بد شگونی ہے کیا؟

شگون کامعنی ہے” فال لینا “ یعنی کسی چیز ، شخص، عمل، آواز یا وقت کو اپنے حق میں اچھا یا بُرا سمجھنا، اس کی بنیادی طور پر دو قسمیں ہیں:

1۔برا شگون لینا۔

2۔اچھا شگون لینا۔

علامہ محمد بن احمد انصاری قرطبی رحمۃُ اللہِ علیہ تفسیرِ قرطبی میں نقل کرتے ہیں:کہ اچھا شگون یہ ہے کہ جس کام کا ارادہ کیا ہو، اس کے بارے میں کوئی کلام سن کر دلیل پکڑنا، یہ اس وقت ہے جب کلام اچھا ہو، اگر برا ہو تو بد شگونی ہے۔

شریعت میں اس بات کا حکم ہے کہ انسان اچھا شگون لے کر خوش ہو اور اپنا کام خوشی خوشی پائے تکمیل تک پہنچائے اور جب بُرا کلام سُنے تو اس طرف توجّہ نہ کرے اور نہ ہی اس کے سبب اپنے کام سے رُکے۔ (الجامع للحکام القرآن للقرطبی پ 26، الاحقاف تحت الآیۃ:4 ج 8، جزء 16، ص132)

عورتوں میں پائی جانے والی 5 بد شگونیاں:

1۔حاملہ عورت کو میّت کے قریب نہیں آنے دیتے کہ بچے پر بُرا اثر پڑے گا۔

2۔جوانی میں بیوہ ہو جانے والی عورت کو منحوس جانتے ہیں، نیز یہ سمجھتے ہیں کہ حاملہ عورت سورج گرہن کے وقت چُھری سے کوئی چیز کاٹے گی تو اس کا ہاتھ یا پاؤں کٹایا چِرا ہوا ہو گا۔

3۔مغرب کے وقت راستے میں نہیں بیٹھنا چاہئے کیونکہ بلائیں گزر رہی ہوتی ہیں۔

4۔مہمان کی رخصتی کے بعد گھر میں جھاڑو دینے کو منحوس خیال کرتے ہیں۔

5۔نئی نویلی دلہن کے گھر آنے پر کوئی شخص فوت ہو جائے یا کسی عورت کے یہاں اگر بیٹیاں ہی پیدا ہوں تو اس پر منحوس ہونے کا لیبل لگ جاتا ہے۔( بد شگونی کے ص 15، 16،17 ماخوذا)

اہم نکات:

٭بدشگونی انسان کے لئے دینی اور دنیوی دونوں اعتبار سے بے حد خطرناک ہے، بدشگونی سے ایمان بھی ضائع ہو سکتا ہے۔

٭دورَ حاضر میں بھی غلط سلط اعتقادات، توھمات اور ناجائز رسومات زور پکڑتی چلی جارہی ہیں، جن کا تعلق بدشگونی سے بھی ہوتا ہے، مثلاً ماہِ صفر کو منحوس جاننا، چھینک کو منحوس جاننا، ستاروں کے اثرات کا یقین کر لینا، مسلسل بیٹیوں کی پیدائش کو منحوس سمجھنا، گھر میں پپیتا کے درخت لگانے کو منحوس سمجھنا، شوال یا مخصوص تاریخوں میں شادی کو منحوس سمجھنا، عورت گھر اور گھوڑے کو منحوس سمجھنا وغیرہ۔

٭اسلامی عقائد کی معلومات حاصل کرکے اللہ پاک پر سچا توکل کرکے، بدشگونی کے تقاضے پر عمل نہ کرکے اور مختلف وظائف کے ذریعے بدشگونی کا علاج کیا جا سکتا ہے۔اللہ پاک ہمیں بدشگونی جیسی آفت سے محفوظ فرمائے۔آمین