نماز جمعہ
کی فضیلت و اہمیت پر 5 فرامین مصطفے از بنت امجد سلطانیہ، جہلم
جمعہ کی نماز فرضِ عین ہے۔ اس کا انکار کرنے والا کافِر ہے۔ الله پاک
فرماتا ہے، ترجمہ كنزالایمان: اے ایمان والو! جب نماز کی اذان ہو جمعہ کے دن تو
الله کے ذکر کی طرف دوڑو اور خرید و فروخت چھوڑ دو، یہ تمہارے لیے بہتر ہے اگر تم
جانو۔ (سورہ جمعہ، آیت 9) حضرت سید محمد نعیم الدین مراد آبادی رحمۃ اللہ علیہ کے فرمان
کےمطابق:حضور صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم جب ہجرت کر کے مدینہ منورہ تشریف لائے تو قبا کے مقام
پر12ربیع الاول622ءبروز پیر شریف چاشت کے وقت اقامت فرمائی۔ چند دن یہاں قیام فرمایا
اور مسجد کی بنیاد رکھی۔ جمعہ کے دن مدینہ منورہ کی طرف روانہ ہوئے، راستے میں بنی
سالم ابنِ عوف کے بطنِ وادی میں جمعہ کا وقت ہوا۔ لوگوں نے اس جگہ کو مسجد بنایا۔
آپ صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے وہاں جمعہ ادا فرمایا اور خطبہ فرمایا۔ (ملخص،فیضان جمعہ ص2,3- خزائن العرفان ص 884) نماز جمعہ کی اہمیت و فضیلت کے بارے میں فرامینِ آخری
نبی صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم ملاحظہ ہوں: نبی پاک صلی اللہُ علیہ
و اٰلہ وسلم کا فرمانِ عالی شان ہے: جمعہ کے دن فرشتے مسجد کے دروازے
پر آنے والوں کو لکھتے ہیں۔جو پہلے آتا ہے اسے پہلے لکھتے ہیں،جلد آنے والا اس کی
مثل ہے جو الله پاک کی راہ میں ایک اونٹ صدقہ کرے، اس کے بعد آنے والا شخص اس کی
مثل ہے جو ایک گائے صدقہ کرے، اس کے بعد والا اس کی طرح جو مینڈھا صدقہ کرے، پھر
اس کی طرح جو مرغی صدقہ کرے،پھر اس کی طرح جو انڈا صدقہ کرے اور جب امام خطبے کے لیے
بیٹھ جاتا ہے تو وہ اعمال ناموں کو لپیٹ لیتے ہیں اور آکر خطبہ سنتے ہیں۔ (فیضان جمعہ ص,6- صحیح بخاری ج1,ص319, حدیث 929) حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بعض علما نے فرمایا کہ ملائکہ جمعہ کی طلوعِ فجر سے کھڑے ہوتے ہیں،بعض کے نزدیک
آفتاب چمکنے سے،مگر حق یہ ہے کہ سورج ڈھلنے یعنی ابتدائے وقتِ ظہر سے شروع ہوتے ہیں
کیوں کہ اسی وقت سے وقتِ جمعہ شروع ہوتا ہے، معلوم ہوا کہ وہ فرشتے سب آنے والوں
کے نام جانتے ہیں، خیال رہے کہ اولاً سو آدمی ایک ساتھ مسجد میں آئیں تو وہ سب اول
ہیں۔ (فیضانِ جمعہ ص5,6- مرات ج 2,ص335) *رسول الله صلی اللہُ علیہ و اٰلہ وسلم نے فرمایا: جو غسل کرے پھر جمعہ کو آئے،پھر جو مقدر میں
ہے وہ نماز پڑھے پھر خاموش بیٹھے حتی کہ امام خطبہ سے فارغ ہو جائے پھر اس کے ساتھ
نماز پڑھے تو اس جمعہ اور دوسرے جمعہ کے درمیان اور تین دن زیادہ اس کے گناہ بخش
دئیے جائیں گے۔ حضرت مفتی احمد یار خان رحمۃ اللہ علیہ فرماتے ہیں:
بعض علما فرماتے ہیں کہ غسلِ جُمعہ نماز کے لیے مسنون ہے نہ کہ دن جمعہ کے لیے
لہٰذا جس پر جمعہ کی نماز نہیں ان کے لیے غسل سنّت نہیں۔ان کی دلیل یہ حدیث ہے۔بعض
فرماتے ہیں کہ جمعہ کا غسل نمازِ جمعہ سے قریب کرو حتی کہ اس کے وضو سے جمعہ پڑھو۔
(مرات ج 2،ص328،حدیث 1382) فتاویٰ عالمگیری میں ہے: اگر جمعہ کو فجر کے بعد غسل کیا پھر حدث
ہوا اور جمعہ وضو کر کے پڑھا یا جمعہ کے بعد غسل کیا تو سنت پر عمل پیرا نہ ہوا۔ )الفتاوی
الہندیة،کتاب الطہارة،الفصل الاول فیما یجوز بہ التوضؤ، جلد1،صفحہ16،دار الفکر،بیروت(