اللہ پاک قرآن مجید میں ارشاد فرماتا ہے: وَ الَّذِیْنَ اِذَاۤ اَنْفَقُوْا لَمْ یُسْرِفُوْا وَ لَمْ یَقْتُرُوْا وَ كَانَ بَیْنَ ذٰلِكَ قَوَامًا ترجمہ کنز الایمان: اور وہ کہ جب خرچ کرتے ہیں نہ حد سے بڑھیں اور نہ تنگی کریں اور ان دونوں کے بیچ اعتدال پر رہیں۔(پ۱۹، الفرقان: ۶۷)

میانہ روی کے بارے میں ہمارے پیارے آقا مدینے والے مصطفےٰ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے خوب ترغیب دلائی ہے۔چنانچہ حضرت سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما روایت فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صَلَّی اللہ علیہ وَالہٖ وَسلَّم نے ارشاد فرمایا:میانہ روی سے خرچ کرنا نصف معیشت ہے اورلوگوں سے محبت کرنا نصف عقل ہے اوراچھا سوال کرنا آدھا علم ہے ۔(حسن اخلاق ،ص:۵۳ )

اللہ پاک کے آخری نبی مکی مدنی صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم نے ارشاد فرمایا : جو میانہ روی اختیار کرتا ہے اللہ پاک اسے غنی فرما دیتا ہے، جو فضول خرچی کرتا ہے اللہ پاک اسے تنگدست کر دیتا ہے اور جو کثرت سے اللہ پاک کا ذکرکرتا ہے اللہ اس سے محبت کرنے لگتا ہے۔(جہنم میں لیجانے والے اعمال (جلد اوّل) ۲۵۹ )

حضرت سیِّدُنا جابربن عبد اللہ رَضِیَ اللہُ عَنْہُما سے مروی ہے کہ ایک مرتبہ سرکارِ مدینہ راحت قلب وسینہ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَاٰلِہٖ وَسَلَّم ایک شخص کے پاس سے گزرے جو مکہ مکرمہ میں ایک چٹان پرنماز پڑھ رہاتھا ۔ واپسی پر بھی اسے اسی حالت میں پایا تو ارشادفرمایا: اے لوگو! تم پرمیانہ روی لازم ہے، اےلوگو! تم پر میانہ رَوِی لازم ہے، ا ے لوگو!تم پرمیانہ روی لازم ہے۔ بے شک !اللہ پاک (اجرعطافرمانے سے) نہیں اکتاتابلکہ تم (عبادت سے ) اُ کتا جاتے ہو۔ (ریاض الصالحین جلد ۲ صفحہ ۴۲۱ )

نور کے پیکر، تمام نبیوں کے سَرْوَرصلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : اعتدال پسندی، میانہ روی اور اچھی نیت نبوت کے 24 اجزاء میں سے ایک جُز ہے۔

(جامع الترمذی، ابواب البر والصلۃ، باب ماجاء فی التأنی، الحدیث:۲۰۱۰،ص۱۸۵۳)

دو جہاں کے تاجْوَر، سلطانِ بَحرو بَرصلَّی اللہ علیہ وآلہ وسلَّم کا فرمانِ عالیشان ہے : عملِ آخرت کے علاوہ ہر چیز میں اعتدال پسندی اچھی چیز ہے۔(المستدرک ،کتاب الایمان، باب التؤدۃ فی کل شیء، الحدیث: ۲۲۱،ج۱،ص۲۳۹)

آدمی کو چاہیے کہ عبادت میں میانہ روی اختیار کرے اور اتنا ہی عمل کرے جس کو آسانی کے ساتھ ہمیشہ کرسکے کیونکہ تھوڑا عمل جو ہمیشہ کیا جائے وہ ا س عمل سے بہتر ہے جو انسان ہمیشہ نہ کرسکے کیونکہ زیادہ کے لالچ میں تھوڑے کو بھی چھوڑنے پر مجبور ہوجائے گا۔اسی کو امام غزالی رَحْمَۃُ اللّٰہِ عَلَیْہِ نے مثال دے کر یوں سمجھایا ہے کہ جب پتھر پر پانی قطرہ قطرہ ٹپکتا ہے تو سوراخ کردیتا ہےبر خلاف یکدم اگر پانی گرجائے تو اثر تک بھی نہیں ہوتا۔

اے عاشقان رسول !میانہ روی اِستقامت کی کنجی ہے۔ کثرت سےنعمتوں کا اِستعمال بھی غفلت کاسبب ہے اِس لیے اعتدال سے کام لیناچاہیے۔ بخاری شریف کی ایک روایت میں ہے: سیدھی راہ چلو، میانہ روی اختیار کرو صبح وشام اور رات کے کچھ حصے میں (عبادت کے ذریعے) مدد طلب کرو ، میانہ روی اختیار کرو تم اپنے مقصد کو پا لو گے ۔

اللہ پاک ہمیں ہر معاملہ میں اعتدال اور میانہ روی اختیار کرنے کی توفیق عطا فرماۓ ۔

آمین بجاہ النبی الامین صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم