اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔زندگی کا کوئی ایسا شعبہ نہیں جس کے متعلق دین اسلام ہماری رہنمائی نہ فرماتا ہو۔اسلام دنیا کا وہ واحد مذہب ہے  جس نے دینی اور دنیاوی ہر مرحلے میں اپنے ماننے والوں کو بہترین اور زریں اصولوں سے نوازا ہے۔ جہاں اسلام نے ہمیں اپنے جسم و جان،اہل و عیال اور مال اللہ کی راہ میں خرچ کرنے کا حکم دیا ہے وہاں ہمیں یہ بھی تعلیم دی ہے کہ خرچ کرنے میں اعتدال اور میانہ روی کو اختیار کریں۔ اللہ پاک قرآن کریم فرقان حمید میں ارشاد فرماتا ہے۔

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمہ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔(پ15،بنی اسرائیل ،29 )

اس آیتِ مبارکہ میں فرمایا گیا کہ’’اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ‘‘۔اس کا معنی یہ ہے کہ بخل نہ کرو اور اللہ پاک کی راہ میں خرچ کرنے سے تنگ دل نہ ہو، اور ’’پورا نہ کھول دے‘‘سے مراد یہ ہے کہ جتنی ضرورت ہو اتنا خرچ کیا جائے، ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کیا جائے یعنی اسراف سے بچا جائے۔

اسراف و فضول خرچی کا مفہوم یہ ہےکہ ’’خرچ کرنے میں حد شرعی سے تجاوزکرنا‘‘جبکہ اس کا دوسرا مفہوم یہ ہے کہ ’’ناجائزاور حرام کاموں میں خرچ کرنا‘‘

جبکہ میانہ روی کا مطلب یہ ہے کہ ’’ہرچيزمیں درمیانی راستہ اختیار کرنا،خواہ مال خرچ کرنا ہی کیوں نہ ہو‘‘۔اسلام ہمیں اسراف وفضول خرچی سے رکنے اور اعتدال ومیانہ روی اختیار کرنے کا حکم اورتعلیم دیتاہے۔

اسلام میں اسراف اور فضول خرچی منع ہے کیونکہ اسلام مذہبِ اعتدال ہے۔ اس میں ایک طرف بخل و کنجوسی کو ممنوع قراردیا گيا ہے تو دوسری طرف اسراف و فضول خرچی سے بھی روکا گیا ہے،مسلمانوں کو اعتدال اور میانہ روی اپنانے کی تاکید کی گئی ہے ۔قرآن میں اسراف اور فضول خرچی کو شیطانی عمل اورفضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قراردیا گيا ہے۔

وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا ترجمۂ کنزالایمان: اور فضول نہ اڑا بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں اور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے۔(پ15،بنی اسرائل:26،27)

سورہ ٔفرقان میں اللہ پاک اپنے پسندیدہ بندوں کی صفت بیان کرتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ ( پ19،الفرقان : 67)

حضرت انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا :میانہ روی اختیار کرنے والا کبھی محتاج نہیں ہوتا ۔

اس مختصر حدیث شریف میں حضوراکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ناداری غریبی اور تنگ دستی جیسی خطرناک آفتوں سے بچنے کے لئے ہمیں خرچ میں میانہ روی اختیارکرنے کی تاکید و تلقین فرمائی ہے۔اعتدال و میانہ روی کی تاکید کے معاملے میں اسلام تمام مذاہب سے ممتازومنفرد ہے۔ اسلام ہمیں ہرعمل میں میانہ روی اور اعتدال کی تعلیم دیتاہے۔

اسراف و فضول خرچی سے پرہیزکرنے والا کبھی تنگ دستی اورفقر و فاقہ میں مبتلا نہیں ہوگا کیونکہ وہ نہایت سوچ سمجھ کرخرچ کرے گا، وہ نہ تونمود و نمائش میں اپنی رقم ضائع کرے گا اورنہ عیش وعشرت میں اپنی دولت برباد کرےگا ۔اگرہم اعتدال اور میانہ روی کے اس سنہری اصول کو اختیار کرلیں تو ہمارامعاشرہ بے شمار برائيوں اور مشکلات سے ازخود نجات حاصل کرلے گا۔


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

قال رسول اللہ صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم : السمت الحسن والتؤدۃ الاقتصاد جزء من اربع و عشرین جزءاً من النبوۃ۔ ترجمہ : اللہ پاک کے رسول صلَّی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلَّم نے ارشاد فرمایا: پسندیدہ طریقہ اور تسلی و اطمینان سے کام کی انجام دہی اور میانہ روی یہ نبوت کا چوبیسواں حصہ ہے ۔ ( اشعۃا للمعات ، 2/191)

