! بے شک حاجت پوری ہونے کے لیے صلاة الحاجت اور دیگر اوراد و وظائف پڑھنا بہت اچھی بات ہے مگر جماعت سے فرض نماز ادا کر کے اپنی حاجت کے لیےدعا مانگنا یہ بہترین عمل ہے۔(فیضانِ نماز ص 141 مطبوعہ مکتبہ المدینہ)

(4) باجماعت نماز شیطان سے حفاظت کا ذریعہ: نبی اکرم ‌نور مجسم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: بے شک شیطان انسان کے لیے اسی طرح کا بھیڑیا ہے، جیسے بکریوں کا بھیڑیا ہوتا ہے، جو دور جانے والی اور علیحدہ رہنے والی بکری کو پکڑ لیتا ہے، پس تم گھاٹیوں سے بچو اور جماعت، عام مسلمانوں اور مسجد کو لازم پکڑو۔ (مسند احمد، ج36/ 358 ،حدیث: 22029)

(5) نابینا صحابی کو افضل پر عمل کا حکم:حضرت سیِّدُنا عبدُاللہ بن اُمِّ مَکْتوم رضی اللہ عنہ ے بارگاہِ رِسالت میں عرض کی: یا رسول اللہ مدینۂ منورَہ میں موذی جانور بکثرت ہیں اور میں نابینا ہوں تو کیا مجھے رُخصت ہے کہ گھر پر ہی نماز پڑھ لیا کروں ؟ فرمایا: ’’حَیَّ عَلَی الصَّلٰوۃ ، حَیَّ عَلَی الْفَلَاح‘‘ سنتے ہو؟ عرض کی: جی ہاں ! فرمایا: ’’تو (باجماعت نماز ادا کرنے کے لیے) حاضر ہو۔ (نَسائی، ص148،حدیث:848)حضرت علامہ مولانا مفتی محمد امجد علی اعظمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کے تحت حاشیے میں ارشاد فرماتے ہیں :نابینا کہ اٹکل (یعنی راستے کی پہچان) نہ رکھتا ہو نہ کوئی لے جانے والا ہو خصوصاً درندوں (یعنی پھاڑ کھانے والے جانوروں) کا خوف ہو تو اُسے ضرور رخصت ہے مگر حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نےانھیں (یعنی حضرت عبد اللہ بن ام مکتوم) افضل پر عمل کرنے کی ہدایت فرمائی کہ اور لوگ سبق لیں جو بلاعذر یعنی (بغیر مجبوری) گھر میں پڑھ لیتے ہیں ۔(بہار شریعت، 1/ 579)

جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا

خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا


اللہ پاک نے قراٰن مجید میں ارشاد فرمایا: وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)رکوع نماز کا ایک جز ہے اور یہاں جز کا اطلاق کُل پر کیا گیا ہے اور رکوع کو اس لیے خاص کیا گیا کہ یہودیوں کی نماز میں رکوع نہیں ہوتا تھا (اس لیے مؤمنین کو جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کے لئے کہا گیا تا کہ ان کے ساتھ مشابہت نہ ہو ) ۔(تفسیر خازن ، البقرۃ : 43 ،1/ 41 ،دار الکتب العلمیہ )

جماعت کا حکم :نماز(باجماعت) ہر مسلمان ،عاقل و بالغ ،حر (آزاد) قادر پر جماعت واجب ہے جان بوجھ کر ایک بار بھی چھوڑنے والا گنہگار ہے ۔(بہار شریعت،1/ 586،مکتبۃ المدینہ ایپ)

جماعت کے فضائل :

(1)حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے راویت ہے فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جس نے کامل وضو کیا، پھر نماز فرض کے ليے چلا اور امام کے ساتھ پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔(صحیح ابن خزیمہ ،کتاب الصلاۃ ،باب فضل المشی الی الجماعۃ الخ ،2/ 280،حدیث: 1578،دار التاصیل)

