یوں تو ہر بندہ مسکراتے ہوئے اچھا لگتا ہے، مگر جہاں ذکر آجائے اپنے متبسم(مسکرانے والے) آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا تو مسکرانے کو بھی وجد آ جاتا ہے، ہاں یہ تو عشق والوں کی باتیں ہیں کہ جب وہ اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے تصور میں ڈوبتے ہیں تو وہاں انہیں جانِ کائنات صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا مسکرانا ضرور یاد آتا ہے، اللہ اکبر! اس کی منظر کشی تو ممکن ہی نہیں، مگر ذرا سوچیں کہ اللہ پاک نے جب اپنے محبوب صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو نہایت حسین و جمیل بنایا تو آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی مسکراہٹ کو کتنا خوبصورت بنایا ہوگا! یہ تو کوئی حضرت صدیقِ اکبر رضی اللہ عنہ سے پوچھے کہ جب جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکراتے تھے، تو کیسے لگتے تھے؟

حضور خاتم النبیین صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی عادتِ کریمہ تھی کہ آپ مسکرایا کرتے ہیں، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے تمام واقعات کا احاطہ(گھیرنا) تو ناممکن ہے، ہاں ! قلوبِ عشاق(عاشقوں کے دلوں) کی راحت کے لئے چند واقعات ذکر کئے جاتے ہیں:

1۔حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب مکے سے مدینے ہجرت فرمائی تو مدینے میں آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کا محبت بھرا استقبال کیا گیا، اس استقبال میں بنو نجار کی بچیاں بھی تھیں، کہتی تھیں: واہ !کیا ہی خوب ہوا کہ حضرت محمد صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہمارے پڑوسی ہوگئے، حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ان سے پوچھا: اے بچیو! کیا تم مجھ سے محبت کرتی ہو؟ تو بچیوں نے ایک زبان ہو کر کہا:جی ہاں! جی ہاں! یہ سن کر حضور جانِ جاناں صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے خوش ہو کر مسکراتے ہوئے فرمایا:میں بھی تم سے پیار کرتا ہوں۔(سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، صفحہ 177)

ماشاء اللہ!قربان جاواں اپنے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے اس مسکرانے پر! کاش! ہم بھی وہاں ہوتیں اور دیکھ لیتیں یا کاش! میری روح نے ہی یہ منظر دیکھا ہوتا۔

2۔جنگِ اُحد کے دوران حضرت بی بی عمارہ رضی اللہ عنہا نے کافر کی ٹانگ پر تلوار کا بھرپور ہاتھ مارا، جس سے وہ گر پڑا اور پھر چل نہ سکا، بلکہ سُرین کے بَل گھسٹتا ہوا بھاگا، یہ منظر دیکھ کر حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے اور فرمایا: اے اُمّ عمارہ!تو خدا کا شکر ادا کرکہ اس نے تجھ کو اتنی طاقت اور ہمت عطا فرمائی کہ تو نے خدا کی راہ میں جہاد کیا۔(سیرت مصطفی صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم، صفحہ 280)

3۔ حضرت امیہ بن مخشی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے ،فرماتے ہیں:ایک شخص کھاتا تھا، تو اُس نے بسم اللہ نہ پڑھی، یہاں تک کہ نہ باقی رہا اس کے کھانے سے، مگر ایک لقمہ، پھر جب اسے اپنے منہ کی طرف اٹھایا تو اس کے شروع وآخر بسم اللہ کہا،حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے،پھر فرمایا:شیطان اس کے ساتھ کھاتا رہا،پھر جب اس نے اللہ پاک کا نام لیا تو جو کچھ اس کے پیٹ میں تھا،سب قے کردیا۔ (مراۃالمناجیح، جلد 6، صفحہ 34)

صحابہ کرام علیہم الرضوان کتنے چُنے ہوئے لوگ تھے، جنہوں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی پیاری پیاری اداؤں کو دیکھا، اس وقت پر فدا! جس میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے، اس جگہ پر قربان! جہاں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرائے۔