میانہ روی کا معنیٰ ہے ہر کام اور ہر حالت میں میانہ روی اختیار کرنا ۔آج کل ہم جتنی پریشانیوں کا شکار ہیں ان کی سب سے بڑی وجہ اعتدال اور میانہ روی کا فقدان ہے ۔بے اعتدالی فضول خرچی اور اسراف آج ہماری نسلوں میں رچ گئی ہے ۔آج ہمارے معاشرے میں دیکھا جائے تو اجتماعی طور پر ہمارا پورا معاشرہ بے پناہ خرابیوں کے ساتھ بے اعتدالی اور میانہ روی سے کوسوں دور غلو وتفصیر کا شکار ہے ۔بچے کی پیدائش سے لے کر شادی خوشی غمی اور ہر کام میں غلو و تفصیر سے کام لیا جاتا ہے ۔اور شادی کے موقع پر بے پناہ فضول خرچی کا نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔

مجبور قرضہ لے کر شادی کرتا ہے اور صاحب استطاعت ایک دوسرے پر سبقت لے جانے کے لے فضول خرچی کرتا ہے ۔انسان کے پاس کتنے ہی وسائل ہوں بہر حال یہ دولت اور وسائل ایک نہ ایک دن ختم ہو نے والے ہیں ۔ایک انسان کی دانش مندی یہ ہے کہ ایک روپیہ بھی ضرورت سے زیادہ خرچ نہ کرے۔اسلام ہمیں فضول خرچی سے روکتا ہے جیسا کہ اللہ پاک کا ارشاد ہے : وَّ كُلُوْا وَ اشْرَبُوْا وَ لَا تُسْرِفُوْا ۚ- تَرجَمۂ کنز الایمان: اور کھاؤ اور پیؤ اور حد سے نہ بڑھو۔(الاعراف: 31)

اسی طرح جو لوگ عام زندگى میں مسرقانہ رویہ اپناتے ہیں ان کو شیطان کا بھائی کیا جاتا ہے ۔جیسا کہ اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے : اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِؕ- تَرجَمۂ کنز الایمان: بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں ۔(بنی اسرائیل: 27)

گویا فضول خرچی ایک شیطانی عمل ہے جسں سے بچنے کی تلقین کی گئی ہے ۔درحقیقت فضول خرچی سادہ طرز زندگی سے انحراف کا نتیجہ ہے ۔ہمارے آقا نے ہمارے لیے جو زندگی کا نمونہ چھوڑا وہ انتہا درجے کی سادگی پر مبنی ہے ۔ہم نے سادگی کو چھوڑ کر اپنے آپ کو پریشانیوں میں ڈال لیا ہے ۔ کفایت شعاری ہماری ضرورت بھی ہے ۔اگر ہم کم خرچ کریں گے تو اس انداز میں کامیاب ہو جائیں گے کہ مشکل وقت میں یہ روپیہ ہمارے کام آئے گا۔

انفرادی طور پر کفایت شعاری ہمیں تحفظ فراہم کرتی ہے ۔اور اجتماعی طور پر یہ ملک کے کام آئے گی۔کفایت شعاری سے مہنگائی بھی دور ہوتی ہے ۔معاشیات کا اصول ہے۔خرید داری جتنی زیادہ ہو گی قیمتوں میں اسی قدر اضافہ ہو گا۔لہذا اگر ہم بے تحاشا فضول خرچی سے اجتناب کریں تو قیمتوں میں اضافے کا رجحان کم ہو گا اور قیمت اعتدال میں رہے گی. چنانچہ میانہ روی اوراعتدال ہی وہ واحد راستہ ہے جو ہمیں کئی مسائل سے نجات دلاسکتا ہے لیکن نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے ارشاد فرمایا کہ" خیر الامور اوسطہا" یعنی بہترین کام وہ ہے جو میانہ روی سے کیے جائیں۔ (احیاء العلوم ،جلد ،3 صفحہ 176)

میانہ روی سے اخلاق مضبوط ہوتے ہیں اور حقوق کا احساس ہوتا ہے اور انسان رزق حلال کمانے کی کوشش کرتا رہتا ہے انسان کو اس بات کا شعور ہو جاتا ہے کہ راحت و سکون میانہ روی اور کفایت شعاری سے ہی حاصل کیا جا سکتا ہے۔

مشہور ہے کہ چادر دیکھ کر پاؤں پھیلاؤ:

یعنی عقلمندی یہ ہے کہ ہم اپنے وسائل کے مطابق زندگی گزاریں، نمود و نمائش سے پرہیز کریں ظاہر پرستی گروپ چھوڑ کر سادہ زندگی کو اپنائیں ۔ اس طرح نہ صرف مالی طور پر آسودہ ہوں گے بلکہ سادگی اور کفایت شعاری ہمیں خوشحال بنائے گی اور اس کا اثرہمارے ملک کی معیشت پر مرتب ہوگا اور یوں ہماری دنیاوی زندگی کے ساتھ ساتھ ہماری عاقبت بھی سنور جائے گی۔


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

روزمرہ کے اخراجات زندگی کی گاڑی چلائے،عزت اور صحت کو بحال رکھنے  دوسرے حق داروں پر خرچ کرنے کے لیے ضروری ہیں۔ غیر ضروری اور نامناسب اخراجات سے احتراز کرنے اور اعتدال پسندی کو اپنا شعار بنانے کو کفایت شعاری کرتے ہیں۔