(2) حضرت عثمان بن عفان رضی اللہ عنہ سے راویت ہے فرماتے ہیں کہ نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا :جس نے باجماعت عشا کی نماز پڑھی، گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نماز جماعت سے پڑھی، گویا پوری رات قیام کیا۔ (سنن ابو داؤد ، کتاب الصلاۃ ،باب فی فضل صلاۃ الجماعۃ ،ج1/ 417،حدیث: 555،دار الرسالۃ العالمیۃ)

(3) حضرت عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ حضور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو شخص چالیس راتیں مسجد میں جماعت کے ساتھ پڑھے کہ عشا کی تکبیرۂ اُولیٰ فوت نہ ہو، اللہ پاک اس کے ليے دوزخ سے آزادی لکھ دے گا۔ (سنن ابن ماجہ، ابواب المساجد... إلخ، باب صلاۃ العشاء و الفجر في جماعۃ، 1/437،حديث: 798)

(4) حضرت ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے راوی، کہ ایک دن صبح کی نماز پڑھ کر نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: آیا فلاں حاضر ہے؟ لوگوں نے عرض کی، نہیں، فرمایا: فلاں حاضر ہے؟ لوگوں نے عرض کی، نہیں، فرمایا: یہ دونوں نمازیں منافقین پر بہت گراں ہيں، اگر جانتے کہ ان میں کیا (ثواب) ہے تو گھٹنوں کے بل گِھسٹتے آتے اور بے شک پہلی صف فرشتوں کی صف کے مثل ہے اور اگر تم جانتے کہ اس کی فضیلت کیا ہے تو اس کی طرف سبقت کرتے مرد کی ایک مرد کے ساتھ نماز بہ نسبت تنہا کے زیادہ پاکیزہ ہے اور دو کے ساتھ بہ نسبت ایک کے زیادہ اچھی اور جتنے زیادہ ہوں، اللہ پاک کے نزدیک زیادہ محبوب ہیں۔ (سنن ابی داود، کتاب الصلاۃ، باب في فضل صلاۃ الجماعۃ، 1/230،حديث:554)

(5) حضرتِ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے كہ حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: جو اللہ پاک کی رضا کے لئے چالیس دن باجماعت تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھے گا اس کے لئے دوآزادیاں لکھی جائیں گی ، ایک جہنم سے دوسری نفاق سے۔ (سنن ترمذی ،ابواب الصلاۃ ،باب فی فضل التکبیرۃ الاولی ،1/ 281،حدیث: 241،دار الغرب الاسلامی)


وَ اَقِیْمُوا الصَّلٰوةَ وَ اٰتُوا الزَّكٰوةَ وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور نماز قائم رکھو اور زکوٰۃ دو اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)

اس آیت میں جماعت کے ساتھ نماز اداکرنے کی ترغیب بھی ہے اور احادیث میں جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنے کے کثیر فضائل بیان کئے گئے ہیں ،چنانچہ (1) حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہماسے روایت ہے، نبی اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا:جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا تنہا پڑھنے سے ستائیس درجہ زیادہ فضیلت رکھتا ہے۔(بخاری،کتاب الاذان، باب فضل صلاۃ الجماعۃ،1/232، حدیث: 645)

(2) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727)

(3) حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نورصلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے اورلوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ پاک اسے بھی جماعت سے نمازپڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔ (ابو داؤد، کتاب الصلاۃ، باب فیمن خرج یرید الصلاۃ فسبق بھا،1/234، حدیث: 564)

