رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے پانچ واقعات

مسکرانا یہ ایک بہت اچھی عادت ہے اور دوسروں کو اپنی طرف جلد راغب کرنے اور اپنی طرف مائل کرنے کا بہت اہم ذریعہ ہے چونکہ ہمارے پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو اللہ پاک نے تمام روئے زمین کے مسلمانوں کی راہ نمائی اور ہدایت کے لیے مبعوث فرمایا تھا اسی لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی ذاتِ کریمہ میں دیگر اچھی عادتوں کے ساتھ ساتھ ایک عادت مسکرانے کی بھی موجود تھی۔ حضرت عبد الحارث بن جزء فرماتے ہیں: میں نے حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم سے بڑھ کر تبسم فرمانے والا کوئی نہیں دیکھا۔

(شمائل ترمذی باب ماجاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ‏صفحہ 16 مکتبہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز )

آئیے! ذیل میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے مسکرانے کے واقعات میں سے چند واقعات ملاحظہ کیجئے:

1)حضرت انس رضی اللہ عنہ کا بیان ہے:میں حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے ہمراہ چل رہا تھا اور آپ ایک نجرانی چادر اوڑھے ہوئے تھے جس کے کنارے موٹے اور کھر درے تھے۔ایک دم ایک بدوی نے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو پکڑ لیا اور اتنے زبردست جھٹکے سے چادر مبارک کو کھینچا کہ حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کی نرم و نازک گردن پر چادر کی کنار سے خراش آگئی ۔پھر اس بدوی نے کہا :اللہ پاک کا جو مال آپ کے پاس ہیں آپ حکم دیجئے کہ اس میں سے مجھے کچھ مل جائے۔ حضور رحمتِ عالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے جب اس بدوی کی طرف توجہ فرمائی تو کمالِ حلم و عفو سے اس کی طرف دیکھ کر ہنس پڑے اور پھر اس کو کچھ مال عطا فرمانے کا حکم صادر فرمایا۔

(سیرت مصطفی ص 603 بخاری جلد 01 ، ص 446 باب ما کان یعطی النبی المولفتہ)

دوسری داڈھ سے کھا رہا ہوں

2)ایک مرتبہ حضرت صہیب رضی اللہ عنہ کی آنکھ دکھ رہی تھی اور وہ کھجور کھا رہے تھے۔ پیارے آقا صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے ارشاد فرمایا :تمہاری آنکھ دکھ رہی ہے اور تم کھجور کھا رہے ہو ؟ عرض کی: میں دوسری طرف سے کھا رہا ہوں! یہ سن کر جان ِعالم صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرادیئے۔(ماہنامہ فیضان مدینہ جلد 3 جون 2019 ص 44 / ابن ماجہ 91/4 ، حدیث 3443 )

3)حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے فرمایا:میں سب سے پہلے جنت میں داخل ہونے والے آدمی کو بھی جانتا ہوں اور اسے بھی جو جہنم سے سب سے آخر میں نکلے گا! قیامت کے دن ایک آدمی (اللہ پاک کے دربار میں) لایا جائے گا، حکم ہوگا: اس کے سامنے اس کے صغیرہ گناہ پیش کرو اور کبیرہ گناہ چھپائے جائیں۔ پھر اس سے کہا جائے گا:کیا تو نے فلاں دن ایسا ایسا عمل کیا تھا ؟ وہ بغیر کسی انکار کے اقرار کرے گا اور کبیرہ گناہوں (پر مواخذے) سے ڈر رہا ہوگا۔ پھر حکم ہوگا: اسے ہر بُرائی کے بدلے ایک نیکی دو ! وہ کہے گا: میرے کچھ اور گناہ بھی ہیں جنہیں میں یہاں نہیں دیکھ رہا۔ حضرت ابوذر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے دیکھا کہ آنحضرت صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم اس بات سے ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک ظاہر ہوگئے ۔

(شمائل ترمذی باب : ما جاء فی ضحک رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفحہ 16 مکتبہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز(

4)اُمُّ المومنین حضرت سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہ فرماتی ہیں:میں ایک دفعہ مدینے کے تاجدار، دو عالم کے مالک و مختار صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے لیے خزیرہ پکا کر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کے پاس لائی (وہاں حضرت سودہ رضی اللہ عنہا بھی موجود تھیں) میں نے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا سے کہا: اسے کھاؤ!انہوں نے انکار کیا تو میں نے دوبارہ کہا: اسے کھاؤ ورنہ میں اسے تمہارے چہرے پر مل دوں گی !انہوں نے پھر انکار کیا تو میں نے اپنا ہاتھ خزیرہ میں ڈالا اور اسے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے چہرے پر مل دیا۔حضور اقدس صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم نے اپنے دستِ اقدس سے حضرت سودہ رضی اللہ عنہا کے لیے خزیرہ ڈال کر ان سے فرمایا: تم بھی اسے عائشہ(رضی اللہ عنہا) کے منہ پر مل دو اور پھر آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم مسکرانے لگے۔(فیضان امہات المومنین ص 62 مسند ابی یعلی الموصلی تتمتہ مسند عائشہ4/4 الحدیث 4476 ملتقطا(

5)حضرت عامر بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت ہے:حضرت سعد رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں:میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم کو خندق کی جنگ کے دن دیکھا کہ آپ اتنے (ہنسے) کہ آپ کے سامنے کے دانت مبارک ظاہر ہو گئے۔ حضرت عامر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں: میں نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے پوچھا:اس ہنسی کی کیا وجہ تھی؟انہوں نے فرمایا:ایک آدمی(کافر) کے پاس ڈھال تھی اور وہ ڈھال کو ادھر ادھر کر کے اپنا چہرہ چھپاتا تھا (چونکہ) حضرت سعد رضی اللہ عنہ تیر انداز تھے (اس لئے) آپ نےایک تیر نکالا اور جو نہی اس نے سر اٹھایا اسے دے مارا (تیر) اس کی پیشانی پر لگا ، وہ الٹا گیا اور اس کی ٹانگ اٹھ گئی (اس واقعہ پر) حضور صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنس پڑے یہاں تک کہ آپ کے سامنے والے دانت مبارک نظر آنے لگے، میں نے (عامر بن سعد) نے پوچھا: کس بات سے آپ صلی اللہ علیہ واٰلہٖ وسلم ہنسے؟ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اس آدمی کے فعل سے۔)شمائل ترمذی باب ما جاء فی ضحک الرسول اللہ علیہ وسلم صفحہ 16 مکتبہ ضیاء القرآن پبلیکیشنز (