کفایت شعاری ایسی عادت ہے جو ہر حالت میں مفید ثابت ہوتی ہے اور ایسا عمل ہے جو ہر حال میں مددگار ثابت ہوتا ہے تندرستی ہو یا بیماری خوشی ہو یا غم میں کفایت شعاری ہر معاملے میں پریشانیوں کو کم کرتی ہے اور زندگی خوش اسلوبی اور چین سے گزرتی ہے ضرورت کے لئےخرچ تو ہر حال میں کرنا ہی پڑتا ہے ۔کوئی ضرورت کے مطابق کرتا ہے تو کوئی ضرورت سے زیادہ کرتا ہے لیکن ان سب میں سے آسان طریقہ ہے کہ کفایت شعاری اور اعتدال پسندی کو اپنا شعور بنایا جائے۔قرآن پاک میں ارشاد ہے کہ: بے شک فضول خرچ لوگ شیطان کے بھائی ہیں۔

حضور اکرم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کا ارشاد ہے: کہ بہترین کام وہ ہے جس میں میانہ روی کو اپنایا جائے۔

اور فضول خرچی نہ اللہ تعالی کو پسند نہیں ہے نہ رسول اللہ صلی اللہ تعالی علیہ وآلہ وسلم کو اس میں اپنا بھی نقصان کہ خون پسینے سے کمایا ہوا روپیہ غیر ضروری کاموں پر خرچ کر دینا اور خود تکلیف اٹھانا بھی کوئی عقلمندی نہیں ہے یوں تو گھر داری میں تمام کام آجاتے ہیں لیکن اصل اور بنیادی چیز کچن اور کھانا پکانا ہے اب ہماری بہنیں مہنگی چیزوں کے پکوان پکانے کی ترکیبں لکھتی ہیں اس ہوش ربا مہنگائی میں ممکن نہیں ہے سستے اور بچت والے پکوان گھر داری کا سلیقہ ہوں اسی طرح ایسی بہت سی اشیاء ہیں جن کو ضائع کر دیا جاتا ہے ان کو بھی کام میں لایا جا سکتا ہے اگر دودھ بچ گیا اور اس کے پھٹنے کا خطرہ ہو یا تھوڑا پھٹ گیا ہو تو اس کو ضائع نہ کریں اس میں تھوڑے چاول اور چینی ڈال کر پکا لیں رات کی روٹی بچ جائے تو صبح کو کوئی باسی روٹی کھانے کو تیار نہیں ہوتا اس کا طریقہ تھوڑا سا پانی ہاتھوں میں لے کر روٹی کو بھی گیلا کر لیں روٹی توے پر ڈال کر اوپر گھی کا ایک چمچ ڈال دیں مزے دار پراٹھا بن جائے گا اسی طرح ہماری زندگی آسان ہو جائے گی۔

اللہ تعالی سے دعا ہے کہ کفایت شعاری کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے۔ایک مکمل دین ہے اس میں دنیا وما فیھا کے متعلق رہنمائی ملتی ہے ۔اسلام ہمیں ایک بہترین زندگی گزارنے کی ترغیب دیتا ہےجو اسلام کے شرعی اصولوں پر مبنی ہو۔

حضرت ابو محمد فضالہ بن عبید انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا : اس شخص کے لیے خوشخبری ہے جسے اسلام کی ہدایت دی گئی، اس کا گزر اوقات ضرورت کے مطابق ہے،اس نے قناعت اختیار کی ۔ (ترمذی: 2306)

آج کے اس مشکل ترین دور میں جہاں دیگر پریشانیاں ہیں وہیں بڑھتے ہوئے اخراجات بھی ہیں ہر کوئی مہنگائی اور بے روزگاری کا رونا روتا نظر آتا ہے۔ اگرکفایت شعاری سے کام لیں اور اس حدیث کے مطابق عمل کریں تو اخراجات بہتر ہو سکتے ہیں۔ سنت کے مطابق کھانے، پینے، پہننے، اوڑھنے سے یہ مسائل حل ہو سکتے ہیں۔فضول خرچی، اسراف اور دکھاوے سے بچیں تو یہ پریشانیاں ختم ہو سکتی ہیں ۔ کفایت شعاری میانہ روی کا دوسرا نام ہے۔ اسلام ہمیں ہر شعبے میں درمیانی راہ اختیار کرنے کا حکم دیتا ہے۔ اگر ہم کفایت شعاری سے کام لیں، اپنی خواہشوں کو ترک کریں، اپنے نفس کو قابو میں رکھیں تو کم آمدن اور محدود وسائل میں بھی متوازن زندگی بسر کر سکتے ہیں۔

نبی کریم صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے کبھی سیر ہو کر کھانا نہیں کھایا تھا ۔سادہ لباس زیب تن کرتے، خاک پر سوتے، چمڑے کا بستر ہوتا تھا ۔جب ہمارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اس طرح زندگی بسر کرتے تو ہم امتی کیوں نہیں؟