(4) حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: منافقین پر سب سے زیادہ بھاری عشا اور فجر کی نماز ہے اور وہ جانتے کہ اس میں کیا ہے؟ تو گھسٹتے ہوئے آتے اور بیشک میں نے ارادہ کیا کہ نماز قائم کرنے کا حکم دوں پھر کسی کو حکم فرماؤں کہ لوگوں کو نماز پڑھائے اور میں اپنے ہمراہ کچھ لوگوں کو جن کے پاس لکڑیوں کے گٹھے ہوں ان کے پاس لے کر جاؤں ، جو نماز میں حاضر نہیں ہوتے اور ان کے گھر اُن پر آگ سے جلا دوں۔(مسلم، کتاب المساجد ومواضع الصلاۃ، باب فضل صلاۃ الجماعۃ۔۔۔ الخ، ص327، حدیث: 651)

(5) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس(25) دَرَجے زائد ہے۔ (بخاری، 1/233،حدیث: 647)

پیارے نبی کی آنکھ کی ٹھنڈک نماز ہے

جنت میں لے چلے گی جو بےشک نماز ہے

فرض نماز جماعت سے ادا کرنے میں اللہ پاک اور اس کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے حکم پر عمل ہے۔ایمان والا ہونے کی گواہی ہے ،نماز با جماعت تنہا پرھنے سے 27 درجے افضل ہے، اللہ پاک کی خوشنودی کا ذریعہ ہے۔ ماشاءاللہ پیارے اسلامی بھائیوں ! آپ نے باجماعت نماز پڑھنے کے فضائل کو ملاحظہ کیا ہے یہاں تک کہ آپ نے دیکھا کہ باجماعت نماز پڑھنے سے اللہ پاک کی خوشنودی حاصل ہوتی ہے۔ ہمیں بھی چاہیے کہ ہم بھی جماعت کی پابندی کریں۔ اللہ پاک سب مسلمانوں کو با جماعت نماز ادا کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔اٰمین


اے عاشقان نماز! اللہ کریم کی رحمت سے ہمیں جو بےشمار انعامات عنایت ہوئے ہیں، الحمد‌للہ ان میں سےنماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہےاور اسی طرح نماز کی جماعت کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں، اللہ پاک کےفضل وکرم سےیہ بھی ہمارے لیے بےشمار‌ نیکیاں حاصل کرنے کا ذریعہ ہے۔ اللہ پاک قراٰنِ کریم سورۃ البقرہ آیت 43 میں ارشادفرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس ( یعنی اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نما ز تنہا نماز پرستائیس درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، 1/330)

موضوع کی مناسبت سے باجماعت نماز کے فضائل پر مشتمل 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

(1) امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309 ،حدیث:5112)

(2) فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس(25) دَرَجے زائد ہے۔ (بخاری، 1/233،حدیث: 647)

(3) حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس(27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

(4) حضرت سیِّدُنا اَنس رضی اللہ عنہ سے رِوایت ہے کہ تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم اِرشاد فرماتے ہیں : جو کوئی اللہ پاک کے لیے چالیس دن ’’تکبیر اُولیٰ‘‘ کے ساتھ باجماعت نماز پڑھے اُس کے لیے دو آزادیاں لکھی جائیں گی، ایک نار سے دوسری نفاق سے ۔ (ترمذی،1/274، حديث: 241)

(5) حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)

اے عاشقان نماز! بیشک حاجت پوری ہونے کے لئے صلاۃ الحاجت پڑھنا اور دیگر اوراد و وظائف کرنا بہت اچھی بات ہے مگر جماعت سے نمازِ فرض ادا کرکے اپنے حاجت کے لئے دعا مانگنا یہ بہترین عمل ہے۔

جماعت سے گر تو نماز پڑھے گا

خدا تیرا دامن کرم سے بھرے گا


ایمان لانے کے بعد سب سے اہم اور افضل عبادت نماز ادا کرنا ہے۔ ہر مسلمان پر دن رات میں پانچ نمازیں فرض ہیں۔ اللہ پاک نے نماز قائم کرنے کا حکم بارہا مرتبہ فرمایا ہے اتنا حکم کسی اور عبادت کا نہیں ہوا جتنا حکم نماز کی تاکید کا ہوا ہے ۔ نماز کا حکم مختلف کیفیات کے اعتبار سے نمازوں کو مقررہ اوقات میں ادا کرنے کے حوالے سے اللہ پاک نے قراٰنِ پاک میں ارشاد فرمایا : اِنَّ الصَّلٰوةَ كَانَتْ عَلَى الْمُؤْمِنِیْنَ كِتٰبًا مَّوْقُوْتًا(۱۰۳) ترجمۂ کنزالایمان: بے شک نماز مسلمانوں پر وقت باندھا ہوا فرض ہے۔(پ5،النسآء:103)

