كتاب انسان کا سب سے بہترین دوست ہے جو تعليم و تربيت كا ايك بہترين طريقہ ہے ۔ اچھى كتاب قارى كى روح پر بہت گہرا اثر ڈالتى ہے اس كى روح اور نفس كو كمال عطا كرتى ہے اور اس كى انسانى حيثيت كو بلند كرديتى ہے اس كے علم ميں اضافہ كرتى ہے اس كى معلومات بڑھاتى ہے ۔ اخلاقى اور اجتماعى خرابياں دور كرتى ہے ، خصوصاً دورِ حاضر كى مشىنی زندگى ميں كہ جب انسان كے پاس فرصت كم ہوگئی ہے اور علمى و دینی محافل ميں شركت مشكل ہوگئی ہے كتاب كا مطالعہ تعليم و تريت كے ليے اور بھى اہميت اختيار كرگيا ہے ممكن ہے كتاب كے مطالعے سے انسانى روح پر جو اثرات مترتب ہوں وہ ديگر حوالوں سے مترتب ہونے والے اثرات سے عمیق تر اور زيادہ گہرے ہوں كبھى انسان كا مطالعہ اس كى شخصيت كو تبديل كركے ركھ ديتا ہے علاوہ ازيں مطالعہ كتاب بہترين مشغوليت بھى ہے اور صحيح تفريح بھى ، جو لوگ اپنى فراغت كے اوقات كتاب كے مطالعہ ميں گزارتے ہيں وہ علمى اور اخلاقى استفادہ كے علاوہ اعصابى كمزورى اور روحانى پريشانى سے بھى محفوظ رہتے ہيں اور ان كى زندگى زيادہ آرام دہ ہوتى ہے ۔كتاب ہر نظارے سے زيادہ خوبصورت اور ہر باغ اور ہر چمن سے زيادہ فرحت بخش ہے ليكن جو اہل ہو اس كے ليے كتاب دلوں كى پاكيزگى اور نورانيت عطا كرتى ہے اور غم بھلاديتى ہے اگر چہ وقتى طور پر ہى سہی۔

حضرت على کرم اللہ وجھہ الکریم فرماتے ہيں:

جو شخص اپنے آپ كو كتابوں كے ساتھ مصروف ركھتا ہے اس كا آرام خاطر ضائع نہيں ہوتا (1) اميرالمؤمنين رضی اللہ عنہ ہى فرماتے ہيں:

تازہ بہ تازہ علمى مطالب حاصل كركے اپنے دلوں كى كسالت اور خستگى كو دور كروكيوں كہ دل بھى بدن كى طرح تھك جاتے ہيں ۔

ہر ملت كى ترقى اور تمدّن كا معيار ان كى كتابوں كى كيفيت ، تعدادِ اشاعت اور مطالعہ كرنے والوں كى تعداد كو قرار ديا جا سكتا ہے پڑھا لكھا ہونا ترقى كى علامت نہيں بلكہ مطالعہ اور تحقیق ملتوں كى ترقى كى علامت ہے ۔ہمارے پاس پڑھے لكھے بہت ہيں ليكن يہ بات باعث افسوس ہے كہ محقق اور كتاب دوست زيادہ نہيں زيادہ تر لڑكے لڑكياں جب فارغ التحصیل ہوجاتے ہيں تو كتاب كو ايك طرف ركھ ديتے ہيں وہ كاروبار اور زندگى كے ديگر امور ميں مشغول ہوجاتے ہيں لہذا ن كى معلومات كا سلسلہ وہيں پر رك جاتا ہے ، گويا حصول ِتعليم كا مقد بس حصول معاشرت ہى تھا جب كہ حصول تعليم كو انسان كے كمال اور علمى پيش رفت كے ليے مقدم ہونا چاہيے ۔ انسان ابتدائی تعليم كے حصول سے مطالعہ اورتحقیق كى صلاحيّت پيدا كرتا ہے ۔ اس كے بعد اس كو چاہيے كہ وہ مطالعہ كرے تحقیق كرے اور كتاب پڑھے تا كہ اپنے آپ كى تكميل كرسكے اور پھر ايك مرحلے پر انسانى علوم كى ترقى ميں مددكرسكے اور يہ كام توانائی اور وسائل كے مطابق آخر عمر تك جارى ركھے ۔ دينِ مقدس اسلام نے بھى اپنے پيروكاروں كو حكم ديا ہے كہ بچپن سے لے كر موت كى دہليز تك حصول علم كو ترك نہ كريں

رسولِ اسلام صلى اللہ عليہ و آلہ و سلم نے فرمايا: حصول علم ہر مسلمان كا فريضہ ہے اور اللہ طالب علموں كو پسند كرتا ہے