یقیناً ہم سنت پر عمل کرکے دنیا اور آخرت میں کامیاب ہو سکتے ہیں اخراجات میں کفایت شعاری سے کام لے کر قرضوں کے بوجھ، دوسروں کے آگے ہاتھ پھیلانے اور تنگدستی سے بچ سکتے ہیں۔


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

اخراجات زندگی کا ایک اہم عضو ہیں کہ جب تک زندگی ہے یہ ساتھ ساتھ ہیں بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ جب تک ہم قبر میں نہیں چلے جاتے یہ جاری وساری رہیں گے۔

اخرجات میں کفایت شعاری سے مراد اپنی ضروریات زندگی اور شوخیوں میں ہونے والے خرچ کو سمجھ کر کفایت شعاری اختیار کی جائے۔

آج کا انسان ہر وقت پریشان و بےچین رہتا ہے وجہ ،بے دریغ اخراجات ہے انسان کی جیب اسے جس بات کی اجازت نہ دے وہ خواہشیں ہیں۔ مختصراً ، ہم موڈرن دور کے لوگ اپنی ڈھاک اس موڈرن ورلڈ میں بٹھانے کے لیے غیر ضروری اخراجات پال لیتے ہیں جن کے پورا نہ ہونے سے ہم ڈپریسڈ رہنا شروع کردیتے ہیں اور پھر نتیجہ اللہ تعالی سے بڑھتے ہوئے شکوے۔ لوگوں سے بڑھتی ہوئی حسد اور دین سے دوری نکلتی ہے۔

اس کی ایک چھوٹی سی مثال جو کہ آج کے دور کا بڑا مسئلہ ہے وہ یہ کہ موبائل فون، اس پر حد یہ ہے کہ بندے کے پاس کھانے کوروٹی نہ ہو لیکن چلانے کو ٹچ والا موبائل ضرور ہواور تو اور صرف ٹچ والا موبائل نہ ہو بلکہ برانڈڈ کمپنی کا مہنگا ترین موبائل ہو۔ٹھیک ہے موبائل آج کل کی ضرورت ہے اس کے بغیر واقعی گزارا نہیں ہے لیکن گزارا بندہ 5000، یا 10000 کے موبائل سے بھی کرسکتا ہے ضروری ہے خود کو تکلیف میں ڈال کر اپنی اہم ضرورتوں کو مارکر 14000 یا 20000 کے موبائل خریدیں جائیں۔

ہاں اگر آپ واقعی افورڈ کرسکتے ہیں تو ٹھیک ہے لیکن یہاں بھی آپ کو دیکھنا چاہیے کہ اگر آپ کو اللہ تعالی نے بہترین نوازا ہے تو آپ اس میں سے غریبوں اور ضروتمندوں کی مدد کریں نہ کہ یہ بڑے بڑے موبائل خرید کر فضول خرچی کریں اس سے آپ کے نیک اعمال میں اضافہ نہیں ہوگا ۔

تو اخرجات میں کفایت شعاری کوئی کنجوسی نہیں ہوتی یہ سلیقہ شعاری ہوتی ہے۔

ہم میں سے اکثر لوگ کہتے ہیں کہ "لو اب ہم یہ سستی چیزیں استعمال کریں گے" سستہ مہنگا کچھ نہیں ہوتا بات صرف ضرورت پوری ہونے کی ہے وہ پوری ہوگئی تو کیا سستا کیا مہنگا،ہم مسلمان ہیں الحمداللہ۔

اور ہر مسلمان کا یہ شیوہ ہے کہ وہ عاجزی وانکساری اور پرہیزگاری اختیار کریں یہ بڑے بڑے برینڈ ہماری عقل و سمجھداری کو کھاتے جارہےہیں ہم ان میں گم اللہ تعالی کو اور ان کے احکامات کو بھولتے جارہے ہیں۔

آئیں میں آپ ہم سب مل کر کفایت شعار معاشرہ تشکیل دیتے ہیں ہماری بھوک سادہ روٹی سالن سے بھی بجھ سکتی ہے نہ کہ ہم بڑے بڑے فاسٹ فوڈ میں پیسہ برباد کریں۔ہم مسلمان ہیں اور ہم جانتے ہیں کہ یہ دنیا اور اس کی رونقیں فانی ہیں ہم نے اپنا ہر پل آخرت کے لیے ذریعہ نجات بناناہے تو ان اخراجات کی ہماری نظر میں کوئی حیثیت نہیں۔

ہاں ہم ان کو بچا کر کسی غریب کی بھوک مٹا سکتے ہیں، کسے بے گھر کو چھت دےسکتےہیں، کسی کمزور کی لاٹھی بن سکتے ہیں کہ یہ سب کام ہماری دنیا کے ساتھ ساتھ آخرت سنوار دیتے ہیں ہمارا نام جنتیوں میں لکھ دیتے ہیں اور ایک مسلمان کی دولت یہی ہے کہ اس کا رب اس سے راضی ہو اور وہ اس حالت میں وفات پائے کہ وہ ایمان پر ہو اور نیکی کی راہ پر گامزن ہو۔