مسلمانوں کو چاہئے کہ اللہ پاک کے اس فرمان پر عمل کرتے ہوئے پانچوں نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کریں۔

نماز جماعت اور 5 فرامین مصطفی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم :

(1) امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (مسند احمد بن حنبل، 2/309 ،حدیث:5112)

(2) حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (حلیۃ الاولیاء، 7/299،حدیث: 10591)

(3) اللہ پاک کے آخری نبی محمد عربی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا: مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس (25) دَرَجے زائد ہے۔ (بخاری، 1/233،حدیث: 647)

(4) صحابی ابنِ صحابی حضرتِ سیِّدُنا عبدُ اللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے رِوایت ہے ، تاجدارِ مدینہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم فرماتے ہیں: نمازِ باجماعت تنہا پڑھنے سے ستائیس (27) دَرجے بڑھ کرہے۔ (بخاری، 1/232،حدیث:645)

(5) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔ (شعب الایمان، باب العشرون من شعب الایمان وہو باب فی الطہارۃ، 3/9، حدیث: 2727


اللہ پاک کی بہت ساری نعمتیں ہیں جن کو بندہ شمار ہی نہیں کرسکتا ،اس میں سے ایک بہت بڑی نعمت نماز بھی ہے ۔ اسی طرح جماعت کے ساتھ نماز پڑھنا بھی اللہ پاک کی عَظیْم نعمت ہے ،جس کا قراٰنِ پاک میں خود اللہ پاک نے تَذکِرہ کیا ہے۔ چنانچہ سورۃ البقرہ آیت نمبر 43 میں ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43) حضرت مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃُ اللہ علیہ فرماتے ہیں: اس ( یعنی اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو) کا مطلب یہ ہے کہ جماعت سے نماز پڑھا کرو، کیونکہ جماعت کی نما ز تنہا نماز پرستائیس درجے افضل ہے۔(تفسیر نعیمی، 1/292)

لیکن ! افسوس اس نعمت کی ہمیں قَدَر نہیں ہے ، اس نعمت کی اہمیت سے ہم نا واقف ہیں ،اگر ہم اس کے ثَوابَات کی طرف دیکھیں تو ثواب ہی ثواب اور فضائل ہی فضائل ہیں ، آئیے اس حوالے سے پانچ فرامینِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم پیشِ خدمت ہیں ۔

(1) حضرت سیِّدُنا ابو سعید خدرِی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ اللہ پاک کے آخری رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کافرمانِ عالی شان ہے: جب بندہ باجماعت نماز پڑھے پھر اللہ پاک سے اپنی حاجت(یعنی ضرورت) کا سُوال کرے تو اللہ پاک اس بات سے حیا فرماتا ہے کہ بندہ حاجت پوری ہونے سے پہلے واپس لوٹ جائے۔ (فیضانِ نماز ،ص 141)

(2) حضرت عثمانِ غنی رضی اللہ عنہ کے غلام حضرت حمران رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور اقدس صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جس نے کامل وضو کیا، پھر فرض نماز کے لیے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دئیے جائیں گے۔(صراط الجنان، 1/114)

(3) امیرالمؤمنین حضرتِ سیِّدُنا عمرفاروقِ اَعظم رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے دو جہاں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کو فرماتے سنا کہ اللہ پاک باجماعت نماز پڑھنے والوں کو محبوب(یعنی پیارا) رکھتا ہے۔ (فیضانِ نماز، ص140)