اللہ تعالی ہم سب کو نیک ہدایت دے اور ہمیں صراط مستقیم پر چلنے والا بنائے۔

اٰمِیْن بِجَاہِ النَّبِیِّ الْاَمِیْن صلَّی اللہ تعالٰی علیہ واٰلہٖ وسلَّم


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

کفایت شعاریFrugality جہاں ایک طرف ہماری ضرورت ہے وہیں دوسری طرف یہ شریعت کو بھی مطلوب ہے۔ اس میں بہت سے دینی و دنیاوی فوائد مضمر ہیں، کفایت شعاری کوبعض لوگ بخل سے تعبیر کرتے ہیں جبکہ حقیقتاً ایسا نہیں ہے۔بخل ضرورت کی جگہ خرچ نہ کرنے کا نام ہے جب کہ کفایت شعاری اسراف سے بچتے ہوئے اعتدال کے ساتھ اخراجات پر کنٹرول رکھ کر منظم انداز میں ضروری و غیر ضروری اشیاء کا حساب لگا کر خرید و فروخت اور لین دین میں، میانہ روی اختیار کرنے کو کہتے ہیں۔جیسے سب لوگوں کی آمدنی برابر نہیں ہوتی ایسے ہی اخراجات بھی یکساں نہیں ہوتے، اقتصادیات کو متوازن رکھنا نہایت ہوشمندی کا کام ہے۔ فضول خرچی پر قابو ضروری ہے، کفایت شعاری ہی کم خرچ بالا نشین کا فارمولہ بھی ہے۔بے دھڑک خرچ کرنا عاقبت اندیشی کے خلاف ہے، سلیقہ مندی اختیار کرتے ہوئے افراط و تفریط سے بچنا از حد ضروری ہے۔ قرآن کریم اسکی تعلیم دیتے ہوئے ارشاد فرماتا ہے:

وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا ترجمۂ کنزالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔(پ15،بنی اسرائیل ،29 )

راہ اعتدال شریعت کو مطلوب ہے۔اللہ رب العزت کا فرمان ہے:

وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمۂ کنزالایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ (پ19، الفرقان ، 67)

یہ کامل ایمان والوں کی صفت ہے اور فضول خرچی کی قرآن کریم میں مذمت وارد ہوئی ہے: وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا ترجمۂ کنزالایمان: اور فضول نہ اڑا بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیں۔ (پ15،بنی اسرائیل:27)

صراط الجنان فی تفسير القرآن میں مفتی محمد قاسم صاحب نے وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا کی تفسیر اس طرح بیان فرمائی ہے:{ وَ لَا تُبَذِّرْ تَبْذِیْرًا : اور فضول خرچی نہ کرو} یعنی اپنا مال ناجائز کام میں خرچ نہ کرو ۔ حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے تَبذیر کے متعلق سوال کیا گیا تو آپ نے فرمایا کہ جہاں مال خرچ کرنے کاحق ہے ا س کی بجائے کہیں اور خرچ کرنا تبذیر ہے، لہٰذا اگر کوئی شخص اپنا پورا مال حق یعنی اس کے مَصرف میں خرچ کر دے تو وہ فضول خرچی کرنے والا نہیں اور اگر کوئی ایک درہم بھی باطل یعنی ناجائز کام میں خرچ کردے تو وہ فضول خرچی کرنے والا ہے۔ (خازن، الاسراء، تحت الآیۃ: ۲۶، ۳ / ۱۷۲)

اِسرا ف کا حکم اور اس کے معانی:

اسراف بلاشبہ ممنوع اور ناجائز ہے اور علمائےکرام نے اس کی مختلف تعریفات بیان کی ہیں ، ان میں سے 11 تعریفات درج ذیل ہیں :

(1)…غیرِ حق میں صَرف کرنا۔ (2) … اللہ پاک کے حکم کی حد سے بڑھنا۔ (3) …ایسی بات میں خرچ کرنا جو شرعِ مُطَہَّر یا مُرَوّت کے خلاف ہو ،اول حرام ہے اور ثانی مکروہِ تنزیہی۔ (4) …طاعتِ الٰہی کے غیر میں صرف کرنا۔ (5) …شرعی حاجت سے زیادہ استعمال کرنا۔ (6) …غیرِ طاعت میں یا بلا حاجت خرچ کرنا۔ (7)…دینے میں حق کی حد سے کمی یا زیادتی کرنا۔ (8) …ذلیل غرض میں کثیر مال خرچ کردینا۔ (9) …حرام میں سے کچھ یا حلال کو اِعتدال سے زیادہ کھانا۔ (10) …لائق وپسندیدہ بات میں لائق مقدار سے زیادہ صرف کردینا ۔ (11) …بے فائدہ خرچ کرنا۔

اس سے اگلی آیت میں فضول خرچی کرنے والوں کو شیطان کا بھائی قرار دیا ہے: اِنَّ الْمُبَذِّرِیْنَ كَانُوْۤا اِخْوَانَ الشَّیٰطِیْنِ وَ كَانَ الشَّیْطٰنُ لِرَبِّهٖ كَفُوْرًا ترجمۂ کنزالایمان:بےشک اڑانے والے(فضول خرچی کرنے والے) شیطانوں کے بھائی ہیںاور شیطان اپنے رب کا بڑا ناشکرا ہے ۔

ان آیات سے معلوم ہوا کفایت شعاری شریعت کو بھی مطلوب ہے نیزمصطفی جان رحمت صلی اللہ علیہ و سلم کی کامل راہنمائی احادیث کی صورت میں بھی موجود ہے اور اسکے دنیاوی فوائد الگ ہیں اور بے اعتدالی کے نقصانات الگ ہیں۔ فضول خرچ آدمی اپنے پروردگار کا شکر ادا نہیں کر سکتا، اسکی روزی میں جتنا بھی اضافہ ہوجائے اسے کافی نہیں ہوتا،فضول خرچی بڑھتے ہوئے مسائل کی ایک اہم وجہ بھی ہے جبکہ کفایت شعاری اور میانہ روی سے بہت سی فکریں کم ہوجاتی ہیں۔انسان اپنی ذات اورضروریات پر خرچ کرنے کے علاوہ اپنے کاروبار کو بھی بڑھا سکتا ہے، اپنے اہلِ خانہ کے علاوہ عزیز و اقارب پر بھی خرچ کر سکتا ہے، فلاحی کاموں میں لگا سکتا ہے، صدقہ و خیرات بھی کر سکتا ہے۔ ہر شخص کو چاہیے کہ کفایت شعاری کے لیے مختلف طریقے اختیار کرے، اپنے گھر کا بجٹ بنائے اور ضروریاتِ زندگی، تعلیم، کھیل و تفریح ،لانگ ٹرم پروگرام خوشی غمی اور صدقات کے لیے حصے مقرر کرے۔ کفایت شعاری میں کامیابی تب ہی ممکن ہے جب گھر کے دیگر افراد بھی ساتھ تعاون کریں، مقابلہ بازی سے کوسوں دور رہیں، کفایت شعاری سے صرف ایک گھر ہی نہیں بلکہ اس فارمولہ کو اپنا کر ایک ملک کو بھی بہتر انداز میں چلایا جا سکتا ہے۔اللہ جواد وکریم ہم سب کو بقدر ِضرورت روزی عطا فرما کر درست جگہ پر خرچ کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا رب العالمین۔ 


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

ہمارا اِسلام دین اور دنیا کے معاملات میں ہمیں مِیانہ روی کا درس دیتا ہے تاکہ ہم اپنی زندگی کی بہت ساری اُلجھنوں اور پریشانیوں سے محفوظ رہ سکیں۔ایک گھر کو اَمْن کا گہوارَہ بنانے کے لیے ”اَخْراجات پر کنٹرول رکھنا“بھی بے حد ضروری ہے کہ اس میں خوشی و خوشحالی اور سُکون و عافیت ہے۔ اِس کے بَرعکس اگر خرچ کو مُنَظَّم انداز میں نہ چلایا جائے، پیسہ بے دَریغ استعمال کیا جائے،بچت پر توجہ نہ دی جائے اور اَخراجات میں ”کفایت شِعاری (Frugality)“ کو ترک کردیا جائے تو بے سُکونی،بےاطمینانی،شِکوہ وشکایت،گھریلو جھگڑے اور ذہنی الجھن جیسے مسائل کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔

آیاتِ مبارکہ:

1: وَ لَا تَجْعَلْ یَدَكَ مَغْلُوْلَةً اِلٰى عُنُقِكَ وَ لَا تَبْسُطْهَا كُلَّ الْبَسْطِ فَتَقْعُدَ مَلُوْمًا مَّحْسُوْرًا(۲۹) ترجَمۂ کنزُالایمان:اور اپنا ہاتھ اپنی گردن سے بندھا ہوا نہ رکھ اور نہ پورا کھول دے کہ تو بیٹھ رہے ملامت کیا ہوا تھکا ہوا ۔(بنی اسرائیل ،29 )

2: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷)

ترجَمۂ کنزُالایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں ۔ ( الفرقان ، 67)

احادیث مبارکہ:

1: رسولِ کریم صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ کا فرمان ہے: خرچ میں مِیانہ رَوِی آدھی زندگی ہے۔(مشکوۃ المصابیح،ج2، ص227، حدیث:5067)

حکیم الامت مفتی احمد یار خان عَلَیْہِ رَحْمَۃُ الْحَنَّان اس حدیثِ مبارکہ کے تحت فرماتے ہیں: خوش حالی کا دارو مَدار دو چیزوں پر ہے، کمانا، خرچ کرنا ،مگر اِن دونوں میں ”خرچ کرنا“ بہت ہی کمال ہے، کمانا سب جانتے ہیں خرچ کرنا کوئی کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنے کا سلیقہ آگیا وہ اِنْ شَآءَ اللہ ہمیشہ خوش رہے گا۔(مراٰۃ المناجیح)