(4)فرمانِ مصطفیٰ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم: مرد کی نماز مسجد میں جماعت کے ساتھ، گھر میں اور بازار میں پڑھنے سے پچیس(25) دَرَجے زائد ہے۔(فیضانِ نماز، ص 141)

(5)حضرت ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے،حضور پر نور صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: جو اچھی طرح وضو کرکے مسجد کو جائے اور لوگوں کو اس حالت میں پائے کہ وہ نماز پڑھ چکے ہیں تو اللہ پاک اسے بھی جماعت سے نمازپڑھنے والوں کی مثل ثواب دے گا اور اُن کے ثواب سے کچھ کم نہ ہوگا۔ (صراط الجنان،1 / 115)

بزرگانِ دین رحمہم اللہ علیہم کے نزدیک نمازِ باجماعت کی بڑی اہمیت تھی ۔ آئیے اس حوالے سے ایک حکایت پڑھتے ہیں ۔ چنانچہ حضرت عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما فرماتے ہیں کہ حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ اپنے ایک باغ کی طرف تشریف لے گئے، جب واپس ہوئے تو لوگ نمازِ عصر ادا کر چکے تھے ،یہ دیکھ کر آپ رضی اللہ عنہ نے اِنَّا لِلہِ وَ اِنَّاۤ اِلَیۡہِ رٰجِعُوۡنَ پڑھا اور ارشاد فرمایا : میری عصر کی جماعت فوت ہو گئی ہے، لہٰذا میں تمہیں گواہ بناتا ہوں کہ میرا باغ مساکین پر صدقہ ہے تاکہ یہ اس کام کا کفارہ ہو جائے۔(صراط الجنان، 1/ 115)

جماعت سے گر تو نمازیں پڑھے گا

خدا تیرا دامَن کرم سے بھرے گا

اللہ پاک سے دعا ہے کہ ہمیں بھی پانچوں نمازیں باجماعت ادا کرنے کی توفیق عطا کرے۔ اٰمین بجاہ النبی الامین صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم


نماز جماعت کے ساتھ ادا کرنا وہ عظیم الشان عبادت ہے جس کی تاکید احادیث کریمہ میں آئی ہے۔ ایک بار تاکید نہیں بلکہ کئی بار آئی ہے اور جماعت کے ساتھ نماز ادا نہ کرنے کی بنا پر وعیدیں ہیں۔ لیکن آج کل ہمارے مسلمان بھائیوں کو کیا ہو گیا ہے کہ نماز تو پڑھتےہیں اور جماعت کی پروا ہ نہیں كرتے۔ نماز پڑھنا فرض ہے یہ تو جانتے ہیں لیکن لا علمی کی وجہ سے جماد ت کو واجب نہیں جانتے۔ حالانکہ ہمارے علماء کرام نے بیان بھی کیا ہے اور بیان بھی کرتے ہیں کہ باجماعت نماز کی تاکید احادیث مبارکہ میں بہت سخت آئی ہے لیکن ہمارے مسلمان بھائی توجہ نہیں دیتے انہیں کیا ہو گیا ہے کہ اس طرف توجہ نہیں دیتے۔ یاد رکھو کل قیامت کے دن اس حوالے سے نہایت سخت گرفت ہو گا۔

الله پاک قراٰن مجید فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ ارْكَعُوْا مَعَ الرّٰكِعِیْنَ(۴۳) ترجمۂ کنز الایمان: اور رکوع کرنے والوں کے ساتھ رکوع کرو۔ (پ1،البقرۃ: 43)

جماعت کے متعلق چند احادیث کریمہ ملاحظہ ہو:۔

میرے مصطفےٰ جان رحمت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالیشان ہے: جس نے باجماعت عشا کی نماز پڑھی گویا آدھی رات قیام کیا۔ (فیضانِ نماز،ص154)

نبیوں کے سردار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا ارشاد خوشبو دار ہے: جس نے کامل وضو کیا پھر نماز فرض کے لئے چلا اور امام کے ساتھ نماز پڑھی، اس کے گناہ بخش دیئے جائیں گے۔ (فیضانِ نماز،ص187)

الله کریم کے آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کا فرمان عالی شان ہے: نماز کے معاملے میں سب سے زیادہ ثواب پانے والا وہ شخص ہے جو زیادہ دور سے نماز کیلئے چل کر آئے پھر اس کے بعد وہ شخص زیادہ ثواب پاتا ہے جو اس سے کم لیکن دوسروں سے زیادہ قدم چلے اور جو نماز کا انتظار کرتا رہتا ہے حتی کہ امام کے ساتھ نماز پڑھتا ہے اس کو اس شخص سے زیادہ اجر ملتا ہے جو نماز پڑھ کر سو جاتا ہے۔ (فیضانِ نماز،ص185)

حضرت سیدنا جابر بن عبداللہ بیان کرتے ہیں سرور کائنات صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم ہمارے پاس تشریف لائے اور ارشاد فرمایا: تم جب تک نماز کا انتظار کرتے رہو گے خیر یعنی بھلائی پر رہوگے۔ (فیضانِ نماز،ص188)

میرے میٹھے اور پیارے اسلامی بھائیوں ! جیسا کہ احادیث طیبہ سے معلوم ہوا کہ باجماعت نماز ادا کرنے کے اتنے سارے فضائل ہیں، تو ہمیں چاہئے کہ ہم با جماعت نماز ادا کریں۔

اللہ پاک سے دعا ہے کہ پر ور دگار عالم ہمیں ہمیشہ جماعت کے ساتھ پہلی صف میں تکبیر اولیٰ کے ساتھ نماز پڑھنے کی توفیق و رفیق عطا فرمائے۔ اٰمین


اے عاشقاں نماز اللہ پاک کے فضل وکرم سے ہمیں جو بے شمار انعامات عطا ہوئے ہیں الحمد لله ان میں سے نماز بھی ایک عظیم الشان انعام ہے۔ اسی طرح جماعت کے ساتھ نماز پڑھنے کی دولت بھی کوئی معمولی انعام نہیں اللہ پاک کی رحمت سے یہ بھی ہمارے لیے بے شمار نیکیاں حاصل کرنے کا ایک بہترین ذریعہ ہے۔ یاد رکھئے جماعت کے ساتھ نماز ادا کرنا ہر عاقل، بالغ آزاد اور قادر مسلمان پر واجب ہے بغیر کسی شرعی مجبوری کے ایک بار بھی جماعت کو ترک کرنے والا سخت گنہگار اور عذاب نار کا حقدار ہے اور کئی بار ترک کرنے والا فاسق ہے اور وہ گواہی کے قابل نہیں رہتا۔ خود ہمارے پیارے آقا صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نمازوں کو جماعت کے ساتھ ادا کرنے کا بہت ہی زیادہ اہتمام کیا کرتے تھے اور بغیر مجبوری کے جماعت کو ترک نہ فرماتے تھے۔ میرے پیارے بھائیو ! آج وہ دور آگیا ہے کہ بے شمار نمازی بھی جماعت کو ترک کر دیتے ہیں اور اب عشق رسول کے دعوے بلند دعوے رہ گئے ہیں افسوس صحت کے باوجود لوگ چھوٹے چھوٹے کاموں کی وجہ سے جماعت تو جماعت فرض نمازیں تک چھوڑ دیتے ہیں۔ حالانکہ احادیثِ کریمہ میں جگہ جگہ اس کی تاکید آئی اور اس کے تارکین پر وہ وعید فرمائی ہے۔ باجماعت نماز پڑھنے کا جذبہ پانے کیلئے چند حدیثیں ذکر کی جاتی ہے کہ مسلمان اپنے نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم کے ارشادات سنیں اور اس کی توفیق سے ان پر عمل کریں۔