2: فرمانِ مصطفٰے صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ ہے: جو مِیَانہ رَوِی اِختیار کرتا ہےالله عَزَّوَجَلَّ اُسے غنی فرما دیتا ہے اور جو فضول خرچی کرتا ہےالله عَزَّوَجَلَّ اُسے تنگ دَسْت کر دیتا ہے۔(مسند بزار،ج3، ص160،حدیث:946)

3: الله کے رسول صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ نے فرمایا :کہ خرچ کرو اور گن گن کر نہ دو ورنہ الله بھی تم کو گن گن کر دے گا اور جمع کرکے نہ رکھو ورنہ اللہ بھی تمہارا حصہ جمع کر کے رکھے گا ۔(صحیح مسلم، حدیث نمبر: 1029)

4: رسول اللّٰهُ صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّمَ فرماتے ہیں: کہ جب بندے صبح اٹھتے ہیں تو دو فرشتے نازل ہوتے ہیں ایک فرشتہ دعا کرتا ہے کہ اے اللہ خرچ کرنے والے کو عطا فرما اور دوسرا کہتا ہے اے اللہ خرچ نہ کرنے والے کا مال ضائع کردے۔ (صحیح بخاری،حدیث نمبر: 1222)

5: الله کے رسول صَلَّی اللّٰهُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم فرماتے ہیں: کہ اعتدال بلفظ دیگر کفایت شعاری نبوت کے چوبیس اجزاء میں سے ایک جز ہے (سنن ترمذی، حدیث نمبر: 2010)

6: رسول الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے فرمایا کہ اللہ تعالی ارشاد فرماتا ہے اے ابن آدم خرچ کر میں تجھ پر خرچ کرونگا (صحیح مسلم، حدیث نمبر 993)

اس حدیث کی تشریح کرتے ہوئے مجاہد فرماتے ہیں کہ اگر کوئی شخص جبل ابو قبیس کے برابر سونا الله کی راہ میں خرچ کردے تو اس میں اسراف نہیں ہے لیکن ایک درہم بھی الله کی نافرمانی میں خرچ کرے تو یہ اسراف ہے

7: مسند احمد کی روایت کے مطابق رسول الله صَلَّی اللّٰہُ تَعَالٰی عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا کہ الله تعالی اپنے بندو کو جو کچھ دیتا ہے اس سے ان کی آزمائش کرتا ہے اگر وہ اپنی قسمت پر راضی نہ ہو تو اس کی روزی کو وسیع نہیں کرتا جبکہ سنن بیہقی کے مطابق حضرت علی رسول الله صَلَّی اللّٰہُ عَلَیْہِ واٰلہٖ وَسَلَّم کا قول نقل کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ جو آدمی تھوڑی سی روزی پر راضی ہو جاتا ہے تو الله اس کے تھوڑے عمل پر راضی ہوجاتا ہے

مختلف رائیں:

1:حضرت سَیّدُنا امامِ اعظم ابوحنیفہ رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ نے اپنے شہزادے حضرت حَمَّاد رَحْمَۃُ اللہِ تَعَالٰی عَلَیْہ کو نصیحت فرمائی: اپنے پاس موجود مال میں حُسنِ تدبیر(یعنی کفایت شِعاری)سے کام لینا اور لوگوں سے بے نیاز ہوجانا۔(امام اعظم کی وصیتیں،ص32)

میٹھے میٹھے اسلامی بھائیو! آج ہم مَحْض دِکھاوے کے شوق یا دوسروں سے آگے بڑھنے کی خواہش یا جھوٹی خوشیوں کی خاطر اپنے بجٹ کا زیادہ تر حصہ کبھی فیشن (Fashion) کے نام پر، کبھی مہنگے ریسٹورنٹ(Restaurant) میں کھانا کھا کر،کبھی نئے موبائل، نئی سواری اور نئے فرنیچر کی وجہ سے،کبھی بِلا ضرورت گھر کی تزئین و آرائش کر کے اور کبھی تقریبات میں نِت نئے ملبوسات و جیولری کے نام پر خرچ کر ڈالتے ہیں اور پھر طرح طرح کے مسائل کا شکار ہوتے، دوسروں پر بوجھ بنتے اور لوگوں سے اُدھار مانگتے نظر آتے ہیں۔یاد رکھئے! ضرورت تو فقیر کی بھی پوری ہوجاتی ہے لیکن خواہش بادشاہ کی بھی پوری نہیں ہو پاتی۔