(1) غیب داں نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا : جس نے با جماعت عشاء کی نماز پڑھی گویا آدھی رات قیام کیا اور جس نے فجر کی نمازِ باجماعت پڑھی گویا پوری رات قیام کیا۔(مشکوٰۃ:ص 62 )

مفتی احمد یار خان رحمۃُ اللہِ علیہ اس حدیث پاک کے تحت لکھتے ہیں اس کے دو مطلب ہو سکتے ہیں ایک یہ کہ عشاء کی باجماعت نماز کا ثواب آدھی رات کی عبادت کے برابر ہے اور فجر کی باجماعت نماز کا ثواب باقی آدھی رات کی عبادت کے برابر ،تو جو یہ دونوں نمازیں جماعت سے پڑھ لے اسے ساری رات عبادت کا ثواب۔ دوسرے یہ کہ عشاء کی جماعت کا ثواب آدھی رات کے برابر ہے اور فجر کی جماعت کا ثواب ساری رات عبادت کے برابر، کیونکہ یہ ( فجر کی جماعت عشاء کی جماعت سے) نفس پر زیادہ بھاری ہے پہلے معنی زیادہ قوی ہے۔ جماعت سے مراد تکبیر اولیٰ پانا ہے جیسا کہ بعض علما نے فرمایا۔(مرآۃ المناجیح ،2/386)

(2) آخری نبی صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا کہ جب نماز کی تکبیر ہو تو سوائے فرائض کے اور کوئی نماز نہیں۔ (مشکوة ،ص 196)یعنی تکبیر نماز کے بعد جماعت سے متصل دوسری نماز پڑھنا حرام ہے۔ لہٰذا فجر کی سنتیں اس حالت میں جماعت سے دور ہٹ کر پڑھ سکتا ہے جبکہ جماعت مل جانے کی امید ہو کیونکہ یہ سنتیں بہت اہم ہیں۔( مرآۃ المناجیح ،2/154)

(3) دونوں عالم کے مالک و مختار صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے فرمایا : جو مسجد جماعت میں چالیس راتیں نماز عشاء پڑھے کہ رکعت اولیٰ فوت نہ ہو اللہ پاک اس کے لئے دوزخ سے آزادی لکھ دیتا ہے ۔( بہار شریعت، 1/441)

(4) ساقی کوثر مالک جنت صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایاکہ جس بستی یا جنگل میں تین آدمی ہوں اور ان میں نماز کی جماعت نہ کی جائے تو ان پر شیطان غالب آ جاتا ہے۔ تم پر جماعت لازم ہے بھیڑیا دور والے جانور ہی کو کھاتا ہے ۔( مشکوٰۃ:ص 96 )

(5) حضور اکرم صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے بعض نمازوں میں کچھ لوگوں کو غیر حاضر پایا تو ارشاد فرمایا: میں چاہتا ہوں کہ کسی شخص کو حکم دوں کہ وہ لوگوں کو نماز پڑھائے پھر میں ان لوگوں کی طرف جاؤں جو نماز (با جماعت) سے پیچھے رہ جاتے ہیں اور ان پر ان کے گھر جلا دوں ۔( احیاء العلوم ،1/ 462 )

اس سے چھوٹے بچے، عورتیں، معذور، بیمار علیحدہ ہیں۔ یہاں روئے سخن منافقین کی طرف ہے کیونکہ کوئی صحابی بلا وجہ جماعت اور مسجد کی حاضری نہیں چھوڑتے تھے لہذا روافض کا یہ کہنا کہ صحابہ فاسق یا تارک جماعت تھے غلط ہے۔ رب نے ان کے تقوی اور جنتی ہونے کی گواہی دی اگر یہاں صحابہ مراد ہوں تو حدیث قراٰن کے خلاف ہوگی ۔( مرآۃ المناجیح ،2/152)