ماہانہ آمدنی کو مَعقول طریقے سے استعمال کیجئے، غور فرمائیے کہ کب،کہاں ،کیوں ،کیسے اور کتنا خرچ کرنا ہے؟ مُعاشرے کے رُجحانات کو مت دیکھئے بلکہ اپنی چادر دیکھ کر پاؤں پھیلائیے اور ہرگز نہ سوچئے کہ ”لوگ کیا کہیں گے؟“طرزِ زندگی میں سادَگی کو اپنامعمول بنائیے،مہینے کے آخر میں اپنی آمدنی اور اَخْراجات کا مُوازَنہ (Comparison) کیجئے اور جو خرچ فُضول نظر آئے آئندہ اُس سے پرہیز کیجئے۔ یوں آپ اپنے اَخْراجات پر قابو پالیں گے اور کِفایت شِعاری کی بَرَکتیں نصیب ہوں گی۔ اِنْ شَآءَاللهُ عَزَّوَجَلَّ


اخرجات میں کفایت شعاری

Thu, 11 Feb , 2021
3 years ago

اسلام ایک مکمل ضابطہ حیات ہے، یہ اپنے ماننے والوں کی ہر ہر لحاظ سے رہنمائی فرماتا ہے، ایک طرف اگر عبادات کو دیکھا جائے تو اسلام نماز و روزے کے مسائل، زکوٰۃ کی ادائیگی، اور مناسکِ حج کی بجاآوری سمیت ہر جہت سے ہماری رہنمائی فرمائی، دوسری طرف اگر معاملات کو دیکھا جائے تو نکاح سے لے کر طلاق تک، بیع و شراء( خرید و فروخت) سے لیکر ہبہ (تحفہ دینے) تک ہر ہر موڑ پر ہماری تربیت کرتا دکھائی دیتا ہے، انہیں معاملات میں سے ایک اہم معاملہ " اخراجات کفایت شعاری(frwgality)" بھی ہے، کفایت شعاری کا مطلب " بچت کرنا" ہے، یہ ایک ایسی خوبی ہے جو اسے اپناتا ہے وہ سدا سکھی رہتا ہے، جبکہ اس سے مُنہ پھیرنے والا بے سکونی کا شکار ہو جاتا ہے، پھر ایسا ہی ہوتا ہے کہ اس کے تنِ بدن میں مشکلات کی سوئیاں چبھنے لگتی ہیں، کئی مرتبہ گھروں کا سکون برباد ہو جاتا ہے اور لڑائی جھگڑا ہوتا رہتا ہے، بلکہ بسا اوقات طلاق تک نوبت پہنچ جاتی ہے۔

گھریلو معاملات میں بچت سے روکنے والی چند وجوہات:

1۔فضول قسم کے شوق پالنا: مثلاً آئے دن نیا موبائل لے لینا۔

2۔ دکھاوا اور نمود و نمائش: اکثر بغیرحاجت کے نئے نئے کپڑے پہننا، برینڈڈ اشیاء کثرت سے استعمال کرنا۔

3۔خرچ کرنے کا سلیقہ نہ ہونا:موقع ایک آدھ کلو پھل خریدنے کا ہو اور پوری پیٹی خریدلینا۔

4۔ لوگ کیا کہیں گے کا خوف :مثلاً شادی بیاہ کے موقع پر چند ڈشوں سے کام چل سکتا ہو اور پچاس پچاس ڈشیں پکا لینا۔

5۔عادتاً فضول خرچی کرنا: مثلاً کچھ عرصے کے بعد فرنیچر، کارپیٹ وغیرہ کو بدلتے رہنا۔

اخراجات میں بچت کے چند طریقے:

کفایت شعاری کو اپنانے کے لئے میانہ روی اختیار کرنا سب سے ضروری امر ہے، قرآن پاک میں اللہ پاک نے ایمان والوں کے خرچ کرنے میں میانہ روی کا حال کچھ یوں بیان فرمایا : وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا(۶۷) تَرجَمۂ کنز الایمان:اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(سورۃ الفرقان، آیت:67)

اسی طرح نبی پاک صلی اللہ علیہ وسلم نے ارشاد فرمایا: الاقتصاد فی النفقۃ نصف المعیشۃ۔ خرچ میں میانہ روی آدھی زندگی ہے۔" مفتی احمد یار خان نعیمی رحمۃ اللہ علیہ اس حدیث کی شرح میں پاک کے تحت فرماتے ہیں:" خوشحالی کا دارومدار دو چیزوں پر ہے، کمانا اور خرچ کرنا مگر ان دونوں میں خرچ کرنا بہت کمال ہے، کمانا سب جانتے ہیں خرچ کرنا کوئی جانتا ہے، جسے خرچ کرنے کا سلیقہ آ گیا وہ ان شاءاللہ ہمیشہ خوش رہے گا،(مراۃ المناجیح، ج 6، ص634)

اپنے اخراجات کو آمدن کے مطابق کرنے کی کوشش کریں نہ کہ آمدن کو اخراجات کے مطابق، سادگی اپنائیے، لوگ کیا کہیں گے اس طرف توجہ نہ دیجئے، اس طرح فضول قسم کے شوق پالنے سے بھی بچئے، ان شاءاللہ اخراجات میں کفایت شعاری حاصل ہوگی۔